بائبل کی سچائیاں |
پھل: ایک مسیحی زندگی کس سے متعلقہ ہے ۔ایک مسیحی کی زندگی کس چیز کے بارے میں ہے؟ یہ خدا کو اور اسکے بیٹے خداوند یسوع مسیح کو جاننے اور پھل لانے کے بارے میں ہے۔ یوحنا کی انجیل میں یسوع نے کہا:
یوحنا 15باب16آیت:
پولوس نے رومیوں7باب4آیت میں بھی کہا:
بیج بونے والے کی تمثیل میں یسوع ان لوگوں کے چار درجات بیان کرتا ہے جو کلام سنتے ہیں ۔ دوسرے اور تیسرے درجے میں وہ لوگ تھے جو غیر پھلدار تھے،جبکہ آخری میں، قابلِ تعریف درجے میں، وہ شخص شامل ہے،”جو کلام سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے کوئی سو گنا، کوئی ساتھ گنا اور تیس گنا ۔ “(متی13باب23آیت) ۔
اس لئے خدا مسیحیوں کے لئے جو ارادہ رکھتا تھا کہ وہ نہ صرف ایمان لائیں بلکہ تبدیل ہو جائیں ۔ بالکل اسی طرح درخت بننے کےلئے یا اسی قسم کا پھل لانے کے واسطے جیسے کہ وہ پہلے لاتے تھے ۔ ہماری پھلداری خدا کےلے اہمیت رکھتی ہے ۔ مجھے یہ دوہرانے دیجئے :خدا کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ آپ ایک سادہ زندگی گزارتے جائیں ۔ خدا نے آپ کو غیر معمولی مخلوق خلق کیا ہے، اس نے آپ کو نعمت عطا کی ہے اور اس نے آپ کو ایک کم کرنے کےلئے مقرر کیا تھا: کہ جاﺅ اور پھل لاﺅ ۔ ہم جلد یہ دیکھیں گے کہ یہ کیسے ہوتا ہے، لیکن آپ یہ ذہن میں ہی رکھیں ۔ خدا نے اپنے ہر ایک فرزند کو ، چھوٹے سے بڑے تک، غریب سے امیر تک، خواندہ سے ناخواندہ تک کو نعمت عطا کی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ بہت سا پھل لائیں۔ یہاں یوحنا 15باب میں لکھا ہے جو خداوند نے کہا:
یوحنا 15باب8آیت:
اور یوحنا 15باب1اور2آیت:
باپ بہت خوش ہوتا ہے جب اس کے فرزند پھل لاتے ہیں ۔ دیکھیں وہ ان کو چھانٹتا ہے ،دیکھ بھال کرتا ہے اور خاص توجہ دیتا ہے جو پھل لاتے ہیں تاکہ وہ مزید پھل لائیں ۔ باپ صرف یہ نہیں چاہتا کہ تاک کی ڈالیاں ہوں ۔ ۔ ۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ پھلدار ڈالیاں ہوں، نہیں بکثرت پھلدار ڈالیاں ہوں، ایسی ڈالیاں جو اپنی پوری طاقت سے پھل لاتی ہیں آج کل بہت سے مسیحی فضول، سڑک کے کنارےبیٹھے، کسی دوسرے کےلئے”کام کا آغاز“ کرنے کے منتظر ہیں ۔ ایک پیشہ ور ۔ ۔ ۔ جیسے کہ وہ پیشہ ور نہیں ہیں ۔ لیکن پطرس اور دیگر لوگ، ان میں سے زیادہ تر ماہی گیر ۔ ۔ ۔ پہلی صدی میں اس لحاظ سے ”پیشہ ور“ نہ تھے، انہوں نے کسی ادارے سے گریجوایشن نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کو ضرورت تھی!صرف ایک ڈگری جو ان کے پاس تھی وہ تھی ماہی گیری ۔ یہاں کچھ اور لوگ بھی تھے جو اگر چہ ایمان لائے تھے مگر ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ٓائی تھی، مسیحی زندگی تبدیلی کے بغیر، بنا پھل لائے ناحق پر صادق ہے ۔ اور یہ کنے سے میری مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ محبت کرنے والے مسیحی جو خدا اور اس کے کلام سے پر جوش ہیں غلطی نہیں کرتے ۔ وہ کرتے ہیں ۔ مگر محبت بھرے مسیحی ایسی عبادات میں جانے سے انکار کرتے ہیں جوکہتی ہیں کہ ،”باقاعدہ ہونا سیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اتوار گرجا گھر جانا کافی ہے، کرسی پر بیٹھیں، زبور اور گیت گائیں، وعظ سنیں، گھر واپس جائیں اور اگلے اتوار تک سب بھول جائیں ۔ “ محبت بھرے مسیحی سمجھوتا نہیں کرتے ۔ وہ تھوڑے پر ہی اکتفا نہیں کرتے ۔ وہ خدا پر نظر رکھتے اور اسی میں بڑھنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس کے ساتھ اور اس کے بیٹے کے ساتھ قریب سے قریب تر ہونا چاہتے ہیں ۔ وہ مسیح کو اپنی زندگی میں ممکنہ حد تک ظاہر کرنا چاہتے ہیں ۔ محبت بھرے مسیحیوں میں پھل لانے کا جذبہ اور مسیح کا تصور ہوتا ہے ۔ اور خوشخبری یہ ہے کہ خدا آپ کو بھی ان میں سے ایک کی مانند بنانا چاہتا ہے ۔ محبت بھرا مسیحی بننایا ایک اور انداز سے کہتے ہو ئے ، مسیح کے ساتھ محبت بھرا مسیحی بننا اور گرم بننا نہ کہ نیم گرم (مکاشفہ 3باب 15آیت) ۔ پھلدار ڈالی، پوری طاقت سے پھل لانے والی ڈالی بننا چاہئے ۔ یہی مسیحی زندگی ہے ۔
پھل: یہ کیا ہے؟: اسے آسان لفظوں میں ڈھالتے ہوئے میں کہوں گا کہ پھل ایک تبدیل زندگی، مسیح مرکز زندگی، ایک ایسی زندگی ہے جس میں ہم مر جاتے ہیں تاکہ مسیح ہم میں زندہ رہے(گلتیوں2باب19اور20آیت) ۔ ایسی زندگی جو خود کو اور دوسرو ں کو خوش کرنے کی بجائے خدا کی شادمانی کی متلاشی ہے ۔ ایسی زندگی جس کا مرکزی عنوان، مرکز، سرِ فہرست نام، خدا ہے۔ آئیے دیکھیں کلام کیا کہتا ہے:
گلتیوں5باب22تا25آیت:
یہاں روح”نئی انسانیت“ سے مراد ” مسیح ہمارے اندر “ ہے ۔ نئی انسانیت کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے ہم درج بالا پھل پیدا کرتے ہیں، وہی خاصیتیں جو نئی انسانیت، مسیح میں ہیں ۔ اور افسیوں 2باب10آیت میں ہم پڑھتے ہیں:
افسیوں2باب10آیت:
خدا نے پہلے ہی نیک اعمال مختص کئے ہیں جن کے مطابق ہمیں زندگی گزارنی ہے ۔ اس نے پہلے ہی ہر کسی کو ایک غیر معمولی نعمت عطا کی ہے:جیسے ایک درخت لگایا جاتا ہے اور اس سے پھل پانا متوقع ہوتا ہے ۔ ہمیں جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے مطابق چلنا ہے ۔ یہ سب کرنے کامقصد خدا کو شادمان کرنا اور بہت سا پھل لانا ہے ۔ 1پطرس4باب7تا11آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:
1پطرس4باب7تا11آیت:
اس حوالہ میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو یہ حوالہ”بننے “ کو کہتا ہے ۔ دعا کرنے کو تیار رہو ۔ آپس میں بڑی محبت رکھو ۔ بغیر بڑبڑائے آپس میں مسافر پروری کرو ۔ یہ بھی غور کریں کہ یہ حوالہ کہتا ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی خدا کی طرف سے نعمت ملی ہے ۔ خدا نے اپنے ہر ایک فرزند کو ایک نعمت عطا کی ہے ۔ جیسے جسم کا ہر ایک حصہ غیر معمولی ہے اور وہاں وہ کسی خاص کام کےلئے رکھا گیا ہے، اسی طرح ہم بھی: ہم مسیح کے بدن، کلیسیا، میں خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اور ہم وہاں غیر معمولی طور پر کام سر انجام دینے کےلئے مقرر کئے گئے ہیں(1 کرنتھیوں 12باب12تا27آیت) ۔ اور جو پطرس ہمیں تا رہا ہے وہ ہے : کام ۔ خدا نے صرف زند لوگوں کو ہی نعمتیں عطا نہیں کئیں ۔ اس نے صرف آپ کے پادری یا کاہن کو ہی نعمتیں عطا نہیں کئیں ۔ یہ حوالہ مسیحیوں کی برادری میں صرف چند مخصوص لوگوں کے بارے میں بات نہیں کرتا ۔ یہ تمام تر مسیحیوں کے بارے میں بات کرتا ہے، اس میں ااپ بھی شامل ہیں!یہ بھی دیکھیں کہ یہ حوالہ کہتا ہے کہ ” ایک دوسرے کی خدمت میں صرف کریں“ ۔ یہ نعمت آپ کو محض آرام طلبی کےلئے نہیں دی گئی ۔ یہ ایک دوسرے کی خدمت کرنے کےلئے عطا کی گئی ہے ۔ میں آپ کی اور آپ میری خدمت کریں ۔ آج ہم کسی شخس کے کردار کو بیان کرنے کےلئے ” خدمت“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ پس کسی ایمانداروں کی برادری میں کاہن یا پادری ” منسٹر“ کہلاتا ہے ۔ کیا صرف وہی خدمت کر سکتے ہیں، جبکہ برادری میں دیگر لوگ خدمت کروانے کےلئے ہیں نہ کہ خدمت کرنے کو ہیں؟یہ ایک ایسا خیال ہے جو مکمل طور پر یا واضح طور پر ہر کسی کے ذہن میں ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ اچھا! بات در اصل یہ ہے کہ یہ وہ خیال نہیں ہے جو خدا کی طرف سے آیا ، یا یہ وہ خیال نہیں جس کی حمایت کلام کرتا ہے ۔ جو تصور کلام پیش کرتا ہے وہ درج ذیل ہے:ہم میں سے ہر کسی کو غیر معمولی نعمت عطا کی گئی ہے اور کوئی مسیح کے بدن میں غیر معمولی طور پر رکھا گیا ہے ۔ کلام میں لطوریا یا کلرجی جیسی کوئی چیز نہیں ہے ۔ جیسے کہ کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب خدا کے کاہن ہیں ۔ دیکھیں پطرس اسے کتنے زبردست انداز میں بیان کرتا ہے:
1پطرس2باب9آیت:
1پطرس2باب5آیت بھی:
ہم میں سے ہر کسی سے اپنے تحفے کے مطابق ایک دوسرے کی خدمت کرتے ہو ئے کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے ،1پطرس 4باب 7تا11آیت ہمیں بتاتی ہے کہ جو خدا نے ہمیں تحفہ عطا کیا ہے اس کے ساتھ مصروف ہو جائیں۔ اپنے تحفے پر توجہ دیں اور اسے استعمال کریں۔ اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی کوئی ”منسٹری “ہے ےا نہیں کیو نکہ آپ کی منسٹری ہے۔ یہ حقیقت ہے !اور جیسے پطرس کہتا ہے کہ اسے صرف کریں ،اپنے تحفے کے مطابق خدمت کرتے ہو ئے اسے استعمال کریں۔
دوبارہ ،اگر درج بالا پھل ہیں اور اےسا ہو سکتا ہے کہ مصروف ہو نے یا کام کرنے سے ہم پھل پیدا کریں گے ،تا ہم یہ مکمل تصور نہیں ہے۔ جیسے فلپیوں 1باب 9آیت ہمیں بتاتی ہے :
فلپیوں 1باب9تا11آیت:
راستبازی کے پھل ”یسوع مسیح کے سبب “سے ہیں نہ کہ ہماری طاقت سے۔ اس کے علاوہ ان کے نتائج خدا کا جلال اور اسکی ستائش ہے،جیسے یسوع یو حنا 15باب میں وا ضح کرتا ہے ،وہ تاک ہے اور ہم اسکی ڈالیاں ہیں :
یوحنا 15باب4تا5اور 8آیت :
پھل لانا یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ہم تا ک کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اور ہم تاک نہیں ہیں۔ بلکہ مسیح ہے !ہم ڈالیاں ہیں۔ جب تک کوئی ڈالی شاخ کے ساتھ جڑی نہ رہے اس کے لئے پھل لانا نا ممکن ہے۔ اسی طرح ہمارے ساتھ بھی ہے۔ مسیح کے ساتھ ہمارا جڑنا ہی ہے جو ہمیں پھل لانے کے لئے مظبوط کر سکتا ہے ،اس معاملے میں ڈالیاں پھل لانے کے وسیلہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں ۔ جیسا کہ ہم مسیح کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں ،وہ ہماری بدولت ظاہر ہو گا ،تاک ہماری بدولت زندہ ہے اور پھل لائے۔ خدا کے ان عمال کی پیروی کرنا جو اس نے ہمارے لئے تےار کئے ہیں خداوند یسوع مسیح کے ساتھ ہمارے محبت بھرے تعلقات استوار کرتا ہے ،جسے ہم خوش کرنا چاہتے ہیں تو بہ کا مرکز اعمال نہیں بلکہ مسیح کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں ،”یسوع مسیح کے وسیلہ سے ،“جیسے فلپیوں نے کہا کہ ،پھل لایا جا رہ۔
مزید اس پر بات کرتے ہو ئے ،مسیح نے جھوٹے نبیوں کے ارے میں بات کی اور اس نے کہا کہ ہم انہیں ان کے اعمال سے نہیں گے۔
متی 7باب15تا20آیت :
کلام جھوٹے نبیوں (متی 7باب15آیت )جھوٹے مسیحیوں (متی 24باب 24 آیت ) جھوٹے رسولوں (2کرنتھیوں 11 باب 13 آیت )،جھوٹے بھائیوں (گلتیوں 2باب4آیت اور 2کرنتھیوں 11باب20آیت )،جھوٹے استادوں (2پطرس 2باب)،دغا بازی کام مرنے والوں (2کرنتھیوں 11باب13آیت )کے بارے میں بات کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو کچھ جاننے کی ضرورت ہے ،اور وہ ہے پھل اور اچھا پھل صرف ”یسوع مسیح کی بدولت “آسکتا ہے ،کوئی بھی دوسرا درخت ،اگر چہ وہ خدا اور مسیح کے بارے میں بات کرتا ہے ،صرف جھوٹا پھل پیدا کرسکتا ہے۔
اس لئے میرے بھائیواور اور بہنو !میںآپ کو پورے دل سے خدا کی پیروی کرنے پر لگا رہا ہوں ،کہ آپ زندہ خداوند کے ساتھ محبت کے باعث اس کلے رشتے میں ترقی کرتے جائیں اور اس کام میں مصروف ہو جائیں جو ا س نے آپ کے لئے تےار کیا ہے۔ رو ح کا پھل اسی طرح ہو تا ہے کیونکہ درخت روح ہے ،نئی فطرت ،مسیح ہم میں ہے ،مسیح میں قائم رہتا ہے وہ صرف ایک چیز پیدا کر سکتا ہے :بکثرت پھل !
پھل :چھانٹنا : میں باغبانی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا ،لیکن میں نے سکول سے یہ جانا کہ :درخت کے لئے پھل لانے کے واسطے اسکی چھانٹی کرنا ضروری ہے۔ تا ہم یہ مکمل تعریف نہیں ہے ،انٹر نےٹ دےکھتے ہو ئے میں نے wikipediaسے درج بالا تعریف حاصل کی (دیکھیںhttp://en.wikipedia.org/wiki/Pruning) ۔
”چھانٹنا باغبانی اور فصلوں میں سے غیر پیداواری ،غیر مو زوں اور بیماری لاحق چیزوں کو تلف کرنا ہے ،گو ڈی کا مقصد پو دے کی نشوونما کو مظبوط خاطر رکھتے ہو ئے پو دے کی چھانٹی کرنا ،کہ پو دے کی صحت کو بر قرار رکھا جائے ،اور پھولوں اور پھلوں کی مقدار اور معےار بڑھا یا جائے۔ مناسب گو ڈی کرنا بھی ایک فن کی طرح ہنر ہے ،کیو نکہ ایسے پو دے جن کی گو ڈی غلط انداز سے کی گئی ہو وہ بیماری لاحق ہو جاتے ہیں یا کسی غلطانداز سے نشوو نما پا لیتے ہیں۔ “
ہر پودے کو گوڈی کی ضرورت ہو تی ہے۔ ہر درخت ایک کو کسان کی ضرورت ہے جو اسکو چھانٹے اور اسکی مرضی سے نشوونما کرے جو اسکی صحت کا خیال رکھے گا ،اسکی بیماریوں کو دور کرے گا اور اسکی صفائی کرے گا تا کہ یہ اور پھل لائے۔ بالکل اسی طرح ہمارے لئے ،تاک کی ڈالیاںہوتے ہو ئے سچ ہے جو کہ خداوند یسوع مسیح ہے۔ اور ہمیں بھی چھانٹنے کی ضرورت ہے اوراندازہ لگائیں ،ہمارے پا سبھی اس کی دیکھ بھال کے لئے ایک کسان ہے !یو حنا 15باب دوبارہ ہمیں بتات ہے :
یوحنا15باب1اور2آیت:
باپ ہی ہے جوگو ڈی کی دیکھ بھال کرتا ہے ،دوبارہ یاد کریں ،گو ڈی کرنا لازمی ہے۔ ہم اس کے بنابڑھ نہیں سکتے اور خو ش قسمتی سے ہمارے پاس کو ئی ایسا شخص ہے جو اسکی دیکھ بھال کرتا ہے ،ہمارا باپ۔ وہ ایک اچھے اور محتاط باغبان کی طرح رکھوالی کرتا ہے اور ہماری نشوونما پر توجہ دیتا ہے ،ہماری مشکلات کو دور کرتا ہے اور ہمیں پاک کرتا ہے تا کہ ہم زیادہ پھل لائیں۔ کیا یہ زبردست بات نہیں ؟پھل پیدا کرنا مسیح میں قائم رہنے کا معاملہ ہے ،زیادہ پھل لانا ،بکثرت ،ایسا کام ہے جسکی حفاظت کی بات کرتا ہے۔ ہمارا کام تاک میں قائم رہنا ہے اور خدا کا کام ہماری گو ڈی کا دھیان رکھنا جو ہماری پیداوار بڑھانے کے لئے ضروری ہے۔
میرا خیال ہے کہ عبرانیوں 12باب11آیت ہمیں یہی بات مختلف الفاظ سے بتاتی ہے۔ یہاں ہم پڑھتے ہیں :
عبرانیوں12باب11آیت:
یہاں مصنف تنبہیہ کے بارے میںب بات کررہا ہے اور کہتا ہے کہ کسی بھی قسم کی تنبہیہ اس وقت اچھی معلوم نہیں ہو تی۔ اس کے بر عکس یہ دکھ کا باعث لگتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ گو ڈی یا چھانٹی سے بھی ایسا ہی ہو تا ہے۔ جب کسان گو ڈی کرتا ہے تو اسے پو دے کے کچھ حصے کا ٹنے ہوتے ہیں۔ اسے فضول حصے ،ایسے حصے جو پودے کی خوراک استعمال کرتے ہیں اور اسکے لئے کو ئی فائدہ نہیں دیتے ،کا ٹنے ہو تے ہیں ۔ چھانٹنے سے مراد کو ئی نہ کوئی چیز تلف کرنا ہے۔ تنبہیہ بھی کچھ ایسی ہی ہو تی ہے۔ ہم اپنے بچو ں کی تنبہیہ کرتے اور پو دوں کی چھانٹی کرتے ہیں۔ دو نوں کا مقصد ایک ہی ہو تا ہے۔ بچوں کو اچھا بنانے کے لئے پو دوں کو پھلدار بنانے کے لئے اور جب خدا تنبہیہ کرتا ہے تو یہ ہو سکتا ہے زیادہ دکھ کا باعث ہو تا ہے ،تا ہم وہ لوگ جو اسے سبق کے طور پر لیتے ہیں ان کے لئے صرف ایک ہی چیز ہے جو پیدا ہو گی اور وہ ہے پھل ،راستبازی کا چین کے ساتھ پھل ،جیسا کہ عبرانیوں ہمیں بتاتا ہے۔ آخر کار یہ خدا نے کرنا ہے ،کیو نکہ یہ ایسا کام ہے جا ایک ایسے باپ نے کرنا ہے جو اپنے بچوں س محبت کرتا ہے او ر وہ ہمیں بہت شدت سے محبت کرتا ہے۔ لہٰذا یہاں سوچ یہ ہے کہ جیسے پو دوں کی چھانٹی کےلئے کسان ہے ،تا کہ وہ اور زیادہ پھل لائیں ،اسی طرح ہمارا آسمانی باپ ہے جس کا کام ہماری چھانٹی کرنا ہے تا کہ ہم مسیح میں قائم رہ کر زیادہ پھل لائیں۔
پھل : اولیت اور غیر بار آوری : بکثرت پھل لانا ،جیسا کہ ہم نے دیکھا ،خدا کے لئے جلال ک باعث ہے۔ یہ سب کرنے کے لئے ،جیسا کہ ہم دوبارہ کلام سے دےکھتے ہیں ،ہمیں تاک میں قائم رہنا ہے ،یعنی خدا وند یسوع مسیح کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ پو رے جذبے سے اس کے ساتھ تعلق رکھنے کی خواہش رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اور باپ کو خوش کرنے اور مطمعن کرنے کی خواہش کرن۔ اگر یہی مقصد ہے ہماری زندگی کی کوشش ،تو اس سے بہت سا پھل آئے گ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ،اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند اور اسکے ،قصد کی ہماری زندگیوں میں اولیت ہو نی چاہئے۔ یا اسے مختلف طرےقے سے بیان کرتے ہو ئے ،اگر کو ئی چیز ہماری پھلاداری کے لئے خطرہ ہے تو وہ تاک ،خداوند یسوع مسیح ،سے غیر متوجہ ہو کر دوسری چیزوں کی جانب جانے کا خطرہ ہے جیسا کہ یسوع نے متی 6باب24تا34آیت میں کہا :
متی6باب24تا34آیت:
غیر قومیں ،غیر ایماندار فکر کرتے ہیں کہ کیا کھائیں ،کیا پئیں اور کیا پہنیں۔ لیکن ہمارے ساتھ یہ نہیں ہو نا چاہئے۔ ہمارے لئے سر فہرست ، اولیت ،فوقیت والی بات ،خدا کی بادشاہی اور اسکی راستبازی ہے۔
آج کل ،پہلے سے زیادہ ،ہزاروں ایسی چیزیں ہیں جو ہماری توجہ حاصل کرتی ہیں۔ پہلے آج ہمیں سینکڑوں انتخابات ملتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کسی شخص کے پاس اتنی زیادہ چیزوں کا انتخابات نہیں ہو تا تھ۔ آپ ٹےلی ویژن چلائیں تو ہزاروں چینل ملیں گے۔ DVDکی دکان پر جائیں اور ہزاروں فلموں کا انتخاب ملے گ۔ آپ انٹر نےٹ پر جاسکتے ہیں۔ اور ہزاروں وےب سائٹ میں اپنا وقت لگا سکتے ہیں۔ ایسا وقت پہلے کبھی نہ تھا جب کسی شخص کے پاس اتنے انتخابات تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں ہمارے وقت کے لئے ایک لڑائی ہو تی ہے۔ یہ انتخابات ہماری اولیت کی فہرست میں جگہ پانے کے لئے لڑتے ہیں ،میں فلمیں دیکھنا پسند کرتا ہو ں لیکن جب میں یہ بہت زیادہ دیکھتا ہو ں تو میرے پاس خدا کے لئے اور وہ کام کرنے کے لئے وقت نہیں ہو تا جو کرنے کے لئے اس نے مجھے بلایا ہے۔ میں انٹر نےٹ پر بیٹھ کرمختلف ویب سائٹس دیکھنا پسند کرتا ہو ں ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں یہ کرتا ہو ں تو خدا دےنے کے لئے وقت نہیں رہے گا مجھے اس بات کا خیال رکھنا ہو گا ،کیو نکہ میرا خاص مقصد ،میرا حقیقی مقصد خدا اور صرف خدا کی خدمت کرنا ہے ،اب ،اس کثےر الانتخابزمانے میں ،ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری سر فہرت اولیت ،ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اور یہ مقصد باپ کو جلال دےنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پھل لانے کے سوا ءاور کو ئی نہیں ہے۔ یہ مقصد خدا کو جاننے اور تا ک میں قائم رہ کر ،خدا وند یسوع مسیح میں قائم رہ کر باپ کے جلال کے لئے زیادہ پھل لانے کے سواءکچھ نہیں ہے۔ اور یہ تبدیل نہیں ہو۔ یہ بالکل اسی طرح آج بھی ہے جیسے کہ 2000سال قبل تھ۔
ختم کرنے سے پہلے اس حوالے سے ایک اور بات :یسوع نے بیج بونے والے کی تمثیل میں تےسری قسم کے بارے میں کہا جو کلام سنتا ہے :
مرقس 4 باب3،4اور7آیت :
اور اس کی وضاحت :
مرقس 4باب14اور18تا19آیت :
کلام بویا گیا مگر یہ غیر پھلادار بنا گیا کیوں ؟کیو نکہ دوسری چیزیں آئیں اور اسی پر غالب ہو گئیں۔ یہ دےگر چیزیں کیا تھیں ؟دنیا کی فکر اور دولت اور فرےب اور چیزوں کا لالچ دیگر چیزیں کہلاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں غیر متوجہ کرنے والی ہیں اور یہ پھل کو چھین لیتی ہیں اور ا س معاملے میں انہوں نے پھل مکمل طور پر چھن لیا ہے۔ دن کے آخر پر ہم سب کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس زندگی میں ہمیں کس کی خدمت کرنی ہے ؟ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟کیا ہم اپنی زندگیاں غیر پھلدار چیزوں ،جن کی فکر دنیا ”؟غیر قومیں “کرتی ہیں ،میں گزارنا چاہتے ہیں یا کیا ہم اپنی زندگیوں سے پھل ،خدا کے جلال کے لئے کثےر پھل لانا چاہتے ہیں ؟آپ کا انتخاب کیا ہے ؟میں نے دوسرا انتخاب چنا ہے ۔
Tassos Kioulachoglou
ضمیمہ :
پھل کے حوالے سے مزید حوالہ جات :درج بالا دئے گئے حوالہ جات کے علاوہ ،یہاں مزید حوالہ جات ہیں جو اسی موضوع پر بات کرتے ہیں۔
کلسیوں1باب1تا10آیت:
یہودہ 1باب11اور12آیت:
2پطرس1باب5تا8آیت:
یعقوب3باب17اور18آیت:
طیطس3باب13اور14آیت:
افسیوں5باب8تا11آیت:
رومیوں 7باب4اور5آیت:
رومیوں6باب20تا22آیت:
|
|