بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 خدا کا کلام ہے:

 

2تمیتھیس 16.17:3ایک ایسا پیرا گراف ہے جو بائبل کی انفرادیت اور وفادیت کو سمجھنے کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے یہ وہاں کہتا ہے۔

 

2تمیتھیس 3باب16اور17آیت:

”ہر ایک صیحفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے ۔   تاکہ مرد خدا کامل ہے ۔ اور ہر ایک نیک کام کے لئے تیار ہو جائے ۔ “

 

اس پیرا گراف میں میں نے لفظ ”ہے “پر خاص زور دیا ہے جو وہاں او ر اس لئے جیسا کہ غالباَہم جانتے ہیں اس لئے استعمال ہوا ہے کہ کسی چیز کو بیان کرے یا اسکی خصوصیات سکی نشاندہی کرے ۔ اسی لئے مندرجہ بالا پیرا گراف کے مطابق ہر ایک صحیفہ خدا کے الہام سے ہے یا جیسا کہ یونانی پڑھتے ہیں خدا کے منہ سے نکلا ۔ اس کا مطلب ہے کہ بائبل کا منصف جو خدا ہے جس نے اسے کہا ،اسے پیدا کیا اس لئے بائبل خدا کا کلام ہے ۔ اس کے علاوہ مندرجہ بالا پیراگراف ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ بائبل بہت فائدہ مند ہے چار وجوہات ہیں جو اسے فائدہ مند بناتی ہیں ۔ مزید تجرباتی طور پر بائبل تعلیم دینے کے لئے مفید ہے ۔ دوبارہ گواہی کے لئے ،اصلاح کے لئے اور پرہیز گاری میں ہدایات کے لئے ۔ پس اس پیراگراف کا عنوان ہے ”خدا کا کلام ہے “۔ ہمارے پاس اس کلام کے بارے میں پہلے سے جانتے ہیں ان میں سے پہلے بائبل کے ساتھ خدا کے منہ سے نکلا ہوئے کلام کی شناخت سے متعلقہ ہے ۔ جبکہ دورسرا تعلیم ،الزام ،اصلاح اور راستبازی میں تربیت کے لئے اس کلام کی مفادیت ہے ۔ ”تا کہ مرد خدا کامل ہے ۔ اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے ۔ “

 

تا ہم صرف یہی نہیں ہے جو خدا کا کلام ہے ۔ نیچے ہم کچھ مزید دیکھیںگے جو ہمیں اسکی افادیت اور اہمیت کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد کریں گے ۔

 

 

1     خدا کا کلام :جسے خدا نے بہت عظمت دی :

 

مجھے یقین ہے کہ اس کے کلمے کے لئے فیصلے کو سننے سے بہتر اس تجربے کو شروع کرنے کا کوئی طریقہ ہو گا ۔ اس فیصلے کو سننے کے لئے ہم 138زبور2آیت پر جا ئیں گے جہاں ہم پڑھتے ہیں :

 

138زبور2آیت:

”کیو نکہ(خدا کا حوالہ دیتے ہو ئے) تو نے اپنے کلام کو اپنے ہر نام سے زیادہ عظمت دی ہے ۔

 

اس پیراگراف کے مطابق خدا نے اپنے لفظ کو اپنے نام سے بھی زیادہ بڑا کیا ہے ۔ ذہن میں رکھیں کہ خدا سے بڑا اور اول کچھ بھی نہیں ہے۔ جو اس کا نام ظاہر کرتا ہے ، ہم آسانی سے سمج سکتے ہیں کہ خدا ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس نے اپنے کلام کو ہر دوسری چیز سے زیادہ اول کیا ہے ۔ اگر ہم اسکے کلام کی صحیح اہمیت کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ،تو یہ وہ نتیجہ ہے جو خدا نے خود اخذ کیا ہے ۔ ”اس کے لئے اس کے کلام سے بڑا کچھ نہیں ہے ۔ “

 

 

2     خدا کا کلام :زندگی کی روٹی :

 

اپنے کلام کو جو اول درجہ خدا نے دیا ہے وہ ہم نے دیکھا ۔ آئیں آگے بڑھیں اور دیکھیں کہ اس کا کلام اور کیا ہے ۔ متی 4باب4آیت سے شروع کرتے ہیں جہاں یسوع مسیح کہتا ہے ۔

 

متی 4باب4آیت:

”یہ لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا ۔ ۔ ۔ “

 

پر بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف روٹی اور جسمانی خوراک ہی ایسی چیز ہے جو انہیں زندہ رہنے کے لئے چاہئے ۔ حالا نکہ یہ درست ہے کہ زندہ رہنے کے لئے جسمانی خوراک ضروری ہے اور جسمانی بھوک ختم کرنے کے لئے پھر بھی یسور مسیح کے مطابق ،کچھ اور بھی زیادہ ضروری ہے ۔ یہ کیا ہے ؟جو اب اسی آیت میں دیا گیا ہے ۔

 

متی 4باب4آیت:

”یہ لکھا ہے انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا بلکہ ہر اس کلام سے جو خدا کے منہ سے نکلتا ہے “۔

 

اس پیراگراف کے مطابق اپنی زندگی کو ایک حقیقی بھر پور زندگی بنانے کے لئے اور نہ صرف ایک عام زندگی بنانے کے لئے تمہیں ہر وہ کلام چاہئے جو خدا کے منہ سے نکلتا ہے ۔ یعنی تمہیں خدا کا کلام چاہئے جیسے 1پطرس 2باب 2آیت کہتی ہے ۔

 

1پطرس 2باب2آیت:

”نو زائیدہ بچوں کی مانند خالص رو حانی دودھ کے مشتاق رہو ۔ “

 

نوزائیدہ بچے دودھ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے وہ نیند سے اٹھتے ہیں اور روتے ہیں کیو نکہ انہیں دودھ چاہئے ۔ اسی طرح ،جیسے نوزائیدہ بچے دودھ کے بغیر نہیں رہ سکتے اسی طرح ہماری زندگیاں خدا کے کلام کے بغیر نہیں رہ سکتیں ۔ ہمیں فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آیا ہمیں دودھ چاہئے یا نہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیں جسمانی طور پر زندہ رہنے کے لئے خوراک کی ضرورت ہے اسی طرح یہ حقیقت ہے یہ نہ بدلنے والی سچائی کہ واقعی صحیح معنوں میں زندہ رہنے کے لئے ہمیں خدا کے کلام کی ضرورت ہے ۔

 

 

 

3     خدا کا کلام :سچائی:

 

جیسا کہ ہم نے دیکھاکہ خدا کا کلام ہماری زندگیوں کے لئے اتنا ضروری ہے جتنا ایک نو زائیدہ بچے کے لئے دودھ ۔ آئیں آگے بڑھیں اور دیکھیں کہ خدا کا کلام مزید کیا ہے ۔ ہم جو بھی پڑھتے جا رہے ہیں یہ سب پلاطوس سے مسیح کی تفتےش کے دوران واقعہ ہوا ۔ (یو حنا 18 باب 33 تا38آیت)اس تفتےش کے دوران پیلاطوس نے ایک سوال کیا جو غالباََاس وقت سے بہت لوگوں سے کیا جا چکا ہے ۔ پیلاطوس کا سوال یسوع کے اس جواب کے رد عمل میں تھا جو اس نے کیا تھا کہ وہ دنیا میں سچائی کی گواہی دینے آیا ہے ۔ (یوحنا 18باب37آیت)اور یوحنا18باب38آیت میں دیکھا جا سکتا ہے :

 

یوحنا 18باب38آیت:

”پیلاطوس نے یسوع سے کہا سچائی کیا ہے؟  

 

پیلاطوس کا سوال بالکل بھی خاص نہیں ہے بہت سے لوگ اور حقیقتاَہم میں سے بہت ،نے یہ سوال اپنی زندگی کے کسی مرحلے پر پو چھا ہو گا ۔  اس سوال کا جواب ڈھو نڈنا بہت ہی ضروری ہے ۔ یہ جواب یو حنا 17باب میں دیا گیا ہے ۔ جہاں مسیح یسوع نے اپنے پکڑوائے جانے سے تھوڑی دیر قبل خدا سے دعا کیا ور کہا ۔

 

یوحنا 17باب14اور 17آیت:

”میں نے تیرا کلام انہیں (شاگردوں کو)پہنچا دیا ۔ ۔ ۔ انہیں سچائی کے وسیلہ سے مقدس کر۔  تیرا کلام سچائی ہے۔ ''

 

انہیں سچائی کے وسیلے سے مقدس کر ۔ سچائی والے سوال کا جواب بہت ہی سادہ اور آسان ہے ۔ خدا کا کلام سچائی ہے ۔ بائبل مقدس ،ایک سچے خدا کا کلام ہے ۔ اور ایک ایک سچائی جس پر ہم خوف کے بغیر اپنی زندگیاں گزار سکتے ہیں ۔ یہ وہ کلام ہے جو مسیح یسو ع کے بارے میں کہتا ہے ”سچائی اور زندگی کا راستہ (یو حنا 14:6)اور حےران کن چیزیں جو وہ ہمارے لئے بھےجتا ہے ۔ یہ وہ کلام ہے جو کہتا ہے اگر تم مسیح پر ایمان لاتے ہو اور یقین رکھتے ہو کہ خدا مردوں میں سے جی اٹھا ہے تو تم بچا لئے گئے ہو ۔ (رومیوں 19:9)یہ صرف ایک مثبت کلام نہیں ہے ،نہ ہی کوئی مذہبی کلام ہے یہ ایک سچائی ہے ۔ اگر تم ایمان لاتے ہو تو یقینا تم بچا لئے گئے ہو ۔ اور اگر تم ایمان نہیں لاتے تو یقینا تم مسلسل آزادی کے بغیر رہو گے ۔ سچائی سچائی ہی ہے ۔ تم اسے بدل نہیں سکتے یہ لاتبدیل ہے ۔ یا تو تم اسے قبول کر سکتے ہو یا دفع کر سکتے ہو ۔

 

اس کے بر عکس ،جھوٹ کے بغیر ہزاروں پہلو ہیں ۔ سو ہوں خیالات ہیں ،فلسفوں اور مذاہب ہمارے ذہنوں میں خدشات پید کرتے رہتے ہیں ۔ ان میں سے درجنوں کی پیدائش اور موت کو گننے کے لئے زندگی بھر کا وقت کافی ہو گا ۔ انسان مسلسل اپنے فلسفے اور نظریات کو وقت کے مطابق جدید کرنے کے لئے لگا رہتا ہے ۔ جہاں سچائی ہو تی ہے وہاں جدیدکرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ سچائی آج بھی سچائی ہی ہے ۔ کل بھی اور ہزاروں لاکھوں سال بعد بھی ۔ اور یہ صرف خدا کا کلام ہی ہے جو سچائی ہے ۔ جس کی معیاد لافانی ہے ۔ جیسا کہ1 پطرس1 باب 23 آیت کہتی ہے:

 

”کیو نکہ تم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خدا کے کلام کے وسیلے سے جو زندہ اور قائم ہے ۔ “

 

1پطرس 1باب25آیت:

لیکن خدا کا کلام ابد تک قائم رہیگا ۔ یہ وہی خوشخبری کا کلام ہے جو تمہیں سنایا گیا ہے ۔ “

 

          خدا کا کلام ہمیشہ تک رہتا ہے ۔ اسے جدید کرنے کی ضرورت نہیں ۔ خدا نے اپنے الفاظ 2ہزار سال پہلے کہہ دئیے تھے ۔ اور خدا آج بھی ویسا ہی ہے ۔ جیسا یعقوب 1باب 17آیت کہتی ہے ۔

 

یعقوب 1باب 17آیت:

”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کو ئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اس پر سایہ پڑتا ہے ۔ “

 

          بعض دفعہ صرف چند لمحات کافی ہو تے ہیں انسانوں کے ذہنوں کو بدلنے کے لئے ۔ تغیرو تبدل انسانوں کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں ۔ لیکن خدا کے ساتھ نہ تو کو ئی تبدیلی اور نہ حتیٰ کے کو ئی معمولی سا سایہ بھی نہیں جڑا ہوا ۔ خدا کا کلام سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہو تا اور یقینا ہماری زندگیوں کے لئے حقیقتاَ بہت اہم ہے اور صرف ایک یہی وہ چیز ہے جس پر ہم بغیر کسی خوف کے بھروسہ کر سکتے ہیں اور یہ ہمیں شرمندہ نہیں کرے گی ۔

 

 

4     خدا کا کلام :ایک سچا کلام

 

          ایک اور خصوصیت کہ سچائی کی تعریف یہ ہے کہ وہ خالص ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا خدا کا کلام خالص ہے اگر ہاں تو کتنا خالص ہے َاس سوال کا جواب پانے کے لئے ہم زبور کی کتاب دیکھیں گے جہاں وہ پڑھتا ہے ۔

 

12زبور6آیت:

”خداوند کا کلام پاک ہے اس چاندی کی مانند جو بھٹی میں مٹی پر تائی گئی اور سات بار صاف کی گئی ہو۔ “

 

119زبور140آیت:

تیرا کلام بالکل خالص ہے ۔ اس لئے تیرے بندے کو اس سے محبت ہے۔ “

 

          خدا کا کلام وہ کلام نہیں ہے جس میں ملاوٹ ہو ۔ یہ وہ کلام نہیں جس کے لئے ہمیں اس کی غلطیوں کی معافی سے پہلے جانچنے کی ضرورت ہے۔ بلا شبہ یہ خالص کلام ہے ۔ اور در حقیقت اتنا خالص کہ جیسے چاندی کو زمین کی بھٹی میں سات دفعہ پگھلاکر خالص کیا گیا ہو ۔ یعنی اس سے پیار کرتے ہیں ۔  (اسی لئے (نتجتاَ)تمہارے غلام اس سے پیار کرتے ہیں) ۔ اسی کا خالص ہوتا ۔  مکمل ہو نا اور درست ہونا اس کے لکھنے والے، خدا ،کے خالص ہو نے ،مکمل ہونے اور درست ہو نے کی عکاسی کرتا ہے ۔

 

 

5     خدا کا کلام :خوشی کا ذریعہ ہے :

 

          ہم پہلے ہی خدا کے کلام کے کچھ پہلو دیکھ چکے ہیں حالانکہ فہرست یہیں ختم نہیں ہو تی ۔  زبور 119میں ہم خدا کے کلام کا ایک اور اثر دیکھتے ہیں ۔

 

119زبور162آیت:

”میں بڑی لوٹ پانے کی مانند تیرے کلام سے خوش ہوں ۔ “

 

119زبور14آیت بھی:

”مجھے تیری شہادتوں کی راہ سے ایسی شادمانی ہو ئی جیسی ہر طرح کی دولت سے ہوتی ہے ۔ “

 

          بہت سے لوگ ڈھیر سارا پیسہ اکٹھا کرکے خوشی کی تلاش کرتے ہیں ۔  حالانکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ تم صرف روٹی سے ہی زندہ نہیں رہتے اور پیسہ کبھی بھی حقیقی خوشی کے اجزاءنہیں ہو سکتے ۔  یہ اجزاءکیا ہیں ؟خدا کا کلام ہے ۔ خدا کا کلام ،ان تمام چیزوں کے علاوہ ، جو ہم نے ابھی دیکھیں بہت زیادہ خوشی بھی لاتا ہے ۔ در حقیقت یہ ایسی خوشی دیتا ہے جیسی خوشی بہت سارا خزانہ پا لےنے پر ہو تی ہے ۔ تمہیں خوشی پانے کے لئے لا ٹری خرےدنے کی ضرورت نہیں ۔ بس تم کلام میں جا اسے پڑھو ،اس پر ایمان اور اسے اپنے دل میں رکھو ۔ اور ہر بار تمہاری خوشی اتنی بڑی ہو گی کہ جیسے کسی نے بہت بڑا خزانہ پا لیا ہو ۔ کیا یہ زبردست نہیں کہ ہمارے پاس خوشی کا ایک مستقل ذریعہ ہے ۔ یہ و ہ خوشی نہیں جسکا انحصار قسمت ،حالات یا دوسری چیزوں پر ہو بلکہ خدا خدا اور اس کے کلام پر جو کہ بائبل مقدس ہے ۔

 

6     خدا کا کلام :ہمارے قدموں کے لئے چراغ :

 

          ایک اور چیز جو خدا کا کلام ہے اسے119 زبور105آیت اور 2پطرس 1باب19آیت میں بھی پایا جا سکتا ہے یہ وہاں کہتا ہے ۔

 

119زبور105آیت:

تیرا کلام میرے قدموں کے لئے چراغ اور میری راہ کے لئے رو شنی ہے ۔ “

 

2پطرس 1باب19آیت میں بھی :

”اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو یہ سمجھ کر اس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں رو شنی بخشتا ہے جب تک پو نہ پھوٹے اور صبح کا ستارہ تمہارے دلوں میں نہ چمکے ۔ “

 

          راہ پر چلنے کے لئے یقینا تمہیں روشنی کی ضرورت ہے ۔ چاہے وہ رو شنی مصنوعی ہے یا قدرتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے بغیر نہیں چل سکتے۔ زندگی کا سفر بھی اس اصول سے الگ نہیں ہے ۔ اس راستے پر چلنے کے لئے تمہیں رو شنی کر نے کے لئے چراغ چاہئےے ۔ تمہیں یہ چراغ کہاں ملے گا ؟مندرجہ بالا پیراگراف کے مطابق ۔ جواب خدا کا کلام ہے ۔ خدا کے کلام پر عمل کرتے ہو ئے ۔  تم ایسے ہو جیسے کو ئی رو شنیوں سے بھرے راستے پر چل رہا ہے ۔  جیسا 84زبور11آیت اور1یوحنا1باب5آیت کہتی ہے :

 

84زبور11آیت:

”کیو نکہ خداوند خدا آفتاب اور سپر ہے ۔ ۔ ۔ “

 

1یوحنا1باب5آیت:

”۔ ۔ ۔کہ خدا نور ہے اس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔ “

 

          خدا سورج کی مانند ہے[1]۔ اس کی پیروی ایسی ہی ہے جیسے ایسے راستے پر چلنا جسکا چراغ اتنا روشن ہے جتنا اسکا منصف یعنی کہ جیسے خدا کی روشنی ۔

 

         

7.    اگر کلام ہماری خوشنودی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

 

 غالباَ آپ اس چیز کی اہمیت سمجھ گئے ہو نگے کہ جب آپ جانتے ہیں کہ کیا ہو گا اگر وہ آپ کے پاس نہ ہو ۔ اوپر ہم خدا کے کلام کے کچھ پہلو بیان کت چکے ہیں اور ان سے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کھو ئیں گے اگر ہمیں یہ نہ ملا تو ۔ زبور میں حالانکہ ایک پیراگراف ہے جو ہمیں کلام کے فوائد کے بارے میں نہیں بتاتا بلکہ اس لئے بر عکس یعنی ان پہلوں کے با رے میں بتاتا ہے کہ کیا ہو گا اگر خدا کا کلام ہمارے ساتھ نہیں ہو گا ۔  داد نے 119زبور77آیت میں مکاشفہ کی رو سے کہا:

 

 

119زبور77آیت:

”تیری شریعت میری خوشنودی ہے۔ “

 

داد کے لئے خدا کا کلام (داد کے زمانے اور سلطنت کی ”شرےعت “)اسکی خوشی تھی ۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہو تا اگر خدا کا کلام اسکی خوشی نہیں ہو تا ۔ ہمیں ضرورت نہیں لیکن صرف پندرہ آیات آگے جائیں ۔

بے شک92آیت بتاتی ہے:

 

119زبور 92آیت:

”اگر تیری شریعت میری خوشنودی نہ ہوتی تو میں اپنی مصیبت میں ہلاک ہو جاتا۔ “

 

          بعض اوقات مشکل وقت آسکتا ہے۔  جہاں کچھ عارضی، ہلکی سے تکلیف ہو سکتی ہے(1کرنتھیوں 3باب17آیت اور 1پطرس1باب6 آیت)۔  تاہم ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے اوقات میں خدا کا کلام مستقل خوشی کا ذریعہ نہیں، ہمارے قدموں کے لئے روشنی نہیں، اور ہماری زندگیوں کیلئے خوارک نہیں، ایسی کوئی صورت نہیں، کوئی حالات نہیں جو خدا کے کلام کو پہلے سے کم روشن بنا دیں یا یہ اپنی اہمیت کھو دیں ۔  خدا سی طرح قادر اور پیار کرنے والا ہے چاہے اچھے حالات ہوں یا برے۔ اس کا کلام اچھے اور برے دونوں حالات میں اسی طرح بااعتماد ہے۔  حالانکہ ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ ہم خدا کے کلام کی روشنی کو اپنے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں۔ اداسی، دبااور مصیبت بھی کبھی آسکتے ہیں لیکن وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے جب تک کہ خدا کا کلام ہمارے ساتھ ہے۔ خدا، بھروسہ مند خدا ہے۔ اور وہ ہمیں ہمیشہ فاتح بنائے گا جب تک کہ ہم اس پر اعتبار کرتے ہیں(رومیوں 8باب37آیت)۔

 

 

8.    اگر ہم خدا کے کلام پر غور کریں تو ہم۔ ۔ ۔ ۔ :

 

          خدا کے کلام کے کچھ پہلوں کو دیکھتے ہوئے اس کے عظیم مفادات جو اس کے کلام کو پڑھنے اور دل میں رکھنے سے ہوتے ہیں۔  آئیں اس کلام کے کچھ مزید نتائج دیکھیں کہ اگر ہم اسکی عبادت کرتے ہیں تو یعنی اگر ہمیں اسے اپنی سوچ اور دماغ کا مرکز بنا لیتے ہیںتو۔

 

 

8.1  ہم برکت پائیں گے اور اس درخٹ کی مانند ہوں گے جو دریا کے کنارے ہے:

 

          یہ دیکھنے کیلئے کہ کلام ایسے آدمی کے بارے میں جس کے دماغ میں کلام ہی مرکز ہے کیا پیشن گوئی کرتا ہے آیئے 1زبور 1تا3آیت دیکھیں جہاں یہ کہتا ہے:

 

1زبور1تا3آیت:

مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطا کاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا اور ٹھٹھا بازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا بلکہ خداوند کی شریعت میں اس کی خوشنودی ہے اور اسی کی شریعت پر اس کا دن رات دھیان رہتا ہے۔  وہ اس درخت کی مانند ہے جو پانی کی ندیوں پر لگایا گیا ہے جو اپنے وقت پر پھیلتا ہے اور جس کا پتہ بھی نہیں مرجھاتا سو جو کچھ وہ کرے وہ بارآور ہوگا۔

 

کیا ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو وہ نہیں چاہتا جو وہ ترقی کرنے کیلئے کرتا ہے؟میرے خیال میں نہیں۔ حالانکہ ہم اسے کیسے پا سکتے ہیں؟ درج بالا پیرا گراف کے مطابق وہ ذریعہ خدا کے کلام کی عبادت ہے۔  اگر ہم درست طور پر خدا کے کلام کو دوسروں کے ساتھ بانٹیں اور اسے اپنے دماغ کا مرکز بنائیں تو جو بھی پھر ہم کریں گے وہ خدا کو خوش کرنے کیلئے ہو گا کیونکہ یہ اس دماغ کی پیداوار ہوگا جہاں خدا کا کلام ہی مرکز ی اہمیت رکھتا ہے۔ اور پس، درج بالا پیراگراف کے مطابق یہ نشو ونما پائے گا اور برکت بھی پائے گا(خوشی)۔ اور یہ ایک پھلدار درخت کی مانند بن جائے گا جسے ندیاں سیراب کرتی ہیں۔

 

 

8.2          نشو ونما اور حساس پن:

 

          جب ہم یشوع کی کتاب پر غور کرتے ہیں تو خدا کے کلام کی عبادت کے اثرات مزید واضح ہوجاتے ہیں۔  یشوع موسیٰ کا پیروکار تھا جو اسرائیل کی راہنمائی کرتا تھا۔ جب وہ وعدہ کی سر زمین کے سفر میں تھے ان کے ذہنوںمیں یہی تھا کہ یہی وہ شخص ہے جو انہیں وعدہ کی سر زمین میں لے جائے گا، اور صحیفوں[2] سے یہ جانتے ہوئے کہ ان لوگوں کی اس راہ پر راہنمائی کرنا آسان نہیں ، ہم یہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ یشوع کو اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے کتنی زیادہ خوشحالی اور حساس ہونے کی ضرورت تھی۔ یہ جاننا بہت دلچسپی کی بات ہے کہ خدا نے اسے کیا کرنے کی نصیحت کی، تا کہ وہ مزید نشو نما اور حساس پائے۔ یہ جاننے کیلئے آیئے یشوع 1باب5تا8آیت دیکھیں جہاں خدا یشوع سے بات کر رہا ہے اور اس نے کہا:

 

یشوع1باب5تا8آیت:

”تیری زندگی بھر کوئی بھی شخص تیرے سامنے کھڑا نہ رہ سکے گا۔ جیسے میں موسیٰ کے ساتھ تھا ویسے ہی تیرے ساتھ بھی رہوں گا۔ میں نہ تجھ سے دستبردار ہوں گا نہ تجھے چھوڑوں گا۔ سو مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ کیونکہ تو اس ملک کو اس قوم کا وارث کرائے گا جسے میں نے ان کو دینے کی قسم ان کے باپ دادا سے کھائی تو فقط مضبوط اور نہایت دلیر ہو جا کہ احتیاط رکھ کر اس ساری شریعت پر عمل کر جس کا حکم میرے بندے موسیٰ نے تجھے دیا تھا۔ اس سے نہ دہنے ہاتھ مڑنا نہ بائیں تاکہ جہاں کہیں تو جائے تجھے کامیابی حاصل ہو۔ شریعت کی یہ کتاب تیرے منہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دن اور رات اس کا دھیان ہو تا کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے اس سب پر تو احتیاط کر کے عمل کرسکے۔  کیونکہ تب ہی تجھے اقبالمندی کی راہ نصیب ہوگی اور تو خوب کامیاب ہوگا۔

 

          دیکھیں کہ خدا کتنے حیرانکن انداز میں یشوع کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ خدا وہ نہیں ہے جو بنا سوچے سمجھے ہمارے مطلوبہ حوصلہ افزائی اور آرام کو ہمیں دیتا رہے، جب کہ وہ پیار اور محبت کرنے والا خدا ہے۔ دیکھو کہ خدا یشوع کو کیا بتاتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہمیشہ کا سکھ پانے کیلئے اسے بہت حوصلے کی ضرورت ہے تا کہ موسیٰ کی شریعت(اس دور اور سلطنت میں خدا کا کلام)کے مطابق سب کام کرے۔ در حقیقت اس نے اسے کہا کہ محتاط رہ اور جو یہ شریعت کہتی ہے اس کی خلاف ورزی نہ کر۔ اس نے مزید براں بتایا کہ اگر وہ دن رات خدا کے کلام پر غور کرے یعنی صرف خدا کا کلام ہی متواتر طور پر اس کی سوچ کا مرکز ہوتو وہ خوشحال ہوگا اور حساس طور پر کام سر انجام دے گا۔ یہ ”تب“ جو اس حوالہ میں ستعمال کئے گئے ہیں ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی خوش حالی اور حساس پن اسکی سوچ میں خدا کے کلام کی اہمیت پر انحصار کرتے ہیں۔  یہ صرف تب ہی ہو سکتا ہے اگر خدا کا کلام ہمارے خیالات اور سوچ کا مرکز ہو کہ ہم خوشحال اور حساس بن جائیں۔ اگر مطالعہ کرنے والا یشوع کا باقی حصہ پڑھے تو اس بات کی تصدیق ہو گی کہ یشوع وہ شخص ہے جس نے اپنی ساری زندگی خدا کی خدمت کی اور اس کی پیروی کی اور وہ اپنے مقصد میں بارآور اور کامیاب رہا۔

 

 

اختتام:

 

          اس مطالعہ کو ختم کرتے ہوئے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کسی بھی طرح سے تھکا دینے والا نہیں تھا۔ پڑھنے والے کو خدا کا کلام جانچنے اور اس میں سے دوسری چیزیں معلوم کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو اس میں ہیں۔ تاہم، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم نے اس میں سے بہت اسی ایسی باتیں جانی ہیں جو ہمیں خدا کے کام کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیں گی۔ اب درج بالا سب کچھ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ، ہم نے دیکھا کہ خدا کا کلام، بائبل ، یہ ہے:

 

i)       سچائی

 

ii)      جسے خدا نے عظمت دی

 

iii)     زندگی کی روٹی

 

iv)     نشو ونما کیلئے دودھ

 

v)      خوشی کاوسیلہ

 

vi)     ہمارے قدموں کیلئے چراغ

 

vii)    تعلیم، الزام، اصلاح اور راستبازی میں تربیت کیلئے فائدہ مند۔

 

viii)   بہت خالص

 

ix)     ایسی چیز جسے اگر ہم اپنی خوشنودی بنائیں تو اپنے غموں میں نڈھال نہیں ہوں گے۔

 

x)      ایسی چیز جس پر اگر ہم غور کریں تو ہم۔ ۔ ۔ ۔

 

(۱) برکت پائیں گے  (۲) اس درخت کی مانند ہوں گے جو دریا کے کنارے ہے۔    (۳) اپنے ہر کام میں کامیاب ہوں گے۔    (۴)شعور پائیں گے۔

 

اگر چہ یہ فہرست اکتا دینے والی نہیں ہے، تاہم میرا خیال ہے کہ خدا کے کلام کی اہمیت، فضیلت اور بڑھائی ظاہر کرنے کیلئے یہ کافی ہیں۔ اگر ہم کلام کا مطالعہ کریں اسے اپنے دل میںرکھیں اور یہاں اسے زندہ رکھیں تو اس کے زبردست اثرات کو واضح کرنے کیلے بھی یہ کافی ہے۔

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 



[1]  تاہم، اگر چہ سورج کے اندر کچھ سیاہ دھبے ہیں ، لیکن خدا میں بالکل تاریکی نہیں ہے۔

[2]   مثال کے طور پر دیکھیں: خروج 15باب22تا26آیات اور 16باب1تا15آیت، گنتی 11باب 1تا6 اور16 آیت، 25باب1تا5آیت، استثنا 1باب