بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

آپ کی بصیرت کیا ہے؟

 

       عبرانیوں 11باب9اور10آیت میں ہم ابراہام کے بارے میں پڑھتے ہیں:

 

عبرانیوں11باب9اور10آیت:
“ ایمان ہی سے اس نے ملکِ موعود میں اس طرح مسافرانہ طور پر بودوباش کی کہ گویا غیر ملک ہے اور اضحاق اور یعقوب سمیت جو اس کے ساتھ اسی وعدہ کے وارث تھے خیموں میں سکونت کی۔
   
کیونکہ وہ اس پائدار شہر کا امیدوار تھا جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے۔    

 

       میں نے خاص طور پر 10آیت کو مارک کیا ہے جو ہمیں ابراہام کا مشن بیان کرتی ہے۔  اس سے قبل کہ ہم اس کو تفصیل سے دیکھیں ،   آئیے پہلے اس بات پر غور کریں کہ بصیرت کیا ہے۔  ہم جسمانی سطح پر لفظ بصیرت کا مطلب دیکھنے کی طاقت کے طور پر لے سکتے ہیں۔  اس دنیا میں بصیرت رکھنے سے مراد یہ کہ مجھ میںآنکھوں سے دیکھنے کی قابلیت یا خاصیت ہے۔  ہم کہتے ہیں کہ ایک نابینا شخس اپنی بصیرت کھو دیتا ہے،   یعنی کہ،   وہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔  اسی طرح،   لفظ بصیرت مستقبل  “ دیکھنے “  کےلئے بھی استعمال ہوتا ہے،  جو موجودہ وقت میں ظاہری طور پر نہیں ہے وہ ہم بصیرت کے وسیلہ سے مستقبل میں دیکھتے ہیں۔  یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور اور ہم اس کے پیچھے اسے حاصل کرنے کےلئے جا رہے ہیں۔  اس طرح بصیرت ایک بہت مضبوط پہلو ہے جو ہماری منزل کا تعن کرتا ہے،   جہاں ہم خود کو مستقبل میں دیکھتے ہیں۔  اس قسم کی بصیرت کے بغیر جو کچھ کسی شخص کے پاس باقی بچتا ہے وہ یہاں اور ابھی ہے اور ہم اس شخص کو بھی نابینا ہی کہہ سکتے ہیں:  وہ شاید جسمانی طور پر نابینا نہ ہو،   تاہم وہ اس لحاظ سے نابینا ہے کیونکہ وہ آج سے آگے نہیں دیکھ سکتا۔ 

        اب ابراہام کی طرف آتے ہوئے،  یہ اس کا معاملہ نہیں تھا۔  کیونکہ وہ بصیرت سے بھرپور شخص تھا۔  وہ بصیرت جو خدا نے اسی عطا کی۔  اور بصیرت کے بارے میں یہ ایک اور بات ہے۔  ۔  ۔   کیا جو بصیرت ہمارے پاس ہے وہ خود کار ،   خود کی بنائی ہوئی یا خدا کی بنائی ہوئی بصیرت ہے؟ اور ہم دیکھیں گے کہ خدا نے ہم سب کو بصیرت دی ہے۔  ابراہام نے اپنے ملک کو چھوڑا اور وعدہ کی سر زمین کےلئے سفر کیا۔  وہ اس وعدہ کی پیروی کرتے ہوئے جو خدا نے اس سے کیا تھا ،   پردیسی تھا۔  اس نے درج ذیل وجہ سے تمام مصائب سہے:   “ کیونکہ وہ اس پائدار شہر کا امیدوار تھا جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے۔

 

       ابراہام کا خواب ابھی اور یہاں لمبی،    “ بہتر “  زندگی گزارنا نہیں تھا۔  اس نے پروا نہیں کی کہ وہ کہاں رہتا ہے۔  اس نے خدا کے وعدہ کو پورا کرنے کےلئے اس بات کی فکر نہ کی کہ وہ اپنے خاندان کو چھوڑ رہا ہے اور وہ پردیسیوں کی طرح چلا اور وعدہ کی سر زمین کےلئے سفر کیا۔  اس کی فکر اب اور یہاں کی نہیں تھی۔  اس کا خواب وہ شہر تھا جس کا معمار اور بنانے والا خداتھا۔   یہ شہر،   خدا کا آسمانی شہر،   اس کی آنکھوں کے سامنے تھا اور یہ وہاں تھا جہاں وہ جانا چاہتا تھا۔  اور نہ صرف وہ بلکہ وہ لوگ بھی جو اس کی پیروی کرتے تھے:  سارا،   اضحاق،   یعقوب۔   جیسے عبرانیوں 11باب ہمیں دوبارہ بتاتا ہے:

 

عبرانیوں11باب13تا16آیت:
“ یہ سب ایمان کی حالت میں مرےاور وعدہ کی ہوئی چیزیں نہ پائیں مگر دور ہی سے انہیں دیکھ کر خوش ہوئے
اور اقرار کیا کہ ہم زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔  جو ایسی باتیں کہتے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے وطن کی طلاش میں ہیں۔   اور جس ملک سے وہ نکل آئے تھے اگر اس کا خیال کرتے تو انہیں واپس جانے کا موقع تھا۔   مگر حقیقت میں وہ ایک بہتر یعنی آسمانی ملک کے مشتاق تھے۔   اسلی لئے خدا ان سے یعنی ان کا خدا کہلانے سے شرمایا نہیں چنانچہ اس نے ان کےلئے ایک شہر تیار کیا۔   

 

       ابراہام اور دوسرے لوگوں نے اس ملک میں دوبارہ واپس جانے کی پرواہ نہ کی جہاں سے وہ آئے تھے۔  ان کا ایک خواب تھا،   کسی دوسرے ملک کا خواب،   ایک ایسے ملک کا خواب جو خدا نے تیار کیا تھا،   اور نہ صرف ان کےلئے بلکہ ہمارے لئے بھی۔  ان کا خواب ایسا خواب تھا جو خد ا ہمیں بھی دیتا ہے کیونکہ ہم بھی اسی شہر کی طرف جا رہے ہیں۔  دیکھیں کہ کلام کیا کہتا ہے:

 

عبرانیوں13باب14آیت:
“ کیونکہ ہمارا یہاں کوئی قائم رہنے والا شہر نہیں
بلکہ ہم آنے والے شہر کی تلاش میں ہیں۔  

 

افسیوں2باب19آیت:
“ پس اب تم پردیسی اور مسافر نہیں رہے بلکہ مقدسوں کے
ہموطن اور خدا کے گھرانے کے ہوگئے۔  

 

فلپیوں3باب20آیت:
“ مگر ہمارا
وطن آسمان پر ہے۔  ۔  ۔  

 

1پطرس2باب11آیت:
“ اے پیارو!
میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو پردیسی اور مسافر جان کران جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو روح سے لڑائی رکھتی ہیں۔  

 

       ہمارا یہاں کوئی شہر نہیں ہے! ابراہا م کی طرح ہم بھی ایسے شہر کے منتظر ہیں جو آنے کو ہے اور جس کی تلاش میں وہ بھی تھا۔  اس کی طرح،   ہم بھی یہاں اجنبی اور پردیسی ہیں ۔  یہاں افسیوں2باب19آیت اور 1پطرس2باب11آیت میں مشابہت بھی دیکھیں۔  خداوند یسوع مسیح پر اور اسکے جی اٹھنے پر ایمان لانے سے،   باپ نے  “ ہم کو تاریکی کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کیا “  ( کلسیوں1 باب13آیت ) ۔  اس کے ساتھ ہی یہ ہم کو اس دنیا میں  “ پردیسی اور اجنبی “  ( 1پطرس2باب11آیت )  اور  “ مقدسوں کے ہمقطن اور خدا کے گھرانے کے “   ( افسیوں 2باب19آیت ) بنا دیتا ہے۔   ہم آسمان کے شہری ہیں۔   اسی ملک کے شہری،   اسی شہر کے رکن جو ابراہا م کاخواب تھا! ابراہام کی زندگی کا مکمل دارومدار اسی خواب پر تھا۔  آر ٹی کینڈال ( R. T Kendall ) کا ایک فقرہ استعمال کرتے ہوئے،    وہ آسمان پر جا رہا تھا،   اس ملک میں جو خد نے تیار کیا تھا،  اور وہ اسے جانتا تھا۔   “ مزید اس کے لئے یہاں اور ابھی کا کوئی تصور نہیں تھا سوائے اس بصیرت کے جو خدا نے اسے عطا کی: آسمان میں ایک شہر۔  یہ ہماری بھی آخری منزل ہے۔  ایسا کوئی مسیحی نہیں ہونا چاہئے جو بصیرت کے بغیر یا غلط بصیرت کے ساتھ زندگی گزار رہا ہو۔  بھائیو! ہمارا خواب یہاں اور ابھی کا نہیں ہے۔  یہ اس موجودہ دنیا کی چھوٹی چیزیں نہیں ہیں۔   ہم بھی اس دنیا کو چھوڑ دیں گے۔  کسی بھی مسیحی کا خواب وہ آسمانی شہر ہونا چاہئے جو خدا نے اس کےلئے تیار کیا ہے۔  ہم آسمان کے شہری ہیں! کتنے افسوس کی بات ہے کہ بہت دفعہ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں۔  بہت دفعہ ہماری توجہ کا مرکز اب اور یہاں ،   اس دنیا کی چیزیں بن جاتی ہیں۔  بیج بونے والے کی تمثیل میں خدا بتاتا ہے کہ کلام سننے والے لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں:

 

مرقس 4باب4تا20آیت:
“ بونے والا کلام بوتا ہے ،
   جو راہ کے کنارے ہیں جہاں کلام بویا جاتا ہے یہ وہ ہیں کہ جب انہوں نے کلام سنا تو شیطان فی الفور آکر اس کلام کو جو ان میں بویا گیا تھا اٹھا لے جاتا ہے۔  اور اسی طرح جو پتھریلی زمین میں بوئے گئے یہ وہ ہیں جو کلام کو سن کر فی الفور خوشی سے قبول کر لیتے ہیں اور اپنے اندر جڑ نہیں رکھتے بلکہ چند روزہ ہیں۔  پھر جب کلام کے سبب مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فی الفور ٹھوکر کھاتے ہیں۔   اور جو جھاڑیوں میں بوئے گئے وہ اور ہیں۔  یہ وہ ہیں جنہوں نے کلام سنا اور دنیا کی فکر اور دولت کا فریب اور اور چیزوں کو لالچ داخل ہوکر کلام کو دبا دیتے ہیں اور وہ بے پھل ہوجاتا ہے۔   اور جو اچھی زمین میں بوئے گئے ہیں یہ وہ ہیں جو کلام کو سنتے اور قبول کرتے اور پھل لاتے ہیں۔   کوئی تیس گنا کوئی ساٹھ گنا کوئی سو گنا۔  

 

       دوسری اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے کلام پایا لیکن گناہ میں گر گئے یا ختم ہوگئے کیونکہ ان کی کوئی بصیرت نہیں تھی۔  اگر چہ انہوں نے کلام کو حاصل کیا لیکن آخر کار ان کی توجہ کا مرکز اب اور یہاں بن گیا۔  دوسری قسم نے کچھ دیر کےلئے برداشت کیا،   لیکن جب مصیبت اور ظلم آیا تو وہ پھر ویسے ہی ہوگئے۔  بصیرت ایسی چیز ہے جو آپ کو،   قیمت کی پراہ کئے بغیر،   اسی چیز پر نظر رکھتے ہوئے جسے آپ اپنی منزل سمجھتے ہیں،   آگے بڑھنے کی ہمت عطا کرتا ہے۔  یقینا یہ اس قسم میں پائے جانے والے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوا۔  جب کلام کے سبب سے مصیبت اور ظلم برپا ہوا تو دوبارہ ان کی توجہ کا مرکز اب اور یہاں بن گیا،   اور یہ کرنے سے وہ  “ مرجھا گئے “  ( مرقس4باب6آیت ) ۔   اسی طرح تیسری قسم ہے۔  ان کا مرکز درست نہیں تھا۔  اس دنیا کی فکروںاور دولت اور دوسری چیزوں کی خواہشوں نے کلام کو بے پھل کر دیا۔  دونوں اقسام ناکام ہو گئیں کیونکہ دونوں کا خواب آسمان اور وہ شہر نہیں تھا جس کا بنانے والا خدا تھا بلکہ اب اور یہاں ان کا خواب تھا۔  اور اگر چہ ہمارا خدا اب اور یہاں کا خدا بھی ہے،   تاہم اب اور یہاں ہماری توجہ کا مرکز نہیں ہونا چاہئے۔  1کرنتھیوںہمیں بتاتا ہے:

 

1کرنتھیوں15باب19آیت:
“ اگر ہم
صرف اسی زندگی میں مسیح میں امید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بد نصیب ہیں۔  

 

       اس آیت سے قبل جو آیات آتی ہیں ان کو پڑھتے ہوئے،   آپ دیکھیں گے کہ کرنتھیوں میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اس نظریے کی حمایت کی کہ مردوں کی قیامت نہیں ہے۔  دوسرے لفظوں میں،  صرف ایک ہی چیز جو کسی شخص کی زدگی میں ہے وہ اب اور یہاں ہے۔   پولوس کہتا ہے کہ اگر ایسا ہوتا اور مسیح میں ہماری امید صرف اسی زندگی میں ہوتی،   صرف اب اور یہاں پر،   تو ہم سب آدمیوں میں بد نصیب ہیں۔  لفظ  “ صرف “  پر غور کریں۔  ایسا نہیں ہے کہ ہماری امید مسیح پر اس زندگی کےلئے ہے۔  بلکہ صرف اسی زندگی کےلئے نہیں ہے۔  اگر ہماری توجہ کا مرکز صرف اب اور یہاں ہے ( میں خدا پر بھروسہ کرتا ہوں کہ وہ مجھے اچھی ملازمت دے،   اچھا جیون ساتھی دے،   بہتر صحت دے وغیرہ وغیرہ ) تو ہم سب آدمیوں میں سے بد نصیب ہیں۔   کیونکہ ہم بصیرت،   بڑی تصویر کو چھوڑ رہے ہیں۔  ہم یقینا ہماری احتیاج ،   ہماری فکریں خداوند کو دیں گے،   ہمارے دل اور خیالات اس کے سامنے کھولیں،   کھٹکھٹائیں گے تو پائیں گے،   لیکن ہماری توجہ کا خاص مرکز آسمان،   بڑی تصویر،   بصیرت،   وہ شہر جو خدا نے ہمارے لئے تیار کیا ہے ہونا چاہئے۔ 

 

متی6باب25تا33آیت:
“ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟
 اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟  ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔   کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟  تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میںایک گھڑی بھی زیادہ بڑھا سکے؟ اور پوشاک کےلئے کیون فکر کرتے ہو؟  جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔   وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔   تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔   پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک بناتا ہے تو اے کم اعتقادو! تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟  
اس لئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟  کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔   بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں تم کو مل جائیں گی۔   

 

       کلام کہتا ہے کہ،   “ اپنی ان کی فکر نہ کرو۔    خدا ہماری مام ضرورتوں کو جانتا ہے اور وہ ان کو پورا کرے گا۔  ہمیں ان چیزوں پر توجہ نہیں کرنی چاہئے۔  ہمارا مرکز،   ہمارا خواب جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہونا چاہئے وہ دولت،   اس زندگی کی فکریں اور دوسری چیزیں نہیں بلکہ خدا کی بادشاہت ،   وہ شہر جو خدا نے ہمارے لئے تعمیر کیا ہے اور جس کی طرف ہم جارہے ہیں،   ہمارا حقیقی ملک ہونا چاہئے۔  جیسے عبرانیوں کہتا ہے:

 

عبرانیوں12باب18تا22آیت:
“ تم اس پہاڑ کے پاس نہیں آئے جس کو چھونا ممکن تھا اور وہ آگ سے جلتا تھا اور اس پر کالی گھٹا اور تاریکی اور طوفان اور نرسنگے کا شور اور کلام کرنے والے کی ایسی آواز تھی جس کے سننے والوں نے درخواست کی کہ ہم سے اور کلام نہ کیا جائے۔
  ۔  ۔  ۔ 
بلکہ تم صیہوں کے پہاڑ اور زندہ خدا کے شہر یعنی آسمانی یروشلیم کے پاس آئے ہو۔  ۔  ۔  ۔  

 

        “ تم آئے ہو۔    ہم پہلے سے وہاں ہیں۔  ہم مقدسوں کے ہموطن ہیں۔   ہمیں مردوں میں سے جلایا گیا ہے اور مسیح کے ساتھ آسمانی مقاموں میں بٹھایا گیا ہے ( افسیوں2باب6آیت ) ۔  ہم آسمان،   اس شہر کی جو خدا نے ہمارے لئے تیار کیا ہے،   راہ میں ہیں۔ 

 

مکاشفہ21باب2تا4آیت:
“ پھر میں نے شہر مقدس نئے یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس اترتے دیکھا اور وہ اس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کےلئے سنگار کیا ہو۔
   پھر میں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز میں یہ کہتے سنا کہ دیکھو خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ ان کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ ان کے ساتھ رہے گا اور وہ ان کا خدا ہو گا۔   اور وہ انکی آنکھوں کے سب ٓنسو پونچھ دے گا۔   اور اس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔   نہ آہ و نالہ نہ درد۔   پہلی چیزیں جاتی رہیں۔  

 

       مسیح میں بھائیو! کیا یہ آپ کی بصیرت ہے؟  کیا آپ اسی کے متلاشی ہیں؟ یا کیا آپ فکروں کے بوجھ تلے ہیں اور اپنا خواب کھو بیٹھے ہیں۔  ہمت کرو،   اس کے کلام کو دیکھو اور اس پر غور کرو: ہم اب اور یہاں سے تعلق نہیں رکھتے۔  اس پر زیادہ توجہ مرکوز مت کریں۔  یہاں ہم پردیسی اور مسافر ہیں اور ایک نئے ملک،   نئے شہر کے امیدوار ہیں جسے خدا نے نہ کہ انسان نے،   ہمارے لئے تیار کیا ہے۔  یقینا اس نے آپ کےلئے اور میرے لئے وہ شہر تیار کیا ہے اور ہم وہاں جا رہے ہیں۔ 

 

یوحنا14باب2اور3آیت:
“ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔
   اگر نہ ہوتے تو میں تم سے کہہ دیتا کیونکہ
میں جاتا ہوں تا کہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں۔   اور اگر میں تمہارے لئے جا کر جگہ تیار کروں تو پھر آکر تمہیںاپنے ساتھ لے لوں گاجہاں میں ہوں تم بھی ہو۔   

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :