بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 کہی گئی (تقریری)بمقابلہ لکھی گئی(تحریری)

 

       اس سبق کے خاص کالم میں ہم نے جن حوالہ جات پر غور کیا ان میں سے ایک متی2باب23آیت کا حوالہ تھا۔  یہ حوالہ ہمیں بتاتا ہے:

 

متی2باب23آیت:
”اور ناصرة نام ایک شہر میں جا بسا تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔ “

 

       اکثر لوگوں کےلئے،  یہ آیت مسئلے کا باعث بھی ہو سکتی ہے کیونکہ مسیحا کے بارے میں کہی گئی نبوت کہ وہ ناصری کہلائے گا پرانے عہد نامہ میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ اس ”مسئلے“ کو حل کرنے کےلئے، بعض اوقات اصطلاح”ناصری“ اور عبرانی لفظ”nester“ کے مابین ایک تعلق غیر واضح ہوتا ہے[1]جس کا مطلب ”شاخ“ ہے۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ یہ تعلق ایک سادہ مفروضے سے بڑھ کر کچھ نہیں،  اس خیال کی مخالفت بھی دکھائی گئی ہے اس لحاظ سے کہ متی 2باب23آیت کہتی ہے کہ یہ نبوت ”انبیا“ کی طرف سے کی گئی یعنی کہ،  ایک سے زیادہ لوگوں نے کی،  لفظ ”nester“ کو صرف یسعیاہ نے(یسعیاہ11باب12آیت[2] ) مسیح کےلئے استعمال کیا۔

 

       تاہم،  ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ سارا ”مسئلہ“ نہیں ہے بلکہ صرف اس حقیقت سے پیدا ہوا ایک مسئلہ ہے کہ جو ہم پڑھتے ہیں اس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔  حقیقتاً،  جب کلام کہتا ہے کہ یہ پیشن گوئی انبیا کی معرفت کہی گئی (یونانی لفظ”to rethen“ کا مطلب ہے ”جو کہا گیا تھا“)، جو ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ پیشن گوئی انبیا کی معرفت لکھی گئی تھی(یونانی لفظ”o gegraptai“  جس کا مطلب ہے ”جو لکھا گیا ہے“) ۔ تاہم جب متن کہتا ہے کہ کہی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کہی گئی تھی۔ چند نبوتیں کہی گئی تھیں نہ کہ لکھی گئی تھیں۔ چند دیگر لکھی گئی تھیں نہ کہ کہی گئی تھیں،  جب کہ چند لکھی بھی گئی تھیں اور کہی بھی گئی تھیں۔ جب ہم یہ فقرہ پڑھتے ہیں کہ، ” جیسا کہ لکھا گیا ہے“،  ہم 100فی صد اسے کلام میں پاتے ہیں،  کیونکہ اس کی ضمانت دی گئی ہے کہ یہ لکھی گئی ہے۔  تاہم،  جو لکھا گیا ہے اگر کہا جائے کہ وہ صر ف کہا گیا تھا،  تو ہم شاید اسے لکھا ہوا پائیں یا پھر ہو سکتا ہے کہ یہ ہمیں لکھا ہوا نہ ملے۔ کلام اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ یہ لکھا ہوا تھا۔  جس بات کی یہ ضمانت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کہی گئی تھی۔

 

       بائبل میں پندرہ فقرات ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ کہے گئے تھے[3]۔ یہ جاننے کےلئے کہ آیا کہ وہ کہے بھی اور لکھے بھی گئے تھے ،  یا وہ صرف کہے گئے تھے،  ہمیں کلام میں سے تلاش کرنا پڑے گا کہ انہیں ڈھونڈ سکیں۔ اس قسم کی تلاش یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ تمام پیشن گوئیاں جو کہیں گئی تھیں وہ لکھی بھی گئیں تھیں،  سوائے ان میں سے دو کے۔  وہ یہ ہیں:

 

.1یہ نبوت کہ یسوع ناصری کہلائے گا۔  اس نبوت کی کاملیت متی2باب23آیت میں ی گئی ہے۔  یہ نبوت صرف پہلے انبیا کی معرفت کہی گئی تھی مگر بعد میں متی کی معرفت یہ لکھی گئی۔  یہ اس استعارہ کی بھی ایک شکل ہے ”hysteresis“ یا ”بعد والی کہانی“۔ اس استعارے کی بدولت”روح القدس،  بعد والے صحیفے میں،  اضافی تفاصیل شامل کرتا ہے جو خود تاریخ میں نہیں دی گئی؛ اور بعض اوقات تاریخی حقائق بھی،  جن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا[4] “۔  ان حقائق میں سے جن کے بارے میں پہلے کہیں ذکر نہیں کیا گیا ایک پیشن گوئی یہ ہے کہ مسیحا ناصری کہلائے گا۔ یہ نبوت ایک سے زیادہ انبیا کی معرفت کہی گئی۔ یہ ان کی معرفت لکھی نہیں گئی بلکہ متی کی معرفت لکھی گئی جس نے اسے اس کی کاملیت کے ساتھ پیش نظر کیا۔

 

2.متی2باب23آیت کے علاوہ،  ایک اور حوالہ جو بالکل اسی وجہ می بنا پر اکثر لوگوں کےلئے ٹھوکر کا باعث ہے،  وہ متی27 باب 9اور10آیت ہے:

 

متی27باب9اور10آیت:
”اس وقت وہ پورا ہوا
جو یرمیاہ کی معرفت کہا گیا تھا کہ جس کی قیمت ٹھہرائی گئی تھی انہوں اس کی قیمت کے وہ تیس روپے لے لئے (اسکی قیمت بعض بنی اسرائیل نے ٹھہرائی تھی)اور ان کو کمہار کے کھیت کےلئے دیا جیسا خداوند نے مجھے حکم دیا۔ “

 

       اس حوالے کا جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ یہ پیشن گوئی یرمیا کی کتاب[5] میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔ اس ”مسئلے کے حل“ کےلئے یہ صلاح دی گئی تھی کہ متی27باب9اور10آیت کا فقرہ حقیقت میں ذکریاہ 11باب12اور13آیت سے اس بنیاد پر لیا گیا تھا کہ دونوں حوالہ جات ”چاندی کے تیس سکوں “ کی بات کرتے ہیں۔ ان دونوں حوالہ جات میں ایک بہت بڑے فرق کے علاوہ،  اس خیال کی مخا لفتیں اس حقیقت کی بدولت واضح کی گئیں کہ خدا متی27باب9اور10آیت میں کہتا ہے کہ یرمیاہ کی معرفت یہ کہا گیا تھا۔  اگر یہ آیات ذکریاہ سے لی گئی تھیں،  خدا ہمیں یرمیاہ کی بجائے زکریاہ کا بتاتا۔  دوسرے لفظوں میں،  ہمیں یہ بتانے کی بجائے کہ، ”اس وقت وہ پورا ہوا جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا“،  وہ ہمیں یہ بتاتا کہ، ” اس وقت وہ پورا ہوا جو زکریاہ کی معرفت کہا گیا تھا۔ “ ہم یہ مانتے ہیں کہ جب خدا کہتا ہے کہ یرمیاہ تو کسی کو یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ اس کا اصل مطلب زکریاہ ہے۔ تاہم،  دوبارہ مسئلہ ہے نہیں بلکہ مسئلہ بنایا گیا ہے۔  اور یہ اس لئے بنایا گیا ہے کیونکہ ہم اس پر غور نہیں کرتے جو ہم پڑھتے ہیں۔ متن یہ نہیں کہتا کہ پیشن گوئی لکھی گئی تھی بلکہ یہ کہ کہی گئی تھی۔ چند پیشن گوئیاں صرف لکھی گئیں تھیں اور کہی نہیں گئی تھیں۔ چند دیگر پیشن گوئیاں دونوں لکھی بھی اور کہی بھی گئی تھیں جب کہ کچھ ایسی تھیں جو صرف کہی گئییں تھیں اور لکھی نہیں گئی تھیں۔  متی 27 باب9اور10آیت کی پیشن گوئی صرف کہی گئی تھی نہ کہ لکھی گئی تھی۔ متی استعارہ ”hysteresis“ یا”بعد والی کہانی“ کی بدولت ہمیں اس پیشن گوئی کے کافی دیر بعد کہے جانے کے متعلق معلومات دیتا ہے۔

 

نتیجہ

       درج بالا سب کچھ کا نتیجہ اخذکرتے ہوئے ہم حوا؛لہ جات یا پیشن گوئیوںکو جو پرانے عہد نامے سے لی جاتی ہیں دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:  وہ حوالہ جات جن میں ہمیں کہا جاتا ہے کہ یوں لکھا گیا ہے اور وہ حوالہ جات جن میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یوں کہا گیا ہے۔ نئے عہد نامے کے حوالہ جات کی زیادہ تر اکثریت پہلے حصے سے تعلق رکھتی ہے،  یعنی کہ،  وہ جن میں ہمیں کہا جاتا ہے کہ یوں لکھا گیا ہے۔ چونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لکھے گئے ہیں تو اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ حوالہ جات یا پیشن گوئیاں ہمیں پرانے عہد نامہ میں ملیں گی۔ یہ نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ خدا کے کلام میں ایسا کوئی حوالہ نہیںجو کہا گیا ہوں کہ لکھا گیا ہے اور تاہم وہ ہمیں پرانے عہد نامہ میں ملے گا۔  

 

       دوسری جانب،  ان حوالہ جات کےلئے جن میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یوں کہا گیا ہے اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ ہمیں پرانے عہد نامہ میں ملے گی۔ یہ حوالہ جات صرف اسی صورت میں پرانے عہد نامہ میں پائے جا سکتے ہیں اگر وہ کہے جانے کے ساتھ ساتھ لکھے بھی گئے ہوں۔ مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جن کے بارے میں کہا گیا ہے وہ لکھی بھی گئی ہوں۔ ان پندرہ حوالہ جات میں سے جن میں ہمیں بتایا گیا کہ یوں کہا گیا تیرہ حوالہ جات ایسے ہیں جو ہمیںپرانے عہد نامہ میں مل سکتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہے بھی گئے اور لکھے بھی گئے۔  وہ دو جو نہیں مل سکتے وہ متی27باب 9اور 10آیت اور متی 2باب23آیت ہیں۔ یہ پیشن گوئیاں صرف کہی گئی تھیں۔ متی ہمیں ۔  استعارہ hyteresisکے وسیلہ سے،  ان کے وجود کے بارے میں،  کہ وہ کہی گئی تھیں ،  بتاتا ہے۔

 

       اس لئے،  کیا متی 2باب23آیت اور 27باب9اور10آیت کے ساتھ کوئی حقیقی مسئلہ ہے؟  جی نہیں،  سوائے ہم خود مسئلہ بناتے ہیں۔

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 

حوالے:

 

The Companion Bible:  Kregel Publications, Michigan 49501, this

printing 1994.

 


[1] مثال کے طور پر دیکھیں:  S. Zodhiates:  "The Complete Word Study Dictionary", AMG Publishers, 1993, p. 1,003

[2] یہ لفظ چار بار رونما ہوتا ہے۔  یسعیاہ 11باب1آیت کے علاوہ،  دیگر تین حوالہ جات جہاں یہ ملتا ہے وہ ہیں:  یسعیاہ14 باب 19آیت،  60باب21آیت اور دانی ایل11باب7آیت۔ ان پر ایک نظر غور ثانی کرنے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی مسیح کے بارے میں بات نہیں کرتا

[3] یہ ہیں :  متی 1باب22آیت،  2باب15، 17 اور 23آیت،  3باب13آیت،  4باب14آیت،  8باب17 آیت،  12باب17آیت،  13باب35آیت،  21باب4آیت،  22باب31آیت،  24باب15آیت،  27باب9آیت،  مرقس 13باب14 آیت

[4] دیکھیں:  E. W. Bullinger:  "Figures of Speech used in the Bible", Baker Book House, originally published 1898. This printing 1995, pp. 709-713

[5] اس ”مشکل“ کی موجودگی بہت سے انگریزی شماروں میں حاشیے کے باہر لکھے گئے نوٹس سے بھی ثبت ہوتی ہے۔ پس کنگ جیمز ورژن کا حاشیہ ہمیں زکریاہ11باب13آیت کو تلاش کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔  نیو کنگ جیمز ورژن ہمیں یرمیاہ 32باب6تا 9 آیت کو تلاش کرنے کی ہدایت دیتاہے۔ NIV ہمیں 3مقامات میں بیس آیات کی ہدایت دیتا ہے:  زکریاہ 11باب12اور 13 آیت، یرمیاہ 19باب1تا13آیت اور 32باب6تا9آیت۔ مطالعہ کرنے والے کو حوصلہ دیا جاتا ہے کہ خود ان حوالہ جات کا مطالعہ کرے۔  اگر وہ ایسا کرے گا،  وہ جانے گا کہ اسے وہ کہیں بھی نہیں ملا جو متی27باب9اور 10آیت میں بیان کیا گیا ہے