بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

”محبت بدگمانی نہیںکرتی“

 

 

        1کرنتھیوں13باب محبت کے موضوع پر بات کرنے والے حوالہ جات میں سے سب سے بہترین حوالہ ہے۔ یہان 4تا8آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

1کرنتھیوں13باب4تا8آیت:
”محبت صابر ہے اور مہربان ہے۔ محبت حسد نہیں کرتی۔ محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں۔ نازیبا کام نہیں کرتی۔ اپنی بہتری نہیں چاہتی۔ جھنجھلاتی نہیں۔ بدگمانی نہیں کرتی۔ بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے۔ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی امید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ محبت کو زوال نہیں۔۔۔۔۔“

 

        محبت کے بہت سے دیگر پہلوﺅں میں سے ایک جس پر میں آج غور کرنا چاہتا ہوں وہ ہے کہ محبت”بدگمانی“ نہیں کرتی۔اس حوالہ میں لفظ ”گمان“ یونانی لفظ ”logizo“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے ”ماننا، سمجھنا، غور کرنا، پرکھنا یا شمار کرنا“(دیکھیں فرہنگ[1])۔اس لئے محبت بدی کا گمان نہیں کرتی۔ذاتی مفاد کو نظر انداز کرنا ہی محبت ہے۔

        میرا ماننا ہے کہ یہ اس محبت سے بھی کہیں بڑی محبت ہے جس کا بیان متی 5باب38تا42آیت میں ہوا ہے:

 

متی5باب38تا42آیت:
”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا جو تیرے داہنے گال پہ طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ سے نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے۔اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے مناگے اسے دے اور تجھ سے قرض چاہے اس سے منہ نہ موڑ۔“

 

        صرف ایسی محبت میں بدی شامل نہیں ہوتی جو اس حوالہ میں خداوند کے درج بالا الفاظ کو پوار کرتی ہے۔ اور ایسی محبت خدا کی ہے، جیسا کہ اس نے یہ ہم پر ظاہر کیا:

 

رومیوں5باب6تا8آیت:
”کیونکہ جب ہم کمزور ہی تھے تو عین وقت پر مسیح
بے دینوں کی خاطر موا۔ کسی راستباز کی خاطر بھی کوئی مشکل سے اپنی جان دے گا مگر شاید کسی نیک آدمی کےلئے کوئی اپنی جان دے دینے کی جرات کرے۔
لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گناہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر ہوا۔“

 

اور افسیوں2باب4تا6آیت:
”مگر خدا نے اپنے رحم کی دولت سے اس بڑی محبت کے سبب سے جو اس نے ہم سے کی۔ جب قصوروں کے سبب سے مردہ ہی تھے تو ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا۔(تم کو فضل ہی سے نجات ملی ہے)۔اور مسیح یسوع میں شامل کر کے اس کے ساتھ جلایا اور آسمانی مقاموں پر اس کے ساتھ بٹھایا۔“

 

        خدا کی محبت صرف اس سے ظاہر نہیں ہوتی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا دے دیا، لیکن اس سے کہ اس نے اسے گناہگاروں کے لئے دے دیا، ان لوگوں کے لئے جو گناہوں اور قصوروں میں مردہ تھے! یہ وہی محبت ہے جو ہمارے لئے ایک مثال ہے:

 

1یوحنا4باب10اور11آیت:
”محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ خدا نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کےلئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔ اے عزیزو!
جب ہم سے خدا نے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے۔“

 

یوحنا15باب12اور13آیت:
”میرا حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کےلئے دے دے۔“

 

1یوحنا3باب16آیت:
”ہم نے محبت کو اسی سے جانا ہے کہ اس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی اور ہم پر بھی بھائیوں کے واسطے جان دینا فرض ہے۔“

 

        خدا کی محبت نے ہماری بدی کو شمار نہیں کیا۔ اس نے ہمیں گناہوں اور قصورں میں مردہ شمار نہیں کیا۔خدا نے اپنا اکلوات بیٹا راستبازوں کے لئے نہیں بلکہ گناہگاروں کےلئے دے دیا۔

 

1تمیتھیس1باب15آیت:
”یسوع مسیح
گناہگاروں کو نجات دینے کےلئے دنیا میں آیا۔“

 

لوقا5باب32آیت:
”میں راستبازوں کو نہیں بلکہ
گناہگاروں کو توبہ کےلئے بلانے آیا ہوں۔“

 

        خدا نے صرف اپنے فرمانبردار شاگردوں کے پاﺅں نہیں دھوئے تھے، بلکہ نافرمان کے بھی۔یہ حقیقتاً خدا کی محبت ہے۔1کرنتھیوں13باب کی محبت ان لوگوں سے محبت رکھنا نہیں جو صرف ہم سے محبت رکھتے ہیں، وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے پیار کے قابل ہیں۔اس کے برعکس، یہ وہ محبت بھی ہے جو ہم ان لوگوں سے کرتے ہیں جو ہم سے محبت نہیں رکھتے، جن سے آپ کچھ بھی توقع نہیں کرسکتے، اور حتیٰ کہ وہ بھی جو آپ کو نقصان دیتے ہیں:

 

متی5باب34تا48آیت:
”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دعا کرو۔ تا کہ تم اپنے باپ کے جوآسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکو ں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازاں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں سے ہی محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں کو ہی سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔“

 

        شاید ہم نے درج بالا سب کچھ بہت دفعہ پڑھا ہے اور شاید بہت دفعہ ہم نے یہ سوچا جو ان کو لاگو کرنا بہت مشکل ہے۔مگر محبت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو خود ہماری طرف سے آتی ہے۔ہمارے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں کر کردسکتے (یوحنا5باب30آیت)۔بلکہ، محبت ایک پھل ہے، ایسی چیز جو فطرتاً نئی فطرت میں آیت میں آتی ہے۔جب ہم خود کو مسیح کے سپرد کر دیتے ہیں، جب ہم خود کو خالی کر دیتے ہیں اور مسیح کو ہمارے دلوں میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں(افسیوں3باب17آیت)،نئی فطرت اسی طرح اپنا پھل پیدا کرتی ہے جیسے ایک عام درخت پھل پیدا کرتا ہے۔یعنی کہ، قدرتی طور پر۔

  

گلتیوں5باب22تا23آیت:
”مگر رو ح کا پھل محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم، پرہیز گاری ہے۔ ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں۔“

 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :



[1] دیکھیں :E.W. Bullinger "A Critical Lexicon and Concordance to the English and Greek New Testament", Zondervan Publishing House, p. 628