بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

   

بیج بونے والے کہ تمثیل اور خدا کا کلام سننے والوں کے چار درجات

 

           جب ہم کسی بات پر زور دینا چاہتے ہیں تو اس بات کو بار بار دوہرانا عمومی بات ہے۔ اسی طرح، گو کہ خدا کے کلام میں موجود ہر چیز اہم ہے، لیکن جب کوئی بات ایک سے زیادہ بار دوہرائی جاتی ہے ، تو یہ ظاہری بات ہے کہ اس کی ایک خاص اہمیت ہے اور اسے خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  زیادہ تر ان دوہرائے جانے والے حولہ جات میں سے ایک بیج بونے والے کی تمثیل بھی شامل ہے۔  اس لئے اس کو پرکھنا اور اس میں سے دیکھنا کہ خدا س کی بدولت ہمیں کیا خاص بات سکھانا چاہتا ہے ایک دلچسپ بات ہے۔

         

 

 1.    تمثیل:

 

          بیج بونے والے کی تمثیل متی 13باب1تا8آیات، مرقس 4باب1تا 9آیات، اور لوقا 8باب4تا8آیات میں درج ہے۔ لوقا کے حوالے کو ہم اپنے نقطئہ آغاز کے طور پر پڑھتے ہیں:

 

لوقا8باب4تا8آیت:

”پھر جب بڑی بھیڑ جمع ہوئی اور ہر شہر کے لوگ اس کے پاس چلے آتے تھے اس نے تمثیل میں کہا کہ ایک بیج بونے والا اپنا بیج بونے نکلا اور بوے وقت کچھ راہ کے کنارے گرا اور روندا گیا اور ہو اکے پرندوں نے اسے چگ لیا۔  اور کچھ چٹان پر گرا اور اگ کر سوکھ گیا اسلئے کہ اس کو تری نہ پہنچی۔ اور کچھ جھاڑیوں میں گرا اور جھاڑیوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اسے دبا لیا۔  اور کچھ اچھی زمین میں گرا اور اگ کر سو گنا پھل لایا ۔  اور یہ کہہ کر اس نے پکارہ جس کے کان ہوں وہ سن لے۔ “

 

          اس وقت سے آغاز کرتے ہوئے جب یسوع نے یہ تمثیل کہی، ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ واقعہ کسی بھی طرح سے اتفاقیہ نہیں تھا۔  حقیقتاً 4آیت ہمیں بتاتی ہے کہ،” پھر جب بڑی بھیڑ جمع ہوئی اور ہر شہر کے لوگ اس کے پاس چلے آتے تھے اس نے تمثیل میں کہا کہ ایک بیج بونے والا اپنا بیج بونے نکلا ۔ ۔ “یسوع نے یہ تمثیل لوگوں سے تب کہی جب بہت بڑی بھیڑ اس کے پاس خدا کاکلام سننے آتے ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے، یہ تمثیل کلام سننے کے حوالے سے ہے۔ پس، یہ تمثیل کہتے ہوئے، یسوع ان سب لوگوں کو خدا کا کلام سننے کی ہدایت دینا چاہتا ہے جو اس کے پاس آرہے تھے، تا کہ وہ ان انتخابات سے آشنا ہوں جو دستیاب ہیں۔

 

 

2.    ”راہ کے کنارے

 

          درج بالا لوقا کے حوالے پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تمثیل اس بیج کے حوالے سے ہے جو چار مختلف مقامات پر گرا، جن میں سے ایک مقام ”راہ کا کنارہ“ تھا۔ لوقا 8باب5آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

لوقا 8باب5آیت:

” ایک بیج بونے والا اپنا بیج بونے نکلا اور بوے وقت کچھ راہ کے کنارے گرا اور روندا گیا اور ہو اکے پرندوں نے اسے چگ لیا۔  

 

          بیج بونے والے جو بیج بویا اس میں سے کچھ بیج ”راہ کے کنارے“ جا گرا اور پس وہ بڑھ نہ سکا اور پھل نہ لایا بلکہ پیروں تلے روندا گیا اور پرندوں نے اسے آکے چگ لیا۔ اس تمثیل کے اس حصے کی وضاحت چند آیا ت کے بعد بیان کی گئی ہے۔  پس لوقا 8باب 11اور12 آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

لوقا 8باب11اور12آیت:

”وہ تمثیل یہ ہے کہ بیج خدا کا کلام ہے۔  راہ کے کنارے کہ وہ ہیں جنہوں نے سنا پھر ابلیس آکر ان کے دل سے چھین لے جاتا ہے۔  ایسا نہ ہو کہ ایمان لا کر نجات پائیں۔ “

 

متی13باب19آیت بھی یہی حصہ واضح کرتے ہوئے کہتی ہے کہ:

 

”جب کوئی بادشاہی کا کلام سنتا ہے اور سمجھتا نہیں تو جو اس کے دل میں بویا گیا تھا اسے وہ شریر آکر چھین لے جاتا ہے۔  وہ یہ ہے جو راہ کے کنارے بویا گیا تھا۔ “

 

          درج بالا حوالہ جات کے مطابق، جو بیج بویا گیا وہ خدا کا کلام یا ” بادشاہی کا کلام “ ہے۔  تاہم، خدا کے کلام کا اثر ہر جگہ پر ایک جیسا نہیں ہوتا، جب کہ اس کا بے پھل ہونا اس جگہ پر انحصار کرتا ہے جہاں وہ جا گرا۔ ممکنہ طور پر ، کوئی جگہ ” راہ کے کنارے“ جیسی بھی ہو سکتی ہے ، جو کہ، تمثیل کی تشریح کے مطابق، ان لوگوں کو ظاہر کرتی ہے جو خدا کے کلام کو سنتے ہیں مگر ”سمجھتے نہیں“۔ ” سمجھنے“سے مراد وہی ہے جو ہم متن میں سے دیکھتے ہیں۔ حقیقتاً، یونانی لفظ جس کا ترجمہ ”سمجھنا“ درج بالا حوالہ میں کیا گیا ہے وہ فعل ”suniemi“ ہے، جو متی 13باب اور5باب میں ہماری اس تمثیل کے حوالے سے6باب استعمال کیا گیا ہے۔

 

متی13باب13تا 15آیت:

”میں ان سے تمثیلوں میں اس لئے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے۔  اور ان کے حق میں یسعیاہ کی یہ پیشن گوئی پوری ہوتی ہے کہ تم کانوں سے سنو گے پر ہر گز نہ سمجھو گے اور آنکھوں سے دیکھو گے پر ہپر گز نہ معلوم نہ کرو گے۔  کیونکہ اس امت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں۔  اور انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔  تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لائیں اور میں ان کو شفا بخشوں۔ “

 

          چونکہ ایک شخص کانوں سے کلام سنتا ہے، دل سے( ذہن کے اندرونی حصے سے) وہ اسے ”سمجھتا“ ہے۔  اس لئے بیج بونے والے کی تمثیل کا مقصد کلام کا سادہ ذہنی فہم ہے۔  اسی وجہ سے بیج کا پھل، بیج یعنی کلام پر نہیں بلکہ زمین یعنی لوگوں کے دلوں پر انحصار کرتا ہے۔ ایک ہی قسم کا بیج مختلف مقامات، یعنی مختلف قسم کے دلوں پر گرتا ہے، اور مختلف قسم کا پھل پیدا کرتا ہے۔ جب دل بے حس ہوجات ہے تو بیج راہ کے کنارے ہی گرتا ہے، یہ نہ تو بڑھے گا اور یقینا پھل بھی نہیں لائے گا۔ 2کرنتھیوں 4باب3اور 4آیت، اور افسیوں 4باب17تا19آیات ہمیں بتاتی ہیں:

 

2کرنتھیوں 4باب3اور 4آیت:

”اور اگر ہماری خوشخبری پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے۔  یعنی اس بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہے تا کہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی ان پر نہ پڑے۔ “

 

افسیوں 4باب17تا19آیات بھی:

”اس لئے میں یہ کہتا ہوں اور خداوند میں جتائے دیتا ہوں کہ جس طرح غیر قومیں اپنے بے ہودہ خیالات کے موافق چلتی ہیں تم آئندہ کو اس طرح نہ چلنا۔ کیونکہ ان کی عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اس نادانی کے سبب سے جو ان میں ہے اور اپنے دلوں کی سختی کے باعث خدا کی زندگی سے خارج ہیں۔ انہوں نے سن ہو کر شہوت پرستی کو اختیار کیا تا کہ ہر طرح کے گندے کام حرص سے کریں۔ “

 

          ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے لئے خدا کا کلام ”پردے “ میں ہیاور وہ اسے ”سمجھ“ نہیں سکتے، اس لئے نہیں کہ کلام کو سمجھنا مشکل ہے بلکہ اس لئے کیونکہ ان کے دل بے حس، سخت اور کلام کے بیج کو بڑھنے سے روکنے والے بن گئے ہیں۔ اب یونانی لفظ جس کا ترجمہ درج بالا حوالہ میں ”سخت دلی“ کے طور پر کیا گیا ہےوہ لفظ ”porosis“ ہے جس کا مطلب ”بے حسی“ ہے۔ یہ وہی لفظ ہے جو مرقس 3باب5آیت میں اس لوگوں کے گروہ کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جنہوں نے یسوع مسیح کو ایذا دی: یعنی فریسی۔

 

مرقس3باب5آیت:

”اس نے انکی سخت دلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف ان پر غصے سے نظر کر کے ۔ ۔ ۔ ۔ “

 

          فریسیوں کے سامنے، خداوند یسور مسیح خدا کا بیٹا تھا۔  انہوں نے ایک عظیم استاد ، ایک عظیم ہستی کو سنا اور دیکھا جو زمین پر پہلے نہ تھا۔ اور پھر بھی وہ اس پر ایمان نہ لائے۔  اس کی کیا وجہ تھی؟ ان کے دل بے حس تھے، یعنی سخت اور کلام کا بیج بونے اور اسے نشو ونما دینے کیلئے غیر موزوں تھے۔  یہ بیج نہیں تھا کہ جو اچھا نہ تھا، بلکہ زمین، ان کے دل اچھے نہ تھے اور وہ سخت تھے۔

 

 

3.    دوسرا درجہ:

 

          پہلی قسم کی زمین کا تجزیہ کرنے کے بعد جس پر کلام کا بیج گرا، اب ہم دوسری قسم کی زمین کی طرف بڑھتے ہیں۔  متی 13باب5اور6آیت ہمیں اس کے بارے میں بتاتی ہے کہ :

 

متی13باب5 اور6آیت:

”اور کچھ پتھریلی زمین پر گرے جہاں ان کو بہت مٹی نہ ملی اور گہری مٹی نہ ملنے کے سبب سے جلد اگ آئے۔ اور جب سورج نکلا تو جل گئے اور جڑ نہ ہونے کے سبب سے سوکھ گئے۔ “

 

          ایک بیج مختلف قسم کی زمینوںپر بڑھ سکتا ہے۔  تاہم، یہ سب زمینوں پر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی پھل دے سکتا ہے۔ ایسی زمینوں میں سے جن پر بیج زندہ نہیں رہ سکتا ایک زمین پتھریلی زمین ہوتی ہے۔  وہاں بیج کے زندہ نہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ پتھر اسے گہرائی میں سے نمی حاصل کرنے کے لئے بڑھنے نہیں دیتے۔ پس یہ مرجھا جاتا ہے۔

          تمثیل کے اس حصے کی وضاحت کیلئے مرقس کا حوالہ چنتے ہوئے، ہم پڑھتے ہیں:

 

مرقس 4باب16اور17آیت:

”اور اسی طرح جو پتھریلی زمین میں بوئے گئے تھے یہ وہ ہیں جو کلام کو سن کر فی الفور خوشی سے قبول کر لیتے ہیں اور اپنے اندر جڑ نہیں رکھتے بلکہ چند روزہ ہیں پھر جب کلام کے سبب سے مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فی الفور ٹھوکر کھاتے ہیں۔ “

 

          جیسا کہ یہ دیکھا جا سکتا ہے، پتھریلی زمین اس لوگوں کو ظاہر کرتی ہے جو خدا کا کلام سنتے ہوئے، فوراً اور درحقیقت خوشی سے قبول کر لیتے ہی۔ تاہم ،یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا، کیونکہ یونہی دکھ اور مصیبتیں آتی ہیں تو وہ فوراً دوبارہ کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ وہ آخر کار غلطی تو یہی ہے کہ وہ دکھوں اور مصیبتوں کمزور پڑ جاتے ہیں۔ پس، جب شیطان ان پر یہ چیزیں لاتا ہے تو وہ فوراً گر جاتے ہیں۔  ان کے گرنے کا باعث یہ نہیں کہ دکھ بہت بھاری ہوتے ہیں جو ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں۔  کیونکہ 2کرنتھیوں 4باب17آیت، 1کرنتھیوں 10باب12اور13آیت اور 1پطرس 5باب 10آیت ہمیں بتاتی ہے کہ دکھ کم ہوں گے اور یقینا برداشت سے باہر نہ ہوں گے(1کرنتھیوں 10باب12اور13آیت)۔  در اصل اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے تھوڑا سا بھی تیار نہیں ہوتے(جیسے کہ متن کہتا ہے کہ وہ فوراً گر جاتے ہیں)۔  یعقوب 4باب7آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

یعقوب 4باب7آیت:

”پس خدا کے تابع ہو جا اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔ “

 

1پطرس5باب8اور9آیت بھی کہتی ہے:

”تم ہوشیار اور بیدار رہو تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیر ببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔ تم ایمان میں مظبوط ہو کر اور یہ جان کر اس کا مقابلہ کرو کہ تمہارے بھائی جو دنیا میں ہیں ایسے ہی دکھ اٹھا رہے ہیں۔ “

 

          اگر ہم شیطان کا مقابلہ نہیں کریں گے تو وہ ہم سے نیں بھاگے گا۔ اس کے برعکس، وہ ان لوگوں پر حاکم ہوجاتا ہے جو اس کا مقابلہ نہیں کرتے۔ جب شیطان دکھ لاتا ہے، وہ فوراً گر جاتے ہیں پس وہ آسانی سے اس کیلئے خوراک بن جاتے ہیں ۔  ان کی شروعات اچھی ہوتی ہے مگر آخر برا ہوتا ہے۔

 

         

4.    تیسرا درجہ:

 

          لوگوں کے پہلے دو درجات کے بارے میں غور کرنے کے بعد، اب ہم تیسرے درجے کی طرف بڑھیں گے۔ مرقس 4باب7آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

مرقس 4باب7آیت:

”اور کچھ جھاڑیوں میں گرا اور جھاڑیوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اسے دبا لیا۔ “

 

          تیسری قسم کی زمین جس میں بیج گرتا ہے جھاڑی دار زمین ہے۔  اس زمین پر گرنے والا بیج بڑھتا نہیں، لہٰذہ وہ پھل بھی نہیں دیتا۔ تمثیل کے اس حصے کے مطلط کو جاننے کیلئے ہم مرقس 4باب18اور19آیت پر جائیں گے جہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

مرقس 4باب18اور19آیت:

”اور جو جھاڑیوں میں بوئے گئے وہ اور ہیں ۔  وہ یہ ہیں جنہوں نے کلام سنا۔  اور دنیا کی فکر اور دولت کا فریب اور اور چیزوں کا لالچ داخل ہو کر کلام کو دبا دیتے ہیں اور بے پھل رہ جاتا ہے۔ “

 

          بد قسمتی سے، لوگوں کے اس تیسرے درجے کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس درجے کا مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں خدا کا کلام دیگر چیزوں کے ساتھ شامل ہوتا ہے، جیسا کہ” دنیا کی فکر اور دولت کا فریب اور اور چیزوں کا لالچ“۔ یہ چیزیں کلام کی نشو نما کیلئے کانٹوں اور جھاڑیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے، اسے دباتے ہیں اور اسے غیر پھل دار بنا دیتے ہیں۔ اس درجے کے لوگ کیا کتے ہیں ، اس حوالے سے یسوع مسیح نے کہا:

 

متی 6باب25تا34آیت:

”اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟تم میں سے ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟اور پوشاک کیلئے کیوں فکر کرتے ہو؟جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں ۔  تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔  پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ! تم کو کیو ں نہ پہنائے گا؟اس لئے فکر مند ہوکر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گےیا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔  بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کیلئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرے گا۔  آج کیلئے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔ “

 

پہلے خدا کی بادشاہی کی چیزیں ہیں اور پھر دوسری چیزیں آتی ہیں۔ اگر ہم اس اصول کو اپنائیں گے تو باقی چیزیں بھی ہمیں مل جائیں گی۔ اگر، ہم اس کو نہیں اپناتے، بلکہ دیگر باتوں کو سرِ فہرست رکھتے ہیں تو یہ دیگر چیزیں کلام کو بے پھل بناتے ہوئے دبا دیں گی۔

 

 

5.    چوتھا درجہ:

 

          اب تک ہم نے زمین کے تین درجات کا مشاہدہ کر لیا ہے جن پر کلام کا بیج گرتا ہے۔ بد قسمتی، ان میں سے کوئی بھی زمین کلام کو پھل دار نہ بنا سکی۔  پہلی قسم کی زمین ، یعنی ”راہ کے کنارہ“ اس قدرسخت زمین تھی کہ بیج بڑھ ہی نہ پایا۔  دوسری پتھریلی زمین بھی بیج کو جڑ پکڑنے سے روکتی ہے اور غیر پھلدار بنا دیتی ہے۔ اخر میں تیسری قسم کی جھاڑیوں والی زمین ہے جو بیج کو دبا کر بڑھنے نہیں دیتی۔  تین غیر پھلدار زمینوں کے بارے میں جاننے کے بعد، اب اچھی زمین کے بارے میں جاننے کا وقت ہے،وہ زمین جس پر گرنے وال کلام کا بیج پھل لاتا ہے۔  متی 13باب8آیت اس کے بارے میں بتاتی ہے کہ:

 

متی 8باب13آیت:

”اور کچھ اچھی زمین میں گرے اور پھل لائے کوئی سو گنا کچھ ساٹھ گنا کچھ تیس گنا۔ “

 

متی 13باب23آیت میں اس کی وضاحت بیان کی گئی ہے:

”اور جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے۔  کوئی سو گنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گنا اور کوئی تیس گنا۔ “

 

          اب کی بار بیج، راہ کے کنارے، یا پتھریلی زمین یا جھاڑی دار زمین میں نہیں گرا بلکہ اچھی زمین پر گرا، جو ان لوگوں کو ظاہر کرتی ہے جو کلام کو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔

          لوقا 8باب15آیت ”سمجھنے“ کی وضاحت کرتی ہے:

 

 

لوقا 8باب15آیت:

”مگر اچھی زمین کے وہ ہیں جو کلام کو سن کر عمدہ اور نیکدل میں سنبھالے رہتے اور صبر سے پھل لاتے ہیں۔ “

 

          جیسا کہ ہمیں یاد ہو گا کہ پہلے درجے کی زمین میں لوگ کلام کو ”نہ سمجھ سکے“ اور نہ ہی حاصل کر پائے کیونکہ ان کے دل بے حس، سخت تھے۔  اس کے برعکس صرف اس پھلداردرجے کے لوگ کلام کو سمجھتے ہیں اور اپنے دل بلکہ ایک نیک دل میں رکھتے ہیں۔ اس درجے کے لوگوں میں وہ سب چیزیں ہیں جو پہلے کے باقی تین درجات کے لوگوں میں نہیں تھیں۔ لہٰذہ، پہلے درجے کے لوگ بے حس تھے، اور یہاں ان کے دل نیک اور ایماندار ہیں۔ دوسرے درجے کے لوگوں میں صبر نہ تھا اس لئے وہ پہلے دکھوں سے ہی گھبرا کر گر پڑے، اور یہاں لوگ صابر ہیں (جیسے کہ متن کہتا ہے” وہ صبر سے پھل لائے“) اور انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ آخر میں، تیسرے درجے کے لوگوں نے خدا کے کلام کو بہت سے لالچ اور خواہشات کے نیچے دبا دیا جن کو کلام سے زیادہ سرِ فہرت رکھا گیاتھا،یہاں یہ ان لوگوں کے دلوں میں بویا گیا، جن کے دلو ں میں اسے دیگر چیزوں سے زیادہ فوقیت حاصل ہوئی۔ یہ پھلدار درجہ ہے۔  صرف یہی واحد درجہ ہے جو پھل لاتا ہے۔ اور جیسے مسیح نے یوحنا 15باب میں کہا:

 

یوحنا 15باب1، 2، 4، 5، 8اور 16آیات:

”انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔  جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اسے چھانٹتا ہے تا کہ زیادہ پھل لائے۔ ۔ ۔  تم مجھ میں قائم رہو اور میں تم میں۔  جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اسی طرح اگر تم بھی مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔ میں انگور کا درخت ہو تم ڈالیاں ہو۔  جو مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لا۔  جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ ۔ ۔ تم نے مجھے نہیں چنا بلکہ میں نے تمہیں چن لیا اور تم کو مقرر کیا کہ جا کر پھل لا اور تمہارا پھل قائم رہے تاکہ میرے نام سے جو کچھ باپ سے مانگو وہ تم کو دے۔ “

 

          خدا ہر اس ڈالی کو چھانٹتا ہے جو پھل لاتی ہے تا کہ زیادہ پھل لائے۔ جتنا زیادہ کوئی شخص پھل لاتا ہے اتنا ہی خدا جلال پاتا ہے۔

 

 

.6  اختتام:

 

          اختتام کرتے ہوئے۔  خدا کا کلام شاید بہت سے لوگوں کو ملتا ہے۔  تاہم اس کے نتائج مختلف ہوں گے کیونکہ ان لوگوں کے دلوں کی خاصیتیں مختلف ہوتی ہیں جو کلام کو سنتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے رد کر دیں گے، کچھ لوگ اسے قبول کریں گے لیں پہلی مصیبت کے ساتھ ہی بھول جائیں گے، کچھ لوگ اسے قبول کریں گے، بعدمیں دوسری چیزوں کو اس پر غالب کرتے ہوئے اس کی اہمیت کم کر دیں گے، اور آخر کار کچھ لوگ اسے نیک اور ایماندار دل میں رکھیں گے اور پھل لائیں گے۔ اس لئے یسوع مسیح اس تمثیل کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے،” خبردار رہو کہ تم کس طرح سنتے ہو“(لوقا 8باب18آیت)۔ بات صرف یہ نہیں کہ کوئی خدا کا کلام سنتا ہے، بات یہ ہے کہ کوئی خدا کا کلام کس طرح سنتا ہے، کیونکہ کلام سننے والے بہت ہیں لیکن پھل صرف وہی لوگ لاتے ہیں جو اسے ایک نیک اور ایماندار دل میں رکھتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم سب اسی درجہ میں شامل ہوں اور ہمیشہ اسی میں قائم رہیں۔

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :