بائبل کی سچائیاں









"آپنے آپ کو جانچو۔۔۔"



میں 1تمیتھیس1باب18آیت میں دی گئی تصویر کے بارے میں ابھی ابھی غور کر رہا تھا۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پولوس تمیتھیس کو ہدایت دے رہا ہے:

 

1تمیتھیس1باب18تا20آیت:
”اے فرزند تمیتھیس! ان پیشن گوئیوں کے موافق جو پہلے تیری بابت کہی گئیں تھیں میں یہ حکم تیرے سپرد کرتا ہوں تا کہ تو ان کے مطابق اچھی لڑائی لڑتا رہے اور ایمان اور اس نیک نیت پر قائم رہے جس کو دور کرنے کے سبب سے بعض لوگوں کے ایمان کا جہاز غرق ہو گیا۔ انہی میں سے ہمنیس اور سمکندر ہیں۔ جنہیں میں نے شیطان کے حوالہ کیا تا کہ کفر سے باز رہنا سیکھیں۔“

 

بعض لوگوں کے ایمان کا جہاز غرق ہوگیا، انہی میں سے ہمنیس اور سکندر ہیں۔یہ لوگ غیر ایماندار نہیں تھے۔ ایمان کا جہاز غرق ہو جانا، اس کا مطلب ہے کہ ایک وقت تھا جب وہ ایمان رکھتے تھے۔جیسے پولوس ہمینس اور فلیتس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

2تمیتھیس2باب17آیت:
”اور ان کا کلام آکلہ کی طرح کھاتا چلا جائے گا۔ ہمنیس اور فلیتس انہی میں سے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر کہ قیامت ہوچکی ہے حق سے گمراہ ہو گئے اور بعض کا ایمان بگاڑتے ہیں۔“

 

کوئی بھی شخص اس وقت گمراہ ہوتا ہے جب وہ سیدھے راستے میں ہوتا ہے اور پھر بھٹک جاتا ہے۔کچھ ایسا ہی ہمنیس ، سمکندر اور فلیتس کے ساتھ بھی ہوا: حق کے لئے وہ گمراہ ہوگئے، ایمان کےلئے ان کا جہاز غرق ہوگیا۔اور بد قسمتی سے وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے معاملہ میں، اگر چہ یہ نظر انداز کرنے والی مثال ہے، بہت سی چیزیں ہمارے سیکھنے کی ہیں۔

 

کیا ایمان لانا ایسی چیز ہے جو ہمیں بخشی گئی ہے؟

جب پہلی بار میں ایمان لایا تو میں اس بات کو مانتا تھا کہ ہاں ، ایمان لانا ایک بخشش ہے اور اسے کھو دینا ناممکن ہے۔تاہم، کئی سال گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے یہ جانا کہ میرا یمان درست نہیں تھا۔ایمان لانا ایسی چیز نہیں جو بخشی گئی ہو۔اگر ایسا ہوتا تو جو خبرداریاں ہم آج دیکھیں گے خدا کے کلام میں موجود نہ ہوتیں،اور نہ ہی خدا کا کلام ان لوگوں کے حوالے سے کوئی بات کرتا جن کے ایمان کا جہاز غرق ہو گیا۔ میرا یہ ماننا کہ مسیح ایمان اور زندگی کسی قسم کی فوری چیز نہیں،ایسی چیز جو رومیوں10باب9اور10آیت کے اقرار پر مکمل ہو جاتی ہے۔اس کی بجائے اس کی ایک مدت ہے، ایسا راستہ جس پر ہم جب تک جیتے ہیں چلتے ہیں۔یہ یقینا رومیوں10باب9اور10آیت سے شروع ہوتا ہے ، مگر یہ یہاں مکمل نہیں ہوتا۔

 

الف۔2تمیتھیس4باب6تا9آیت

 2تمیتھیس میں پولوس، اپنی زندگی کے آخری دنوں میں پہنچتے ہوئے، تمیتھیس کو ہدایات دے رہا ہے۔ یہاں، 6تا9آیات میں وہ اپنی زندگی کا مختصر بیان دیتا ہے:

 

2تمیتھیس4باب6تا9آیت:
”کیونکہ میں اب قربان ہو رہا ہوں اور میرے کوچ کا وقت آ پہنچا ہے میں اچھی کشتی لڑ چکا ہوں ۔ میں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔ میں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔ آئندہ کےلئے میرے واسطے راستبازی کا وہ تاج رکھاہوا ہے جو عادل منصف یعنی خداوند مجھے اس دن دے گا اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ان سب کو بھی جو اس کے ظہور کے آرزو مند ہوں۔“

 

اگر ایمان ایسی چیز ہوتی جو اسی روز شروع ہوئی اور اسی روز مکمل ہوگئی جب پولوس ایمان لایا ، تو وہ یہ نہیں کہتا کہ: ”میں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔“ایمان حقیقتاً ایسی چیز ہے جسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔جب پولوس نے اپنا ایمانمحفوظ رکھا ، ہمینس اور سکندر کے ایمان کا جہاز غرق ہوگیا۔

دیکھیں کہ پولوس اپنے اس بیان میں یہ نہیں کہہ رہا کہ،” میں نے اتنی کلیسیائیں قائم کیں، میں نے بہت سی کتابیں لکھیں، میں نے اتنے لوگوں کو تعلیم دی، میں نے ہزاروں لوگوں کو ایمان دلایا۔“ اس کے کام کے اختتام پر، اس کا بیان بہت سادہ تھا:” میں اچھی کشتی لڑ چکا ہوں ۔ میں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔ میں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔“

 

مسیحی زندگی ایک لڑائی، ایک دوڑ ، ایک ایسا راستہ ہے جس پر ہر کسی کو چلنا چاہئے۔یہ اس روز شروع ہوتا ہے جب ہم خداوند پر ایمان لاتے ہیں اور اور یہ اسی دن مکمل نہیں ہو جاتا۔آخر میں ، پہلے یہ کہنے کے بعد کہ ”میں اب قربان ہو رہا ہوں اور میرے کوچ کا وقت آ پہنچا ہے“ صرف تب پولوس ایمان ، دوڑ اور لڑائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ماضی کا فقرہ استعمال کرتا ہے۔صرف تب، اس زمین پر اس کے سفر کے اختتما سے کچھ وقت پہلے، پولوس آخری بیان کی لکیر کھینچتا ہے۔

 

اس کے مقابلے میں، ہمارے بہت سے بھائی یہ مانتے ہیں کہ جس روز ان کی دوڑ کا اغاز ہوا اسی روز ایمان مکمل ہو گیا، اور ہمارا یامن کبھی بھی خطرہ میں نہیں پڑے گا۔بیشک، پولوس ہمارے ساتھ اتفاق نہیں کرے گا۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے، جب وہ فلپیوں3باب12تا14آیت میں کہتا ہے کہ:

 

فلپیوں3باب12تا14اور17آیت:
”یہ غرض نہیں کہ میں پا چکا یا کام ہو چکا ہوں بلکہ اس چیز کے پکڑنے کےلئے دوڑا ہوا جاتا ہوں جس کے لئے مسیح یسوع نے مجھے پکڑا تھا۔ اے بھائیو! میرا یہ گمان نہیں کہ میں پکڑا جا چکا ہوں بلکہ صرف یہ کرتا ہوں کہ جو چیزیں پیچھے رہ گئیں ان کو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑا ہوا، نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوںتاکہ اس انعام کو حاصل کروں جس کے لئے خدا نے مجھے مسیح یسوع میں اوپر بلایا ہے۔۔۔ ۔۔اے بھائیو! تم سب ملکر میری مانند بنو۔“

 

پولوس کے مقابلے میں، بہت سے بھائی سمجھتے ہیں کہ وہ یہ انعام حاصل کر چکے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے یہ سوچتے ہیں کہ،” اب چونکہ میں ایمان لایا ہوں اور نجات یافتہ ہوں، اب میں جیسے چاہوں زندگی گزار سکتا ہوں۔ میں پہلے ہی انعام حاصل کر چکا ہوں۔“پولوس کےلئے مسیحی زندگی ایسی نہیں تھی۔یہ کوئی جامد چیز نہیں،”نجات کےلئے ذرا رکنا اور پھر اسی طرح جاری رکھنا۔“ اسکی بجائے، یہ ایک زندہ چیز ہے، ایک لڑائی ایک دوڑ جو اسے دوڑنی تھی۔جیسا کہ وہ دوبارہ عبرانیوں12باب1اور2آیت میں کہتا ہے:

 

عبرانیوں12باب1اور2آیت:
”تو آﺅ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کر کے اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جوہمیں در پیش ہے۔ اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیںجس نے اس خوشی کےلئے جو اس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کرکے صلیب کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کے دہنی طرف جا بیٹھا۔“

 

مسیحی زندگی ایک دوڑ ہے ، ایک ایسی سڑک ہے جس پر ہمیں یسوع کو تکتے ہوئے دوڑنا چاہئے۔ایمان ایسی چیز ہے جس کو محفوظ رکھنا چاہئے۔

پولوس2کرنتھیوں13باب5آیت میں کہتا ہے،”تم اپنے آپ کو آزماﺅ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔“کیا ہم ایمان پر ہیں یا ہم وہ زندگی گزار رہے ہیں جس کی بنیاد اس غیر واضح خیال پر ہے جو گناہ کی تصدیق کرتا ہے۔۔۔کیونکہ اب ہم ”فضل “کے ماتحت ہیں؟آئیے خود کو جانچیں، ورنہ ہم کسی بھی چیز میں نامقبول ہو جائیں گے۔ جیسے پولوس کہتا ہے:

 

1کرنتھیوں9باب24تا27آیت:
”کیا تم نہیں جانتے کہ دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سبھی ہیں مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے؟تم بھی ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو۔ اور ہر پہلوان سب طرح کا پر ہیز کرتا ہے۔ وہ لوگ تو مرجھانے والا سہرا پانے کےلئے یہ سب کرتے ہیں مگر ہم اس سہرے کےلئے یہ سب کرتے ہیں جو نہیں مرجھاتا۔پس میں بھی اسی طرح دوڑتا ہوںیعنی بے ٹھکانہ نہیں۔ میں اسی طرح مکوں سے لڑتا ہوںیعنی اس کی مانند نہیں جو ہوا کو مارتا ہے۔بلکہ میں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اسے قابو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اوروں میں منادی کر کے آپ نہ مقبول ٹھہروں۔“

 

ب.بیج بونے والے کی تمثیل

یہ ہم میں سے اکثر لوگوں کی جانی ہوئی تمثیل ہے۔یہاں یسوع لوگوں کی ان چار اقسام کی بات کرتا ہے جو بیج، خدا کے کلام ، کے اثرات سے تعلق رکھتے ہیں۔لوقا8باب11تا15آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

لوقا8باب11تا15آیت:
”وہ تمثیل ہے یہ کہ بیج خدا کا کلام ہے۔ راہ کے کنارے وہ ہیں جنہوں نے سنا پھر ابلیس آکر کلام کو ان کے دل سے چھین لے جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایمان لا کر نجات پائیں۔ اور چٹان پت کے وہ لوگ ہیں جو سن کر کلام کو خوشی سے قبول کر لیتے ہیں لیکن جڑ نہیں رکھتے مگر کچھ عرصہ تک ایمان رکھ کر آزمائش کے وقت پھر جاتے ہیں۔اور جو جھاڑیوں میں پڑا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے سنا لیکن ہوتے ہوتے اس زندگی کی فکروں اور دولت اور عیش و عشرت میں پھنس جاتے ہیں اور ان کا پھل پکتا نہیں۔ مگر اچھی زمین کے وہ ہیں جو کلام کو سن کر عمدہ اور نیک دل میں سنبھالے رہتے اور صبر سے پھل لاتے ہیں۔“

 

اس تمثیل میں دوسری اور تیسری قسم،میرے لئے ہمیشہ ایک سوال ہی رہی ہیں۔ان اقسام کے لوگوں نے ، کم از کم فوری طور پر، کلام کو رد نہیں کیا۔بلکہ بیج بڑھا، مگر پھل نہیں لایا۔جیسا کہ خداوند واضح طور پر دوسری قسم کےلئے کہتا ہے کہ،”وہ ایمان لائے“ تاہم، ”صرف کچھ دیر کےلئے۔“اگر چہ خدا کے کلام کا بیج ہر قسم کے لو گوں میں بڑھا، لیکن صرف آخری قسم کے لوگ ہیں جن میں وہ پھل بھی لایا۔باقی دو، اگر چہ ان میں ایمان تھا، مگر راستے میں ہی یہ غائب ہو گیا۔اسے مختلف انداز میں اور واضح طور پر بیان کرتے ہوئے: کسی شخص کے یسوع مسیح پر ایمان رکھنے کا اقرار کرنے کی حقیقت اسے چوتھی قسم کے لوگوں میں شامل نہیں کرتی۔جس قسم سے ہم تعلق رکھتے ہیں اس کا انحصار اس پر ہے کہ اج کے دن سے خدا کی راہ پر چلتے ہوئے راستے میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔جس روز ہم نے اپنے ایمان کا اقرار کیا یہ وہ دن تھا جب ایمان کا بیج بڑھا۔تاہم، یہ بیج کیسے بڑھے گا، یہ ایسی بات نہیں جو ہم شروع ہی سے جان لیں۔صرف آخری قسم ہی درست قسم ہے۔صرف آخر میں ہی کوئی شخص پولوس کی مانند ، ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے، بات کر سکتا ہے۔

کچھ پھندے جو ہمارے ایمان کو آزمائش میں ڈال سکتے ہیں اور جس میں کسی شخس کو نہیں پھنسنا چاہئے درج بالا لوقا 8باب کے حوالہ میں درج ہیں اور درج ذیل میں زیادہ واضح طور پر ان کاموازنہ کیا گیا ہے۔

 

1۔آزمائشیں

یعقوب 1باب14اور15آیت کہتی ہے:”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔“ کسی شخس کو بھی آزمائش میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ایسے اوقات بھی ہو ں گے جب ہمیں خدا اور ”ہماری خواہشوں“میںسے کسی کو چننا ہوگا۔کچھ پچیدہ راستے، ایسے وقت ہوں گے جہاں ہمیں چننا ہوگا کہ آیا کہ ہ خدا کی مرضی کے مطابق چلیں گے یا پنی مرضی کے مطابق۔ایسی صورتِ حال میں، دوسری قسم کے لوگ، خدا کو ترک کرکے اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگ جائیں گے۔ اگر واپسی اور توبہ نہ ہوئی تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔

 

2۔کلام کی خاطر مصیبتیں یا ایذائیں

یہ وجہ اسی خاص قسم کے لوگوں کےلئے مرقس میں بیان کی گئی بیج بونے والے کی تمثیل میں بھی ہے(مرقس4باب17آیت)۔جیسا پولوس مصیبتوں کے نتائج کے حوالہ سے کہتا ہے: ”ان مصیبتوںکے سبب سے کوئی نہ گھبرائے“(1تھسلینکیوں3باب3آیت)۔مصیبتیں اور دکھ دوسری قسم کے لوگوں کو خوف زدہ کر دیتی ہیں۔اگر چہ وہ ابداءمیں یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ مصیبتوں اور آزمائشوں میں نہیں گھبرائیں گے۔جونہی یہ میدان میں آتی ہیں وہ اپنا رادہ بدل لیتے ہیں۔

 

3۔زر کی دوستی، لالچ اور دولت کا فریب

اس پھندے کےلئے پولوس کہتا ہے:

 

1تمیتھیس6باب9اور10آیت:
”لیکن جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمائش اور پھندے اور بہت سی بے ہودہاور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔ کیونکہ زر کی دوستی ہر قسم کی برائی کی جڑ ہے جس کی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراہ ہو کر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا۔“

 

بائبل خدا کے ان لوگوں کے بارے میں بہت سے حوالہ جات پیش کرتی ہے جو بہت زیادہ امیر تھے، جیسے ابراہام (پیدائش13باب2آیت ، 24باب35آیت) اور(ایوب 1باب3آیت)۔ تاہم، وہ لالچی اور پیسے سے محبت کرنے والے نہیں تھے۔جب ایک وقت ایوب پہ آیا کہ اس نے اپنا سب کچھ کھو دیا تو اس کا ردِعمل بہت سادہ تھا۔

 

ایوب1باب21آیت:
”ننگا میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاﺅں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔“

 

مسئلہ پیسے کا نہیں بلکہ پیسے سے محبت کا ہے۔مسئلہ یہ نہیں تھا کہ بلعام نبی نے خدا سے نہیں پوچھا تھا، بلکہ یہ تھا کہ ”اس نے ناراستی کی مزدوری کو عزیز جانا“(2پطرس2باب15آیت) اور اتنا عزیز جانا کہ وہ ان کے پیچھے ہوگا۔

 

4۔فکریں

خدا کے کلام کی نشو ونما میں ایک اور مسئلہ فکریں ہیں۔ جیسے مسیح خبردار کرتا ہے:

 

لوقا21باب34آیت:
”پس خبردار رہو! ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہ بازی اور اس زندگی کی فکروں سے سست ہو جائیں اور وہ دن تم پر پھندے کی طرح ناگہان آپڑے۔“

 

فکریں ایمادار کے دل کو بھر دیتی ہیں اور کلام کے بیج کو روک دیتی ہیں۔پہلے مقام کی بجائے ، خدا کا مقام دوسرا یا سب سے کم تر ہو جاتا ہے اور وہ ہماری ضروریات سے متعلقہ تصور نہیں کیا جاتا۔ ضروریات کی فراہمی ہماری ذاتی ذمہ داری بن جاتی ہے ، نہ کہ خدا کی ذمہ داری جب وہ ہمیں دعوت دیتا ہے:

 

1پطرس5باب7آیت:
”اور اپنی ساری فکر اس پر ڈال دو کیونکہ اس کو تمہاری فکر ہے۔“

 

جب ہم خدا کو ہماری ضروریات سے متعلقہ تصور نہیں کرتے اور انہیں اپنے اوپر حاوی کر لیتے ہیں ، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم خدا کے کلام میں بے پھل رہ جاتے ہیں۔ اگر چہ ایک دن ہم نے کلام سنا اور اس پر ایمان لائے تھے، لیکن ہم نے اس بیج کو فکروں کے باعث رکنے کےلئے چھوڑ دیا۔

 

5۔زندگی کی خوشیاں

خدا س پھندے کے نتائج کے بارے میںلوقا کے اسی حوالہ میں بات کرتا ہے جو ہم نے پہلے دیکھا تھا۔اس پھندے کے اثرات کی مثال سب سے معروف خدا کا بندہ: سلیمان ہے۔اسرائیل کے سب سے دولتمند بادشاہ نے، جسے خدا نے اتنی حکمت سے نوازہ تھا کہ دوسری قوموں کے بادشاہ اس کی سننے کو آتے تھے، آخر میں خدا ور اس کے کلام سے اپنا ”دل پھیر لیا“۔ جیسا کہ1سلاطین ہمیں بتاتا ہے:

 

1سلاطین11باب1تا9آیت:
”اور سلیمان بادشاہ فرعون کی بیٹی کے علاوہ بہت سی اجنبی عورتوں سے یعنی موآبی، ادومی، عمونی، صیدانی اور حتی عورتوں سے محبت کرنے لگا۔یہ ان قوموں کی تھیں جن کی بابت خداوند نے حکم دیا تھا کہ ان کے بیچ میں نہ جانا اور نہ وہ تمہارے بیچ آئیں کیونکہ وہ ضرور تمہارے دلوں کو اپنے دیوتاﺅں کی طرف مائل کر لیں گی۔ سلیمان ان ہی کے عشق کا دم بھرنے لگا۔اور اس کے پاس سات سو شاہزادیاں اس کی بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں اور اس کی بیویوں نے اس کے دل کو پھیر دیا۔ کیونکہ سلیمان بوڑھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو اپنے معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اس کا دل خداوند اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا اس کے باپ دادا کا دل تھا۔کیونکہ سلیمان صیدانیوں کی دیوی عستارات اور عمونیوں کے نفرتی ملکوم کی پیروی کرنے لگا۔ اور سلیمان نے خداوند کے آگے بدی کی اور اس نے خداوند کی پوری پیروی نہ کی جیسی اس کے باپ دادا نے کی تھی۔ پھر سلیمان نے مو آبیوں کے نفرتی کموس کےلئے اس پہاڑ پر جو یروشلیم کے سامنے ہے اور بنی عمون کے نفرتی مولک کےلئے بلند مقام بنادیا۔اس نے ایسا ہی اپنی سب اجنبی بیویوں کی خاطر کیا جو اپنے دیوتاﺅں کے حضور بخور جلاتی اور قربانیاں گزرانتی تھیں۔اور خداوند سلیمان سے ناراض ہوا کیونکہ اس کا دل خداوند بنی اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا جس نے اسے دوبارہ دکھائی دے کر اس کو س بات کا حکم دیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا۔“

 

اور نحمیاہ13باب26آیت:
”کیا شاہ اسرائیل سلیمان نے ان باتوں سے گناہ نہیں کیا؟ اگر چہ اکثر قوموں میں اس کی مانند کوئی بادشاہ نہ تھا اور وہ اپنے خدا کا پیارا تھا اور خدا نے اسے سارے اسرائیل کا بادشاہ بنایا تو بھی اجنبی عورتوں نے اسے بھی گناہ میں پھنسایا۔“

 

جب سلیمان پیدا ہوا تھا، تو خدا نے ناتن نبی کو بھیجا جس نے اس کا نام یدیدیاہ رکھا جس کا مطلب ہے ”خداوند کا پیارا “ ہے(2سیموئیل12 باب 24اور 25 آیت)۔اس نے اسے اتنی حکمت عطا کی کہ دوسری بادشاہےوں سے لوگ اور بادشاہ اس کے پاس آتے تھے(1سلاطین 10باب)۔تاہم ، اس سب کا یہ مطلب نہیں تھا کہ سلیمان کا انت اچھا ہوا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی اس کا دل خداوند سے پھر گیا اور اس نے ”مکمل طور پر خداوند کی پیروی نہیں کی۔“ آخر میںوہ اسی پھندے میں پھنس گیا جس سے وہ تعلیم دیتا تھا کہ بچنا چاہئے(امثال2باب16 تا 19آیت،5باب20آیت، 6باب24آیت): اس کے محل میں ہر طرح کی بہت سی عورتیں تھیں، جنہوں نے نتیجتاً اس کا دل خداوند کی طرف سے پھیر دیا۔

اس کے باوجود کہ کوئی شخص آپ کو قائل کرنے کی پوری کوشش کرے کہ اگر آپ گناہ کی طرف تھوڑی سی توجہ دے بھی دیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پھر بھی۔۔۔ آخر میں کسی کو کوئی نقصان نہیں دیتے۔۔۔۔ تو آپ اس کوبالکل توجہ نہ دیں۔خدا کا کلام کہتا ہے کہ”تھوڑا سا خمیر سارے گندھے ہوئے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے“(1کرنتھیوں5باب6آیت)۔ایسے گناہ کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں ہے جس سے آپ کی پھلداری بھی کوئی اثر نہ ہو۔گناہ اور اس کے ساتھ ساتھ فکریں، لالچ اور دیگر تمام تر پھندے دل کو بھاری ، نیم گرم کر دیتے ہیں۔کو حقیقتا ً یہ تصور کر سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے بہت ایمانداری اور جوش کے ساتھ یہ تعلیم دی کہ انسان کو بیگانی عورتوں سے دور رہنا چاہئے اخر میں خود درجنوں عورتوں کے ساتھ رہے گا؟اس حقیقت کے باوجود کہ خدا نے سلیمان کی ملامت کی(1سلاطین 11باب)، وہ نہ بدلا۔وہ اس قدر اندھا ہو گیا تھا کہ وہ اس غلطی کو بالکل نہیں سمجھ رہا تھا یا وہ اس کےلئے بہت لاپرواہ ہو گیا تھا۔

 

6۔جھوٹا علم یا بدعتیں

یہ وجہ 1تمیتھیس6باب20اور21آیت میں بیان کی گئی ہے، جہاں پولوس تمیتھیس کو ہدایت دیتے ہوئے کہتا ہے:

 

1تمیتھیس6باب20آیت:
”اے تمیتھیس! اس امانت کو حفاظت سے رکھ اور جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے اسکی بیہودہ بکواس اور مخالفت پر توجہ نہ کربعض اس کا اقرار کر کے ایمان سے برگشتہ ہوگئے ہیں۔“

 

ہمینس اور فلیتس کے حوالے سے بھی، جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں:

 

2تمیتھیس2باب17آیت:
”اور ان کا کلام آکلہ کی طرح کھاتا چلا جائے گا۔ ہمنیس اور فلیتس انہی میں سے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر کہ قیامت ہوچکی ہے حق سے گمراہ ہو گئے اور بعض کا ایمان بگاڑتے ہیں۔“

 

ہمینس اور فلیتس وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہوئے حق سے گمراہ ہوگئے کہ قیامت ہو چکی ہے۔ جیسے کہ کوئی شخص خدا کے کلام سے دیکھ سکتا ہے،رسولوں نے ہمیشہ غلط، خطرناک اور خطرناک تعلیم کے خلاف خبردار کیا ہے۔یوحنا نے خبردار کیا کہ جو کوئی یہ اقرار نہ کرے کہ یسوع مسیح جسم میں آیا وہ مسیح کا مخالف تھا( 1یوحنا4باب3آیت)۔رسول یروشیلم میں ان تعلیمات کا سامنا کرنے کو اکٹھے ہو کر آئے جو تعلیمات شاگردوں کو ختنہ لینے اور شریعت کی پیروی کرنے کے حوالے سے تھیں(اعمال15باب)۔جیسے پولوس1تمیتھیس 4باب1تا3آیت میں کہتا ہے:

 

1تمیتھیس4باب1تا3آیت:
”لیکن روح صاف فرماتا ہے کہ آئندہ زمانوں میں بعض لوگ گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی طرف متوجہ ہوکر ایمان سے برگشتہ ہو جائیں گے۔ یہ ان جھوٹے آدمیوں کی ریاکاری کے باعث ہوگا جن کا دل گویا لوہے سے داغا گیا ہے۔ یہ لوگ بیاہ کرنے سے منع کریں گے اور ان کھانوں سے پرہیز کریں گے جنہیں خدا نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ ایمان اور حق پہنچاننے والے انہیں شکر گزاری کے ساتھ کھائیں۔“

 

آیئے ہم محتاط رہیں کہ ہم اپنے کان کہاں لگاتے ہیں۔ یہ انسان نہیں ہے جو کسی چیز کو غلط یا صحیح بناتا ہے بلکہ خدا کاکلام بناتا ہے۔ کیا جو ہم سن رہے ہیں وہ خدا کے کلام کے ساتھ اتفاق کرتا ہے؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا کہ یہ اچھا لگتا ہے یا نہیں، مختلف ہے یا ”روایات“ سے نہیں ہے۔صر ف سچائی ہی کسی شخص کو آزاد کر سکتی ہے۔ باقی سب، اگر چہ یہ سچائی کی مانند بھی ہو ، یا اچھا محسوس ہوتا ہو یا علم سے بھرپور معلوم ہو، غلام بناتا ہے۔ اگر آج کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا خدا کے ساتھ تعلق خطرے میں ہے میرے خیال میں اس کی ایک سنجیدہ وجہ خدا اور بائبل کے بارے میں غلط عقائد ہیں: ہمارے ذہن میں وہ خدا ہے جو ہم نے خود بنایا ہے، نہ کہ بائبل کاخدا۔آزمائشیں بھی ایسی چیزوں کے رونما ہونے کا باعث بنتی ہیں۔

 

نتیجہ:

جو میں سمجھتا ہوں کہ درج بالا سے شاید یہ واضح ہونا چاہئے کہ مسیحی زندگی اسی وقت مکمل نہیں ہوئی جب ہم نے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کیا۔جی ہاں، یہ وہاں سے شروع ہوئی، لیکن یقینا یہ یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ایک اچھی دوڑ ہے جو ہمیں دوڑنی ہے، ایک اچھی لڑائی ہے جو ہمیں لڑنی ہے۔پھر جو اقرا ہم نے کیا وہ ہر روز ثابت ہوگا کہ یہ سچ ہے یا نہیں۔کیا آج یسوع ہمارا خدا وند ہے؟ جیسا کہ ہم نے پولوس کو تمیتھیس سے ہدایت کرتے ہوئے دیکھا کہ:

 

1تمیتھیس6باب20آیت:
”اے تمیتھیس! اس امانت کو حفاظت سے رکھ ۔۔۔“

 

جب ایک بیج زمین پر گرتا ہے تو وہ فوراً نہیں بڑھتا۔ اسی طرح خدا کے کلام کا بیج ہے۔ اس کا ارتقا نایاب ہوتا ہے۔بیج بونے والے کی تمثیل کے تینوں حصوں میں ، بیج بڑھا، تاہم صرف آخری حصہ میں یہ پھل لایا۔

آئیے پولوس کی مثال کی پیروی کریں اور خود کو اخرت پر پہنچے ہوئے، انعام حاصل کئے ہوئے، تصور کرنے کی بجائے،خود کو یہ دوڑ ڈورتے ہوئے پائیں۔کامل ہوتے ہوئے نہیں بلکہ کاملیت کی طرف دوڑیں۔اپنی زندگی خداوند یسوع مسیح کو دینے کا فیصلہ ایسی چیز ہے جو ہم ہر روز کرتے ہیں۔کیا آج ہماری زندگی یسوع سے تعلق رکھتی ہے؟یہ دنیا اور خدا دونوں کی نہیں ہو سکتی۔تاہم، بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہو سکتی ہے۔نتیجہ دوغلا پن اور مکاری ہوتا ہے۔اگر آپ اس قسم کی صورتِ حال میں ہیں،تو اس کا حل ہے۔خدا آپ کی مدد کر سکتا ہے۔اس کے پاس جائیں اور وہ آپ کے پاس آئے گا۔فیصلہ کریں کہ آپ کی زندگی میں اس سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں۔اسے اپنی مکمل زندگی دے دیں۔یہاں درج کیا گیا ہے جو یعقوب صلاح دیتا ہے:

 

یعقوب4باب7تا10آیت:
پس خدا کے تابع ہو جاﺅ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔ خدا کے نزدیک جاﺅ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔ اے گناہگارو! اپنے ہاتھ کو صاف کرو اور اے دو دلو! اپنے دلوں کو پاک کرو۔ افسوس اور ماتم کرو اور ڈرو۔ تمہاری ہنسی ماتم میں بدل جائے اور تمہاری خوشی اداسی سے۔ خداوند کے سامنے فروتنی کرو۔ وہ تمہیں سر بلند کرے گا۔“

 

اورامثال22باب4آیت:
”دولت اور عزت و حیات خداوند کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔“

 

حقیقی زندگی فروتنی اور خوف خدا میں پائی جاتی ہے۔

اور ختم کرتے ہوئے، آیئے 2کرنتھیوں13باب5آیت پر جاتے ہیں، یہاں وہ آیت ہے جسے ہم نے اس کالم کے عنوان کے لئے مستعار لیا:

 

2کرنتھیوں13باب5آیت:
”تم اپنے آپ کو آزماﺅ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔ اپنے آپ کو جانچو۔ کیا تم اپنی بابت یہ نہیں جانتے کہ یسوع مسیح تم میں ہے؟ ورنہ تم نا مقبول ہو۔“

 

تسسوس کولچوگلو




 

آپنے آپ کو جانچو۔۔۔ (PDF) PDF edition