بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

خدا کی فرمانبرداری

 

       اس کالم میں ہم فرمانبرداری کے موضو ع پر غور کریں گے ۔  شروع کرنے کیلئے ہم رومیوں 6باب15تا8آیت پڑھیں گے ۔  یہاں ہم پڑھتے ہیں :

 

رومیوں6باب15تا18آیت:
”پس کیا ہوا؟ کیاہم اس لئے گناہ کریں کہ شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہیں؟ہر گز نہیں۔
   کیا تم نہیں جانتے کہ جس کی فرمانبرداری کیلئے اپنے آپ کو غلاموں کی طرح حوالہ کر دیتے ہو اسی کے غلام ہو خواہ گناہ کے جس کا انجام موت ہے خواہ فرمانبرداری  جس کا انجام راستبازی ہے۔   لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگر چہ تم گناہ کے غلام تھے تو بھی دل سے اس تعلیم کے فرمانبردار ہوگئے جس کے سانچے میں تم ڈھالے گئے تھے۔  اور گناہ سے آزاد ہو کر راستبازی کے غلام ہو گئے۔ 

 

       اس حوالہ کے مطابق ، جو کوئی جسکی فرمانبر داری کرتا ہے اسی کا غلام ہے ، جن کے دوامکانات ہیں : یا تو گناہ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ، وہ گناہ کا غلام ہے ، یا دل سے خدا اور اس کے عقیدے کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ، وہ راستبازی کا غلام ہو گا ۔  دوسرے الفاظ میں ، ایسا ناممکن ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کے احکامات کی فرمانبرداری نہ کرے تو وہ سچے دل سے خدا کی خدمت کرے ۔  اس سے کوئی فرق نہیں پرتا کہ ہم مذہبی سر گرمیوں میں کتنا حصہ لیتے ہیں ۔  جس چیز میں فرق پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس کے کتنے فرمانبردار ہیں ، کیو نکہ ہماری فرمانبرداری اور جس کا حکم ہم مانتے ہیں وہی اس بات ک تعن کرتے ہیں کہ ہم حقیقت میں کس کی خدمت کرتے ہیں ۔  جیسے یعقوب 4باب7اور8آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

یعقوب4باب7اور8آیت:
”پس
خدا کے تابع ہو جاﺅ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔  خدا کے نزدیک جاﺅ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔  اے گناہگارو! اپنے ہاتھوں کو صاف کرو اور اے دو دلو! اپنے دلوں کو پاک کرو۔ 

 

       ہمیں خدا کے قریب ہونے کی ضرورت ہے ، تاکہ وہ بھی ہمارے قریب ہو ۔  ہم فاصلے کے ساتھ اسے جانے بنا اسکی خدمت نہیں کر سکتے ۔  ہم صرف اسی کی خدمت کرسکتے ہیں جسکے ہم فرمانبردار ہیں اور جس کو ہم اپنی زندگی سونپ دیتے ہیں ۔  جیسے کہ فلپیوں 2باب5تا11آیت کہتی ہے :

  

فلپیوں2باب5تا11آیت:
”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔
  اس نے اگر چہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔  اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک
فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔  اسی واسطے خدا نے بھی اسے سر بلند کیا اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔   تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔   خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینوں کا ۔   خواہ ان کا جوزمین کے نیچے ہیں۔   اور خدا باپ کے جلال کیلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔ 

 

       جیسا مزاج خداوند یسوع مسیح کا تھا ویسا ہی ہمارا بھی ہونا چاہئے ۔  یہ مزاج کیسا تھا ؟یہ مزاج خدا کی فرمانبرداری کرنے کا تھا ، وہ مزاج جس نے خدا کی فرمانبردری کرتے ہوئے ، صلیبی موت سے بھی انکار نہیں کیا ۔  یہ گتسمنی کے باغ کا مزاج تھا ۔   

 

متی26باب36تا39اور42آیت:
”اس وقت یسوع ان کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ میں وہاں جاکر دعا کروں۔
   اور پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر غمگین اور بیقرار ہونے لگا اس وقت اس نے ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے۔   یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی۔   تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔   پھر ذرا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔   تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔  ۔  ۔  پھر دوبارہ اس نے جاکر یو دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر یہ میرے پئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو۔ 

 

       یسوع مسیح کا مزاج ، ”نہ کہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے “کا ، خدا کی فرمانبرداری کا مزاج تھا ۔  خدا کا کلام ہمیں یہی مزاج رکھنے کی تلقین کرتا ہے جیسا ہم چاہتے ہیں وہ نہیں بلکہ جیسا ضخدا چاہتا ہے ، جب کام ہمارے انداز میں ہوتا ہے تو فرمانبرداری کرنا آسان ہوتا ہے۔  جب خدا ہمیں وہ سب دیتا ہے جو ہم خواہش کرتے ہیں تو ہم یہ بہت خوشی سے موصو ل کرتے ہیں۔ 

 

       تا ہم ،  ایسا نہیں ہوتا تو ہم کیا کرتے ہیں ؟ جب خدا کے منصوبہ جات ہمارے منصوبے کے خلاف نظر آتے ہیں تو ہم کیسے رد عمل کا ظہار کرتے ہیں ؟یہاں فرمانبرداری اور نافرمانی کا فرق آتا ہے ۔  خوشی میں ، وہ ایک جیسا ردعمل ظاہر کریں گے ۔  یہ وہ خوشی نہیں جس کی بدولت ۔   اچھا بیج بونے والے کی تمثیل میں دوسری قسم کے لوگ گناہ کا شکار ہوتے ہیں ،  بلکہ ، جیسا یسوع نے کہا ، ”وہ خوشی سے کلام کو قبول کر لیتے ہیں ۔  “(لوقا 8باب13آیت )۔  تاہم ، یہ اختتام پذیر نہیں ہوتا ۔  پہلی مصیبت میں ہی ، وہ گر جاتے ہیں (متی 13باب21، لوقا8 باب13 آیت)۔   جب وہ شخص جو کچھ چاہتا ہے وہ خدا کی مرضی نہیں ہوتی تو نافرمانی چلے گی ، جبکہ فرمانبردار رک جائے گا ، اور کہے گا : ”اگر یہ ممکن ہے ۔  ۔  ۔  ۔  ۔   پھر بھی ، نہ جیسا کہ میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ۔ 

 

 1خدا کی فرمانبرداری قربانی سے بہتر ہے :

        1سموئیل کی کتاب میں یہاں ایک بہت مشہور کہانی ہے : ساﺅل کی سلطنت کے طلوع اور زوال کی کہانی ۔  ساﺅل خدا کی طرف سے اسرائیل کا پہلا بادشاہ مقرر کیا گیا ۔  شروعات میں ، وہ بہت حلیم تھا ۔  درحقیقت ، جس روز اسکے بادشاہ ہونے کا اعلان کیاگیا وہ لوگوں سے خود کو چھپا رہا تھا (1سموئیل 10باب 22 آیت )۔   تاہم ، اسکی ، حلیمی زیادہ دیر تک نہ رہی ۔  جلد ہی یہ حلیمی تکبر اور لوگوں کے ماتحت ہونے والے کاموں میں بدل گئی بجائے کہ وہ خداوند کے ماتحت ہوتا ۔  1 سموئیل13باب میں ہم اسکی پہلی بغاوت دےکھتے ہیں : ساﺅل اور لوگ سموئیل کا انتظار کر رہے تھے کہ قربانی کرے ، جب کہ دوسری جانب فلسطینی جنگ کیلئے تیار تھے ۔  تاہم ، سموئیل کو دیر تھی ۔  یہ دیکھتے ہوئے ، ساﺅل نے وہ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہئے تھا : اس نے قربانی کیلئے خود کو پیش کردیا ۔  فرمانبردار شخص خدا کا منتظر رہتا ہے اور اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے ، چاہے کوئی بھی قیمت ہو ۔  دوسری جانب ، ایک نافرمان شخص تبتک فرمانبردار رہتا ہے جب تک سب حالات بہتر ہوں ۔  اس کے باوجود ، جب حالات بدلتے ہیں ، وہ سب کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ۔  وہ سمجھتا ہے کہا س نے بہت انتظار کر لیا اب آخر کار اسے خود کچھ کرنا ہوگا۔  سموئیل ٹھیک اس وقت پہنچا جب ساﺅل نے قربانی ختم کی ۔  تاہم ، وہ اسکے لئے اچھی خبر نہ لایا ۔ 

 

1سیموئیل13باب13اور14آیت:
”سیموئیل نے ساﺅل سے کہا کہ تو نے بے وقوفی کی۔
   تو نے خداوند اپنے خدا کے حکم کو جو اس نے تجھے دیا نہیں مانا ورنہ خداوند تیری سلطنت بنی اسرائیل میں ہمیشہ تک قائم رکھتا۔   لیکن اب تیری سلطنت قائم نہ رہے گی کیونکہ خداوند نے ایک شخص کو جو اس کے دل کے مطابق ہے تلاش کر لیا ہے اور خداوند نے اسے اپنی قوم کا شیواہ ٹھہرایا اس لئے کہ تو نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے تجھے دیا تھا۔ 

 

       شاید یہ ساﺅل کی شدید آزمائش تھی ۔  اگر وہ اس مین پاس ہو جاتا ، اگر وہ خدا کی فرمانبرداری کرتا اور اس کے احکامات کی پیروی کرتا ، اسکی سلطنت قائم رہتی ۔  اگر وہ نافرمانی کرتا تو اس کی سلطنت ختم ہو جاتی ۔  جیسا کہ سموئیل نے اسے بتایا تھا ۔  ورنہ خداند تیری سلطنت بنی اسرائیل پر ہمیشہ تک قائم رکھتا ۔  لیکن اب تیری سلطنت قائم نہ رہے گی ۔  “یقینا ساﺅل خد اکی فرمانبرداری کی آزمائش میں پورا نہ اترا ۔  جب اس نے دیکھا کہ سموئیل نہیں آیا ، اس نے خدا وند کے حکم کو ترک کر دیا اور اپنی مرضی کی ۔  بعد میں ہم اسے یہی گناہ دہراتے ہوئے دیکھتے ہیں۔  1سموئیل 15باب1تا3آیت میں ہم پڑھتے ہیں :

 

1سیموئیل 15باب1تا3آیت:
”اور سیموئیل نے ساﺅل سے کہا کہ خداوند نے مجھے بھیجا ہے کہ میں تجھے مسح کروں تا کہ تو اس کی قوم اسرائیل کا بادشاہ ہو۔
   سو اب تو خداوند کی باتیں سن۔   رب الا افواج یوں فرماتا ہے کہ مجھے اس کا خیال ہے کہ عمالیق نے اسرائیل سے کیا کیا اور جب یہ مصر سے نکل آئے تو وہ راہ میں ان کا مخالف ہو کر آیا ۔  سو اب تو جا اور عمالیق کو مار اور جو کچھ اس کا ہے سب کو بالکل نابود کر دے اور ان پر رحم مت کر بلکہ مرد اور عورت ۔   ننھے بچے اور شیر خوار۔   گائے بیل اور بھیڑ بکریاں ۔   اونٹ اور گدھے سب کو قتل کر۔ 

 

       ساﺅل کو خدا وند کی طرف سے حکم ملا تھا کہ عمالیق کو تباہ و برباد کردے ۔   7تا9آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ اس نے آخر کار کیا کیا :

 

1سیموئیل15باب7تا9آیت:
”اور ساﺅل نے عمالیقیوں کو حویلہ سے شور تک جو مصر کے سامنے ہے مارا۔
  اور عمالیقیوں کے بادشاہ اجاج کو جیتا پکڑا اور سب لوگوں کو تلوار کی دھار سے نیست کر دیا۔   لیکن ساﺅل نے اور ان لوگوں نے اجاج کو اور اچھی اچھی بھیڑ بکریوں کو گائے بیلوں اور موٹے موٹے بچوں اور بروں کو اور جو کچھ اچھا تھا اس کو جیتا رکھا اور
ان کو نیست کرنا نہ چاہا لیکن انہوں نے ہر ایک چیز کو جو ناقص اور نکمی تھی نیست کر دیا۔ 

 

       اس حقیقت کے باوجود اسے خداوند کی طرف سے واضح طور پر ملی تھی کہ وہ عمالیق کو مکمل طور پر تباہ وبرباد کردے ، اس نے خد ا کا کہا نہ مانا ، یا س انداز میں پور ا کرنے کی بجائے جیسا خداوند نے کہا تھا ، اپنی اور لوگوں کی پسند کے مطابق کیا ۔  انہوں نے وہی تباہ کیا جو وہ خود تباہ کرنا چاہتے تھے ، ان چیزوں کو محفوظ رکھتے ہوئے جن کو وہ تباہ کرنانہیں چاہتے تھے ، تاہم ، یہ وفاداری نہیں ہے۔  خدا کی فرمانبرداری سے مراد اسکی مرضی کو نا مکمل پورا کرنا ، جس حد تک آپ کرنا چاہتے ہیں ، ہر گز نہیں ۔  بلکہ اس کا مطلب جو خد ا نے حکم دیا اسے مکمل اور اسی طرح پورا کرنا ہے۔  یرمیا48باب10آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

یرمیاہ 48باب10آیت:
”جو خداوند کا کام بے پرواہی سے کر تا ہے ملعون ہو۔
 

 

       فرمانبرداری سے مراد وہ کام کرنا جس کا خدا نے آپکو حکم دیا ، چاہے اپنے کلام کے وسیلہ سے یا ، جیسے ساﺅل کی کہانی میں تھا ، مکاشفہ کے وسیلہ ،  اگر ہم اس حد تک وہ کام نہیں کرتے جو خدا نے کہا ہے ، چاہے وہ خدا وند کے نام پر ہی کیا جاتا ہے ، تو ہم نوفرمان ہیں ۔  خدا نہیں چاہتا کہ ہم اسکے لئے اپنی مرضی سے کام کرنے میں مصروف رہیں ۔  بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اسکے فرمانبردار کام کرنے والے بنیں اور بالکل اسی طرح کام کریں جیسا اس نے حکم دیا ہے ۔  ساﺅل اور اس کے لوگوں نے لاپرواہی سے خداوند کاکام کیا ۔  اس کے مطابق ، ان کے مقاصد غلط نہ تھے ۔  جیسا کہ اس نے بعد میں کہا : ”پر لوگ لوٹ کے مال میں سے بھیڑ بکریاں اور گائے بیل یعنی اچھی اچھی چیزیں جن کو نیست کرنا تھا لے آئے تا کہ جلجال میں خداوند تیرے خدا کے حضور قربانی کریں ۔  “لوگ قربانی کرنا چاہتے تھے ، تاہم وہ فرمانبرداری نہیں کرنا چاہتے تھے جیسا سیموئیل نے کہا :

 

1سیموئیل15باب22اور23آیت:
”سیموئیل نے کہا کیا خدواند سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے اتنا ہی خوش ہو تا ہے
جتنا اس بات سے کہ خداوند کا حکم مانا جائے؟ دیکھ فرمانبرداری قربانی سے اور بات ماننا مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے۔   کیونکہ بغاوت اور جادو گری برابر ہیں اور سر کشی ایسی ہی ہے جیسی مورتوں اور بتوں کی پرستش۔  سو چو نکہ تو نے خداوند کے حکم کو رد کیا ہے کہ بادشاہ نہ رہے۔ 

 

       اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آخداوند کے لئے کتنی قربانیاں گزرانتیں ہیں ۔  فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ اس کے کتنے فرمانبردارہیں ۔   قابل قبول قربانیاں صرف وہی ہیں جن کا حکم خدا نے دیا ہے ۔  اصل خدمت صرف وہی ہو سکتی ہے جو خدا نے مقرر کی ہے ۔  باقی سب کچھ ،  چاہے یہ اسکے نام میں ہی کی جائے ،  نافرمانی کا کام ہے جو نئی شبہیہ میں پرانی فطرت کی ہدایت سے ہوتا ہے ۔   

 

یوحنا7باب16تا18آیت:
”یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔
  اگر کوئی اس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اس تعلیم کی بابت جان جائے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہتا ہوں۔   
جو اپنی طرف سے کچھ کہتا ہے وہ اپنی عزت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عزت چاہتا ہے وہ سچا ہے اور اس میں ناراستی نہیں۔ 

 

       ساﺅل آدمیوں کی خوشی کا متلاشی تھا ۔  اسے آدمیوں اور ان کی رائے کا خدا اور اسکی رائے سے زیادہ خیال تھا بعد میں جب وہ اپنے گناہ کا اقرار کررہا تھا ، اسے خدا سے رشتہ ٹوٹنے کا ڈر نہیں تھا کہ لوگوں میں اسکی عزت جاتی رہے گی : ”تب اس (ساﺅل )نے کہا ،  “میں نے گناہ کیا ہے ۔  تو بھی میری قوم کے بزرگوں اور اسرائیل کے آگے میری عزت کر اور میرے ساتھ لوٹ چل ۔  “داﺅد نے ، جو ساﺅل کا پیش رو تھا ، زناکاری کی اور پھر قتل کیا ۔  تا ہم ، جب ناتن نے اس کا مقابلہ کیا (2سموئیل 12باب1تا14آیت )جس چیز کی داﺅد کی فکر تھی ، وہ اس کا تخت نہیں تھا بلکہ خداوند کا اس کے ساتھ تعلق تھا (زبور 51)۔  اس لئے داﺅد کو ، خدا کے ساتھ تعلق استوار کرنے میں ، معافی ملی ، جب کہ ساﺅل کو ، تخت استوار کرنے میں ، رد کیا گیا ۔ 

 

 2ابراہام کی مثال :

        ساﺅل کے بلکل الٹ ایک اور مثال ہے ، ابراہام کی مثال ۔  ہم شاید سب ابراہام اور اضحاق کی کہانی س واقف ہیں ۔  اضحا ق ہی واحد بیٹا تھا جو ابراہام کو سارا سے ملا ۔  وہی وہ بیٹا تھا جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا اور جس کیلئے ابراہام نے کئی سال تک انتظار کیا تھا ۔  تاہم ، خدا کی طرف سے ابراہام کو ایک اضحاق کو قربان کرنے کا حکم ملا :

 

پیدائش 22باب1اور2آیت:
”ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابراہام کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہا! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔
   تب اس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریا کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں اسے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاﺅں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ 

 

        خد ااچھی طرح جانتا تھا کہ ابراہام اضحاق سے کتنا پیار کرتا ہے ، وہ جانتا تھا کہ وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا جس سے وہ پیار کرتا تھا ۔  “آخر کار ، خدا ہی تھا جس نے ابراہام کو اضحاق دیا ۔  تاہم ، کیا ابراہام خدا کی نسبت اضحاق سے ، جو خدا کی برکت تھا ، زیادہ پیار کرتا تھا ؟دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کیلئے وہ کس کو منتخب کرے گا ؟کیا وہ سب کچھ خدا کو سونپ دے گا چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ہو یا ساﺅل کی طرح اپنی مرضی کرتے ہوئے بغاوت کرے گا ؟اسی سوال کو ہم لاگو کرتے ہوئے : کیا ہم خدا کی پیروی اس لئے کرتے ہیں کہ ہم اس کو جاننا چاہتے ہیں اور اس سے تعلق بر قرار رکھنا چاہتے ہیں یا ہم ابراہام کی جگہ ہوتے اور ہمیں اپنی سب سے پیاری برکت کو قربان کرنے کو کہا جاتا جو خدا نے ہمیں دی ہے یا جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں دے تو ہم کیا کرتے ؟کیا ہم یہ حقیقتاَ کرتے ؟گو کہ خداوند میں بے شمار برکات ہیں ، مگر اس کے ساتھ ہمارے رشتے کا مرکز یہ برکات نہیں ہیں ۔  بلکہ ہماری سوچ کا مرکز اسے اور اس کے اکلوتے بیٹے خداوند یسوع مسیح کو جاننے پر ہونا چاہئیے ۔   جیسے پولوس نے کہا :  

 

فلپیوں3باب8تا11آیت:
”بلکہ
میں اپنے خداوند مسیح یسوع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔  جس کی خاطر میں نے سب چیزوں کا نقصان اٹھایا اور ان کو کوڑا سمجھتا ہوں تا کہ مسیح کو حاصل کروں۔  ۔  ۔  ۔  اور میں اس کو اس کے جی اٹھنے کی قدرت کو اور اس کے ساتھ دکھوں میں شریک ہونے کو معلوم کروں اور اس کی موت سے مشابہت پیدا کروں۔   تا کہ کسی طرح مردوں
میں سے جی اٹھنے کے درجہ تک پہنچوں۔ 

 

       سب کچھ ، حتیٰ کہ اس دنیا کی سب سے بڑی برکت بھی خداوند یسوع مسیح کے زبردست علم کے مقابلے میں خاک ہے ۔  ابراہام کی طرف جاتے ہوئے ، آئیے دیکھیں کہ آخر کار اس نے کیا کیا :

 

پیدائش22باب3تا10آیت:
”تب ابراہام نے صبح سویرے اٹھ کر اپنے گدھے پر چار جامہ کسا اور اپنے ساتھ دو جوانوں اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیا اور سوختنی قربانی کیلئے لکڑیاں چریں اور اٹھ کراس جگہ کو جو خدا نے اسے بتائی تھی روانہ ہوا۔
  تیسرے دن ابراہام نے نگاہ کی اور اس جگہ کو دور سے دیکھا۔   تب ابراہام نے اپنے جوانوں سے کہا کہ تم یہاں گدھوں کے پاس ٹھہرو۔   میں اور لڑکا ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمہارے پاس لوٹ آئیں گے۔  اور ابراہام نے سوختنی قربانی کی لکڑیاں لے کر اپنے بیٹے پر رکھیں اور آگ اور چھری اپنے ہاتھ میں لی اور دونوں اکٹھے روانہ ہوئے۔  اضحاق نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! اس نے اس سے کہا اے میرے بیٹے میں حاضر ہوں۔   اس نے کہا دیکھ آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کیلئے برہ کہاں ہے؟ ابراہام نے کہا اے میرے بیٹے خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کیلئے برہ مہیا کر لے گا۔   سو وہ دونوں آگے چلتے گئے اور اس جگہ پہنچ گئے جو خدا نے بتائی تھی۔  وہاں ابراہام نے قربانگاہ بنائی اور اس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اسے قربانگاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا۔   اور ابراہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ 

 

       ابراہام نے بالکل وہی کیا جو خدا نے اسے کہا تھا ۔  یقیقنا یہا س کی زندگی میں خوشگوار چیز نہ تھی ، وہ ، اور بائبل میں دیگر خدا کے بندے ، ربورٹ نہیں تھے جنہوں نے میکانی طور پر خدا کے حک کی تعمیل کی ۔  بلکہ ، وہ ہماری طرح آزاد مرضی کے لوگ تھے جنہوں نے اپنی مرضی سے خود کو خداوند کے سپرد کرنے کا ارادہ کیا۔   ان کی فرمانبرداری ربورٹ والی نہیں بلکہ ” دل سے“تھی۔   اسی فرمانبرداری کے بارے میں خدا کا کلام بات کرتاہے۔   خدا ربورٹ نہیں چاہتا تھا۔   وہ ایسے لوگ چاہتا تھا جو اسے اپنے سارے دل،  اپنی ساری جان،  اپنی عقل اور اپنی ساری طاقت سے پیار کریں(مرقس 12باب30آیت)۔   وہ آزاد مرضی کے لوگ چاہتا تھا ،  جو ”دل سے“ خود کو اس کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرتے۔   ابراہام کی طرف آتے ہوئے،  یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو دے گا،  اس نے خد کے کلام کی پیروی کی۔   پھر،  جب وہ اس خاص مقام پر پہنچا تو خدا نے مداخلت کی:

 

پیدائش22باب11اور12،  15تا18آیت:
”تب خداوند کے فرشتہ نے اسے آسمان سے پکارہ کہ اے ابراہام !اے ابراہام !اس نے کہا میں حاضر ہوں۔
   پھر اس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تو خدا وند سے ڈرتا ہے اس لئے کہ تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔  ۔  ۔  ۔  اور خداوند کے فرشتہ نے آسمان سے دوبارہ ابراہام کو پکارہ اور کہا کہ،  خداوند فرماتا ہے کہ چونکہ تو نے یہ کام کیا کہ اپنے بیٹے وک جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ رکھا اس لئے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دوں گا اور تیری اولاد اپنے دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہو گی۔  اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی
کیونکہ تو نے میری بات مانی۔ 

 

       اس آزمائش کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ آیا کہ ابراہام خدا کا فرمانبردار تھا کہ نہیں،  گو کہ اس کے لئے اس نے اپنے بیٹے کی قربانی دینا تھی۔   دونوں ساﺅل اور ابراہام خدا کے برگزیدہ تھے۔   ساﺅل کا اسرائیل کا پہلا بادشاہ مقرر کیا گیا۔   ابراہام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کی نسل کے وسیلہ سے دنیا کی ساری قومیں برکت پائیں گی۔   تاہم ان دونوں میں بہت فرق تھا۔   فرق یہ تھا کہ پہلا برکات کے پیچھے اور ان کی حفاظت کے پیچھے تھا۔   اس کی وجہ سے ہی وہ نافرمانی اور گناہ کا شکار بنا۔   دوسری جانب،  دوسرا ،  اپنے بیٹے کو ترک کرتے ہوئے،  اس وعدے پر بھروسہ رکھتے ہوئے جو اس ے ساتھ اور اس کی نسل کے ساتھ کیا گیا تھا، برکات کے بانی کے پیچھے تھا۔ 

  

3نتیجہ:

       درج بالا میں ہم نے خدا کی فرمانبرداری کے موضوع کا تجزیہ کیا۔   اگر چہ یہ تجزیہ کسی حد تک خشک تھا،  مگر مجھے امید ہے کہ اس نے معاملہ واضح کر دیا ہو گا۔   جیسا کہ میکاہ 6باب6تا8آیت کہتی ہے:

 

میکاہ6باب6تا8آیت:
”میں کیا لے کر خداوند کے حضور آﺅں اور خدا تعالیٰ کو کیونکر سجدہ کروں؟کیا سوختنی قربانیوں اور یکسالہ بچھڑوں کو لے کر اس کے حضور آﺅں؟ کیا خداوند ہزاروں مینڈھوں سے یا تیل کی دس ہزار نہروں سے خوش ہو گا؟ کیا میں اپنے پہلوٹھے کو اپنے گناہ کے عوض میں اور اپنی اولاد کو اپنی جان کی خطا کے بدلے میں دے دوں؟
اے انسان اس نے تجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے۔   خداوند تجھ سے اس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تو انصاف کرے اور رحم دلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟“

 

       خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم رحم دلی کو عزیز جانیں،  انصاف کریں اور فرتنی سے خدا کے حضور چلیں۔   کہ خود کو اس کے ہاتھوں میں فرتن کر دیں تا کہ وہ ہمیں وقت پر سر بلند کرے(1پطرس5باب6آیت)۔   نافرمانی،  دونوں طرح سے چاہے وہ کام کرنے سے جو خدا نے نہیں کہا یا وہ کام نہ کرنے سے جو خدا نے کرنے کو کہا ہے،  خدا سے اعلیحدگی کا عمل ہے۔  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا کرتے ہیں یا ہمارے کیا ارادے ہیں۔  فرق اس سے پڑتا ہے کہ جو ہم نے کیا وہ خدا کی فرمانبرداری کے تحت کیا،  جیسے کہ ابراہام کی قربانی،  یا نافرمانی کے تحت کیا،  جیسے ساﺅل نے کہا کہ وہ یہ قربانی چاہتا تھا۔ 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :