بائبل کی سچائیاں









جسم ، روح اور جان



بہت سی آیت کو بہت زیادہ غلط سمجھا جاتا ہے جیسے کہ آدم اور حوا کے گناہ کے حوالے سے ہیں۔بد قسمتی سے، ان حوالوں کے بارے میں غلط سمجھ کی وجہ سے بائبل کے دیگر حصوں میں بھی الجھن اور غیر فہمی کی کوئی حد نہیں پائی جاتی۔در حقیقت، اگر ہمیں اس کی واضح سمجھ نہیں ہے جو پیدائش 1تا 3ابواب میں ہوا تو ہمیں پھر اس کی بھی اہمیت کا اندازہ نہیں ہو سکتا جوکام یسوع مسیح نے ہمارے نجات دہندہ کے طور پر مکمل کیا۔حقیقتاً ،ہمیں نجات دہندہ کی کیوں ضرورت ہے؟یسوع مسیح نے کس چیز کو دوبارہ قائم کیا؟ہم میں سے بہت سارے اس بات کو مانتے ہیں کہ یسوع مسیح نے ہمیں اس گناہ سے نجات دی ہے جو آدم نے کیا تھا۔لیکن کیا ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ آدم نے کیا تب حقیقت میں ہوا کیا تھا؟ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آج یسوع مسیح پر ایمان لانے کے بعد ہم روح القدس پاتے ہیں۔لیکن ہمیں روح القدس کی ضرورت کیوں ہے اور یہ پینتیکوست سے پہلے کیوں دستیاب نہ تھا؟ ان سوالات کے جواب اور بہت سے دیگر سوالوں کے جواب سے پہلے پیدائش کی کتاب کے پہلے تین ابواب کی واضح سمجھ ہونا زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے جو ہم اس مطالعہ میں سمجھنے جا رہے ہیںوہ نہایت ضروری اور خاص ہے اس کےلئے میں آپکی توجہ چاہتا ہوں۔

 

 1. ”جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا“

 ہمارے موضوع تک پہنچنے کےلئے ،آیئے بائبل کی پہلی کتاب، پیدائش ، پر چلتے ہیں۔ یہاں ، انسان کو خلق کرنے کے بعد، خدا نے اس پر ایک پابندی عائد کی تھی اور اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر سزا بھی بتائی تھی۔پس، آئیے پڑھتے ہیں:

 

پیدائش 2 باب 16اور 17آیت:
 ”اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔“

 

 جو پابندی آدم پر خدا نے عائد کی تھی وہ یہ تھی کہ وہ باغ کے درمیان میں لگے ہوئے نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل نہیں کھائے گا1 اسپابندی کی خلاف ورزی کی سزا یہ تھی کہ، ”جس روز(اس بات پر توجہ دیں : اسی دن) تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔“ اس سزا میں دو بہت ہی خاص باتیں غور طلب ہیں۔پہلی بات یہ کہ اگر آدم نے اس درخت کا پھل کھایا تو وہ اسی دنفوراً مر جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ یہ یقینا ہو گا۔” تو مرا“ یہ فقرہ اس حقیقت پر زور دینے کےلئے ہے کہ موت 100فیصد اسی دن ہوگی۔

آئیے اب پیدائش 3باب پر چلتے ہیں یہ دیکھنے کےلئے کہ جو خدا نے کہا کیا آدم اور حوا نے اس پر عمل کیا:

 

پیدائش 3باب 1تا 6آیات:
 ”اور سانپ کل دشتی جانوروں میں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نےکہا ہے کہ تم باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا۔ عورت نے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ کھانا نہ چھونا ورنہ مر جاﺅ گے ۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے۔ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھاﺅ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاﺅ گے ۔ عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کےلئے اچھا ہے اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کےلئے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔“

 

 یہ حوالہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سانپ نے، جو شیطان کےلئے ایک دوسرا نام ہے2 ، عورت کو دھوکہ دیا۔ ہم پہلے ہی 1مسئلے میں یہ جان چکے ہیں کہ شیطان اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا، کیونکہ عورت خدا کا کلام اچھے طریقے سے نہیں جانتی تھی۔یہ خدا کے کلام کا موثر علم ہے جو شیطان کو شدید سر درد عطا کرتا ہے۔لہٰذہ، آخر کار، آدم اور حوا نے نیک و بد کے پہچان کے درخت میں سے کھایا ۔یہ کرنے کے بعد، جیسے کہ خدا نے کہا تھا، اس کے مطابق انہیں وہیں ہلاک ہو جانا چاہیے تھا۔یہاں مسئلہ یہ ہے کہ پیدائش 5باب 5تا 6آیت کہتی ہے کہ:

 

 پیدائش 5باب 5 اور 6آیت:
 ”اور سیت کی پیدائش کے بعد آدم آٹھ سو برس تک جیتا رہا اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اور آدم کی کل عمر نو سو برس ہوئی تب وہ مرا۔“

 

 اس لئے، بائبل کے مطابق، نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے کے بعد آدم کئی سالوں تک زندہ رہا۔دوسری جانب، خدا نے کہا تھا کہ جس روز اس نے وہ کھایا وہ اسی دن مرجائے گا۔پہلی نظر میں ، یہاں ایک مسئلہ ہے کہ اس روز جب آدم اور حوا نے اس درخت کا پھل کھایا تو کیا ہوا تھا۔کیا وہ مر گئے، جیسے کہ خدا نے کہا تھا یا وہ نہیں مرے؟ہمارا یہ مسئلہ کون حل کر سکتا ہے؟ انسانی خیالات یا نظریات، مذہب یاروایات؟ جی نہیں، صرف ایک چیز ہمیں جواب دے سکتی ہے، اور یہ خدا کے کلام سے بڑھ کر کچھ نہیں۔اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ کلام جواب دے تو آپ کو یہ معاملہ اسی پر چھوڑ دینا ہوگا( خود کار تشریح)۔

ہماری سمجھ کے مطابق ، چونکہ خدا جھوٹ نہیں بولتا(گنتی 23باب19آیت) جس روز آدم اور عورت نے اس درخت کا پھل کھایا وہ حقیقتاً مر گئے۔در اصل ، شیطان تھا جس یہ الفاظ کہے تھ جب عورت کو دھوکہ دیا کہ،”تم ہر گز نہ مرو گے۔“پس، اگر وہ اس روز نہیں مرے، جیسا کہ خدا نے کہا تھا ، تو شیطان درست تھا اور خد اغلط تھا، جو کہ مکمل طور پر ناممکن ہے۔تاہم، یہی آج کل بہت سے لوگ تعلیم دیتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ،”دراصل جب خدا نے کہا کہ وہ مر جائیں گے اس کا مطلب یہ تھا کہ موت کا عنصر جنم لے گا۔“خدا کے کلام کو اس قسم کے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں اسے کسی بھی تحفظ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سچائی اپنے پاﺅ ں پہ کھڑی ہوسکتی ہے۔ کلام کو جس چیزکی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسے درستی سے کام میں لایا جائے اور اس کی اشاعت کی جائے۔ہمارے موضوع کی طرف آتے ہیں: چونکہ خدا نے کہا تھا کہ وہ اسی دن ضرور مریں گے، تو حقیقتاً وہ مر گئے تھے۔ تاہم، نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے کے بعد بھی ان کے جسموں میں جان تھی یہ ایک خود کار ثبوت ہے کہ ان کے جسموں میں ایک اور طرح کی زندگی پپنے لگی، اور ان کی اصل زندگی اسی روز ختم ہوگئی جب انہوں نے وہ پھل کھایا اور اس لحاظ سے یہ موت تھی(زندگی کی ایک قسم کا ختم ہوجانا)۔لہٰذہ، ہمیں یہ جاننے کےلئے کہ انسان کیسے خلق کیا گیا اور اس کی ہستی کے حصے کون کون سے ہیں کلامِ مقدس کو اچھی طرح جاننا ہوگا۔اس بات کا علم کہ پہلے انسان کی زندگی کن اجزاءسے مل کر بنی تھی بھی ہمیں یہ جاننے کے قابل بنائے گا کہ اس روز کیا کھویا گیا تھا۔

 

 2 ”کیونکہ تو خاک ہے“

  پہلے انسان کے حوالے سے اپنی ریسرچ شروع کرنے کےلئے آیئے پیدائش 2باب7آیت کھولیں۔ یہاں یہ کہتی ہے کہ:

 

 پیدائش2باب 7آیت:
 ”اور خدا وند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا۔۔۔“

 

 انسان کا کون ساحصہ خدا نے زمین کی مٹی سے بنایا تھا؟اس کا جسم۔اسی لئے انسانی جسم کے عنصر زمین سے مل سکتے ہیں۔پس پہلے انسان کا ایک حصہ جسم تھا۔ لیکن آیئے اسے جاری رکھتے ہیں:

 

 پیدائش2باب 7آیت:
 ”اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا(جان= عبرانی زبان میں nephesh)۔“

 

 ہم نے دیکھا کہ خدا نے انسان کو زمین کی مٹی سے خلق کیا۔تاہم، اس جسم میں جان نہیں تھی۔یہ محض زندگی کے بغیر بنایا گیا تھا۔پھر خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے،” انسان کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور وہ جیتی جان ہوا۔“اسی لئے، جان کیا ہے؟جان وہ ہے جو جسم کو زندگی دیتی ہے۔جان کے بنا جسم مردہ ہے۔جان ، جسم کی زندگی، گوشت کی زندگی کہاں ہے؟دوبارہ خدا کا کلام بہت موثر ہے:

 

 احبار 17باب 11، 13اور 14آیات:
 ”کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے۔۔۔۔ اور بنی اسرائیل میں سے یا ان پردیسیوں میں سے جو ان میں بدو باش کرتے ہیں جو کوئی شکار میں ایے جانور یا پرندے کو پکڑے جس کو کھانا ٹھیک ہے تو اس کے خون کو نکال کر مٹی سے ڈھانک دے۔کیونکہ جسم کی جان جو ہے وہ اس کا خون ہے جو اس کی جان کے ساتھ ایک ہی ہے ۔ اسی لئے میں نے بنی اسرائیل کو حکم کیا ہے کہ تم کسی قسم کے جانور کا خون نہ کھانا کیونکہ ہر جانور کی جان اس کا خون ہی ہے جو کوئی اسے کھائے وہ کاٹ ڈالا جائے۔“

 

 ہم نے پیدائش 2باب 7آیت میں دیکھا کہ جان وہ چیز ہے جو جسم کو زندگی دیتی ہے۔یہاں احبار کی کتاب میں ہم نے دیکھا کہ ” جسم کی جان خون میں ہے۔“درج بالا حوالہ میں عبرانی لفظ ”nephesh“ کا ترجمہ زندگی کیا گیا ہے جیسے کہ پیدا ئش 2باب 7آیت میں جان استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ بائبل میں 753جگہوں میں سے 471مقامات پر انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔اسی لئے، جان یا nephesh کیا ہے؟پیدائش 2باب 7آیت کے مطابق جان وہ چیز ہے جو جسم کو زندگی دیتی ہے۔nephesh، جسم کی زندگی، جان کہاں ہے؟احبار کی کتاب 17باب11تا 14آیات کے مطابق یہ خون میں ہے:”کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے۔“یہ زندگی نسل در نسل کیسے منتقل ہوتی ہے؟اسی لئے اعمال 17باب 26آیت کہتی ہے :

 

 اعمال 17باب 26آیت:
 ”اور اس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمین پر رہنے کےلئے پیدا کی۔“

 

 اس حوالے میں ” ایک ہی اصل“ آدم کا خون ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور حقیقتاً وہ خون ہے جو ہم سب میں شامل ہے۔دراصل جان ایسی چیز نہیں ہے جو صرف انسان میں پائی جاتی ہے۔جانوروں میں بھی جان ہے جو کہ خون میں ہی ہے۔گو کہ احبار کی کتاب کے درج بالا حوالے سے یہ فوراً سمجھ میں بات آجاتی ہے،جہاں یہ کہا گیا ہے کہ ہر جسم کی زندگی خون میں ہے، تاہم، آیئے یہ ہم پیدائش 1باب 20تا 21اور 29تا 30آیات میں بھی دیکھیں۔

 

پیدائش 1باب 20تا 21آیات:
 ”اور خدا نے کہا کہ پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اوپر فضا میں اڑیں۔اور خدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قسم کے جانداروں کو جو پانی سے بکثرت پیدا ہوئے تھے انکی جنس کے موافق اور پر قسم کے پرندوں کو انکی جنس کے موافق پیدا کیااور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔“

 

 پیدائش1باب 29تا 30آیات:
 ”اور خدا نے کہا کہ دیکھو میں تمام رویِ زمین کی کل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اس کا بیج دار پھل ہو تم کو دیتا ہوں ۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں۔اور زمین کے کل جانوروں کو اور ہوا کے پرندوں کےلئے اور ان سب کےلئے جو زمین پر رینگنے والے ہیں جن میں زندگی کا دم ہے کل ہری بوٹیا ںکھانے کو دیتا ہوں اور ایسا ہی ہوا۔“

 

 اسی لئے نہ صرف انسان بلکہ جانوروں میں بھی ”nephesh“ یعنی ” جان “ ہے۔یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے، اگر ہم یہ سمجھیں کہ جسن ایسی چیز ہے جو جسم کو زندگی دیتی ہے۔جب آپ مر جاتے ہیں تو کوئی زندگی ، جان، باقی نہیں رہتی۔ایسے ہی جانوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔جان جانوروں کے لئے بھی ایسی ہی ہے جیسی انسانوں کےلئے ہے یعنی کہ، جو جسم کو زندگی دیتی ہے۔گو کہ اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ بائبل جان کی کیا تعریف کرتی ہے، مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم بائبل کے ساتھ اسی پرانے دقیانوسی خیال کو لے کر چلتے ہیں کہ جان لافانی ہے۔اگر جان لافانی ہوتی، تو یقینا بہت سے جانوروں کی جان بھی لافانی ہوتی، چونکہ ان کے اندر بھی ”nephesh“ ہے جیسے انسان کے اندر ”nephesh“ ہے۔جان لافانی نہیں ہے۔یہ صرف جسم کو زندگی دیتی ہے۔جب آپ کے جسم میں زندگی نہیں رہتی، تو آپ کے اندر جان بھی نہیں رہتی۔

اب تک، ہم نے دیکھا کہ بائبل سکھاتی ہے کہ خدا نے انسان کے جسم کو زمین کی مٹی سے خلق کیا،اور یہ کہ اس نے انسان کے جسم کو زندگی یعنی جان عطا کی۔یہی بات جونوروں میں بھی حقیقی ہے۔ان کے بھی جسم اور جان ہیں۔اس دنیا میں ہر انسان کے، ایماندار یا بے ایمان کے، جسم اور جان ہیں۔اس لئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے کے بعد بھی جب آدم 930سال کی عمر میں مرا تو اس سے پہلے اس نے اپنا جسم اور جان نہیں کھوئے۔ لہٰذہ اس روز چونکہ آدم کو کچھ نہ کچھ کھونا تھا، اسی لئے اس کا ضرور کوئی اور حصہ بھی ہوگا ، جو اس وقت کھو گیا، مر گیا جب اس نے پھل کھایا۔پس آیئے کلامِ پاک کے حوالوں کو پڑھنا جاری رکھیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔

 

 3 ”اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ، خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا۔“

 اپنی تفتیش کو جاری رکھنے کےلئے آیئے ہم پیدائش 1باب 26اور 27آیت کو دیکھیں۔ یہاں یہ کہتی ہے کہ:

 

پیدائش 1باب 26اور 27آیت:
 ”پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔۔۔۔اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ، خدا کی صورت پر اسکو پیدا کیا ، نر و ناری ان کو پیدا کیا۔“ اس حوالے کے مطابق،خدا نے انسان کو”

 

 اپنی صورت پر پیدا کیا “۔ نہ صرف یہ جاننے کےلئے کہ جس زور آدم اور حوا نے نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھایا اس روز کیا ہوا تھا بلکہ بائبل میں دوسرے حوالہ جات کو سمجھنے کےلئے بھی یہاں ایک بہت خاص نقطہ ہے۔ درج بالا حوالہ پڑھنے کے بعد جو سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی صورت کیا ہے؟وہ کیسا دکھائی دیتا ہے؟یوحنا 4باب 24آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

 یوحنا 4باب 24آیت:
”خدا روح ہے۔“

 

 خدا جسم نہیں بلکہ روح ہے۔یہی اس کی صورت ہے۔اس لئے، جب خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جسم اور جان کے ساتھ ساتھ انسان میں خدا کی صورت بھی شامل ہے، یعنی روح۔درج بالا حوالہ میں ” اپنی صور ت پر“ والے فقرے کو اچھی طرح سمجھنے کےلئے آیئے ایک اور مقام پہ دیکھتے ہیں جہاں یہ فقرہ استعمال ہوا ہے۔

 

پیدائش 5باب 1تا 3آیات:
 ”یہ آدم کا نسب نامہ ہے۔ جس دن خدا نے آدم کو پیدا کیا تو اسے اپنی شبیہ پر بنایا۔نر اور ناری ان کو پیدا کیا اور ان کو برکت دی اور جس روز وہ خلق ہوئے ان کانام آدم رکھا۔ اور آدم ایک سو تیس برس کا تھا جب اس کی صورت و شبیہ کا ایک بیٹا اس کے ہاں پیدا ہوا اور اس نے اس کا نام سیت رکھا۔“

 

یہ حوالہ کہتا ہے کہ آدم کا ایک بیٹا ” اسکی شبیہ اور اس کی صورت پر پیدا ہوا۔“اس کا کیا مطلب ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا آدم تھا ویسا ہی اس کا بیٹا سیت تھا یعنی آدم کے ہاتھ تھے تو سیت کے بھی ہاتھ تھے۔جیسے آدم کے پاﺅں تھے ویسے ہی سیت کے پاﺅں بھی تھے۔ جیسے آدم جسم اور جان تھا اسی طرح سیت بھی جسم اور جان تھا۔بالکل اسی طرح، جب کلام کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو ” اپنی صورت پر پیدا کیا“ ” خدا کی صورت پر ان کو پیدا کیا“، اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا خدا ہے ویسا ہی آدم تھا۔خدا جسم نہیں ہے۔اس کے پاﺅں ، ہاتھ اور سر وغیرہ نہیں ہیں۔وہ ایک روح ہے۔پس جیسے خدا کی روح ہے ویسے ہی آدم کی بھی ایک روح تھی۔کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ خدا نے آدم کو جسم، جان اور روح کے الگ الگ حصوں سے کیوں بنایا؟ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ جسم اور جان کے بغیر انسان اس خدا کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتا تھا جو ایک روح ہے۔خدا ایک روح ہوتے ہوئے ، جسم اور جان کے ساتھ رابطہ نہیں کر سکتا۔یہ مختلف چیزیں ہیں۔آپ دیکھیں، آپ ریڈیو ریسور کے بغیر ریڈیو کے پیغامات نہیں سن سکتے۔آپ کے گھر میں کپڑے دھونے والی مشین ہوگی۔مگر یہ حقیقت کہ آپ کے پاس کپڑے دھونے والی مشین ہے اس بات کو ممکن نہیں بناتی کہ آپ ریڈیو سٹیشن سن سکیں۔اس کےلئے آپ کو ریڈیو ریسور کی لازمی چاہے۔اسی طرح، خدا ایک روح ہے، اور اس سے رابطہ کرنے کےلئے آپ کے پاس روح ہونا ضروری ہے۔ جسم اور جان حواسِ خمسہ سے بہتر چیزیں کافی ہونی چاہییں۔مگر جب خدا کی بات کے لگتے ہیں،روح کی آپ کو اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سچائی 1کرنتھیوں 2باب 24آیت میں واضح کیا گیا ہے۔

 

 1کرنتھیوں 2باب 14آیت:
 ”مگر نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ ہی وہ انہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔“

 

اس حوالے میں ، لفظ”نفسانی“ یونانی زبان کے لفظ ”psuchikos“ کا ترجمہ ہے، جو کہ اسم ”psuchi“ سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے جان۔پس، psuchikosکا مطلب ہے ”جاندار انسان“ یعنی، جسم اور جان والا انسان3 اس حوالے کے مطابق ایک انسان جو جسم اور جان رکھتا ہے ” خدا کی روح کی باتیں قبول نہیں کرتا۔“جیسا کہ یہ پہلے کہا گیا ہے کہ ” خدا کی روح کی باتیں قبول “ کرنے کےلئے ، خدا کے ساتھ بات چیت کرنے کےلئے ہمیں ایک موزوں ریسیور یعنی روح کی ضرورت ہے۔ اسی لئے یہ حوالہ کہتا ہے کہ،”نہ ہی وہ انہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔“جسم اور جان والا شخص اس وجہ سے خدا کی باتیں نہیںجان سکتا کیونکہ ایسی باتوں کا تعلق روح سے ہے، ”وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں“، اور چونکہ اس کے پاس روح نہیں ہے تو وہ انہیں جان نہیں سکتا۔درج بالا مختصراً ، آدم کا جسم تھا، جو زمین کی مٹی سے خلق کیا یا تھا، جان تھی جو جسم کو زندگی دیتی ہے اور روح تھی کہ خدا کے ساتھ بات چیت کرے۔وہ جسم ، جان اور روح تھا۔یہ سب قائم کرتے ہوئے ، اب اس حوالے سے کوئی سوال نہیں ہے کہ جس دن آدم اور حوا نے نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھایا تو کیا ہوا۔خدا نے انہیں کہا تھا کہ جس روز انہوں نے وہ پھل کھایا وہ یقینا مر جائیں گے۔یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ موت کا مطلب ہے کہ زندگی کی کسی قسم کاختم ہوجاناہے، اب ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اس دن کیا موت ہوئی تھی۔آدم جسم، جان اور روح تھا اور اس کا جسم پھل کھانے کے کئی سال بعد مرا تھا۔ اب چونکہ جان جسم کو زندگی کی اجازت دیتی ہے ، اس لئے پھل کھانے کے بعد بھی اس کا جسم اور جان باقی تھے۔دوسری جانب، چونکہ خدا جو کچھ کہتا ہے اس میں وہ حق ہے،اس لئے اس روز کچھ نہ کچھ مرنا تھا۔اور چونکہ پھل کھانے سے پہلے آدم جسم، جان اور روح تھا، اور چونکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا ، پھل کھانے کے بعد بھی وی جسم اور جان میں جیتا رہا، اسلئے جو کچھ اس نے اس روز کھویا تھا وہ روح تھی جو خدا نے اسے بخشی تھی۔اس کے پاس جسم اور جان تو تھے مگر روح باقی نہ رہا۔روح اس سے جدا ہوگئی اور یہ اس کےلئے ایک طرح سے موت تھی کیونکہ روح، جو پھل کھانے سے قبل اس میں زندگی کی ایک قسم تھی، مزید اس کے اندر نہ رہی۔

آپ نے دیکھا، کہ بائبل کیسے واضح انداز میں معاملات کو حل کرتی ہے جب آپ بائبل کو خود اس کی تزریح کا موقع دیتے ہیں۔یہ در حقیقت روح کی کمی کو پورا کیا گیا تھا اس پینتیکوست کے دن جہاں روح کو دوبارہ لایا گیا تھا، تا کہ آج یسوع مسیح پر ایمان لانے سے آپ کو پھر سے جسم، جان اور روح مل سکے۔اہم، یہ اور اس میں شامل دیگر نقاط بھی اگلے کالم میں پرکھے جائیں گے۔

 

تسسوس کولچوگلو

 


 

  جب ہم اس حوالے کو پڑھتے ہیں تو روایت بنائی گئی ہے کہ یہ پھل سیب تھا۔ اچھا، مگر بائبل یہ نہیں کہتی کہ یہ سیب تھا۔کیا بائبل کہتی ہے؟بائبل صرف یہ کہتی ہے کہ” نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل“۔اس لئے، ”سیب“ محض

انسانی ایجاد ہے. جیسا کہ ”سیب“ کے معاملے میں تھا، اسی طرح یہ بھی روایت بنائی گئی ہے کہ یہاں سانپ بات کر رہا ہے۔تاہم بائبل اس بات کی وضاحت کرتی ہے جب وہ ”سانپ“ کہتی ہے۔پس، مکاشفہ 20باب 1اور 2آیت ہمیں بتاتی ہے کہ،”پھر میں ایک فرشتہ کو آسمان سے اترتے دیکھا جس کے ہاتھ میں اتھاہ گھڑے کہ کنجی اور ایک بڑی زنجیر تھی۔اس نے اس اژدھا یعنی پرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے پکڑ کر ہزار برس کےلئے باندھا۔“کیا یہ واضح تر ہو سکتا ہے کہ پیدائش 3باب کا ”سانپ“ شیطان ہے؟

یہی لفظ، phuchicos(جاندار انسان، جسم اور جان والا آدمی) 1کرنتھیوں 15باب 44اور 46آیت ، یعقوب 3باب 5آیت اوریہودہ19آیت میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔




 

جسم ، روح اور جان (PDF) PDF edition


نشان زد کریں اور دوسروں کو شریک کریں



Follow BibleAccuracy on Twitter