بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

قضاة6باب6تا16آیت:  جدعون کی خداوند سے ملاقات

 

 

        قضاة 6باب میں جدعون کی،  وہ شخص جس کے وسیلہ سے خدا بنی اسرائیل کو مدیانیوں کی غلامی سے چھڑائے گا،  خداوند کے ساتھ ملاقات درج ہے۔   1تا 6 آیات  ہمیں وہ ساری صورتِ حال بیان کرتیں ہیں جس میں بنی اسرائیل اس وقت تھے:

 

قضاۃ6باب 1تا 6آیت:
“ اور بنی اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی اور خداوند نے سات برس تک ان کو مدیانیوں کے ہاتھ میںرکھا۔
  اور مدیانیوں کا ہاتھ اسرائیلیوں پر غالب ہوا اور مدیانیوں کے سبب سے بنی اسرائیل نے اپنے لئے پہاڑوں میں کھوہ اور غار اور قلعے بنا لئے۔  اور ایسا ہوتا تھا کہ جب بنی اسرائیل کچھ بوتے تھے تو مدیانی اور عمالیقی اور اہلِ مشرق ان پر چڑھ آتے تھے۔   اور ان کے مقابل ڈیرے لگا کر غزہ تک کھیتوں کی پیداوار تباہ کر ڈالتے تھے اور بنی اسرائیل کےلئے نہ تو کوئی معاش نہ کوئی بھیڑ بکڑی نہ گائے بیل اور نہ گدھا چھوڑتے تھے ۔   کیونکہ وہ اپنے چوپائیوں اور ڈیروں کو ساتھ لے کر آتے اور ٹڈیوں کے دل کی مانند آتے اور ان کے اونٹ بے شمار ہوتے تھے۔  یہ لوگ ملک کو تباہ کرنے ٓجاتے تھے۔   سو اسرائیلی مدیانیوں کے سبب سے نہایت خستہ حال ہو گئے اور بنی اسرائیل خداوند سے فریاد کرنے لگے۔ 

 

        بنی اسرائیل کا خداوند کی طرف راغب ہونے کا سب سے بڑا سبب ان کی غربت اور خستہ حالی تھی،  جو بتدریج خداوند کے خلاف ا نکی بغاوت اور نافرمانی کا نتیجہ تھی۔   پھر 7تا10آیت ہمیں بتاتی ہے کہ خداوند نے کیا کیا:

 

قضاۃ 6باب7تا10آیت:
 
“ اور جب بنی اسرائیل مدیانیوں کے سبب سے خداوند سے فریاد کرنے لگے۔   تو خداوند نے بنی اسرائیل کے پس ایک نبی کو بھیجا۔   اور اس نے ان سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدا ن سے یوں کہتا ہے کہ میں تم کو مصر سے لایا اور میں نے تم کو غلامی کے گھر سے باہر نکالا۔   میں نے مصریوں کے ہاتھ سے اور ان سبھوں کے ہاتھ سے جو تم کو ستاتے تھے تم کو چھڑایااور تمہارے سامنے سے ان کو دفع کیا اور ان کا ملک تم کو دیا۔  اور میں نے تم کو کہا تھا کہ تمہارا خداوند میں ہوں۔  سو تم ان اموریوں کے دیوتاﺅں سے جن کے ملک میں تم بستے ہو مت ڈرنا
پر تم نے میری بات نہ مانی۔   

 

        بنی اسرائیل کی فریاد کے جواب میں خداوند نے ایک نبی بھیجا جس نے انہیں بتایا کہ خداوند نے ان کےلئے کیا کیا تھا اور انہوں نے اس کی کیسے نافرمانی کی تھی۔  اس جواب کا مطلب گو کہ یہ ہر گز نہیں وہ ان کی مدد نہیں کرے گا ۔  بنی اسرائیل نے نافرمانی کی،  مگر وہ خداوند کی طرف لوٹے اور یہ بہت اہم تھا۔  پس 11آیت میں ہم پڑھتے ہیں :

 

11اور12آیت:
 
“ پھر خداوند کا ایک فرشتہ آکر عفرہ میں بلوط کے ایک درخت کے نیچے جو یوآس ابیعزری کا تھا بیٹھا اور اس کا بیٹا جدعون مے کے ایک کولھو میں گہیوں جھاڑ رہا تھا تا کہ اس کو مدیانیوں سے چھپارکھے۔  اور خداوند اک فرشتہ اس کو دکھائی دے کرا س سے کہنے لگا اے زبردست سورما! خداوند تیرے ساتھ ہے۔  

 

        خداودن کی آواز کسی کو ایسے فارغ بیٹھے ہوئے نہیں ٓائی۔   یہ کسی ایسے شخص کے پاس بھی دعوت نہیں آتی جو خاص قسم کا تربیت یافتہ ہو،  یا کوئی ایسا شخص جو اسرائیل کا بہت بڑا راہنما تھا۔  خدا کا بلاوہ ایک سادہ شخص کو ملا جو گہیوں کو جھاڑ رہا تھا تا کہ مدیانیوں سے چھپا کر رکھے۔  خدا کا کلام کہتاہے،   “ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خداوند دل پر نظر کرتا ہے “  (1سیموئیل 16باب7آیت)۔   وہ دل پر نظر کرتا اور بلاتا ہے۔   وہ کسی کو بھی بلاتا ہے۔   آپ کو ،  شاید آپ نے الٰہیات میں پی۔   ایچ۔   ڈی بھی نہ کی ہو یا آپ کبھی بھی منبرے پرنہ چڑھے ہوں۔   تاہم،  آپ کے پاس مسیح ہے۔  آپ اس کے بدن کا حصہ ہیں بالکل اسی اہمیت اور خاص کردار کے ساتھ جیسی آپ کے بدن کے کسی بھی حصے کی ہو سکتی ہے۔  پس خداوند نے جدعون،  ایک کسان کو جو گہیوں جھاڑ رہا تھا،  اپنے کام کےلئے بلایا۔  کیا وہ حقیقتاً کسی  “ زبردست سورما “  کو تلاش کر رہا تھا؟  وہ گہیوں کو مدیانیوں سے چھپانے کےلئے جھاڑ رہا تھا۔  اور یہی آپ بھی ہیں  “ زبردست سورما “  جب خداوند آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔  داﺅد نے کہا،  “ خداوند میرا پشتہ ہے۔   مجھے کس کی ہیبت؟  “ (27زبور1آیت)۔  پولوس نے کہا،  “ اگر خداوند ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟    (رومیوں8باب31آیت)،  جو مجھے طاقت بخشتا ہے اس میں میں سب کچھ کر سکتا ہوں “ (فلپیوں4باب13 آیت)۔  خداوند نے کہا،  “ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے “  (یوحنا 15 باب5آیت)۔  اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں،  خداوند کے بغیر،  ہماری طرف سے ،  ہم کچھ نہیں کر سکتے،  لیکن اگر وہ ہمیں جس کام کےلئے بلاتا ہے اس کی فرمانبرداری کریں تو فرق پڑتا ہے۔  اور اب 13آیت پر چلتے ہیں:

 

13آیت:
 
“ جدعون نے اس سے کہا اے میرے مالک! اگر خڈاوند ہی ہمارے ساتھ ہے تو ہم پر یہ سب حادثے کیوں گزرےاور اس کے وہ عجیب کام کہاں گئے جن کا ذکر ہمارے باپ دادا ہم سے یوں کرتے تھے کہ کیا خداوند ہی ہمارا خدا ہم کو مصر سے نہیں نکال لایا؟ پر اب تو خداوند نے ہم کو چھوڑ دیا اور ہم کو مدیانیوں کے ہاتھ میں کر دیا۔ 

 

        کیا جدعون یہ سمجھ گیا تھا کہ وہ خداوند کے فرشتہ سے بات کر رہا تھا؟ شاید ابھی نہیں،  کیونکہ بعد میں 22آیت میں وہ اس کا اقرار کرتا ہے۔  جدعون نے خداوند کی دعوت کا جواب  “ کیوں “  میں دیا جس سے ان کی گفتگو کو آغاز ہوا۔   “ اگر خداوند ہی ہماری طرف تھا تو یہ سب ہمارے ساتھ کیوں ہوا۔   “ کچھ بھائی اور بہنیں ماضی کو مدِنظر رکھتے ہیں،  وہ فلاں فلاں واقعہ کو سامنے رکھتے ہیں جیسے جدعون نے کیا:   “ اگر خداوند ہی ہمارے ساتھ ہے تو یہ سب حادثے ہمارے ساتھ ہی کیوں گزرے؟   گو کہ کلام کہتا ہے  “ میں تجھ سے ہپر گز دستبردار نہ ہوں گا اور کبھی تجھے نہ چھوڑوں گا “ (عبرانیوں13باب5آیت)۔   خداوند آپ سے کبھی دستبردار نہیں ہو گا۔   وہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا چاہے کوئی مشکل وقت بھی آن پڑے،  اور مشکلات زندگی میں ضرور آئیں گی۔   تاہم،  خداوند نے جدعون کے سوال کا انتظار نہیں کیا۔   14آیت ہمیں خداوند کا جواب بتاتی ہے:

 

14آیت:
 
“ تب خداوند نے اس پر نگاہ کی اور اس سے کہا تو اپنے اسی زور میں جا اور بنی اسرائیل کو مدیانیوں کے ہاتھ سے چھڑا۔  کیا میں نے تجھے نہیں بھیجا؟ 

 

         “ کیا میں نے تجھے نہیں بھیجا؟   اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں اور آپ کی تعلیم کتنی ہے۔   یہ شاید انسان کےلئے اہمیت رکھتی ہیں ۔   انسان خطابات اور شہرت دیکھتا ہے۔  تاہم،  خداوند نہیں،  وہ صرف دل پر نظر کرتا ہے۔  جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ اس نے آپ کو بھیجا ہے۔  اگر خداوند آپ کو بھیجتا ہے اور آپ اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں،  تو آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں چچاہے آپ کا کوئی بھی مشن ہو، چاہے یہ ایک پوری قوم کی رہائی کا کام کیوں نہ ہو،  جیسا کہ جدعون کے ساتھ ہوا۔  اور یہ گفتگو 15اور16آیت میں بھی جاری رہتی ہے:

 

قضاۃ6باب15اور16آیت:
 
“ اس نے اس سے کہا اے میرے مالک! میں کس طرح بنی اسرائیل کو بچاﺅں؟ میرا گھرانہ منسی میں سب سے غریب ہے اور میں اپنے باپ کے گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔  خداوند نے اس سے کہا
میں ضرور تیرے ساتھ ہوں گا اور تو مدیانیوں کو ایسے مار لے گا جیسے ایک آدمی کو۔  

 

        جدعون چھوٹوں میں بھی چھوٹاتھا۔   اس کے الفاظ مجھے یرمیاہ کی منسٹری کے آغاز پر اس کے اور خداوند کے درمیان گفتگو کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔ 

 

یرمیاہ1باب4تا8آیت:
 
“ تب خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا اور اس نے فرمایا ۔   اس سے پیشتر کہ میں نے تجھے بطن میں خلق کیا میں تجھے جانتا تھا اور تیری دلادت سے پہلے میں نے تجھے مخصوص کیا اور قوموں کےلئے تجھے نبی ٹھہرایا۔  تب میں نے کہا ہائے خداوند خدا! میں تو بول نہیں سکتا کیونکہ میں بچہ ہوں ۔   لیکن خداوند نے فرمایا کہ یوں نہ کہہ کی میں بچہ ہوں کیونکہ جس کسی کے پاس میں تجھے بھیجوں گا تو جائے گااور جو کچھ میں تجھے فرماﺅں گا تو کہے گا۔  اور تو ان کے چہروں کو دیکھ کر نہ ڈر کیونکہ خداوند فرماتا ہے کہ میں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں گا۔  

 

        جی ہاں،  ظاہری طور پر بات کرتے ہوئے،  آپ شاید بہت زیداہ تربیت یافتہ یا اس کام کےلئے موزوں نہ ہوں۔  ظاہری طور پر،  شاید وہاں دوسرے لوگ ہوں جو جدعون سے بہتر ہوں،  کسی اچھے مشہور خاندان سے یا قبیلے سے جو زیادہ قابلِ بھروسہ سمجھا جاتا تھا۔  شاید یرمیاہ کے زمانے مین اور ایسے لوگ بھی ہوں جو زبان دانی کو اس سے بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے۔  تاہم،  دوبارہ یہی بات کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا کر سکتے ہیں بلکہ یہ کہ خدا آپ کے وسیلہ سے کیا کر سکتا ہے۔  جب خداوند نے آپ کو کسی کام کےلئے بلایا ہے اور آپ نے اسکی فرمانبرداری کی ہے تو ناکامی کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔   کیونکہ وہ آپ کے ساتھ ہے۔  جدعون جواب دیتا ہے ایک  “ مگر “  کے ساتھ۔    “ جدعون ہو سکتا ہے جو تو نے کہا وہ ٹھیک ہے۔   مگر تم کچھ بھول گئے ہو:  میں تمہارے ساتھ ہوں گا، ۔   اور اگر مٰن تمہارے ساتھ ہوں گا تو باقی سب کچھ بے کار ہے۔   صرف ایک چیز جس کی ضرورت ہے وہ ہے تمہارا ایمان۔    اور جدعون نے خدا پر ایمان رکھا اور خداوند نے اس کے وسیلہ سے بنی اسرائیل کو مدیانیوں کے ہاتھ سے رہائی دی۔  خدا کرے کہ ہم بھی ایسا ہی کریں۔   خدا کرے ہم بھی ایمان لائیں،  اس کی پیروی کریں اور جس مقصد کے لئے اس نے ہمیں بلایا ہے اس کےلئے خدا کی فرمانبرداری کریں۔ 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :