بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

“ دنیا سے محبت نہ رکھو “

       خدا یہ حکم ہمیں 1یوحنا2باب15تا17آیت میں دیتا ہے۔   یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

1یوحنا2باب15تا17آیت:
“ نہ دنیا سے محبت رکھو نہ ان چیزوں سے جو دنیا میں ہیں۔ 
جو کوئی دنیا سے محبت رکھتا ہے اس میںباپ کی محبت نہیں۔  کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیںبلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔   دنیا اور اس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔“

 

       اس حوالہ کے مطابق:   “ جو کوئی دنیا سے محبت رکھتا ہے اس میں باپ کی محبت نہیں۔   “  دوسرے لفظوں میں:  دنیا سے محبت باپ کی محبت کو ختم کر دیتی ہے۔  ان دونوں کے لئے ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے۔  قضاة کی کتاب سے شروع کرتے ہوئے،  میں اس موضوع کے حوال سے چند باتوں پر غور کرنا چاہتا ہوں:

 

1قضاة1اور2باب:

       قضاة 1اور2باب میں اسرائیل،  خدا کی امت،  وعدہ کی سر زمیں میں آخر کار پہنچ گئے تھے اور وہ اسے پالینے کو تیار تھے۔   تاہم خدا کا وعدہ صرف اسے حاصل کرنے کا نہیں تھا بلکہ ا س میں سے ان قوموں کو بھی ختم کرنے کا وعدہ تھا جو اس پر پہلے سے قابض تھیں۔  جیسا کہ ہم استثنا7باب16آیت میں پڑھتے ہیں:

 

استثنا7باب16آیت:
“ اور تو ان سب قوموں کو جن کو خداوند تیرا خدا تیرے قابو میں کر دے گانابود کر ڈالنا۔   تو ان پر ترس نہ کھانا اور ان کے دیوتاﺅں کی عبادت کرنا
ورنہ یہ تیرے لئے ایک جال ہوگا۔   “

 

استثنا7باب2تا6آیت بھی:
“ اور جب خداوند تیرا خدا ن کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مار لے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا۔ 
تو ان سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ ان پر رحم کرنا۔  تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا۔  نہ انکے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا نہ اپنے بیٹوں کےلئے ان کی بیٹیاں لینا۔  کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تا کہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔  یوں خداوند کا غضب تجھ پر بھڑکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کر دے گا۔  بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا۔  ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا۔  کیونکہ تو خداوند اپنے خدا کےلئے ایک مقدس قوم ہے۔  خداوند تیرے خدا نے تجھ کو روی زمین کی اور قوموں میں سے چن لیا ہے تاکہ اسکی خاص امت ٹھہرے۔   “

 

       خداوند نے بنی اسرائیل کو اس کی امت ہونے کے لئے چن لیا۔  اس لئے اس کی امت کو غیر قوموں کے ساتھ نہیں ملنا چاہئے۔  خداوند ملی جلی امت نہیں چاہتا تھا ،  جس کا ایک پاﺅں اس کی طرف اور دوسرا دنیا کی طرف ہو۔  اس کی بجائے،  وہ ایسی امت چاہتا تھا جو مکمل طور پر اسے دی گئی ہو،  یہ جانتے ہوئے کہ کسی بھی دوسری قوم کی ملاوٹ انہیں اس سے دور کر دے گی۔ 

 

       خداوند کے حکم کی وضاحت کے باوجود،  اسرائیل نے اسکی پیروی کرنے سے انکار کر دیا۔   قضاة 1باب27تا33آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

قضاة 1باب27تا33آیت:
“ اور منسی نے بھی بیت شان اور اس کے قصبوں اور تعناک اور اس کے قصبوں اور دور اور اس کے قصبوں کے باشندوں اور ابلیعام اور اس کے باشندوں اور مجدو اور اس کے قصبوں کے باشندوں کو نہ نکالا بلکہ کعنانی اس ملک میں بسے ہی رہے۔  پر جب اسرائیلیوں نے زور پکڑا تو وہ کعنانیوں سے بیگار کا کام لینے لگے پر ان کو بالکل نکال نہ دیا۔  اور افرائیل اور ان کعنانیوں کو جو جزر میں رہتے تھے نہ نکالا سو کعنانی ان کے درمیان جزر میں بسے رہے۔   اور زبولون اور قطرون اور نہال کے لوگوں کو نہ نکالاسو کعنانی ان کے درمیان بودوباش کرتے رہے اور ان کے مطیع ہو گئے۔  اور آشر نے عکو اور صیدا اور احلاب اور اکزیب اور حلبہ اور افیق اوررحوب کے با شندوں کو نہ نکالا بلکہ آشری ان کعنانیوں کے درمیان جو اس ملک کے باشندے تھے بس گئے کیونکہ انہوں نے ان کو نکالا نہ تھا۔   اور نفتالی نے بیت شمس اور بیت عنات کے باشندوں کو نہ نکالا بلکہ وہ ان کعنانیوں میں جو وہاں رہتے تھے بس گیا تو بھی بیت شمس اور بیت عنات کے باشندے ان کے مطیع ہو گئے۔   “

 

پھر 2باب میں ہم پڑھتے ہیں:

 

قضاة2باب1تا3آیت:
“ اور خداوند کافرشتہ جلجال سے بوکیم کو آیا اور کہنے لگا میں تم کو مصر سے نکال کر اس ملک میں جس کی بابت میں نے تمہارے باپ دادا سے قسم کھائی تھی لے آیا اور میں نے کہا کہ میں تم سے ہر گز عہد شکنی نہیں کروں گا ۔   
اور تم اس ملک کے باشندوں کے ساتھ عہد نہ باندھنا بلکہ تم ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا پر تم نے میری بات نہ مانی۔   تم نے کیوں ایسا کیا؟  اسی لئے میں نے بھی کہا کہ میں ان کو تمہارے آگے سے دفع کروں گا بلکہ وہ تمہارے پہلوﺅں کے کانٹے اور ان کے دیوتا تمہارے لئے پھندا ہوں گے۔   “

 

       غیر قوموں سے الگ ہونے کی بجائے،  اسرائیل نے ان کے ساتھ میل جول کیا اور ان کو دور کرنے سے انکار کیا۔   شاید اس کی کوئی وجوہات ہوں۔  وہ شاید سوچتے ہوں کہ جو کچھ خدا نے کہا وہ۔  ۔  ۔  ۔  ٹھیک نہیں تھا۔  اخر کار،  وہ خدا کی خدمت کرنے میں کامیاب ہوئے،  غیر قوموں کو ان کے درمیان میں ہی آباد کرتے ہوئے۔  خدا کے کلام کے ساتھ سمجھوتا کرنے کےلئے بہانے ڈھونڈنا مشکل بات نہیں ہے۔  ایسے بہت سے بہانے ہیں جو کوئی شخص اس دنیا میں اپنے مقام کو ثابت کرنے کےلئے بنا سکتا ہے۔  تاہم،  سچائی وہی تھی جو خدا نے کہا تھا۔  اس نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ غیر قوموں سے الگ رہو۔  اسی طرح آج بھی وہ اپنے لوگوں سے بات کرتا ہے،  حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو بے ایمانوں کے جوئے میں نہ جوتو:

 

2کرنتھیوں6باب14تا18آیت:
“ بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جوئے میں نہ جتو کیونکہ راستبازی اور بے دینی میں کیا میل جول؟  یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت ؟  مسیح کو بلیعال کے ساتھ کیا موافقت؟  یا ایماندار کا بے ایمان سے کیا واسطہ؟ اور خدا کے مقدس کو بتوں سے کیا مناسبت ہے؟  کیونکہ ہم زندہ خدا ک مقدس ہیں۔   چنانچہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں ان میں بسوں گا اور ان میں چلوں پھروں گا اور میں ان کا خدا ہوں گا اور وہ میری امت ہوں گے۔   اس واسطے خداوند فرماتا ہے کہ ان میں سے نکل کر الگ رہو اور ناپاک چیز کو نہ چھوﺅ تو میں تم کو قبول کر لوں گا۔  اور تماہار باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہو گے۔   “

 

       خدا نے بات کی ہے۔   وہ اپنے قوم کو دنیا اور اس کے کاموں سے عاری ،  پاک قوم بنانا چاہتا ہے۔   وہ بنی اسرائیل کو غیر قوموں کے ساتھ نہیں ملانا چاہتا تھا،  کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس قسم کی ملاوٹ انہیں اس سے دور اور غیر قوموں کے قریب تر کر دے گی،  جو کہ آخر میں ہوا تھا:

 

قضاة2باب11تا13آیت:
“ اور بنی اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے۔   اور
انہوں نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو جو ان کو ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا اور دوسرے معبودوں کی جو ان کے چوگرد کی قوموں کے دیوتاﺅں میں سے تھے پیروی کرنے لگے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا۔  اور وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے۔   “

 

       خدا کے لوگوں کی غیر قوموں کے ساتھ ملاوٹ ہمیشہ ہی برائی پیدا کرتی ہے۔  دنیا سے محبت باپ کی محبت کو ختم کر دیتی ہے،  اور غیر قوموں کے جوئے میں جتنا خدا وند کو ترک کرنے اور غیر قوموں کے دیوتاﺅں کی پرستش کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔  خداوند کی محبت ساکت ہو جاتی ہے جب اس کے لوگ دنیا کی طرف،   “ اپنے چوگر قوموں کی طرف “ ،  آجاتے ہیں۔  جب وہ  “ دنیا کی فکروں اور دولت کے فریب اور دورسی چیزوں کی خواہشوں    (مرقس4باب19آیت)  کواپنے دلوں میں داخل ہونے کیا جازت دیتے ہیں تو وہ خداوند سے دور ہوجاتے ہیں،  جیسے غیر قوموں نے اسرائیلیوں کو خداوند سے دور کر دیا جب انہوں نے ان غیر قوموں کو اپنے ہم وطن بنایا۔ 

 

2یعقوب4باب4آیت او ر دیگر حوالہ جات:

       یہ حقیقت کلام کے دیگر حوالہ جات سے بھی تصدیق پاتی ہے کہ خدا کی محبت اور دنیا سے محبت مکمل طور پر ایک دوسرے سے غیر متعلقہ ہیں۔   ایسا ہی ایک حوالہ یعقوب4باب4آیت میں بھی ہے۔   یہاں ہم پڑھے ہیں:

 

یعقوب4باب4آیت:
“ اے زنا کرنے والو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا سے دوستی رکھناخدا سے دشمنی کرنا ہے ؟  پس جو کوئی دنیا کا دوست بننا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا کا دشمن بناتا ہے۔   “

 

       زناکار ایسا شخص ہے جو شادی شدہ ہے اورپھر بھی کسی دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔  یہ اسے زناکار بنا دیتا ہے۔  اسی طرح یعقوب 4 باب میں زناکار ایسا شخص ہے جو اگر چہ خدا کے عہد میں ہے،  اگر چہ وہ یسوع مسیح کے ساتھ ملاپ رکھتا ہے (2کرنتھیوں11باب2 آیت)  ، پھر بھی وہ دنیا کے ساتھ دیگر عہد ناموں کے پیچھے بھاگتا ہے۔   یہ اسے زناکار بنا دیتا ہے۔   دوسرے لفظوں میں،  خداوند سے رشتہ رکھنا اور دنیا سے دوستی رکھنا زناکاری ہے۔  دنیا اور خدا دونوں سے دوستی ناممکن ہے۔  خدا کے بندے کے دل میں صرف خدا بسنا چاہئے، اور وہ دل میں کوئی بھی ساتھی نہیں چاہتا۔  جیسے لوقا10باب27آیت عموماًکہتی ہے:

 

لوقا10باب27آیت:
“ اس نے جواب میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سے
اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔   “

 

اور متی6باب24آیت:
“ کوئی آدمی
دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔   یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔   تم خدا اور دولت دونوں کی خدامت نہیں کر سکتے۔   “

 

       دو مالکوں کی خدمت کرنا ناممکن ہے۔   ہماری انکھیں دنیا اور خدا دونوں پر لگانا نا ممکن ہے۔   کیونکہ:

 

متی6باب21آیت:
“ کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔   “

 

       جب ہمارا مال زمینی چیزوں پر ہے تو ہماراے دل کا آسمان پر ہونا ناممکن ہے۔   دنیا کی چیزوں پر نظر رکھتے ہوئے ہم خدا کے راستے پر نہیں چل سکتے۔   خداوند کے راستے پر چلنے کےلئے ہمارا اپنا خیال ہونا چاہئے اور عبرانیوں 12باب1اور2آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے:

 

عبرانیوں12باب1اور2آیت:
“ تو آﺅ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کر کے اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں در پیش ہے۔   
اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اسی خوشی کےلئے جواس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کر کے صلیب کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کے دہنی طرف جا بیٹھا۔   “

 

کلسیوں3باب1اور2آیت بھی:
“ پس جب تم مسیح کے ساتھ جلائے گئے تو عالم بالا کی چیزوں کی تلاش میں رہو جہاں مسیح موجود ہے اور خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے۔   
عالم بالا کی چیزوں کی تلاش میں رہو نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔   “

 

       جن چیزوں پر ہمیں اپنا دل لگانا ہے وہ آسمانی چیزیں ہیں۔  مسیحی بصیرت خداوند یسوع مسیح ہے۔  باقی سب چیزیں،  اگر چہ وہ اچھی اور منطقی معلوم ہوتی ہیں، غلط خیال ہیں اور ہمیں غلط راستے پر لے جاتے ہیں۔  یسوع نے متی 16باب24اور25آیت میں کہا:

 

متی16باب24اور25آیت:
“ اس وقت یسوع نے اپنے شاگردں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو وہ اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔   کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اسے پائے گا۔   “

 

       یسوع مسیح کا راستہ،  درست راستہ ،  خودی کا راستہ نہیں بلکہ اس کے عین مخالف ہے:  خودی کی انکاری کا راستہ۔   جو کوئی اس کی پیروی کرنا چاہتا ہے،  اسے اپنی مرضی کی تلاش نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس کی مرضی کی جو اس کےلئے موا۔   2کرنتھیوں5باب14اور15آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

2کرنتھیوں5باب14اور15آیت:
“ کیونکہ مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے اس لئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب ایک سب کےلئے موا تو سب مر گئے۔   اور وہ اس لئے سب کے واسطے موا
کہ جو جیتے ہیں وہ آگے کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ اس کے لئے جئیں جو ان کے واسطے موا اور پھر جی اٹھا۔   “

 

       یسوع مسیح موا تا کہ ہم آگے کو خود کی بجائے اس کےلئے جئیں جو ہماری خاطر موا۔   گلتیوں5باب24آیت کہتی ہے،  “ جو مسیح یسوع کے ہیں انہوں نے جسم کو اس کی رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھینچ دیا ہے۔   “  یا تو ہم مسیح کی پیروی کریں گے یا جسم کی۔  یا ہم خدا کی خدمت کریں گے یا پھر دنیا کی۔  یا ہم ناہموار جوئے میں جتیں گے یا خدا کے ساتھ۔  اس میں درمیانی صورت قابل قبول نہیں۔  خدا کا راستہ دنیا کے راستے سے الگ ہے اور ہم دنوں پرایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :