بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

پینتیکوست اور نئے سرے کی پیدائش کے حقائق

 

          ہم نے سابقہ سبق میں دیکھا کہ آدم ابتدا سے جسم ،روح اور جان سے تخلیق کیا گیا اور یہ کہ جب اس نے نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھایاتو روح اس سے جاتی رہی ۔ اس لئے جب اس نے لازمی ریسیویر ،روح ،کو کھود یا تو خدا اس سے بات چیت نہ کر سکا ۔ اس سبق میں ،ہم آدم کے گناہ کے بعد روح کی فراہمی کی صورت ِحال کے حوالے سے تجزیہ کریں گے ۔ لہذا اس سبق کو ”جسم ،جان اور روح (حصہ دوم )“بھی کہا جا سکتا ہے ۔ تاہم ،میں اسے اس بنا پر ”پینتکوست اور نئے سرے کی پیدائش کے حقائق “کا نام دیتا ہوں کیو نکہ پینتیکوست ہمارا مرکزی حوالہ بنے گا ۔

 

 

    آدم کے گناہ کے بعد اور پینتیکوست سے قبل انسان :

 

          جس میں یہ کہا گیا تھا کہ خدا روح ہے اور اس لئے اس سے بات کرنے کیلئے آپ کو اور اسے آپ سے بات کرنے کیلئے روح درکار ہے ۔ چونکہ آدم کے گناہ کے بعد روح دستیاب نہ تھا ،تو اس دور میں یہ ہو رہا تھا ۔ کہ اگر خدا کسی سے بات کرنا چاہتا تھا توا سے اپنا روح اس پر انڈیلنا ہوتا تھا ۔ اس یہ مطلب ہر گز نہیں کہ روح دستیاب تھا ۔ پیدائش سے اعمال تک ،اس بات کا کوئی اندراج نہیں ہے کہ روح کیسے حاصل کیا گیا ،جس کی صرف یہ وجہ تھی کہ روح دستیاب[1] نہ تھا۔  یوحنا 7باب37تا39آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

یوحنا 7باب37تا39آیت :

”پھر عید کے آخری دن جو خاص دن ہے یسوع کھڑا ہوا اور پکار کو کہااگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آکر پئے ۔ جو مجھ پر ایمان لائے گا اس کے اندر سے جیسا کہ کتاب میں آیا ہے زندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہوں گی ۔ اس نے یہ بات اس روح کی بابت کہی جسے وہ پانے کو تھے جو اس پر ایمان لائے کیو نکہ روح اب تک نازل نہ ہوا تھا اس لئے کہ یسوع ابھی تک اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا ۔ “

 

          اس حوا لے کے مطابق،روح ابھی تک دستیاب نہ تھا جب یسوع نے یہ بات کہی اور بے شک اس وقت سے قبل بھی وہ دستیاب نہ تھا ۔ اس سارے عرصے کے دوران (آدم کے گناہ سے لے کر پینتیکوست کے دن تک )اگر خدا کسی سے بات کرنا چاہتا تھا تو وہ اپنا روح اس پر بھیجتا تھا ۔  آئیے پرانے عہد نامے میں سے گنتی 11باب16اور17آیت سے شروع کرکے اسکی چند مثالیں دیکھیں ۔ سیاق وسباق کے مطابق ،موسیٰ لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے چند مدد گار چاہتا تھا اور خدا نے اسکی درخواست کا جواب 16اور 17آیت میں دیا ۔

 

گنتی 11باب16اور17آیت :

”خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں ستر مرد جن کو تو چاہتا ہے کہ قوم کے بزرگ اور ان کے سردار ہیں میرے حضور جمع کر اور ان کو خیمئہ اجتماع کے پاس لے آتاکہ وہ تیرے ساتھ وہاں کھڑے ہوں ۔ اور میں اتر کر وہاں تیرے ساتھ باتیں کروں گا اور میں اس روح میں سے جو تجھ پر ہے کچھ لے کر ان پر ڈال دوں گا کہ وہ تیرے ساتھ قوم کا بوجھ اٹھائیں تاکہ تو اسے اکیلا نہ اٹھائے ۔ “

 

          جیسا کہ اس حوالے سے واضح ہے ،موسیٰ میں روح تھی ۔ اور وہ روح اسے دیا گیا تھا ۔ یہاں دو باتوں کی نشاندہی کرنا ضروری ہے ؛پہلی یہ کہ روح اس میں نہ تھی بلکہ اس پر تھی ۔ جب کوئی چیز آپ میں ہوتی ہے تو وہ آپ سے الگ نہیں ہو سکتی ۔ دوسری ،یہ حقیقیت ہے کہ موسیٰ پر خدا کا روح تھا اس لئے نہیں تھی کہ اس نے خود فیصلہ کیا وہ یہ روح حاصل کرے ۔ حتیٰ کہ اگر اس نے فیصلہ کیا بھی ہوتا کہ وہ روح حاصل کرے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ اسے روح مل جائے گا ،کیو نکہ روح دستیاب نہ تھا ۔ دراصل ،یہ خدا ہی تھا جس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا روح موسیٰ پر ڈالے نہ کہ کو ئی اور ۔ بلکہ اسی طرح ان ستر بزرگوں کے لئے بھی حقیقی بات تھی :خدا کا روح ان پر تھا ۔ اس لئے نہیں کہ انہوں نے روح حاصل کرنے کا فیصلی کیا بلکہ اس لئے کہ خدا ان کے ساتھ بات چیت کو ممکن بنانے کے لئے ان پر روح ڈالنے کا فیصلہ کرتا ہے ،اس معاملے کو دیکھتے ہوئے،آئیے اسی موضوع پر مزید حوالہ جات کو دیکھیں ۔ پس :

 

قضات 3باب9اور10آیت:

” اور جب بنی اسرائیل نے خداوند سے فریاد کی تو خداوند نے بنی اسرارئیل کے لئے ایک رہائی دےنے والے کو برپا کیا اور کالب کے چھو ٹے بھائی قنزکے بیٹے عتنیایل نے ان کو چھڑایا۔ اور خداوند کی روح اس پر اتری اور وہ اسرائیل کا قاضی ہوا اور جنگ کیلئے نکلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

 

          اس سے قبل کی اعتنی ایل میں روح تھا ؟ نہیں۔  خدا نے اس بنا پر اس پر روح ڈالا کہ وہ بنی اسرائیل کا قاضی تھا اور خدا اس سے بات کرنا چاہتا تھا ۔ آئےے ایک اور مثال دیکھتے ہیں :

 

قضات 6باب33اور34آیت :

”تب سب مدیانی اور عمالیقی اور اہلِ مشرق اکھٹے ہوئے اور پار ہو کر یزرعیل کی وادی میں انہوں نے ڈیرا کیا ۔ تب خداوند کی روح جدعون پر نازل ہوئی سو اس نے نر سنگا پھونکا اور ابیعزرکے لوگ اسکی پیروی میں اکھٹے ہوئے ۔ “

 

          کیا اس سے قبل جدعون پر روح تھا ؟نہیں ۔ کہایہ روح جدعون نے پایا یا خدا نے جدعون پر روح ڈالا تھا ؟کوئی چیز حاصل کرنے کیلئے اس کا دستیاب ہونا ضروری ہے اور آدم کے گناہ کے بعد روح دستیاب نہ تھا ۔ پس خدا نے ہی اپنا روح جدعون پر ڈالنے کا فیصلہ کیا کیو نکہ جدعون بنی اسرائیل کا قاضی تھا اور خدا اس سے بات کرنا چاہتا تھا ۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں پرانے عہد نامے میں پائی جاتی ہیں ۔ اگر کوئی سال بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ کی کہانی کا تجزیہ کرے تو ہم دیکھیں گے جب اس نے خدا کی نافرمانی کی ،تو خدا کا جو روح اس پر تھا اس سے جدا ہوگیا ،(پہلا سیموئیل15باب26آیت اور16باب14آیت دیکھیں )۔

 

          پس مختصراَ:آدم اور حوا درحقیقت جسم ،جان اور روح تھے ۔ تاہم ،جس روز انہوں نے نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھایا تو روح ان سے کھو گئی ۔ جب آپ زندگی کی ایک قسم کھو دیتے ہیں تو اسے موت کہتے ہیں ۔ اس لئے وہ اس مر گئے ۔ بالکل جیسے کہ خدا نے کہا تھا ۔ اس وقت روح دستیاب نہ تھا ۔ دوسری جانب ،خدا کیلئے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کیلئے ان کے لئے ان کے پاس روح کا ہونا ضروری تھا۔ اس وجہ سے اس عرصے میں ،خدا کو اپنے خاص بندوں پر اپنا روح انڈیلنا تھا ۔ مثال کے طور پر ،تمام تر انبیا ءپر خدا کا روح تھا ۔ خدا نے انہیں مکاشفہ دےنے کے لئے یہ روح دیا تھا ۔  پس ،پینتےکوست کے دن سے قبل کے عرصے کے حوالے سے تےن باتےں غور طلب ہیں :

 

           روح دستیاب نہ تھا ۔

 

          2۔ خدا جن لوگوں سے بات کرتا چاہتا تھا ان پر اپنا روح انڈیلتا تھا ۔

         

 انہوں نے اپنی روح کھو دی ۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ پابند ہو گئی    

     تھی۔

 

 

 2۔    نئی پیدائش :

         

          یہ دیکھنے کہ بعد کہ پینتےکوست سے قبل کیا صورت ِ حال تھی اب یہ جاننا ضروری ہے کہ پینتےکوست کے بعد کیا ہو تا ہے۔  یہ دیکھنے کیلئے آیئے یسوع مسیح کی ان باتوں کا تجزیہ کریں جو اس نے اناجیل میں کہیں۔ یہ ریکارڈ دیکھنے سے پہلے، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ ہم نے یوحنا 7باب 37تا39آیت میں دیکھا کہ جب یسوع اس زمین پر تھا روح دستیاب نہ تھا۔  اس لئے، روح کے بارے میں ہم جو کچھ اناجیل میں دیکھتے ہیں وہ پیشن گوئیوں کے لحاظ سے اس وقت کی نشاندہی کرتا ہے جب روح دستیاب ہوگا۔  اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آیئے یوحنا 3باب 1تا 6آیات پر غور کریں:

 

یوحنا 3باب 1تا 3آیت:

”فریسیوں میں سے ایک شخص نیکیدیمس نامی ایک سردار تھا ۔  اس نے رات کو یسوع کے پاس آکر کہا اے ربیّ ! ہم جانتے ہیں کہ تو خدا کی طرف سے استاد ہو کر آیا ہے۔ کیونکہ جو معجزے تو دکھاتا ہے وہ کوئی اور نہیںدکھا سکتا۔ جب تک خدا اس کے ساتھ نہ ہو۔ یسوع نے جواب میں اس سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔ “

 

          یسوع مسیح کے مطابق، اگر کوئی شخص نئے سرے سے پیدا نہ ہو تو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ شاید اس حوالے سے ہونے والے بہت سے مباحثوں کو حل کرنے کیلئے کافی ہے کہ بادشاہت میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہی ہے کہ: آپ کو نئے سرے سے پیدا ہونا ضروری ہے۔ اب ”نئے سرے سے پیدا ہونے“ سے یہ مراد ہے؟ صرف ایک پیدا ئش جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں وہ پیدائش ہے جو ہمارے والدین نے ہمیں دی تھی۔ ہمارے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں ۔ ”یہ پیدائش کیسے ہوتی ہے ؟“”اس نئی پیدائش کے والدین کون ہیں ؟“”اس پیدائش سے مجھے کیا ملتا ہے ؟“ان سوالات کے جواب ہم کیسے دیتے ہیں ؟بائبل کے پاس جاتے ہوئے اور اسے خود تشرےح دیتے ہوئے ۔ پس آئےے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کہتی ہے :

 

یوحنا 3باب4اور5آیت :

”نیکدیمس نے کہا جب کوئی آدمی بو ڑھا ہو گیا تو کیو نکر ہو سکتا ہے ؟یسوع نے جواب میں اس سے کہا کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ “

 

          اس حوالہ میں ،یسوع ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ کسی بھی شحص کیلئے خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لئے اسے روح اور پانی سے پیدا ہونا پڑے گا۔ پانی سے پیدا ہونے سے مراد ہے نئے سرے سے پیدا ہونا ۔ درج بالا حوالہ میں ”روح سے پیدا ہونے“کا مطلب ہے خدا سے پیدا ہونا جو روح ہے ۔ پہلی پیدائش میں آپ پانی سے پیدا ہوئے[2] دوسری پیدائش میں آپ روح سے پیدا ہوئے یعنی خدا سے پیدا ہوئے۔ یہ بات بھی 6آیت میں واضح ہے جہاں ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ اس پیدائش میں کیا حاصل ہوتا ہے ۔

 

یوحنا 3باب6آیت :

”جو جسم سے پیدا ہے اور روح سے پیدا ہوا وہ روح ہے ۔ “

 

          دوبارہ ایک ہی فقرے میں دونوں پیدائشوں کو اکٹھا کیا گیا ہے لیکن اس بار ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ۔ پہلی پیدائش میں آپ نے وہی کچھ حاصل کیا جو آپ کے والدین کے پاس تھا ۔  جسم ۔ اسی طرح دوسری پیدائش میں آ پ نے وہی حاصل کیا جو آپ کے والدین ،خدا ،روح کے پاس تھا ۔ دوسری پیدائش کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ اس پیدائش کا والدین کون ہے آئےے اب ایک قدم آگے یہ جاننے کیلئے بڑھائےں کہ یہ دوسری پیدائش کیسے ہوتی ہے ؟یہاں بھی بائبل اپنے جوابات میں بہت واضح اور تےز ہے ۔

 

1یوحنا 5باب1آیت :

جس کا پر ایمان ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے۔

 

          اس حوالے میں خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ خدا سے پیدا ہونے کے لئے یہ ایمان رکھنا ضروری ہے کہ یسوع ہی مسیح ،نجات دہندہ اور مسیحا ہے۔ جی ہاں ،کتنا آسان ہے یہ ۔ اس کے متعلق ایک منٹ غور کریں ۔ اگر آپ خدا سے پیدا ہوئے ہیں تو آپ کیا ہیں ؟خدا کے فرزند ۔ خدا کے بیٹے یا بیٹی ہیں آپ ۔ بالکل یہی بات گلیتوں کے خط میں کہی گئی ہے :

 

گلیتوں 3باب26آیت :

”کیو نکہ تم سب اس ایمان کے وسیلہ سے جو یسوع مسیح پر ہے خدا کے فرزند ہو ۔ “

 

          کسی کا بےٹا بننے کیلئے پیدا ہونا ضروری ہے ۔ اور درج بالا حوالہ جات خدا کے کلام میں یہ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص ایمان لاتا ہے کہ یسوع مسیح ہے تو وہ خدا سے پیدا ہوا ہے ۔ کیا آپ یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں ؟اگر ہاں ،تو آپ کا باپ کون ہے ؟خدا آپ کا باپ ہے ۔ کیا خدا سے کوئی طاقتور ہے ؟جی نہیں اس کیلئے ناممکن کیا ہے ؟کچھ نہیں ۔ بہت سے لوگ ان کے عقائد اور مذاہب کے مطابق ،یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ایسی ہستی ہے جس تک آپ رسائی نہیں پا سکتے ،ان مذہبی خیالات کی بجائے جو آپ کو اپنے سکول ،کلیسیاءاور خاندان سے ملے ہیں اس پر غور کریں جو خدا کا کلام کہتا ہے :خدا کا فرزند ۔ آئیے اس پر مزید تھوڑا غور کرتے ہیں ۔

 

یسعیاہ49باب15آیت ؛

”کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ماں اپنے شیر خوار پلے کو بھول جائے اور اپنے رحم کے فرزند پر ترس نہ کھائے ۔ “

 

اگر نہیں تو پھر یہ سب گلیوں اوت اداروں میں پائے جانے یتیم بچے کہاں سے آتے ہیں ؟اسی لئے خدا کہتا ہے کہ :

 

یسعیا ہ 49باب15آیت :

”ہاں شاید وہ بھول جائے ۔ “

 

تاہم یہ یہاں رک نہیں جاتا بلکہ جاری رہتا ہے :

 

 یسعیا ہ 49باب15آیت :

پر میں تجھے نہ بھولوں گا ۔ “

 

          بہت سے والدیں اپنے بچوں کو بھول جاتے ہیں یا ان کے کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں ۔ خدا آپ کو کبھی نہیں بھولے گا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کیوں ؟کیو نکہ آپ اس کے فرزند ہیں اور وہ آپ سے محبت کرتا ہے ۔ اور یہ بھی :

 

عبرانیوں 13باب5آیت :

”زر کی داستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اسی پر قناعت کرو کیو نکہ اس نے خود فرمایا ہے کہ میں تجھ سے ہر گز دست بردار نہ ہو ں گا اور کبھی تجھے نہ چھوڑوں گا ۔  اس واسطے ہم دلیری سے کہتے ہیں کہ خداوند میرا مددگار ہے ۔  میں خوف نہ کروں گا ۔ انسان میرا کیا کرے گا۔ "

 

          یہ کس نے کہا ؟میں نے نہیں ۔ خود خدا نے کہا ہے یہ ۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ آپ کو کبھی نہ چھوڑے گا اور نہ کبھی دست بردار ہو گا ۔ آپ کے دوست آپ کو چھوڑ دیں گے ،حکومت آپ کو ترک کر سکتی ہے ۔ آپ کا مالک آپ سے دست بردار ہو سکتا ہے ۔ لیکن کدا آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ اس کے فرزند ہیں ۔ اگر آپ خود کو ترک کئے ہوئے سمجھتے ہیں تو یہ اس لئے ہے کہ آپ غلط باتوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ اپنے خداباپ کی طرف توجہ کرےں ،اس کے ساتھ باپ بےٹے والا رشتہ قائم کریں اور آپ دیکھیں گے کہ آپ کی زندگی کس قدر پر نور ہوجائے گی ۔ آپ بھی دلیری کے ساتھ کہہ سکیں گے کہ ”خداوند میرا مدد گار ہے ،میں خوف نہ کروں گا ۔ انسان میرا کیا کرے گا ؟“

 

 

3۔      پینتیکوست :نئی شروعات کا دن

 

          ہمارے ابتدائی نقطہ پر واپس آتے ہوئے ،یاد رکھیں کہ جب آدم نے گناہ کیا تو اسی روز روح ہم سے چھن گئی ۔ اور یہ بھی یاد رکھیں ،اس روز کے بعد روح دستیاب نہ تھا ۔ اس کے علاوہ ،یوحنا 3باب6آیت میں یسوع مسیح ،نیکدیمس سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص دوبارہ روح پا سکتا ہے ۔ تقریباَی 2000سال قبل جب دوبارہ روح دستیاب ہوا تو وہ پینتیکوست کا دن تھا ۔ آئیے یہ دیکھنے کیلئے ہم پڑھتے ہیں کہ اس روز کیا ہو اتھا ۔

 

اعمال 2باب1تا4آیت :

”جب عید پینتےکوست کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے ۔ کہ یکایک آسمان سے ایسی آوازا ٓئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اس سے وہ ساراگھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا ۔ اور انہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹی ہو ئی زبانیں د کھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر ٹھہریں۔ اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی ۔ “

 

          اوپر جو بیان کیا گیا وہ روح القدس کا پہلا نزول تھا ،جو پینتےکوست کے دن ہوا ۔ اس دن سے لیکر روح القدس دوبارہ دستیاب ہوا ۔ اور جو کوئی یسوع پر ایمان لاتا ہے وہ اسے پا لیتااور وہ ان نو (9) طریقوں سے اس کا اظہار بھی کر سکتا ہے جو1کرنتھیوں 12باب7تا10آیت میں درج ہےں ۔ ان میں سے ایک طریقہ غیر زبانیں بولنا ہے ۔ اور یہ وہی طریقہ ہے جو درج بالا حوالہ میں بیان کیا گیا ہے ۔

 

 

4۔     پینتےکوست سے قبل اور پینتےکوست کے بعد :موازنہ :

 

اب پینتیکوست سے قبل اور پینتیکوست کے بعد کی صورتِ حال کا موازنہ کرنا دلچسپی کی بات ہے ۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی یہ جان چکے ہیں کہ پینتیکوست سے قبل روح دستیاب نہ تھا ۔ تاہم ، اس روز کے بعد اور یسوع مسیح کے کا م کرنے سے،روح دوبارہ دستیاب ہوگیا اور آپ دوبارہ جسم ،جان اور روح بن سکتے ہیں ۔ کیسی ڈرامائی تبدیلی ہے !مگر صرف یہی تبدیلی نہیں ہے ۔

 

 

4.2۔  آپ کے اندر روح ہے :آپ خدا کی ہیکل ہیں :

 

          ہم نے پہلے دیکھا کہ پینتیکوست سے قبل خدا کا روح لوگوں پر تھا ،یہ ان کے اندر نہ تھا ۔ پینتیکوست کے دن یہ صورتِ حال بھی ڈرامائی انداز میں بدل گئی ۔ اس دن سے جو کوئی یسوع مسیح پر ایمان لاتا ہے اسے نہ صرف روح القدس ملتا ہے ،بلکہ اب روح القدس ان کے اندر ہے۔ آئیے اس حوالے سے چند آیات پر غور کرتے ہیں :

 

1کرنتھیوں 6باب19 آیت :

”کیا تم نہیں جانتے کہ تماہارا بدن روح القدس کا مقدس ہے جو تم میں بسا ہوا ہے اور تم کو خدا کی طرف سے ملا ہے ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

 

          روح القدس ،جو آپ نے یسوع مسیح پر ایمان لانے سے پایا ہے ،کہاں بستا ہے ؟آپ کے اندر ۔  یہ آپ کے ساتھ نہیں ہے ۔ یہ آپ کے اندر ہے ۔

 

1کرنتھیوں 3باب16آیت :

”کیاتم نہیں کہ تم خدا کا مقدس ہو اور خدا کا روح تم بسا ہوا ہے ؟“

 

          دوبارہ خدا کا روح کہاں بستا ہے ؟بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا روح فلاں فلاں چرچ میں یا فلاں جماعت میں بستا ہے ۔ جو کچھ بائبل کہتی ہے اسے لوگ کس قدر غلط سمجھتے ہیں ؟یہاں خدا کا روح ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کا روح آپ کے اندر بستا ہے ۔ اور یہ بھی کہتا ہے کہ ،”تم خدا کی ہیکل ہو ۔ “پس گلی کی نکر پر جو چرچ ہے وہ خدا کی ہیکل نہیں ہے بلکہ آپ خدا کی ہیکل ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ کیوں؟کیونکہ خدا کا روح آپ کے اندر بستا ہے ۔ پینتیکوست سے قبل ،وہ چند لوگ جن پر خدا کا روح تھا ،خدا کی ہیکل نہ تھے کیونکہ خدا کا روح ان پر تھا نہ کہ ان میں تھا[3] ۔ اسی وجہ سے سلیمان کی ہیکل تعمیر کی گئی ۔ یہ خدا کی عارضی سکونت گاہ تھی ۔ مگر آج ،انسانی تعمیر کردہ ہیکل کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیو نکہ خدا عمارتوں میں نہیں بستا بلکہ انسانوں میں بستا ہے جنہیں وہ پیار کرتا ہے ۔ انسانی بنائی ہوئی عمارت کا خیال جس میں سمجھا جاتا ہے کہ خدا بستا ہے ،پیسے اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ۔

 

 

4.3۔          آپ روح کھو نہیں سکتے :

 

          آخر کار ،یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ جو روح خدا نے آپ کو دیا ہے کیا آپ اسے کھو سکتے ہیں یا نہیں ۔ ہم نے دیکھا کہ آدم کے پاس روح تھی جو اس بات کی پابند تھی کہ وہ نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل نہیں کھائے گی ۔ جب اس نے اس شرط کی خلاف ورزی کی ،تو اس نے وہ روح کھو دی اسی طرح ،وہ لوگ جو پینتیکوست سے قبل روح کے ساتھ تھے ان کی روح پابندی میں تھی ۔ پس جب سال نے خدا کی نافرمانی کی تو اس نے روح کھو دی ۔ آج کل کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ایک بار پھر یہاںبرا فرق ہے ۔ آج آپ کے پاس پابندی والی روح نہیں ہے پس آپ اسے کھو نہیں سکتے ۔  اس روح کو حاصل کرنے کی صرف ایک شرط تھی جو لازماَپورا کرنا تھی کہ یسوع مسیح پر ایمان لانا۔ آپ ایمان لائے ،تو آپ خدا سے پیداہوئے اور روح القدس پا لیا ۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے ،جیسے آپ اپنے زمینی والدین کے بیٹے یا بیٹی ہی رہیں گے ،اسی طرح آپ خدا کے بیٹے یا بیٹی ہونا ہر حالت میں جاری رکھتے ہیں 1پطرس ہمیں بتاتا ہے :

 

 1پطرس 1باب23 آیت :

”کیو نکہ تم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خدا کے کلام کے وسیلہ سے جو زندہ اور قائم ہے نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو ۔ “

 

          جو کلام مسیح یسوع کے بارے میں کہتا ہے اس پر ایمان لانے سے ہماری نئی پیدائش ہوئی ہے ۔ اس لئے یہ نئی پیدائش ”خدا کے کلا م“کے وسیلہ سے ہے ۔ اب جب آپ خدا سے پیدا ہوئے تو آپ کو آپ کے اندر خدا کا روح حاصل ہو ا۔ یہ تخم یا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں اور یہ بیج غیر فانی ہے ۔ اگر آپ اسے کھو کھلا کر دیں گے تو یہ فانی ہو جائے گا ۔ لیکن یہ غیر فانی ہے۔

          تو کیا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ گناہ سے قبل جو کچھ آدم کے پاس تھا وہ آپ کے پاس بھی ہے؟ جی نہیں یہ ٹھےک نہیں کیو نکہ آپ کے پاس آدم سے بڑ ھ کر ہے ۔ آدم نے روح کھو دی کیو نکہ وہ پا بندی میں تھی ۔ آپ اسے نہیں کھو سکتے کیو نکہ یہ پابندی سے مبرّا ہے ۔ اب آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پرانے عہد نامے کے عظیم نبیوں کے پاس جیسے کہ موسیٰ داد ،یسعیاہوغیرہ کے پاس جو کچھ تھا آپ اس سے زیاد ہ رکھتے ہیں ۔ ان پر روح تھی جو پابندیوں میں تھی اور یقینا وہ خدا کے خادم تھے چونکہ نئی پیدائش ابھی دستیاب نہ تجی مگر آپ :

 

گلیتوں 4باب7آیت :

”پس اب تو غلام نہیں بیٹا ہے ۔ اور جب بیٹا ہوا تو خدا کے وسیلہ سے وارث بھی ہوا ۔ “

 

پس، کیا یہ موسیٰ ،داد اور یسعیاہ سے زیادہ ہے ؟یقیناہاں ۔ خدا کرے جو خدا نے آپ کے لئے نئی پیدائش میں تیار کیا ہے اسے بہتر استعمال کریں اور اس راستے پر چلیں جو آپ کے لئے دستیاب کیا گیا ہے ۔

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 

 



[1]          اس معاملے میں کہ یہ ہدایات دی گئی ہیں ،پینتےکوست کے دن کے بعد یہ محض پیشن گوئیوں کے طور پر استعمال کی گئی

[2]   پہلی پیدائش میں ایک بچہ پانی میں گھِرا ہو تا ہے اس لئے یہ ”پانی سے پیدا ہونا “ہے

[3]  بسنے کے لئے ایک بسےرا درکار ہوتا ہے جہاں آپ رہتے ہیں ۔اس معاملے میں پینتےکوست سے قبل لوگوں کو ”خدا کی ہیکل “اس بِناپر نہیں کہا جاتا تھا کیو نکہ خدا کا روح ان میں نہیں تھا