بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

فکریں،  دعا اور ایمان

 

       تناﺅ یقیناً ہمارے آج کے دور کا سب سے اولین مسئلہ ہے۔  میڈیا اور ڈاکٹرز اس کے متعلق وقتاً فوقتاً بات کرتے ہیں اور ماہرین کا سارا گروہ ( تجزیہ نگار ، ماہر نفسیات، اور تھراپسٹ وغیرہ) اس سے مقابلہ کرنے میں لوگوں کی مدد کرنے کےلئے بڑھا ہے۔ تاہم،  ان کے ”سد باب“ ،  عموماً چند نصیحتیں یا خیالات،  چند گولیاں جو عام ادویات سے قدر مختلف ہوتی ہیں،  اس کا درست جواب نہیں دے سکتیں،  اور یہ اس لئے ہے کیونکہ وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو خدا کو کلام اس کے متعلق فرماتا ہے۔  اس لئے،  اگر ہم بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہتے،  تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے جو خدا کا کلام کہتا ہے اور ہم آج یہی کریں گے۔

 

 

1فلپیوں باب4تا7آیت

 

       اگر چہ کلام کے بہت سے حوالہ جات ، مایوسی ے متعلقہ ہیں،  تاہم فلپیوں 4باب4تا7آیت پر ایک نظر یہ ظاہر کرنے کےلئے کافی ہے کہ خدا اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔  حقیقتاً،  ہم یہاں پڑھتے ہیں:

 

فلپیوں4باب4تا7آیت:
خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔  پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔  تمہاری نرم مزاجی سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔ خداوند قریب ہے۔  کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری در خواستیں دعا اور منت کے وسیلہ سے شکر گزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔  تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھے گا۔ “

 

4آیت ہمیں خداوند میں خوش رہنے،  اور درحقیقت خوش رہنے اور، اس میں خوشنودی رکھنے ، کی دعوت دیتی ہے۔ جیسا کہ یہ کہتی ہے کہ،  ”قریب ہے“ یعنی ہمارے بہت نزدیک ہے۔  اس لئے ہمیں ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری در خواستیں دعا اور منت کے وسیلہ سے شکر گزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ “جیسا کہ یہ ظاہر ہے کہ،  لفظ ”لیکن“ جو اس حوالہ میں استعمال ہوا ہے وہ اس بات میں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کس بات کی فکر کرنی چاہئے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کس ”بات میں ہمار ی در خواستیں دعا اور منت کے وسیلہ سے شکر گزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں، “ میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ ایک اور فرق پایا جاتا ہے جو وہ ”کسی بات میں نہیں“ اور ہر بات میں“ کے الفاظ میں پایا جاتا ہے۔ یعنی ہمیں کسی بات کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہر بات میں ہماری درخواستیں خدا کے سامنے شکر گزاری کے ساتھ پیش کی جائیں۔ ان ہدایات کا ضامن نتیجہ 7آیت میں دیا گیا ہے، جہاں ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر ہم ان کی پیروی کرتے ہیں ”تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھے گا۔ “

 

       اس لئے خلاصہ بیان کرتے ہوئے،  مایوسی کے مسئلے کا جو حل خدا مرتب کرتا ہے وہ بہت بہت سادہ ہے: اس میں ایک بات یہ شامل ہے:  ”کچھ نہ کرو“:  فکر نہ کرو یا ”کسی بات کی فکر نہ کرو۔  دوسری بات ”کچھ کرو“:  ”ہر ایک بات میں تمہاری در خواستیں دعا اور منت کے وسیلہ سے شکر گزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں“،  شامل ہے،  اور اس کا نتیجہ اطمینان ہے،  اور درحقیقت ” خدا کا اطمینان (واحد حقیقی اطمینان)ہے جو سمجھ سے بالکل باہر ہے۔ “

 

21پطرس5باب7آیت

        درج بالافلپیوں 4باب کا حوالہ صرف ایک حوالہ نہیں ہے جو فکر کے مسئلے سے متعلقہ ہے۔  اسی مسئلے سے متعلقہ 1پطرس 5باب7آیت بھی ہے۔  یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

1پطرس5باب6اور7آیت:
”پس خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سر بلند کرے۔
 اور
اپنی ساری فکر اسی پر ڈال دو کیونکہ اس کو تمہاری فکر ہے۔ “

 

       کسی بھی ایسی چیز کو جو ہمارے کندھوں پر ہے اتار کر کسی دوسرے کے کندھوں پر رکھنے کےلئے کسی عمل کی ضرورت ہے۔  بالکل اسی طرح خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنی فکروں کے ساتھ کریں[1]:  خود ان کی فکر کرنے کی بجائے،  وہ ہمیں عمل کرنے کو کہتا ہے،  لیکن ان کی فکر کرتے ہوئے نہیں بلکہ انہیں اس پر چھوڑتے ہوئے۔ اور یہ صرف چند ایک فکروں کے لئے نہیں جنہیں ہم زیادہ اہم سمجھتے ہیں بلکہ تمام تر فکروں کے لئے۔ خدا کا کلام کہتاہے، ”اپنی ساری فکر اسی پر ڈال دو کیونکہ اس کو تمہاری فکر ہے۔ “اس کے علاوہ دوسرے حصے میں یہ کہتا ہے کہ:

 

55زبور22آیت:
اپنا بوجھ خداوند پر ڈال سے ۔  وہ تجھے سنبھالے گا۔  وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دے گا۔ “

 

       اس لئے بیشک،  سوال یہ نہیں کہ آیا کہ خدا ہماری فکر کرتا ہے اور نہ ہی یہ کہ کیا وہ ہمارا فکریں اٹھانے والا بننے کی خواہش رکھتا ہے،  بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں اتنی فرتنی ہے کہ ہم اپنی تمام تر فکریں اس پر ڈال دیں،  بالکل جیسے کہ وہ ہیں دوعوت دیتا ہے، (کلام کہتا ہے”پس خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنی ساری فکر اسی پر ڈال دو “ )۔

  

3متی6باب25تا34آیت

        درج بالا دو حوالہ جات کے علاوہ، جو فکروں سے متعلقہ ہیں،  متی 6باب25تا34آیت کا حوالہ بھی اسی سے متعلقہ ہے۔  یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

متی6باب25تا34آیت:
”اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا(یونانی لفظ ”
merimno“ بالکل وہی لفظ جو فلپیوں4باب6آیت اور 1پطرس5باب7آیت میں استعمال ہوا ہے)کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟  اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟  کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟  ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں۔  کوٹھیوں میں جمع کرتے تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے ۔  کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟  تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟  اور پوشاک کےلئے کیوں فکر کرتے ہو؟  جنگلی سوسن کے درختوں کوغور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔  وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں۔  تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی اپنی ساری شان و شوکت کے باوجود ان میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔  پس جب خدا میدا کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو! تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟  اس لئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟  کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔  بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں تم کو مل جائیں گی۔  پس کل کےلئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرلے گا۔  آج کےلئے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔

 

       خوراک،  پانی اور کپڑا ہماری سب سے خاص بنیادی جسمانی ضروریات ہیں۔  تاہم،  صرف ہم ہی نہیں ہیں جو یہ جانتے ہیں۔  خدا بھی یہ جانتا ہے۔  اس لئے وہ ہمیں خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے کہتا ہے کہ:  ” اپنی جان کی فکر نہ کرناکہ” ہم کیا کھائیں گے “یا” کیا پئیں گے؟  “اور نہ اپنے بدن کی کہ” کیا پہنیں گے؟ “ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کی ضرورت ہے[2] “۔  اور اگر کوئی پوچھتا ہے کہ فکر کرنے کی بجائے پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے تو 33آیت ہمیں بتاتی ہے کہ: ”تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں تم کو مل جائیں گی۔ “پہلے خدا ،  اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی ہے اور باقی سب چیزیں ہمیں مل جائیں گی۔ جیسے کہ متی 7باب7تا11آیت بھی ہمیں کہتی ہے کہ:

 

متی7باب7تا11آیت:
”مانگو
تو تمکو دیا جائے گا۔  ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔  دروازہ کھٹکھٹاﺅ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔  کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا ہے جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے جو کھٹکھٹاتا اس کے واسطے کھولا جائے گا۔  تم میں ایسا کون سا آدمی ہے جس کا بیٹا اگر اس سے روٹی مانگے تو وہ اسے پتھر دے؟  یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے؟ پس تم جب کہ برے ہو کے اپنبے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟  

 

       کون ہے جو پاتا ہے؟  کون ہے وہ جس کےلئے کھولا جاتا ہے؟  کس کو خدا اچھی چیزیں دیتا ہے؟  ان کو جو اس سے مانگتے ہیں،  ان کےلئے جو اس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔  دوبارہ اسی لئے،  جیسے کہ 1پطرس 5باب7آیت میں ہے،  یہاں بھی سوال یہ نہیں ہے کہ آیا کہ خدا عمل کرنے اور ہماری ضروریات پوری کرنے کےلئے رضا مند ہے کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا کہ ہم عمل کرنے کو تیار ہے کہ نہیں کہ اپنی فکریں اس پر ڈال دیں اور فکر نہ کریں (یہی ہمارا کام ہے،  اس کے ساتھ وہ کام بھی جو خدا ہمیں کرنے کو کہتا ہے)۔ پھر اس کا کام ہے،  کہ وہ ہمیں وہ عطا کرے جو ہم نے اس سے دعا میں مانگا بلکہ اس سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ(افسیوں 3باب20آیت)،  لیکن صرف اس صورت میں اگر جو کچھ ہم نے دعا میں مانگا ہے وہ اس کی رضا کے مطابق ہے تو۔

 

41یوحنا5باب14اور15آیت

        دوسری صورت حال کے حوالے سے(یعنی جو کچھ خدا سے ہم مانگتے ہیں وہ خدا کی مرضی کے مطابق ہے کہ نہیں)1یوحنا 5باب14اور 15 آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

1یوحنا5باب14اور15آیت:
”اور ہمیں جو اس کے سامنے دلیری ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اگر اس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔
 اور جب ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہماری سنتا ہے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ اس نے ہم سے مانگا ہے وہ پایا ہے۔ “

 

 

       یہ حوا لہ اس طرح نہیں کہتا کہ ”اگر ہم خدا سے جو کچھ بھی مانگیں تو ہ ہماری سنتا ہے“ بلکہ یہ کہ ” اگر اس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔ “ا س لئے،  ہماری دعا کی قبولیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو کچھ ہم خدا کی مرضی کے موافق مانگتے ہیںوہ،  جیسا کہ رومیوں 12باب2آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:  خدا کی نیک ،  پسندیدہ اور کامل مرضی“ ہے۔ پس،  خدا کی مرضی جاننا ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو کہ ہمیں اس سے کیا توقع ہونی چاہئے۔ اور کسی کی مڑجی جاننے کےلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہم پر اپنی مرضی ظاہر کرے،  اس طرح خدا کی مرضی کو جاننے کےلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی مرضی ہم پر آشکارہ کرے،  یا تو بائبل ،  اس کے لکھے گئے کلام ، کے وسیلہ سے یا پھر روح القدس کے وسیلہ سے جو اس نے ہمیں اس وقت عطا کیا جب ہم نئے سرے سے پیدا ہوئے۔ دوسرے حصے کے حوالے سے،  جب وہ مثال کے طور پر کہتا ہے کہ ہمیں کھانے کی،  پینے کی اور پہننے کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ پہلے خدا کی بادشاہی کی اور اسکی راستبازی کی تلاش کرنی چاہئے تو یہ ساری چیزیں ہم کو مل جائیں گی،  تو یہ ہمیں خد کی مرضی اور اس کی اولیتوں کے بارے میں بتاتا ہے کہ:  یہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کو اولین درجہ دیں،  کسی بات کی فکر نہ کرو؛ بلکہ اپنی ساری فکریں اس پر ڈل دو،  تو ” یہ ساری چیزیں تم کو مل جائیں گی۔ “بالکل اسی طرح دوسری چیزوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن کا اطلاق عموماً ہوتا ہے،  جیسے کہ نجات،  روح کا اظہار،  شفا وغیرہ۔ ان چیزوں اور دیگر چیزوں کےلئے جن کے بارے میں خدا کا کلام خدا کی مرضی کے طور پرذکر کرتا ہے،  اس کی ضروت نہیں کہ ہم خدا کا انتظاہر کریں کہ وہ آئے اور ہمیں خفیہ طور پر کہے کہ ہم انہیں حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اس نے پہلے ہی ان کا ذکر اپنے کلام میں کر دیا ہے۔

 

       تاہم،  ان تمام چیزوں کے علاوہ جو کا اطلاق عمومی طور پر ہوتا ہے اور جن کا تذکرہ مکمل طور پر خدا کے کلام،  بائبل،  میں ہوا ہے،  یہاں کچھ اور خاص چیزیں بھی ہیں،  جو ان کے خاص کردار کے باعث اس میں شامل نہیں ہوتیں۔  اس لئے مثال کے طور پر،  خدا کا کلام،  اس حوالے سے کہ ہمیں عام طور پر کیا توقع کرنی چاہئے[3] چند عمومی ہدایات کے علاوہ ،  مجھے یہ نہیں بتاتا کہ x ملازمت میرے لئے ہے یا مجھے فلاں فلاں جگہ جانا چاہئے تا کہ وہاں میں خدا کے لئے فلاں فلاں کام سر انجام دے سکوں۔  اس لئے میں کیسے جان سکتا ہوں کہ اس قسم کے کام یا اس سے مطابقت رکھنے والے کام خدا کی مرضی کے مطابق ہیں؟  اس کا جواب یہ ہے کہ اس روح کے واسیلہ سے جو خدا نے ہمیں ہمارے ساتھ بات چیت کرنے کےلئے عطا کیا ہے۔  خدا صرف بائبل میں نہیں ہے جیسے کہ اکثر مسیحی لوگ سمجھتے ہیں۔ وہ ہم میں روح کے وسیلہ سے بھی ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے اور جو 1کرنتھیوں 12باب8تا10آیت میں درج کردہ نو طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔  وہ طریقہ کار یہ ہیں:  حکمت،  علمیت کا کلام،  ایمان،  شفا دینے کی توفیق،  معجزوں کی قدرت،  نبوت،  روحوں کا امتیاز،  طرح طرح کی زبانیں،  زبانوں کا ترجمہ۔ ان نو اظہارات میں سے،  علمیت کا کلام اور حکمت کاکلام ہمیں کسی بھی صورت حال میں علم اور حکمت کےلئے عطا کیا گیا ہے،  جو حواس خمسہ کی بدولت پانا ناممکن ہے۔  پس،  اگر میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ فلاں یا فلاں ملازمت میں یا فلاں فلاں کام کرنے میں خدا کی مرضی شامل ہے یا نہیں،  مجھے میری سوچ پر نہیں جانا چاہئے،  اور نہ ہی مجھے اس کی کوشش کرنی چاہئے۔ بلکہ،  مجھے اپنے باپ کے پاس جانا چاہئے اور اس کے ساتھ یہ سب بات چیت کرنی چاہئے، تو وہ مجھے یہ بتائے گا کہ جو فیصلہ میں نے کیا ہے وہ کرنا بہتر ہے یا نہیں۔ جیسے یعقوب 1باب5آیت کہتی ہےئ:

 

یعقوب1باب5آیت:
”لیکن اگر تم میںسے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔ اس کو دی جائے گی۔ “

 

        خدا حقیقتاً چاہتا ہے کہ (اور یہی اس کی مرضی ہے)ہم اس کے پاس جائیں اور کثرت سے اور بغیر ملامت کئے اس کی حکمت حاصل کریں۔

        اس لئے اختتام کرتے ہوئے:  خدا حقیقتاً کہیں بھی یہ نہیں کہتا کہ اس کی مرضی اس کے تحریری کلام میں ہے،  جیسے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں۔ تاہم،  ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو خدا کے تحریر کلام میں شامل نہیں ہیں۔  اس میں ہمارے ہر روز کے فیصلہ جات کا بہت بڑا حصہ شامل ہے اور یقیناً یہ خدا کی مرضی کے بغیر نہیں ہیں۔ ہر کام کےلئے اس کی ایک خاص مرضی ہے اور اسے جاننے کا طریقہ یہ ہے ،  اگر یقیناً یہ بائبل میں درج نہیں ہے تو،  کہ ہم اس سے یہ دعا کریں کہ وہ ہم پر اپنی اس کے پاک روح کے وسیلہ سے مرضی آشکارہ کرے۔ اس لئے 1یوحنا 5باب 14اور15آیت کہ طرف آتے ہوئے، ہمیں اس بات کو پر یقینی بنانا چاہئے،  کہ جو کچھ ہم خدا سے مانگ رہے ہیں اس میں خدا کی کیا مرضی ہے۔ جو کچھ ہم اس سے مانگتے ہیں اگر وہ اس کی مرضی سے مطابقت رکھتی ہے تو ہمیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ وہ ہمیں مل جائے گی۔  تاہم اگر،  ہماری مانگی ہوئی دعا اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہے تو ،  1یوحنا5باب14اور15آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوگا۔

 

5”ایمان سے مانگنا

        اس سے قبل ہم نے یعقوب 1باب5آیت کا تجزیہ کیا جو خدا سے حکمت مانگنے کی بات کرتا ہے۔  اسی حوالے کو جاری رکھتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں:

 

یعقوب 1باب5تا8آیت:
”لیکن اگر تم میںسے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔
 اس کو دی جائے گی۔ مگر ایمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سمند کی لہر کی مانند ہوا ہے جو ہوا سے بہتی اور اچھلتی ہے۔  ایسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مجھے خداوند سے کچھ ملے گا۔  وہ شخص دو دلا ہے اور اپنی سب باتوں میں بے قیام۔ “

 

       جیسا کہ ہم نے پہلے حصوں میں یہ دیکھا کہ کسی شخص کےلئے خدا سے کچھ حٓصل کرنے کےلئے یہ ضروری ہے کہ 1) وہ اس سے مانگے اور2) جو کچھ وہ مانگتا ہے وہ اس کی مرضی کے مطابق ہو۔  اب،  ان کے ساتھ ساتھ،  تیسری شرط جو یہاں بتائی گئی ہے وہ ہے ایمان۔  درج بالا حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان کے ساتھ خدا سے نہیں مانگتا تو وہ اس سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ اب ایمان کے مفہوم کے اعتبار سے یہ فقرہ کہ،  ” اگر وہ مانگے تو ایمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے“ (یعقوب1باب6آیت) ایمان اور شک کو ایک دوسرے کے متضاد کھڑا کرتا ہے۔ پس،  جب ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں تو ہمارا ایمان ہے اگر شک کرتے ہیں تو ہم میں اس کی کمی ہے۔ اس لئے ایمان وہ بھروسہ ہے جو ہمیں خدا پر ہے اور جس کی بدولت ہم اسے ہماری زندگیوں میں عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایمان کی کمی ہماری مدد کرنے کےلئے خدا کی قوت کو کم نہیں کرتی۔ خدا کی قدرت ویسی ہی رہتی ہے چاہے ہم ایمان رکھیں یا نہ رکھیں۔ تاہم،  کیا ہم اسے ہماری زندگی مٰن اس قدرت کو استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اس بات کا انحصارہمارے اس بھروسہ پر ہے جو ہم اس پر رکھتے ہیں۔  اگر آپ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے تو آپ اس کےلئے دروازہ بھی نہیں کھولتے۔ اسی طرح ، اگر آپ اس پر بھروسہ نہیں کرتے تو آپ خدا کو مداخلت کرنے اور عمل کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے،  یعنی اگر آپ پر ایمان نہیں رکھتے۔

       جیسے کہ متی13باب58آیت ہمیں عموی طور پر بتاتی ہے،  جب مسیح اپنے وطن کو گیا، ”اس نے ان کی بے اعتقادی کے باعث وہاں بہت سے معجزے نہیں دکھائے۔ “بے شک مسیح وہ بڑے بڑے کام بھی وہاں کر سکتا تھا جو اس نے دوسرے علاقوں میں دکھائے۔ تاہم اس علاقے کے لوگوں نے اسے ان کی بے اعتقادی کے باعث اس کی اجازت نہ دی۔

       اب خدا سے کچھ حاصل کرنے کےلئے جس ایمان کی ضرورت ہے اس کے معیار کی طرف آتے ہوئے،  متی17باب20آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ بڑے بڑے کام کرنے کےلئے بہت تھوڑا سا ایمان بھی کافی ہے۔  حقیقتاً ہم یہاں پڑھتے ہیں:

 

متی17باب20آیت:
”اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو کے کہ یہاں سے سرک کر وہا ں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لئے نہ ممکن نہ ہوگی۔ “

 

اور مرقس 11باب24آیت بھی ہمیں بتاتی ہے:
”اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کچھ تم دعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ تم کو مل گیا اور وہ تم کو مل جائے گا۔ “

 

Bullinger اورZodhiates کے مطابق لفظ ”رائی کا دانہ“ چھوٹے سے چھوٹے ذرے کو ظاہر کرنے کولئے تمثیلی فقرہ ہے[4]۔ پس،  یسوع کے مطابق،  رائی کے دانے جتنا ایمان بھی پہاڑ کو ہلا سکتا ہے،  اور وہ کام ہو سکتا ہے جو ہم خدا سے مانگتے ہیں اگر (اور یہاں بہت بہت بڑا اگر ہے) ،  جیسے کہ 1یوحنا 5باب14اور 15 آیت ہمیں بتاتی ہے،  جو کچھ ہم اس سے مانگتے ہیں وہ خدا کی مرضی کے مطابق ہے۔ یہی وہ بعد والی شرط ہے جسے کسی شمار میں نہیں لایا جاتا،  اور ہم پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہمیں وہ کیوں نہیں ملتا، ”جو کچھ ہم دعا میں خدا سے مانگتے ہیں“،  اگر چہ ہم اس کےلئے دعا کرتے اور ایمان بھی رکھتے ہیں۔ تاہم کسی چیز کےلئے دعا کرنا اور ایمان رکھنا کافی نہیں ہے۔  یہ بھی ضروری ہے کہ جس چیز کےلئے آپ دعا کرتے اور ایمان رکھتے ہیں وہ خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ اگر یہ خدا کی مرضی کے مطابق ہے تو اس کےلئے رائی کے دانے جتنا ایمان کافی ہے کہ وہ آپ کےلئے پورا ہو جائے جو آپ مانگتے ہیں۔ تاہم اگر یہ خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہے تو چاہئے کتنا ہی زیادہ ایمان کیوں نہ ہو،  کم از کم خدا کی طرف سے،  یہ کافی نہیں ہے۔ اس لئے کلیہ یہ نہیں کہ ”ایمان =حاصل“  بلکہ یہ کہ ” میرا ایمان ہے کہ جو میں خدا سے مانگتا ہوں وہ اس کی مرضی کے مطابق ہے،  اور میں یہ پاتا ہوں۔ “ تاہم،  ایمان وہ مرحلہ نہیں ہے جس کی بدولت میں اس بات کا قائل ہوں کہ جو کچھ میرے دل میں آتا ہے وہ میں خدا سے حاصل کر سکتا ہوں۔ بلکہ یہ خدا پر میرے بھروسے کی بدولت ہے،  جو میرے اعمال سے ظاہر ہوا جس کے وسیلہ سے میں وہ کام کرتا ہوں جو میں پہلے سے جانتا ہوں کہ یہ خدا کی مرضی ہے۔  اس لئے پہلے کسی کام کےلئے آپ کے پاس کلام،  خدا کی مرضی،  (تحریری یا کلامی) ہے اور پھر آپ اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو یہ کہتا ہے۔

 

64.6زبور18آیت

       آخر کار،  اس کالم کو ختم کرتے ہوئے میں ایک اور وجہ کا حوالہ دینا چاہوں گا جو،  بائبل کے مطابق،  کسی شخص کی دعاﺅں پر خدا کو خاموش کر سکتی ہے۔  یہ 64زبور 18آیت میں پیش کی گئی ہے،  یہاں ہم پڑھتے ہیں۔

 

64زبور18آیت:
”اگر میں بدی کو اپنے دل میں رکھتا تو خداوند میری نہ سنتا۔ “

 

       جیسے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کسی انسان کے دل کی بدی خدا کو اس کی دعاﺅں پر خاموش کر سکتی ہے۔  جیسے کہ پطرس نے بہت عمدہ انداز میں شمعون جادو گر کو بتایا:

 

اعمال8باب21اور22آیت:
”تیرا اس امر میں نہ حصہ ہے نہ بخرہ کیونکہ تیرا دل خداوند کے نزدیک خالص
نہیں۔  پس اپنی اس بدی سے توبہ کر۔ ۔ ۔ ۔ “

 

       خدا صرف دل میں دلچسپی رکھتا ہے،  کیونکہ صرف وہی ایک جگہ ہے جہاں وہ بستا ہے۔ اگر اس کی نگاہ میں کوئی دل راست نہیں بلکہ بدکار ہے ،  تو یقیناً یہ اس کے بسنے کےلئے مناسب جگہ نہیں ہے۔  جیسے امثال15باب29آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

امثال15باب29آیت:
”خداوند شریروں سے دور ہے۔
 پر وہ صادقوں کی دعا سنتا ہے۔ “

 

       بےشک،  یہاں بدکار اور برے لوگ رہتے ہیں۔  اور اس کی وجہ کہ میں اس حصہ میں ان کا ذکر کیا یہ ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کبھی ہمارا ان کے ساتھ واسطہ ہو۔ پس اگر کوئی آپ سے کہے کہ اسے خداوند سے کچھ نہیں ملا،  تو اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے (اور صرف یہی نہیں) کہ اس کے دل میں بدی اور نارستی ہو،  اور خدا یسے شخص کی نہیں سنتا۔

 

7نتیجہ

       اس کالم میں ہم نے فکروں کے بارے میں تجزیہ کیا،  اور اس کے ساتھ ساتھ یہی کہ خدا کا کلام اس حوالے سے کیا کہتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے دیکھا:  خدا چاہتا ہے کہ ہم کسی چیز کی فکر نہ کریںبلکہ دعا کے وسیلہ سے ہماری تمام فکریں اس پر ڈال دیں۔  اس کے ساتھ ساتھ،  ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہم جو کچھ خدا سے مانگتے ہیں اس کے اور اس کی نیک،  پسندیدہ اور کامل مرضی کے مابین اتفاق ہونا چاہئے۔ اس کی مرضی کامل ہے،  اور جو کچھ اس نے ہمارے لئے رکھا ہے وہ بھی کامل ہے(یعقوب 1باب17آیت)۔  اس لئے ختم کرتے ہوئے:

 

امثال3باب5تا8آیت:
”سارے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔
 اپنی سب راہوں میں اس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔  تو اپنی ہی نگاہ میں دانشمند نہ بن خدا سے ڈر اور بدی سے کنارہ کر ۔  یہ تیری ناف کی صحت اور تیری ہڈیوں کی تازگی ہوگی۔ “

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 

 

 


[1] اس حوالہ میں لفظ ”فکر“ یونانی فعل ”merimna“ کا ترجمہ ہے جو ایسا فعل (”merimnao“)ہے جس کا ترجمہ فلپیوں 4باب4تا7 آیت میں  ”پریشان ہونا“ کے طور پر کیا گیا ہے۔

[2] یہ حوالہ یوں نہیں کہتا کہ ”دعا نہ کرو“ بلکہ کہتا ہے کہ ”فکر مت کرو کیونکہ تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ “یہ تعلیم فکروں کے خلاف ہے نہ کہ دعا کرنے کے خلاف ہے(دیکھیں فلپیوں 4باب4تا7 آیت،  1پطرس5باب7آیت اور متی 7باب7تا11آیت)۔ 

[3] در حقیقت یہ ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کی نعمتیں نیک اور کامل ہیں(یعقوب1باب17آیت)،  خدا س سے کہیں زیادہ موثر انداز میں اور کہیں زیادہ کثرت کے ساتھ کر سکتا ہے جو ہم مانگتے اور سوچتے ہیں (افسیوں 3باب20 آیت)،  کہ خدا کی برکات کسی شخس کو دولتمند بنا سکتی ہیں،  اور وہ اس میں کوئی دکھ شامل نہیں کرتا(امثال9باب22آیت) وغیرہ وغیرہ۔

[4] دیکھیں :  E.W.Bulliinger:  "A Critical Lexicon and concordance to the English and Greek New Testament", Zondervan Publishing House, 1975, p. 513  Spiros Zodhiates:  "The Complete Word Study Dictionary", AMG Publishers, 1993 p. 1290