بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

کلیسیا ،  تعریف ،  اس کا سر اور اس کے اعضا

 

       حقیقتاً ایسے بہت ہی کم الفاظ ہیں جو مسیحی لوگ اکثر استعمال کرتے ہیں جیسے کہ ”کلیسیا“ ۔  بد قسمتی سے  ،   ایسے بہت تھوڑے سے لوگ ہیں جو اسے اسی طرض سمجھتے ہیں جیسے بائبل سمجھتی ہے اور اسکے بائبل والے معنوں کو عملی طور پر لاگو کرتے ہیں  ۔  کلیسیا کے بارے میں جو بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے وہ ذیل میں درج ہے  ،  اور ہم اس کالم کو اس کے تجزیہ کےلئے منسوب کرتے ہیں  ۔   

 

 1 کلیسیا  ،   تعریف :

 

      کلیسیا کے معنوں پر جو بہت سے لوگ سمجھتے ہیں ایک نظر ظاہر کرتی ہے کہ بہت بڑی اکثریت اس لفظ کو ایسی جگی کو بیان کرنے کےلئے استعمال کرتی ہے جہاں بہت سی مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں یا پھر بہت فرقہ جات کے عنوان میں ایک حصہ ہے[1]۔  تاہم لفظ کلیسیا ءکے یہ استعمالات اس کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے جو خدا کا کلام بائبل کے حوالے سے کہتا ہے  ۔ 

 

1.1 لفظ ”Ekklesia“ اور اس کا عمومی مطلب :

 

       لفظ ”کلیسیا“ یو نانی لفظ ”Ekklesia“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ”جو بلایا گیا ہو “[2]۔  جیسا کہ E.W.Bullingerکہتا ہے یہ لفظ کو استعمال کیا جاتا تھا ”کسی جماعت سے لیکن خاص طور پر شہریوں سے یا ان کے انتخابات سے  ،  یعنی  [3]Burgesses“۔  نئے عہد نامے میں یہ لفظ 115بار استعمال ہوا  ،  جن میں سے تےن بار اسکا ترجمہ ”جماعت “ کے طور پر اور 112بار ” کلیسیا“کے طور پر ہوا ہے ۔  اس بات پر غور کرنا کہ اس لفظ کا تین بار ترجمہ ”جماعت “ہوتا تھا  ۔  درحقیقت  ،  اعمال 19باب ،  پولوس کے خلاف بیان دیتے ہوئے جواس میں ٹھہرا تھا کہتا ہے:

 

اعمال19باب32 ،  35 ،  39اور41آیت:
”اور بعض کچھ چلائے اور بعض کچھ کیونکہ مجلس درہم برہم ہو گئی تھی اور اکثر لوگوں کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ ہم کس لئے اکٹھے ہوئے ہیں ۔    ۔   ۔   ۔   پھر شہر کے محرر نے لوگوں کو ٹھنڈا کر کے کہا ۔   ۔   ۔   ۔   اگر تم کسی اور امر کی تحقیقات چاہتے ہو تو باضابطہ مجلس میں فیصلہ ہوگا ۔   ۔   ۔   ۔   اور یہ کہہ کر اس نے مجلس کو برخاست کیا ۔ 

 

       جیسا کہ اس حوالہ سے یہ ظاہر ہے کہ لفظ ”Ekklesia“غیر مسیحی استعمال کرتے تھے  ۔  اور حتیٰ کہ یہ مسیحیوں کے مخالف جماعتوں میں بھی استعمال ہوتا تھا  ۔ 

 

     لفظ ”Ekklesia“ لفظ کا عمومی مطلب ”جماعت “بھی LXXمیں اس لفظ کے استعمال سے ظاہر ہو تا ہے  ۔  یہاں یہ لفظ 71بار استعمال ہوا  ،  اور ہر بار عبرانی لفظ ’[qahal“کے ترجمہ کے طور پر استعمال ہوا جس کا مطلب ہے ”اکٹھے ہونا  ،  اجتماع  ،  عمل  ،  جمع ہونا ،  جماعت  ،  اکٹھ  ،  جماعت کے واسع معنوں میں آدمیوں کا ہجوم  ،  فوجوں کا  ،  اقوام کا  ،  بد کاروں  ،  راستبازوں کا ہجوم [4] ۔  “وغیرہ  ۔ 

 

      نتیجتاَ :کلیسیا کا ترجمہ جو کنگ جیمز ورژن کرتا ہے ’اجتماع “یہ لفظ نہ تو مسیحی اکٹھ کےلئے استعمال ہوتا تھا اور نہ ہی کلیسیا یا گرجا کی عمارت کےلئے استعمال ہوتاتھا  ۔  اس کے بر عکس  ،  عمومی اصطلاح میں یہ کسی بھی جماعت جو کسی بھی قسم ہو کےلئے استعمال ہوتا تھا  ۔ 

 

 

1.2 لفظ ”Ekklesia“: خدا لے کلام میں اس کے معنی :

 

       یہ دیکھنے کے بعد Ekklesiaکا عمومی مطلب کیا ہے  ،  اب وقت یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ خدا کے کلام میں اس کا کیا مطلب ہے  ،  اور خاص طور پر کلام کے اس حصے کے مطابق جو فضل کے دور کا حوالہ دیتا ہے (یعنی کہ اعمال اور رسولوں کے خطوط کا حوالہ )[5] ۔  جس میں ہم رہتے ہیں ۔   اگرچہ یہاں بھی اس لفظ کامطلب ”جماعت “ہے  ،  اب کی بار یہ جماعت خاص قسم کی ہے  ،  جس میں وہ تمام ارکان شامل ہیں جو نئے سرے سے پید اہوئے  ،  یعنی کہ  ،  وہ لوگ جنہوں نے اپنے منہ سے خدا وند یسوع کا اقرار کیا اور ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا (رومیوں 10باب9آیت ) ۔  پوری دنیا میں مسیح کے ایمانداروں[6]۔  کو بیان کرنے کےلئے بائبل ایک اور اصطلاح استعمال کرتی ہے جو کہ ”بدن “یا ”مسیح کا بدن “ہے  ۔  ”کلیسیا “اور ”بدن“یا ”مسیح کابدن“ایک ہی اصطلاح ہیں  ،  یہ سب مسیح کے ایمانداروں کی کاملیت کو بیان کرنے کےلئے استعمال ہوتے ہیں  ،  اور یہ خدا کے کلام میں بہت سے حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے  ۔  پس 1کرنتھیوں 12باب27آیت سے شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں :

 

1کرنتھیوں12باب27آیت:
اسی طرح تم مل کر مسیح کا بدن ہو اور فرداً فرداً اعضا ہو ۔ 

 

اور کلسیوں1باب18آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:
”اور وہی
بدن یعنی کلیسا کا سر ہے  ۔ 

 

مزیدافسیوں1باب22اور23آیت کہتی ہے:
”اور سب کچھ اس کے پاﺅں تلے کر دیا اور اسکو سب چیزوں کا سردار بنا کر
کلیسیا کو دے دیا  ۔  یہ اسکا بدن ہے اور اسی کی معموری جو ہر طرح سے سب کا معمور کرنے والا ہے  ۔ 

 

      ہم  ،  اکٹھے ایماندار  ،  مسیح کا بدن تعمیر کرتے ہیں  ۔  خدا کا کلام یہ نہیں کہتا کہ ایک جگہ پر ایک بدن ہے اور دوسرے مقام پر کو ئی اور بدن ہے  ۔  خدا کا کلام کیا کہتا ہے کہ ”تم مسیح کا بدن “”کلیسیا “ہو  ۔  اس کے ساتھ ”آپ“ ،  میں اور عموماَ تمام نئے سرے سے پیدا ہوئے ایماندار تعلق رکھتے ہیں جہاں تک خدا کے کلام کا تعلق ہے  ،  یہاں کسی جماعت  ،  رنگ  ،  نسل  ،  معاشرتی معیار  ،  رہنے کی جگہ یا کسی اور وجہ سے کوئی امتیاز نہیں ہے  ۔  حقیقتاَ  ،  گلیتیوں 3باب26تا28آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

گلتیوں3باب26تا28آیت:
”کیو نکہ تم سب اس ایمان کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے خدا کے فرزند ہو
 ۔  اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہو نے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی  ۔  نہ کوئی غلام نہ آزاد  ۔  نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو  ۔ 

 

      ہم سب  ،  بنا کسی امتیاز کے  ،  یسوع مسیح پر ایمان کے وسیلہ سے خدا کے فرزند اور سب  ،  دوبارہ بغیر کسی امتیاز کے اور اسی کے ایمان کے وسیلہ سے  ۔  مسیح کے بدن کے اعضا ہیں  ۔ 

 

      یہ حقیقت کہ کلیسیا یا بدن ایک ہی ہے نہ کہ بہت سے ہیں کلام پاک میں موجود دےگر کئی حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے  ۔  رومیوں 12 باب4 اور 5 آیت شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں :

 

ررومیوں12باب 4اور5آیت:
”کیو نکہ جس طرح ہمارے
ایک بدن میں بہت سارے اعضا ہو تے ہیں اور تمام اعضا کا کام یکساں نہیں  ۔  اسی طرح ہم بھی جو بہت سے ہیں مسیح میں شامل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضا ہیں  ۔ 

 

1کرنتھیوں12باب12اور13آیت بھی ہمیں بتاتی ہے کہ:
”کیو نکہ جس طرح بدن ایک ہے اور اسکے اعضا بہت سے ہیں اور بدن میں کے سب اعضا گو بہت سے ہیں مگر باہم مل کر
ایک ہی بدن ہیں اسی طرح مسیح بھی ہے  ۔  کیو نکہ ہم سب نے خواہ یہودی ہوں خواہ یونانی  ۔  خواہ غلام خوہ آزاد  ۔  ایک روح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لئے بپتسمہ لیا اور ہم سب کو ایک ہی روح پلایا گیا  ۔ 

 

1کرنتھیوں12باب20آیت:
”مگر اب اعضا تو بہت سے ہیں لیکن
بدن ایک ہی ہے  ۔ 

 

افسیوں2باب16آیت:
”اور صلیب پر دشمنی کو مٹا کر اور اس کے سبب سے دونوں کو
ایک تن بنا کر خدا سے ملائے  ۔ 

 

افسیوں4باب4آیت:
ایک ہی بدن ہے اور ایک ہی روح  ۔  چنانچہ تمہیں جو بلائے گئے تھے اپنے بلائے جانے سے امید بھی ایک ہی ہے  ۔ 

 

اور آخر کار کلسیوں3باب15آیت:
”اور مسیح کا اطمینان جسکے لئے تم
ایک بدن ہو کر بلائے بھی گئے ہو تمہارے دلوں پر حکومت کرے اور تم شکر گزار رہو  ۔ 

 

       جیسا کہ ان تمام حوالہ جات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کلیسیا مسیح کا بدن ایک ہی بدن ہے جس میں  ،  تمام نئے سے پیدا ہوئے لوگ  ،  شامل ہوتے ہیں  ،  یعنی کہ  ،  وہ سب لوگ جنہوں نے اپنے منہ سے خداوند یسوع مسیح کا اقرار کیا اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا  ۔  بد قسمتی سے  ،  خدا کاکلام جو اتنے واضح طور پر بیان کرتا ہے اسے مسیحیوں کی ایک بہت بڑی اکثریت نظر انداز کرتی دکھائی دیتی ہے ،   جیسا کہ بہت سی جماعتوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے  ۔  حقیقتاَ ،  ہم میں سے اکثر لوگ خو کو مسیح کے ایک بدن کو اعضا اور دےگر مسیحیوں کو اپنے بھائی اور اسی بدن کے اعضا سمجھنے کی بجائے  ،  ہم خود کو فلاں فلاں جماعت کے رکن مانتے ہیں جسے ہم بدن یا کلیسیا کہتے ہیں اور وہ تمام مسیحی لوگ جو ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے وہ ہمارے لئے دشمن نہ کہا جائے تو اجنبی ہیں  ،  خوش قسمتی سے  ،  خدا کاکلام اس نظریے سے اتفاق کرتا ہے  ۔  حقیقتاَ  ،  جیسا کہ ہم نے دیکھا  ،  خدا کےلئے ہم (تماممسیحی )ایک دوسرے کےلئے نہ تو اجنبی ہیں اور نہ ہی دشمن ہیں  ،  چاہے مختلف چیزوں میں ہمارے خیالات مختلف ہیں  ۔  جب تک ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یسوع خداوند ہے اور خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا  ،  ہم خدا کے فرزند  ،  بھائی  ،  ایک ہی بدن کے اعضا ہیں اور درحقیقت  ،  جیسے رومیوں 12باب5آیت کہتی ہے  ،  ایک دوسرے کے اعضا بھی ہیں  ،  کیا یہ زبردست بات نہیں ؟ یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ شیطان نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہوئے کہ یہ بدن ہماری جماعت  ،   گروہ یا فرقے تک محدود ہے  ،  یہ زبردست سچائی ہم سے پوشےدہ رکھی  ،  یہ جماعت  ،  گروہ یا فرقے بدن نہیں بلکہ بدن کے جز ہیں[7] ۔   جو ہزاروں دوسرے فرقوں اور لاکھوں دےگر مسیحیوں پر مشتمل ہے  ،  حتیٰ کہ ان کے عقےدے ہمارے عقےدے سے اتفاق رکھتے ہوں یا نہیں کہ یسوع خداوند ہے اور خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا  ،  جماعتی تضادات اور تفرقوں کی بجائے ہمیں ہمارے دلوں میں ایک بدن کی حقیقت کو پالنا ہو گا  ،  اور اس کے مطابق عمل کرنا ہو گا  ،  دےگر مسیحیوں کی خدمت کرتے ہوئے او ر ان سے محبت رکھتے ہوئے جو اسی بدن کے اعضا ہیں ۔   ورنہ  ،  ہم بدن کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ اور نہ کرتے ہوئے  ،  ایک دوسرے کے ساتھ جنگ جاری رکھیں گے  ۔   

 

 

 2کلیسیا  ،   سر:

 

       یہ دےکھنے کے بعد کلیسیا جیسا کہ بائبل میں واضح کیا گیا ہے  ،  ایک ہے  ،  جو ان لوگوں پر مشتمل ہے جو خدا وند یسوع مسیح اور اسکے جی اٹھنے پر ایمان لائے  ،  اب ہم یہ جاننے کےلئے آگے بڑھےں گے کہ کلیسیا کا سر  ،  مالک کون ہے ؟دوبارہ اس بہت پچیدہ سوال کا جواب بائبل واضح ہے افسیوں 5باب23آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

افسیوں5باب23آیت:
مسیح کلیسیا کا سر ہے  ۔ 

 

       دےگر حوالہ جات جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کلیسیا کا سر مالک خداوند یسوع مسیح ہے  ،  یہ ہیں :

 

افسیوں1باب22آیت:
”اور سب کچھ اس کے پاﺅں تلے کر دیا اور
اس کو سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیسیا کو دے دیا  ۔ 

 

کلسیوں1باب18آیت:
”اور
وہی بدن یعنی مسیح کلیسیا کا سر ہے  ۔ 

 

       جیسا کہ ان تمامحوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وی جسے خدا نے کلیسیا کا خاص ڈائریکٹر  ،  اس سے متعلقہ تمام چیزوں کا سر براہ مقرر کیا ہے وہ خداوند یسوع مسیح ہے[8]۔  وہ سر ہے اور کلیسیا بدن ہے  ۔  اور جیسا کہ ظاہری بدن میں سر وہ حصہ ہوتا ہے جو سارے بدن کی راہنمائی کرتا ہے  ،  اسی طرح مسیح بھی  ،  کلیسیا کی تمام تر باتوں اور چیزوں کا سر ہو تے ہوئے  ،  کلیسیا کے تمام امور کی راہنمائی کرتا ہے  ۔  وہ اور صرف وہی اس کا سر براہ اور مالک ہے  ۔  پس  ،  ان تمام سلسلئہ مراتب کے بر عکس جو کسی بھی جماعت یا گروپ میں مل سکتے ہیں  ،  کلیسیا کا سلسلئہ مراتب  ،  جیسا کہ بائبل میں دیا گیا ہے  ،  ذیل میں پیش کیا جارہا ہے :سب سے پہلے خدا  ،  مسیح کا سر  ،  (1کر نتھیوں 11باب3آیت )ہے  ۔  پھر  ،  مسیح کلیسیا کا سر  ،  اور آخر میں ہم سب لوگ جو مسیح پر اور اس کے جی اٹھنے پر ایمان لاتے ہیں اور مل کر مسیح کا بدن  ،  کلیسیا  ،  ترتیب دیتے ہیں  ۔  ا سلئے نتیجتاَ ،  ”فانی مالکان کے ساتھ بہت سی کلیسیاﺅں “کی بجائے  ،  ”صرف ایک لافانی مالک  ،  خداوند یسوع مسیح کے ساتھ ایک ہی کلیسیا ہے  ۔ 

 

 

3 کلیسیائ ،   اعضا:

 

       ہم یہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ کلیسیا کا رکن بننے کےلئے صرف ایک چیز جس کی ضرورت ہے وہ ہے نئے سرے پیدا ہونا  ،  نجات یافتہ بننا جو کہ تب ہوتا ہے جب  ،  میں دوہراتا ہوں  ،  خداوند یسوع کا اپنے منہ سے اقرار کرتے ہیں اور دل سے ایمان لاتے ہیں کہ خدا نے اسے مردوں میں جلایا (رومیوں 10باب9آیت ) ۔  ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کلیسیا کا سر  ،  مالک خدا وند یسوع مسیح ہے  ۔  یہ سب جاننے کے بعد اب ہم مسیح کے بدن میں اعضاکے کردار کا تفصیلاَ تجزیہ کرنے کےلئے آگے بڑھتے ہیں  ۔ 

 

 

 3.1کلیسیا میں مختلف ضروریات اور مختلف کردار :

 

       یہ اتفاقیہ بالکل نہیں ہے کہ بائبل کلیسیا کو ایک بدن کے طور پر پیش کرتی ہے  ۔  گو کہ پچھلے حسے میں  ،  یسوع مسیح بطور کلیسیا کے سر کے مباحثہ میں ہم نے اس کے اس کے چند پہلوﺅں پر غور کیا  ،  تا ہم 1کر نتھیوں 12باب ہمیں مزید معلومات فراہم کرتا ہے  ۔  پس  ،  12آیت سے شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں :

 

1کرنتھیوں12باب12تا14آیت:
”کیو نکہ جس طرح بدن ایک ہے اور اسکے اعضا بہت سے ہیں اور بدن کے سب اعضا گوبہت سے ہیں مگر باہم ملکر ایک ہی بدن ہیں
اسی طرح مسیح بھی ہے  ۔  کیو نکہ ہم سب نے خواہ یہو دی ہوں خواہ یونانی  ۔  خواہ غلام خواہ آزاد  ۔  ایک ہی روح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لئے بپتسمہ لیا اور ہم سب کو ایک ہی روح پلایا گیا  ۔  چنانچہ بدن میں ایک ہی عضو نہیں بلکہ بہت سے ہیں  ۔ 

 

      اس حوالے میں چار بار ہمیں بتایا گیا ہے کہ بدن ایک ہی ہے  ،  جو ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کرتا ہے جو ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں  ،  یعنی کہ  ،  ایک بدن اور صر ف ایک ہی بدن ہے جس سے تمام مسیحی تعلق رکھتے ہیں  ۔  اس کے علاوہ  ،  ایک اور بات جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ”بدن ایک عضو نہیں بلکہ بہت سے اعضا ہیں  ۔  “ 15تا20آیات  ،  جو اس کے بعد آئیں گی  ،  ہمیں یہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیں گی جوخدا ہمیں بتانا چاہتا ہے  ۔  یہاں ہم پڑھتے ہیں :

 

1کرنتھیوں12باب15تا20آیت:
”اگر پاﺅں کہے چو نکہ میں ہا تھ نہیں اس لئے میں بدن کا نہیں تو وہ اس سبب سے بدن سے خارج تو نہیں  ۔  اور اگر کان کہے چونکہ میں آنکھ نہیں اس لئے بدن کا نہیں تو وہ اس سبب سے بدن سے خارج تو نہیں  ۔  اگر سارا بدن آنکھ ہی ہوتا تو سننا کہاں ہو تا َاگر سننا ہی ہوتا تو سونگھنا کہاں ہو تا
مگر فی الواقع خدا نے ہر ایک عضو کو بدن میں اپنی مرضی کے موافق رکھا ہے  ۔  اگر وہ سب ایک ہی عضو ہو تے تو بدن کہاں ہوتا؟مگر اب اعضا تو بہت سے ہیں لیکن بدن ایک ہی ہے  ۔ 

 

       اس حوالے میں  ،  پولوس رسول مکاشفہ کی بدولت ہمارے ظاہر ی بدن اور مسیح کے بدن  ،  کلیسیا میں مشابہت پیدا کرتا ہے  ۔  اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جیسے ظاہری بدن کے بہت سے اعضا ہیں جن میں سے ہر ایک بدن کےلئے لازماََ کوئی نہ کوئی کام کرتا ہے  ،  اسی طرح مسیح کے بدن  ،  کلیسیا میں بہت سے اعضا ہین  ،  جن میں سے ہر کوئی بدن میں اس کی مرضی کے موافق رکھا گیا ہے  ،  تاکہ وہ کام سر انجام دے جس کے لئے اسے وہاں رکھا گیا ہے  ،  اور جو کام دوسرے اعضا سے مختلف ہو سکتا ہے  ،  اسے بہتر طور پر سمجھنے کےلئے  ،  پولوس ہمیں تصور کرنے کو کہتا ہے کہ اگر ہمارا سارا بدن آنکھ ہی ہوتا تو  ۔  تو ظاہر ہے کہ دیکھنے کے علاوہ سونگھنا  ،  حرکت کرنا  ،  جھکنا یا دوسرے کا م کرنا بدن کےلئے ناممکن ہوتا  ۔  اس لئے  ،  صر ف آنکھ ہی کا بدن ہو نے کی بجائے  ،  بدن میں ضرورت کے مطابق مختلف کردار ادا کرنے والے مختلف اعضا کو زیادہ تر جیح دی جائے گی  ۔  اسکی بدولت ہمارے پاس ای ہی وقت میں تمام تر بدن کے اعضا کا کام ہو گا جو بدن کے سارے کاموں کو بہتر طور پر انجام دے سکیں گے  ۔  جیسے 1کرنتھیوں 12باب19آیت کہتی ہے کہ  ،  اگر سب ایک ہی عضو ہوتے (یعنی کہ اگر تمام اعضا کا ایک ہی کرادار ہوتا ) ،  تو بدن کہاں ہوتا “ اس ا شارے کو مسیح کے بدن پر لاگو کرتے ہوئے  ،  اس کی بجائے کہ تمام اعضا ایک ہی کردار ادا کریں  ،  یعنی کہ  ،  تمام اعضا ایک عضو ایک ہونے کی بجائے  ،  بدن میں ترتےب وار امور کا انجام پانا زیادہ موثر ہے اس سے تمام اعضا کے کام سارے بدن کی ضروریات تکمیل پائیں گی ۔   اور بالکل اسی طرح ہوتا ہے  ۔  رومیوں 12باب 4 اور5آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

رومیوں12باب4اور5آیت:
”کیو نکہ جس طرح ہمارے ایک بدن میں بہت سے اعضا ہوتے ہیں اور تمام اعضا کا یکساں کام نہیں  ۔  اسی طرح ہم بھی جو بہت سے ہیں مسیح میں شامل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضا  ۔ 

 

      جیسا کہ درج بالا حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسیح کے بدن میں اعمال کی ترتےب ہے  ،  اور ہر عضو کو کوئی نہ کوئی خاص کام کرنے کےلئے رکھا گیا ہے جو ہر دوسرے عضو کے کام سے مختلف ہو سکتا ہے  ۔  اب بدن میں ہمارے کام کو کون بیان کرتا ہے ؟1کرنتھیوں 12باب18آیت اس کا واضح جواب فراہم کرتی ہے  ۔  جیسا کہ یہ کہتی ہے  ،  ”مگر فی الواقع خدا نے ہر ایک عضو کو بدن میں اپنی مرضی کے موافق رکھا ہے  ۔  “پس خدا ہی ہے جو بدن میں ہمارے کام کو بیان کرتا ہے  ۔ 

 

      یہ دیکھنے کے بعد کہ بدن میں مختلف قسم کے اعمال ہوتے ہیں اور یہ کہ ضروری نہیں کہ بدن کے سارے اعضا ایک ہی کام کریں  ،  آئےے مزید جاننے کےلئے آگے بڑھےں  ۔  پس 1کرنتھیوں 12باب پڑھتے ہوئے جاری رکھتے ہیں :

 

1کرنتھیوں12باب21تا25آیت:
”پس آنکھ ہاتھ سے نہیں کہہ سکتی کہ میری محتاج نہیں اور نہ سر پاﺅں سے کہہ سکتا کہ میں تمہارا محتاج نہیں  ۔  بلکہ بدن کے وہ اعضا جو اوروں سے کمزور معلوم ہو تے ہیں بہت ہی ضروری ہیں  ۔  اور بدن کے وہ اعضا جنہیں ہم اوروں کی نسبت ذلیل جانتے ہیں انہی کو زیادہ عزت دیتے ہیں اور ہمارے نازیبا ہو جاتے ہیں  ۔  حالانکہ ہمارے زیبا اعضا بہت محتاج نہیں مگر خدا نے بدن کو اس طرح مرکب کیا ہے کہ جو عضو محتاج ہے اسی کو زیادہ عزت دی جائے  ۔  تا کہ بدن میں تفرقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں  ۔ 

 

       مسیح کے بدن میں ایسا کوئی عضو یا رکن نہیں جسے دورسے رکن کی ضرورت نہ ہو  ،  اور ایسا کوئی عضو نہیں ہے جو بدن میں غیر ضروری ہے ۔   

 

      درحقیقت  ،  جیسا کہ درج بالا حوالہ ہمیں بتاتا ہے  ،  خدا نے بدن کو اس طرح سے تعمیر کیا کہ جس میں اعضا کی آپسی رفاقت اور بدن میں ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے  ۔ 

 

      اب بدن میں کاموں کی طرف لوٹتے ہوئے  ،  1کرنتھیوں 12باب28تا30آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

کرنتھیوں12باب28تا30آیت:
”اور
خدا نے کلیسیا میں الگ الگ شخص مقرر کئے  ۔  پہلے رسول دوسرے نبی تیسرے استاد  ۔  پھر معجزے دکھانے والے  ۔  پھر شفا دینے والے  ۔  مدد گار  ۔  منتظم،  طرح طرح کی زبانیں بولنے والے  ۔  کیا سب رسول ہیں ؟کیا سب نبی ہیں ؟ کیا سب استاد ہیں ؟کیا سب معجزہ دکھانے والے ہیں ؟کیا سب کو شفا دینے کی قوت عنایت ہو ئی ؟کیا سب طرح طرح کی زبانیں بولتے ہیں ؟کیا سب ترجمہ کرتے ہیں ؟“

 

       اس حوالہ میں  ،  خدا کاکلام ہمیں ان اعمال کی فہرست مہیا کرتا ہے جو کسی شخص کو مسیح کے بدن میں مل سکتے ہیں اور جنہیں خدا نے اعضا کے درمیان اپنی مرضی کے موافق تقسیم کیا ہے  ۔  وہ کام جو درج بالا حوالہ میں بیان کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں  ،  رسول  ،  نبی  ،  استاد  ،  معجزے دکھانے والے  ،  شفا دینے والے  ،  مدد گار  ۔  منتظم اور طرح طرح کی زبانیں بولنے والے[9]۔  افسیوں 4باب7اور8آیت ہمیں مزید بتاتی ہے  ۔   یہاں ہم پرھتے ہیں :

 

افسیوں4باب7 ،  8اور11آیت:
”اور ہم سے ہر ایک پر مسیح کی بخشش کے انداز کے موافق فضل ہوا ہے  ۔  اسی واسطے وہ فرماتا ہے کہ جب وہ عالم بالا پر چڑھا تو قےدیوں کو ساتھ لے گیا اور آدمیوں کو انعام دے  ۔  اور اسی نے بعض کو رسول اور بعض کو نبی اور بعض کو مبشر اور بعض کو چرواہا اور استاد بنا کر دے دیا  ۔ 

 

رومیوں12باب4تا8آیت بھی ہمیں بتاتی ہے :
”کیو نکہ جس طرح ہمارے ایک بدن میں بہت سے اعضا ہوتے ہیں اور تمام اعضا کا یکساں کام نہیں  ۔  اسی طرح ہم بھی جو بہت سے ہیں مسیح میں شامل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضا  ۔  اور چونکہ اس توفیق کے موافق جو ہم کو دی گئی ہمیں طرح طرح کی نعمتیں ملیں اسلئے جسکو نبوت ملی ہو وہ ایمان کے اندازہ کے موافق نبوت کرے  ۔  اگر خدمت ملی ہو تو خدمت میں لگا رہے  ۔  اگر کو ئی معلم ہو تو تعلیم میں مشغول رہے  ۔  اور اگر نا صح ہو تو نصیحت میں  ۔  خیرات بانٹنے والا سخاوت سے بانٹے  ۔  پیشوا سر گرمی سے پیشوائی کرے  ۔   رحم کرنے والا خوشی کے ساتھ رحم کرے  ۔ 

 

      ان تام حوالہ جات میں سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ بدن میں بہت سے کام اور کردار ہیں  ،  جو خدا کی طرف سے ہر ایک عضو کو سونپا گیا ہے  ،   تاکہ بدن کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کیا جا سکے  ۔  پس ،   یہاں استاد ہیں جو تعلیم کی ضرورت پوری کرتے ہیں  ،  مبشر ہیں جو تبلیغ کا کام کرتے ہیں  ،  منادی کاکام کرنے کےلئے مناد ہیں وغیرہ وغیرہ  ۔  کیونکہ جو بھی بدن کو ضرورت ہے اسے پورا کرنے کےلئے خدا نے ہر عضو کو کوئی کام دیا ہے اس لئے جیسے ہمارا بدن کامل ہے اسی طرح مسیح کا بدن بھی کامل ہے  ۔ 

 

 41کر نتھیوں 12باب28تا30آیت کی گہری تشریح :

 

       درج بالا کے بعد  ،  مطالعہ کرنے والا سوچ سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے بدن کو برکت نہیں دے سکتا سوائے اس کام کے جو خدا نے اسے کرنے کو دیا ہے  ۔  دوسرے الفاظ میں  ،  کو ئی شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک استاد پاسٹر نہیں ہو سکتا  ،  اگر بدن میں خدا کی طرف سے اسے یہ کرنے کو نہیں دیا گیا تو کوئی شخص طرح طرح کی زبانیں نہیں بول سکتا یا تشریح نہیں کر سکتا یانبوت نہیں کر سکتا  ۔  اس نظر ےے کو ثابت کرنے والا حوالی جو عموماَ استعمال کیا جاتا ہے  ۔  1کرنتھیوں 12باب28تا30آیت ہے  ،  یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

1کرنتھیوں12باب28تا30آیت:
”اور
خدا نے کلیسیا میں الگ الگ شخص مقرر کئے  ۔  پہلے رسول دوسرے نبی تیسرے استاد  ۔  پھر معجزے دکھانے والے  ۔  پھر شفا دینے والے  ۔  مدد گار  ۔  منتظم،  طرح طرح کی زبانیں بولنے والے  ۔  کیا سب رسول ہیں ؟کیا سب نبی ہیں ؟ کیا سب استاد ہیں ؟کیا سب معجزہ دکھانے والے ہیں ؟کیا سب کو شفا دینے کی قوت عنایت ہو ئی ؟کیا سب طرح طرح کی زبانیں بولتے ہیں ؟کیا سب ترجمہ کرتے ہیں ؟“

 

       بہت سے لوگوں کے کےلئے اس حوالہ میں سوالیہ نشان اس لئے لگائے ہیں کہ سارے مسیحی غیر زبانیں نہیں یا تشریح تا نبوت یا تعلیم یا شفا نہیں دے سکتے مگر صرف وہی لوگ یہ کر سکتے ہیں جنہیں اس خاص کام کےلئے چنا گیا ہے  ۔  تاہم  ،  اس قسم کا نتیجہ صرف تبھی اخذ کیا جا سکتا ہت اگر ہم اس حوالے کے متن یااسی عنوان سے متعلقہ دےگر حوالی جات کو نظر انداز کریں  ۔  مثال کے طور پر غیر زبانوں میں بولنے کو لے لیتے ہیں  ،   1 کرنتھیوں 12باب8تا 12آیت اسے روح کے اظہار کرنے کے عوامل میں سے ایک تصور کرتی ہے [10]۔   جبکہ 1کرنتھیوں 14باب5 آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

1کرنتھیوں14باب5آیت:
”اگر چہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم سب بیگانہ زبانوں میں باتےں کرو لیکن زیادہ تر یہی چاہتا ہوں کہ نبوت کرو اور اگر بیگانہ زبانیں بولنے والا کلیسیا کی ترقی کےلئے ترجمہ نہ کرے تو نبوت کرنے والا اس سے بڑ ا ہے  ۔ 

 

       اس حوالہ میں لفظ ”چاہتا ہوں “یونانی فعل ”thelo“کا فعل حال ہے جس کا مطلب  ،  خواہش کرنا  ،  چاہنا  ،  تمنا کرنا  ،  آرزو رکھنا  ،  یا خوشی محسوس کرنا ہے[11] ۔  اور یہ حقیقت کہ فعل حال میں استعمال کیا گیا ہے اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ خدا وہ بات ظاہر کررہا ہے جو وہ موجودہ وقت میں چاہتا ہے اور جو اسکی خواہش ہے کہ ہو  ۔  پس  ،  بیگانہ زبانوں میں بولنا وہ کام ہے جو خدا چاہتا ہے اور خواہش رکھتا ہے کہ ہم ابھی کریں  ۔  وہ کہتا ہے  ،  ”میںچاہتا ہوں کہ تم سب بیگانہ زبانیں بولو ۔  “یہ ایک فرضی خواہش نہیں ۔  بلکہ یہ خدا کی خواہش ہے جو وہ چاہتا ہے کہ ہم ابھی ،   اسی وقت کریں  ۔ 

 

      ہمارے موضوع کی طرف آتے ہوئے  ،  سوال بہت سادہ ہے کہ  ۔  کیا یہ ممکن ہے کہ بنا ان چیزوں کی دستیابی کے خدا چاہے اور خواہش کرے کہ ہم بیگانہ زبانیں زبانوں میں بات کریں ؟یقینانہیں[12] ۔  پس ،   اگر خدا چاہتا کہ ہم بیگانہ زبانیں بولیں تو ا سکا مطلب یہ ہے کہ پم بیگانہ زبانیں بول سکتے ہیں  ۔  یہی خدا کاکلام کہت اہے اور یہی اس کا مطلب ہے  ۔  درحقیقت  ،  تماممسیحی نہ صرف بےگانہ زبانیں بول سکتے ہیں بلکہ وہ تشریح بھی کر سکتے ہیں یا نبوت بھی کر سکتے ہیں  ۔  5آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

1کرنتھیوں14باب5آیت:
”اگر چہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم سب بیگانہ زبانوں میں باتےں کرو لیکن زیادہ تر یہی چاہتا ہوں کہ نبوت کرو اور اگر بیگانہ زبانیں بولنے والا کلیسیا کی ترقی کےلئے ترجمہ نہ کرے تو نبوت کرنے والا اس سے بڑ ا ہے  ۔ 

 

       چونکہ خدا ہمیں بیگانی زبانوں میں بولنے کے علاوہ نبوت کرنے او ر تشریح کرنے بھی کہتا ہے (آخری دنوں تب جب ہم گرجا گھر میں تعلیم دینے کےلئے پیغام دے رہے ہوں )تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہ صر ف بیگانہ زبانوں میں بول سکتے ہیں بلکہ ہم تشریح اور نبوت بھی کر سکتے ہیں  ۔ 

 

       یہ سب دیکھنے کے بعد  ،  (اور بہت کچھ ہے جو ہ پھر کبھی دیکھیں گے )سوال یہ ہے کہ پھر 1کرنتھیوں 12باب28تا30آیت میں سوالات کا کیا مطلب ہے ؟ جواب حوالے کے سیاق وسباق میں ہے  ۔  جیسا کہ ہم نے سیکھا  ،  متن (1 کرنتھیوں   12باب12تا30 آیت) روح القدس کے اظہار ی عوامل کے بارے میں بات نہیں کر رہا بلکہ کلیسیا میں ایک ایماندار کے خاص عمل  ،  کردار کی بات کررہا ہے  ،  ہمارے اس معاملے میں  ،  تمام مسیحی غیر زبانوں میں بول سکتے اور تشریح اور نبوت اور عموماَوہ تمام تر عوامل پورے کر سکتے ہیں اور کرنے چاہئے جو 1کر نتھیوں 12باب7تا10آیت میں درج ہیں  ۔  تاہم سب کے سب غیر زبانوں میں بولنے یا تعلیم دینے یا نبوت کرنے یا ترجمہ کرنے کے وسیلہ سے بدن میں کام کرنے یا خاص عمل سر انجام دینے کےلئے نہیں رکھے گئے  ۔  اسے بہتر طور پر سمجھنے کےلئے آئیے کہتے ہیں کہ اگر خدا نے کسی کو بدن میں تعلیم دینے کے لئے رکھا ہے تو دوسرے کو بیگانہ زبان میں بات کرنے کاکام دیا ہے ۔  دونوں تعلیم دے سکتے اور بےگانی زبانیں بول سکتے ہیں لیکن پہلا تعلیم دینے میں اور دوسرا بیاگانہ زبانیں بولنے میں موزوں ہے  ۔  ہم نے دیکھا،  ہم سب ایک ہی بدن سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہم سب ایک جیسے نہیں ہیں۔   

 

       نتیجتاَ:تمام مسیحی سب کچھ کر سکتے ہیں  ۔  تاہم بعض کو بدن میں ایک کام کےلئے رکھا گیا اور بعض کو کسی اور کام کےلئے  ۔  اب اگر کوئی پوچھے ”بدن میں میرا کیا کام ہے ؟“میرا جواب یہ ہو گا کہ “خدا کے پاس جائیں اور دیکھیں کہ وہ آپ سے کیا کروانا چاہتا ہے  ۔  “کام کا عنوان اہم نہیں ہے  ۔   کیو نکہ  ،  ہو سکتا ہے بدن میں میرا کام تبلیغ کرنا ہے اور مثال کے طور پر میں یہ کبھی نہ کروں  ۔  دوسری جانب  ،  اگر میں خد اسے کہوں کہ وہ میرے لئے یہ دستیاب کرے تو وہ ےقینا مجھے اسی طرف راہنمائی دے گا جہاں وہ چاہتا ہے کہ میں بدن کےلئے کام کروں  ۔  ہو سکتا ہے کہ مجھے میرے کام کا نام بھی نہ پتہ ہو لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا  ۔  جس بات سے فرق پرتا ہے وہ یہ ہے کہ میں خدا کے سامنے خود کو دستیاب کروں تاکہ وہ مجھے بدن کے اعضا میںاسی طرح ست استعمال کرے جیسے وہ بہتر سمجھتا ہے  ۔  اس لئے ہمیں خدا کے پاس جانا چاہئے اور اس سے پوچھنا چاہئے کہ ہمیں وہ دکھائے جو وہ ہم سے چاہتا ہے  ۔  اس کی ذمہ داری ہم پر اپنی مرضی ظاہر کرنا اور اس کےلئے ہماری راہنمائی کرنا ہے  ،  ہماری ذمہ داری اور کام یہ ہے کہ ہم ہر اس کام کےلئے تیار رہیں جس کےلئے اسے ہموری ضرورت ہے اور اس پر عمل کریں جب وہ چاہے کہ ہم عمل کریں اور اسی طرح کریں جیسا وہ چاہتا ہے کہ ہم کریں  ۔   

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 

 

[1] مثال کے طور پر ”رومن کیتھولک کلیسیا“ ،   یونانی آرتھوڈیکس کلیسیا“ ،   ”اوینجلیکن کلیسیا“ اور فلاں فلاں کلیسیا۔

[2] بائبل کے حوالے سے young’sکی اقلیدالکتاب دیکھیں ،   صفحہ 59 ۔ 

[3] دیکھیں E.W. Bullinger: Figures of Speech used in the Bible, Baker Book House, Grand Rapids, Michigan, This printing 1995, p.7

[4] دیکھیں New Wilson's Old Testament Word Studies, Kregel Publications, Grand Rapids, Michigan, p.92  ۔

[5] اناجیل میں 3واقعات اور مکاشفہ میں7واقعات کے علاوہ  ،   ekklesia“ کے حوالے سے باقی تمام واقعات اعمال اور رسولوں کے خطوط میں ہیں ۔

[6] اس وسیع مطلب کے علاوہ ،   لفظ ”کلیسیا“ تنگ نظر انداز میں بھی استعمال ہوتا ہے ،   خاص علاقوں میں نئے سرے سے پیدا ہوئے ایمانداروں کی مجلس کا مطلب بیان کرتے ہوئے ۔   پس  ،   رومیوں 16باب3تا5آیت اور1کرنتھیوں4باب15آیت ہمیں پرسکہ اور اگولہ کے گھروں میں عبادات کے بارے میںبتاتے ہیں یعنی کہ ،   ایمانداروں کی مجلس گھروں میں ہوتی تھی ۔  اس طرح ،   کلسیوں 4باب16آیت ہمیں نمفاس کے گھر کی کلیسیا کے بارے میں بتاتی ہے ۔  دیگر حوالہ جات جہاں مقامی کلیسیاں کو مجلس کہا جاتا ہے وہ حوالہ جات ذیل میں ہیں : رومیوں 16 باب 1 آیت  ،   1 کرنتھیوں 1 باب 2 آیت ،   1 تھسلینکیوں 1 باب 1 آیت ،   گلتیوں 1 باب 2 آیت ۔  کسی حوالے میں کلیسیا کا مطلب ایمانداروں کی مقامی مجلس ہو یا دنیا بھر میں ان کی جماعت ہو یہ متن سے دیکھنا ہوگا ۔

[7] یہ خصوصیت ہے کہ اگر چہ لفظ کلیسیا جمع کے صیغہ میں بھی ملتا ہے ،   جب یہ منفی لحاظ سے استعمال کیا جاتا ہے(مثال کے لئے درج بالا حوالہ جات اور گلتیوں1باب21آیت دیکھیں) ،   لفظ ”بدن“  ،   جمع میں کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ یہ عالمگیر سطح پر مسیح کے ایک بدن کو ظاہرکرتاہے ،   کلیسیا۔

[8] کرنتھیوں11باب3آیت اس بات جو واضح کرتے ہیں کہ مسیح کا بھی سر ہے: خدا ۔

[9] کرنتھیوں12باب18تا30آیت کی گہری مضاحت کےلئے اس کالم کا 3حصہ دیکھیں ۔  اور یہ بھی غور کریں کہ رسول مسیح کے بدن میں ایک کام ہے نہ کہ بائبل کے 12شاگردوں کا خطاب ہے ۔   پس جیسے آج کل استاد یا مبشر ہیں  ،   اسی طرح رسول بھی ہوں گے ۔  کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔

[10] یہ 1کرنتھیوں 12باب8تا12آیت میں مرتب کئے گئے ہیں: حکمت کا کلام ،   علمیت کا کلام ،   ایمان ،   شفا دینے کی توفیق ،   مرجزوں کی قدرت ،   نبوت ،   زبانوں کا ترجمہ ،   طرح طرح کی زبانیں

[11] آن لائن بائبل میں یونانی lexiconدیکھیں

[12] ورنہ ،   1یوحنا باب5آیت ہمیں یہ نہ بتاتی کہ وہ ”نور ہے اور اس میں ذرا بھی تاریکی نہیں ،  “ کیونکہ کسی شخص کواسی وقت یہ پوچھنے کا تاریکی پہلو کون سا ہے کہ آپ خود اسے مہیا کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔