بائبل کی سچائیاں









خدا وند کا خوف



جیسے میں پہلے کالم کا آغاز کرتا تھا اس کی نسبت میں یہ کالم ایک نئے انداز سے شروع کرنا چاہتا ہوں اور بنا کچھ اور کہے حوالہ جات کا ایک گروہ پیش کرتا ہوں جو خداوند کے خوف اور خدا کے ان وعدوں کا حوالہ دیتے ہیں جو اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ برائے کرم پوری توجہ سے انہیں پڑھیں:

 

 34زبور10آیت:
”خداوند سے ڈرو، اے اس کے مقدسو! کیونکہ جو اس سے ڈرتے ہیں انہیں کچھ کمی نہیں۔

 

 34زبور 7آیت:
”خداوند کا فرشتہ ان کے چاروں طرف خیمہ زن ہو کر انہیں چھڑاتا ہے۔ جو اس سے ڈرتے ہیں۔“

 

 112زبور1اور2آیت:
”مبارک ہے وہ آدمی جو خداوند سے ڈرنے والا ہے۔ اور جسے اس کے احکام نہایت عزیز ہیں۔ اسکی نسل زمین پر طاقتور ہوگی۔ صادقوں کی پشت مبارک ہوگی۔“

 

 25زبور12آیت:
”وہ کون انسان ہے جو خداوند سے ڈرتا ہے۔ وہ اسے وہی راہ بتائے گا جو اسے چننی چاہئے۔“

 

 25زبور14آیت:
”خداوند کا راز وہی جانتے ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں۔ اور وہ اپنا عہد ان پر ظاہر کرتا ہے۔“

 

 31زبور19آیت:
”اے خداوند تیری مہربانی کس قدر عظیم ہے۔ جو تو نے اپنے ڈرنے والوں کےلئے رکھ چھوڑی ہے۔ جو تو بنی آدم کے رو برو اپنے پناہ گیروں پر ظاہر کرتا ہے۔“

 

 33زبور18آیت:
”دیکھو خداوند کی نگاہ ان پر ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔ ان پر جن کی امید اس کی شفقت پر ہے۔“

 

 85زبور9آیت:
”یقیناً اس سے ڈرنے والوں کےلئے اس کی نجات قریب ہے۔ تا کہ جلال ہماری سر زمین میں بسے۔“

 

 103زبور11آیت:
”کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اسی قدر اس کی رحمت اس کے ڈرنے والوں پر ہے۔“

 

 103زبور13آیت:
”جس طرح باپ اپنے بچوں پر رحم کرتا ہے ۔ا سی طرح خداوند اپنے ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے۔“

 

 103زبور17آیت:
”لیکن خداوند کی رحمت اس سے ڈرنے والوں پر ازل سے ابد تک ہے۔ اور اس کا عدل فرزندوں کے فرزندوں کےلئے ہے۔“

 

 111زبور4اور5آیت:
”اس نے اپنے عجائبات کو یاد گار ٹھہرایا ہے۔ خداوند رحمان اور رحیم ہے۔ اس نے اپنے ڈرنے والوں کو خوراک دی۔ وہ اپنے عہد کو ابد تک یاد رکھے گا۔“

 

 115زبور13آیت:
”کیا چھوٹے کیا بڑے وہ خداوند سے ڈرنے والوں کو برکت دے گا۔“

 

 128زبور1تا4آیت:
” مبارک ہے تو جو خداوند سے ڈرتا ہے جو اس کی راہوں پر چلتا ہے۔ کیونکہ تو اپنے ہاتھوں کی محنت سے کھائے گا۔ تو مبارک اور سعادت مند ہو گا۔ تیری بیوی تیری چار دیواری میں پھلدار تاک کی مانند ہوگی۔ تیری اولاد تیرے دستر خوان کے گرد زیتون کی شاخوں کی طرح ہوگی۔ دیکھ یونہی مبارک ہے وہ شخص جو خداوند سے ڈرتا ہے۔“

 

 145زبور19آیت:
وہ اپنے ڈرنے والے کی خواہش پوری کرے گا اور ان کی فریاد سن کر انہیں بچائے گا۔“

 

 امثال 10باب27آیت:
خداوند کا خوف ایام کو بڑھاتا ہے۔“

 

 امثال14باب26آیت:
خداوند کے خوف میں طاقتور کا بھروسہ ہے اور اس کے فرزندوں کےلئے پناہ گاہ ہو گا۔“

 

 امثال14باب27آیت:
خداوند کا خوف زندگی کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے بچاتا ہے۔“

 

 امثال15باب33آیت:
خداوند کا خوف حکمت کی تادیب ہے اور سرفرازی سے پہلے فروتنی ہے۔“

 

 امثال16باب6آیت:
”شفقت اور سچائی سے بدی کا کفارہ دیا جاتا ہے اور خداوند کے خوف سے انسان بدی سے الگ رہتا ہے۔“

 

 امثال19باب23آیت:
خداوند کا خوف زندگی بخش ہے۔ خدا ترس اطمینان سے آرام کرے گا اور بلا میں مبتلا نہ ہوگا۔“

 

 امثال22باب4آیت:
”فروتنی اور خداوند کے خوف کا اجر دولت۔ عزت اور زندگی ہے۔“

 

 امثال23باب17آیت:
”دن بھر خداوند سے خوف کرتا رہ۔“

 

 وعظ 8باب12اور13آیت:
”خطاکار سو دفعہ شرارت کرتا ہے اور اس کے دن بڑھائے جاتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ خداوند سے خوف کھانے والے اسی خوف کھانے کے باعث نیک جزا پائیں گے۔ اور شریر کا ہر گز بھلا نہ ہوگا اور نہ اس کے دن بڑاھئے جائیں گے بلکہ وہ سائے کی طرح جاتا رہے گا کیونکہ وہ خدا سے خوف نہیں کھاتا۔“

 

 وعظ 12باب13اور14آیت:
”پس ہم سب باتوںکا خاتمہ سنیں۔ خدا سے ڈر اور اس کے حکموں کو مان کیونکہ یہ ہر انسان کےلئے مناسب ہے۔ کیونکہ خدا ہر کام کو عدالت میں لائے گا تا کہ خواہ نیک ہو خواہ بد ہر پوشیدہ بات کا بدلہ دے۔“

 

 میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہ آسمان سے ہی ظاہر ہے کہ ہم یہاں کسی خاص مقصد کےلئے جی رہے ہیں۔خدا کا خوف کیا ہے کہ جو یہ ڈر رکھتے ہیں وہ ان تمام وعدوں کے پابند ہیں کو ہم نے ابھی پڑھیں ہیں؟ اس کا کیا مطلب ہے ” خداوند سے ڈرو“؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا کا خیال آتے ہی کانپنا شروع کر دیں یا دہشت محسوس کریں؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ یہ موضوع ”خداوند کا خوف“ آج کےلئے موثر نہیں کیونکہ ہم خدا کے فرزند ہیں؟ اس کے علاوہ، کیا 1 یوحنا ہمیں نہیں بتاتا کہ محبت میں ڈر نہیں ہوتا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ”خدا کا خوف“ صرف پرانے عہد نامہ کےلئے تھا؟ اس کالم کا مقصد ان سوالات کے جوابات پیش کرنا ہے۔

 

 1 خداوند کا خوف: یہ محض احترام ہی نہیں اور نہ ہی دہشت ہے۔

کسی شخص کے پسمنظر پر منحصر، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کو خدا کے خوف کو ایک قسم کی دہشت ، خدا سے خوفزدہ ہونا سمجھتے ہیں۔ دیگر لوگ دوبارہ اسے صرف احترام کہتے ہیں، جیسے مثال کے طور پر ہم اپنے ہم خیالوں یا کام کرنے والے ساتھیوں کا احترام کرتے ہیں یا۔۔۔ وہ اسے بالکل نہیں سمجھتے کیونکہ وہ اسے موجودہ دور سے وابستہ نہیں مانتے۔ میرا یہ خیال نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نظریہ درست ہے۔سادہ احترام سے آغاز کرتے ہیں: اپنے مساوی لوگوں کے مابین احترام اس احترام جیسا نہیں جو احترام سب سے اعلیٰ ہستی کا ہے۔ ایک بادشاہت میں کوئی شخص اپنے بادشاہ کا احترام اس طرح سے نہیں کرتا جیسے اپنے ساتھی کا کرتا ہے۔ اگر چہ اسے تخت کے سامنے مکمل دلیری ہو، جیسے کہ ہمیں ، مسیح کے خون کے وسیلہ سے ، خدا کے تخت کے سامنے دلیری ہے، حتیٰ کہ وہ بادشاہ کا فرزند ہی کیوں نہ ہو، جیسے کہ ہم ایمان کے وسیلہ سے ہیں، وہ بادشاہ کے سامنے ایک ماتحت بھی ہے۔ اور جیسے کہ سبھی بادشاہوں کا، بادشاہوں کے بادشاہ کا احترام نہایت ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ حقیقت کہ ہم بادشاہ کے فرزند ہیں خوف کو، اس احترام کو جو بادشاہ، سب سے عظیم و اعلیٰ ہستی، کےلئے لازم ہے ختم نہیں کرتی، اور نہ ہی یہ حقیقت اس خوف کو سادہ احترام میں تبدیل کرتی ہے، جیسے کہ ہم دوسرے ساتھیوں کا احترام کرتے ہیں۔

دوسری جانب، بادشاہ کا بیٹا بادشاہ تک اس طرح سے رسائی نہیں پائے گا جیسے کہ ایک عام اجنبی آدمی کو رسائی ملتی ہے۔ ایک بیٹا بادشاہ ڈر کے ساتھ نہیں بلکہ دلیری اور پوری اعتمار کے ساتھ پہنچے گا، یہ جانتے ہوئے کہ جس سے وہ بات کر رہا ہے وہ اس کا پیارا باپ ہے۔اسی طرح اور جیسے کہ ہم نے پہلے یہ کہا کہ وہ اس احترام کے ساتھ وہاں جائے گا جیسے کہ وہ کسی ساتھی کے پاس نہیں جاتا بلکہ اپنے باپ کے پاس جاتا ہے، جو عظیم و اعلیٰ، خداوند وں کو خدا اور بادشاہوں کا بادشاہ بھی ہے۔دوسرے الفاظ میں، یہ حقیقت کہ ہم بادشاہ کے فرزند ہیں اس کا مطلب یہ ہے خداوند کے خوف کو بادشاہ کی دہشت یا اس سے خوفزدہ ہونا نہ تصور کیا جائے۔ بلکہ اسے بہت زیادہ اور گہرا احترام تصور کیا جانا چاہئے جو باپ کےلئے اس کی اولاد پر فرض ہے، جو کہ اس کے ساتھ ساتھ تمام چیزوں کا خالق ہے ، سب سے عظیم و برتر ہستی۔

درج بالا کو واضح کرنے کے بعد آئیے ان حوالہ جات کو دیکھیں جو خدا کی عما کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ خداوند کے خوف کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ میں ان حوالہ جات کو خدا کی عما اور عظمت بیان کرنے کےلئے استعمال کرتا ہوں نہ کہ یہ کہنے کےلئے کہ مسیحیوں کو خدا سے ڈرنا چاہئے، اور خدا کے آگے کانپنا چاہئے۔جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا اور ہم مزید دیکھیں گے کہ خدا کا خوف سے مراد خدا سے ڈرنا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے دور میں، جس میں یسوع مسیح نے انسان اور خدا کے مابین ایک پائے جانے والے خلا کو مٹانے کےلئے ایک پل کا کام کیا،خدا کا خوف رکھنے سے مراد اس تک بطور باپ (دلیری کے ساتھ اور اساس سے ڈرے بنا) اور ؑعظیم و برتر کے طور پر (گہری عزت و احترام کے ساتھ) جانا چاہئے۔ ان حوالہ جات کی طرف جاتے ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا، آئیے یرمیا 10باب6اور7آیت سے شروع کرتے ہیں:

 

  ”کیونکہ اے خداوند تیرا کوئی نظیر نہیں۔ تو عظیم ہے اور تیرے نام کی قدرت عظیم ہے۔ قوموں کے بادشاہ کون تجھ سے نہ ڈرے؟

 

 اور مکاشفہ 15باب4آیت:
 ”اے خداوند کون تجھ سے نہ ڈرے گا اور تیرے نام کی تمجید نہ کرے گا؟

 

 اور یرمیاہ5باب22تا24آیت:
خداوند فرماتا ہے، کیا تم مجھ سے نہیں ڈرو گے؟ تم میرے حضور نہیں کانپو گے؟ جب میں نے لا تبدیل حکم سے سمند کے ساحل کو حد ٹھہرایا جس سے وہ آگے نہیں بڑھتا۔ اس کی موجیں اچھلیں۔ تو بھی غالب نہیں آئیں گی۔ وہ شور کریں بھی تو نہیں بڑھیں گی۔ لیکن اس امت کا دل باغی اور سرکش ہے۔ وہ باغی ہوگئے اور چلے گئے۔ اور وہ اپنے دل میں نہیں کہتے کہ ہم خداوند اپنے خدا سے ڈریں۔ جو ہمیں موسم پر پہلی اور پچھلی بارش دیتا ہے اور جو ہمارے لئے فصل کے مقررہ ہفتوں کو محفوظ رکھتا ہے۔“

 

 زبور33باب6تا9آیت:
”آسمان خدا وند کے کلام سے اور اس کا تمام لشکر اس کے منہ کے دم سے بنایا گیا۔ وہ سمند رکا پانی گویا مشک میں جمع کرتا ہے۔ وہ سمندر کو مخزنوں میں رکھتا ہے۔ تمام زمین خداوند سے ڈرے۔ جہان کے سب باشندے اس کا خوف رکھیں۔ کیونکہ اس نے فرمایا اور خلق ہوا۔ اور اس نے حکم دیا اور قائم ہوا۔“

 

 خدا نے ہمیں اور ساری کائنات کو خلق کیا۔ ہر چیز، دیکھی اور اندیکھی اس کے کلام سے خلق میں آئی۔ وہ ہمارا باپ اور ہمارا خداوند ہے۔ وہ سب سے عظیم و برتر ہے۔ خوف اور خدا کی عما کے احترام کے بنا کلام کا علم محض سرسری علم ہے جو یقیناً تکبر کی طرف لے جاتا ہے( 1 کرنتھیوں 8باب1آیت)۔ جیسے کہ امثا ل کی کتاب ہمیں بتاتی ہے:

 

 امثال 2باب1تا5آیت:
”اے میرے بیٹے! اگر تو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے حکموں کو اپنے پاس محفوظ رکھے۔ ایسا کہ تو حکت کی طرف کان لگائے۔ اور تیرا دل فہمید کی طرف مائل ہو۔ ہاں۔ ایسا کہ تو دانش کو پکارے اور فہم کی طرف اپنی آواز اٹھائے اگر تو اسے چاندی کی طرح ڈھونڈے اور پوشیدہ خزانو ں کی مانند اس کی تاش کرے تو تو خداوند کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو جانے گا۔“

 

اگر صرف خدا کے کلام ہمارے اندر قیام پائے، اگر یہ صرف ہمارے دل کا حصہ بنے تو ہم خدا کے خوف کو سمجھیں گے۔اس لئے اگر ہمارے پاس عظیم و برتر کےلئے احترام نہیں ہے ، تو ہمارے پاس کلام کا جو بھی علم ہے وہ محض سرسری علم ہے جو، جب تک کہ ہم اسے اپنے دماغ کی بجائے دل میں جمع نہیں کرتے، پھل نہیں دے گا اور حقیقتاً تکبر کی جانب لے جائے گا۔

 

 2 نئے عہد نامہ میں خداوند کا خوف اور دلیری.

 ایک نظریہ جو کچھ لوگوں نے اپنایا ہے ، بلاوسطی یا بلواسطہ طور پر، کہ خدا کا خوف کسی طرح خداوند یسوع مسیح کے کام سے ختم ہو گیا ہے۔لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ درست ہے۔ یہاں کچھ نئے عہد نامہ کے حوالہ جات ہیں جو خدا کے خوف کے بارے میں بات کرتے ہیں:

 

 اعمال9باب 31آیت:
”اس وقت کلیسیا نے سارے یہودیہ اور جلیل اور سامریہ میں آرام پایا۔ اور خداوند کے خوف میں چل کر ترقی کرتی گئی اور روح القدس کی ہدایت سے بڑھتی گئی۔“

 

 1پطرس 2باب17آیت:
”سب کی عزت کرو۔ برادری سے محبت رکھو۔ خدا سے ڈرو۔ بادشاہ کی عزت کرو۔“

 

 2کرنتھیوں 7باب1آیت:
”پس اے پیارو! ایسے وعدے پا کر آﺅ۔ ہم اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک کریں اور خدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔“

 

 کلسیوں3باب22آیت:
”اے غلامو! تم ان کے جو جسم کی رو سے تمہارے مالک ہیں سب باتوں میں فرمانبردار رہو مگر آدمیوں کو خوش کرنے والوں کی مانند دکھاوے کےلئے نہیں بلکہ صاف دلی اور خدا کے خوف سے۔“

 

قرنیلئیس، پہلا غیر یہودی جس کے گھر میں انجیل کی تبلیغ کی گئی، خدا سے خوف کھانے والا شخص تھا۔ جیسا کہ اعمال 10باب1اور2آیت ہمیں بتاتی ہے؛

 

 اعمال10باب1اور2آیت:
”قیصریہ میں قرنیلئیس نامی ایک شخص تھا جو اس سپاہ کا ایک صوبہ دار تھا جو اطالیہ کی کہلاتی تھی۔ وہ اپنے سارے گھرانے سمیت دیندار اورخدا ترس تھا اور لوگوں کو بہت خیرات دیتا اور ہمیشہ خدا سے دعا کرتا تھا۔“

 

 اور پولوس نے اعمال 10باب 34اور35آیت میں کہا۔

 

 اعمال10باب34اور35آیت:
”تب پطرس نے منہ کھول کر کہا ، اب تو میں تیقن کے ساتھ جان گیا ہوں کہ خدا کسی کی طرفداری نہیں کرتا، بلکہ کسی بھی قوم میں جو اس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اسے پسند آتا ہے۔“

 

ہم نے دیکھا کہ خدا کو خوف نئے عہد نامہ میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ، اور میں پہلے ہی اس کا ذکر کر چکا ہوں، نئے عہد نامہ اور پرانے عہد نامہ میں بہت وسیع امتیاز ہے۔ یہ اس حقیقت کی بدولت ہے کہ اب ، خداوند یسوع مسیح کے کام کے وسیلہ سے، خدا کے ساتھ ایک الگ قسم کا تعلق دستیاب ہے۔ جب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا کا خوف کھانے سے کیا مراد ہے ہمیں اس الگ قسم کے تعلق کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔بیان کردہ مثال کو استعمال کرتے ہوئے، کسی بادشاہت کے ایسے شہری جو غیر ہیں اور خود بادشاہ کے بچوں میں بہت وسیع امتیاز ہے۔غیر لوگ اور بادشاہ کے بچے اس تک ایک ہی طرح سے نہیں پہنچتے۔ غیر لوگ بادشاہ تک شاید اس کی عما کے باعث ڈر کے ساتھ اور اس کے ساتھ رشتہ نہ ہونے کی کمی کے باعث پہنچتے ہیں اور اس کی بجائے اس کے ماتحت ہوتے ہوئے آتے ہیں۔ لیکن یہ بچوں کےلئے موزوں نہیں ہے۔ بچے باپ کے پاس دلیری، اس کے ڈر کے بنا آتے ہیں جیسے چھوٹے بچے اپنے پیارے باپ کے پاس آتے ہیں۔ کلام بھی ہمیں ایسے ہی تخت کے پاس آنے کی تلقین کرتا ہے۔

 

عبرانیوں4باب14تا16آیت:
”پس جب کہ ہمارا ایک ایسا عظیم کاہن اعظم ہے۔ یعنی یسوع ابن خدا۔ جو افلاک سے گزر گیا ہوا ہے۔ آﺅ ہم اپنے اقرار پر ثابت قدم رہیں۔ کیونکہ ہمارا کاہن اعظم ایسا نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے۔ بلکہ جو گناہ کے سوا سب باتوں میں ہماری مانند آزمایا گیا۔ پس آﺅ ہم توقع کے ساتھ فضل کے تخت کے پاس جائیں تا کہ رحم حاصل کریں اور ضرورت کے وقت کی مدد کےلئے فضل حاصل کریں۔“

 

 فضل کے تخت کے پاس ہم دلیری کے ساتھ آتے ہیں۔ یہ ہماری وجہ سے نہیں بلکہ خداوند یسوع مسیح کی وجہ سے ہے، جس نے ہمارے اور خدا کے مابین خلا کو مٹایا اور ان لوگوں کےلئے ممکن بنایا کہ وہ خدا کے فرزند بنیں کو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے(1یوحنا5باب1 آیت)۔جیسے 1یوحنا 4باب17تا19آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

 ”محبت میں ڈر نہیں ہوتا بلکہ کامل محبت ڈر کو باہر نکال دیتی ہے کیونکہ ڈر میں سزا ہے مگر جو صرتا ہے اس میں کامل محبت نہیں۔

 

 اگر ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہم اس سے خوف زدہ نہیں ہوں گے کیونکہ ڈر اور محبت ایک ساتھ نہیں چلتے۔ لیکن دوبارہ یہ خوف دہشت نہی اور نہ ہی ہمیں اس سے خوف زدہ ہونا چاہئے۔ اگر یہ خوف ہے تو ہم اسے حقیقتاً پیار نہیں کرتے جیسے کہ ہمیں کرنا چاہئے، کیونکہ محبت میں خوف نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ ہم نے کہا: خدا کے خوف سے مراد اس کے پاس بطور باپ(دلیری اور اس سے خوف زدہ ہوئے بنا) اور ایک عظیم و برتر ہستی (گہرے احترام کے ساتھ) کے طور پر آنا چاہئے۔

 

 3 خدا سے ڈرنا: اس کی مرضی بجا لانا.

درج بالا مرحلے کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اگر کوئی خد کا یہ خود نہیں رکھتا تو وہ خدا کی مرضی کے مطابق کیسے چل سکتا ہے،اور اگر کوئی خدا کی مرضی پوری نہیں کرتا تو وہ خدا کا خوف کیسے رکھ سکتا ہے۔ خدا کا خوف رکھنے سے مراد اس کی مرضی بجا لانا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے ہمیں بتایا ہے اس کے لئے ایمان کا قدم اٹھانا چاہے ہمین اس بات کا پتا نہ چلے کہ کیسے سب کام تکمیل کو پہنچے گا اور چاہے ہم نے مکمل تصویر نہ دیکھی ہو۔وہ جو خدا کا خوف رکھتے ہیں وہ خد ا کی مرضی بھی پوری کرتے ہوں گے۔ جو بھی باپ کہتا ہے وہ ان کےلئے نہایت اہمیت رکھتا ہے اور یہ نا قابل فراموش ہے کیونکہ یہ باپ کے منہ سے بات نکلی ہے۔ خدا کا خوف، خداوند کےلئے گہرا احترام اور اس کی مرضی، خداوند کی فرمانبرداری اور اس کی مرضی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کیونکہ ا ن بچوں کے بارے میں تصور کریں جو نا فرمان ہیں۔ کیا آپ یہ کہیںگے کہ وہ بچے اپنے باپ کا احترام کرتے ہیں؟ شاید وہ اپنے باپ کے پاس چیزیں لینے تو جائیں گے لیکن وہ اپنے باپ کا احترام اور اس سے محبت نہیں کرتے۔ اگر وہ اس سے محبت کرتے تو اس کی مرضی انکے دلوں میں سماجاتی اور وہ اسے پورا کرتے۔ بد قسمتی سے کچھ مسیحی ایسے ہی ہیں: وہ خدا کے پاس صرف تب جاتے ہیں جب انہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور باقی زندگی وہ بالکل ایسے ہی گزارتے ہیں جیسے کہ باقی دنیا گزارتی ہے۔ یہ یقیناً بدلنا پڑے گا۔ اس طرح خدا تک جانے کی بجائے ہمیں اس کے ساتھ اپنا تعلق مظبوط بنانا چاہئے، پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی کی تلاش کرنی چاہئے تو باقی سب ہمیں مل جائے گا(متی6باب33آیت)۔ جیسے فلپیوں2باب5تا11آیت ہماری مثال ، خداوند یسوع مسیح،کے بارے میں کہتی ہے:

 

فلپیوں2باب5تا 11آیت:
پس تمہارا وہی مزا ج ہو جو مسیح یسوع کا تھا۔ کیونکہ اس نے خدا کی ذات میں ہو کر خدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا ۔ بلکہ اس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا اور غلام کی ذات اختیار کر کے انسانوں کا مشابہ ہو گیا ۔ انسانی شکل میں پایا جا کر اپنے آپ کو فروتن کر دیا اور مت بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار رہا۔ اور اسی واسطے خدا نے اسے نہایت بلند کیا۔ اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔ کیا آسمان میں کیا زمین میں کیا عالم اسفل میں۔ اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسو ع مسیح خداوند ہے۔“

 

کلام کہتا ہے، ہمارا مزاج بھی ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ خداوند یسوع مسیح کا تھا۔ یہ مزاج کیا تھا؟ یہ مزاج موت تک فرمانبردار رہنے کا تھا۔ یہ مزاج ”میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو“ والا مزاج تھا(لوقا 22باب42آیت)۔

درج بالا سے جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم خدا کی مرضی پوری نہیں کرتے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم خدا کا خوف رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اس نے کہا:

 

یوحنا14باب 23اور24آیت:
اگر کوئی مجھے پیار کرتا ہے تو وہ میرے کلام پر عمل کرے گا۔ اور میرا باپ بھی اسے یار کرے گا۔ اور ہم اس کے پاس آئیں گے اور اس کے ہاں اپنا مقام کریں گے۔ جو مجھے پیار نہیں کرتا وہ میری باتوں عمل نہیں کرتا۔ اور جو کلام تم سنتے ہو وہ میرا نہیں بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔“

 

اگر ہم اس پر عمل نہیں کرتے کو وہ کہتا ہے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم خدا سے محب رکھتے ہیں۔اسی طرح، میرا ماننا ہے کہ اگر ہم وہ کام نہیں کرتے جو ہم جانتے ہیں کہ اس کی مرضی ہے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم خداوند کا خوف رکھتے ہیں۔

اس حصے کو ختم کرتے ہوئے، خدا کے خوف سے مراد خداوند کی فرمانبرداری بھی ہے۔ اس کا مطلب خدا کی مرضی کا خزانہ اکٹھا کرنا اور اس کی مرضی بجا لانا چاہے کچھ بھی ہو۔ ایک فقرے میں، اس سے مراد، خدا اور اس کی مرضی کو پورے طور سے ماننا۔

 

 4 نتیجہ:

ہم نے یہ ظاہر کرتے ہوئے اس کالم کا آغاز کیا کہ خداوند کاخوف برکات کا منبع ہے۔ حقیقتاً کلام میں سے ایسا کوئی بھی اور موضوع پانا مشکل ہے جس میں اتنے سارے وعدے شامل ہیں: عمر درازی، خوشحالی، آزادی، اور بہت سے وعدے ان لوگوں کے ساتھ منسلک ہیں جو خدا کا خوف رکھتے ہیں۔

پھر ہم نے خداوند کے خوف کی وضاحت کرنے کی کوشش کی یہ واضح کرتے ہوئے کہ یہ صرف احترام نہیں، جیسے کہ ہم اپنے برابر کے لوگوں کا احترام کرتے ہیں،اور نہ ہی اس کا مطلب خدا سے ڈرنا یا دہشت کھانا ہے۔ اس کے برعکس خدا کا خوف خدا کا بہے عمیق احترام ہے جو باپ، خدا، خداوند اور ہر چیز کے خالق کےلئے موزوں ہے

آخر میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ خدا کی مرضی پوری کرنے کے بغیر خدا کا خوف نہیں۔ ددوسرے لفظوں میں جو کوئی خدا کا خوف رکھتا ہے وہ خدا وند کی مرضی بھی بجا لاتا ہے اور جو کوئی اس کا خوف نہیں رکھتا، بلکہ اپنے جسم کو مطمعین کرنا چاہتا ہے، وہ اس کی مرضی پوری نہیں کرتا یا وہ یہ تب کرتا ہے جب وہ کرنا چاہتا ہے، حالات کے انحصار پر۔

اس کالم کو ختم کرتے ہوئے آئیے ہم وعظ میں سے اس ہدایت کو غور سے سنیں۔

 

وعظ 12باب13اور14آیت:
”پس ہم سب باتوںکا خاتمہ سنیں۔ خدا سے ڈر اور اس کے حکموں کو مان کیونکہ یہ ہر انسان کےلئے مناسب ہے۔ “

 

 تسسوس کولچوگلو




 

خدا وند کا خوف (PDF) PDF edition


نشان زد کریں اور دوسروں کو شریک کریں



Follow BibleAccuracy on Twitter