بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

”خداوند اس کے پاس آکھڑا ہوا ۔ ۔ ۔ “

 

        اعمال19باب17تا20آیت میں ہم اس شادمانی کےلئے پڑھتے ہیں جو افسس میں خدا کے کلام کے حوالے سے تھی:

 

اعمال19باب17تا20آیت:
”اور یہ بات افسس کے سب رہنے والے یہودیہوں اور یونانیو ں کو معلوم ہوگئی ۔   پس سب پر خوف چھا گیا اور خداوند یسوع کے نام کی بزرگی ہوئی ۔   اور جو ایمان لائے تھے ان مین سے بہتیروں نے آکر اپنے اپنے کاموں کا اقرار اور اظہار کیا اور بہت سے جادو گروں نے اپنی اپنی کتابیں اکٹھیں کر کے سب لوگوں کے سامنے جلا دیں اور جب ان کی قیمت کا حساب ہوا تو وہ پچاس ہزار روپے کی نکلیں ۔   
اسی طرح خداوند کا کلام زور پکڑکر پھیلتا اور غالب ہوتا گیا ۔ 

 

        خدا کا کلام افسس میں زور پکڑکر پھیلتا اور غالب ہوتا گیا ۔   اکثر لوگ خدا کے پاس اپنے کاموں کا اقرار کرتے ہوئے لوٹ رہے تھ، خداوند یسوع کے نام کی تمجید ہو رہی تھی ۔   جادو گر سب لوگوں کے سامنے اپنی کتابیں جلا رہے تھے ۔   پھر آگے 21آیت ٓاتی ہے:

 

اعمال19باب21آیت:
”جب یہ سب ہو چکا تو پولوس نے جی میں ٹھانا کہ مکدنیہ اور اخیہ سے ہو کر یروشلیم کو جاﺅنگا اور کہا کہ وہاں جانے کے بعد مجھے رومہ بھی دیکھنا ضرور ہے ۔ 

 

        مکدونیہ اور خیہ کے بعد اگلا مقام جہاں پولوس نے جانے کا فیصلہ کیا یروشلیم تھا۔   دراصل، جیسا کہ اعمال20باب16آیت ہمیں بتاتی ہے، کہ پینتیکوست کے دن سے قبل اس کےلئے وہاں جانا ضروری تھا پس یونان سے ہوتا ہوا، اس نے یروشلیم کی راہ لی ۔   اس سفر میں بھائیوں کے علاوہ ، اس کے ہمراہ روح القدس کا ساتھ بھی تھا جو اسے اس سفر میں رکنے اور سفر جاری رکھنے کے بارے میں نصیحت کرتا تھا ۔ 

 

میلیتیس میں

 

اعمال20باب22اور23آیت:
”اور اب دیکھو یں روح میں بندھا ہوا یروشلیم کو جاتا ہوں اور نہ معلوم کہ وہاں مجھ پر کیا کیا گزرے ۔ 
سوائے اس کے کہ روح القدس ہر شہر میں گواہی دے دے کر مجھ سے کہتا ہے کہ قید اور مصیبتیں تیرے لئے تیار ہیں ۔ 

 

صور میں

 

اعمال21باب4آیت:
”جب شاگردوں کو تلاش کر لیا تو ہم سات روز وہاں رہے ۔   
انہوں نے روح کی معرفت پولوس سے کہا کہ یروشلیم میں قدم نہ رکھ ۔ 

 

قیصریہ میں

 

اعمال21باب10تا14آیت:
”اور جب ہم وہاں بہت روز رہے تو اگبس نامی ایک نبی یہودیہ میں آیا ۔   اس نے ہمارے پاس آکر پولوس کا کمر بند لیا اور اپنے ہاتھ پاﺅں باندھ کرکہا
کہ روح القدس یوں فرماتا ہے کہ جس زخص کا یہ کمر بند ہے اس کو یہودی اسی طرح یروشلیم میں باندھیں گے اور غیر قوموں کے ہاتھوں حوالہ کریں گے ۔   جب یہ سنا تو ہم نے اور وہاں کے لوگوں نے اس کی منت کی کہ یروشلیم کو نہ جائے ۔  مگر پولوس نے جواب دیا کہ تم کیا کرتے ہو؟کیوں رو رو کر میرا دل توڑتے ہو؟ میں تو یروشلیم میں خداوند یسوع کے نام پر صرف باندھے جانے بلکہ مرنے کو بھی تیار ہوں  ۔   جب اس نے نہ مانا تو ہم یہ کہہ کر چپ ہوگئے کہ خداوند کی مرضی پوری ہو ۔ 

 

        اگر چہ درج بالا حوالہ جات میںسے پہلا اور تیسرا حوالہ یہ بات واضح نہیں کرتے کہ آیا کہ یروشلیم جانے کے لئے خداوند کی ہدایت تھی کہ نہیں تھی، تاہم دوسرا حوالہ بلا شبہ بیان کرتا ہے کہ : شاگرد اسے روح کی معرفت کہہ رہے تھے کہ یروشلیم مین نہ جائے ۔   یہ شاگردوں کی رائے نہیں تھی بلکہ روح القدس کی تھی۔   تاہم، پولوس ، ن دھمکیوں کے باوجود، بضد تھا ۔   اس کی وجہ ہم نہیں جانتے ۔   تاہم، اعمال19باب20آیت سے ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا، اور ان دھمکیوں کے باوجود جو اسے مل رہیں تھیں وہ اپنے اس فیصلے پر قائم تھا ۔  وہ کسی بھی قیمت پر وہاں جانا چاہتا تھا ۔   اور وہ ضرور گیا تھا۔   17تا26آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال21باب17تا26آیت:
”جب ہم یروشلیم میں پہنچے تو بھائی بڑی خوشی کے ساتھ ہم سے ملے ۔  اور دوسرے دن پولوس ہمارے ساتھ یعقوب کے پاس گیا اور سب بزرگ وہاں حاضر تھے ۔   اس نے انہیں سلام کر کے جو کچھ خدا نے اس کی خدامت سے غیر قوموں میں کیا تھا مفصل بیان کیا ۔  انہوں نے یہ سن کر خدا کی تمجید کی ۔  پھر اس نے کہا اے بھائی تو دیکھتا ہے کہ یہودیوں میں ہزار ہا آدمی ایمان لے آئے ہیں اور وہ سب شریعت کے بارے میں سر گرم ہیں ۔  اور ان کو تیرے بارے میں سکھا دیا گیا ہے کہ تو غیر قوموں میں رہنے والے سب یہودیوں کو یہ کہہ کر موسیٰ سے پھر جانے کی تعلیم دیتا ہے کہ نہ اپنے لڑکوں کا ختنہ کرو اور نہ موسوی رسموںپر چلو ۔  پس کیا کیا جائے؟ لوگ ضرور سنیں گے کہ تو آیا ہے ۔   اس لئے جو ہم تجھ سے کہتے ہیں وہ کر ۔   ہمارے ہاں چار آدمی ایسے ہیں جنہوں نے منت مانی ہے۔   انہیں لے کر اپنے آپ کو ان کے ساتھ پاک کر اور ان کی طرف سے کچھ خرچ کر تا کہ وہ سر منڈائیں تو سب جان لیں گے کہ جو باتیں انہیں تیرے بارے میں سکھائی گئیں ہیں ان کی کچھ اصل نہیں بلکہ تو خود بھی شریعت پر عمل کر کے درستی سے چلتا ہے ۔   مگر غیر قوموں میں سے جو ایمان لائے ان کی بابت ہم نے یہ فیصلہ کر کے لکھا تھا کہ وہ صرف بتوں کی قربانی کے گوشت سے اور لہو سے گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرامکاری سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں ۔   اس پر پولوس ان آدمیوں کو لے کر اور دوسرے دن اپنے آپ کو ان کے ساتھ پاک کر کے ہیکل میں داخل ہوا اور خبر دی کہ جب تک ہم میں سے ہر ایک کی نذر نہ چڑھائی جائے تقدس کے دن پورے کریں گے ۔ 

 

        یروشلیم میں پولوس کےلئے ماحول موزوں نہیں تھا ۔   یعقوب اور بزرگوں نے اس کے لئے خدا کی تمجید کی جو پولوس نے انہیں بتایا تھا، لیکن انہوں نے اسے وہ ہزاروں یہودی دکھائے جو ایمان تو لائے تھے مگر شریعت کےلئے ابھی بھی پر جوش تھے ۔   ان لوگوں کے لئے، پولوس، فضل سے بھرپور رسول، ایک کافر تھا ۔   انہوں نے اسکی تعلیم سنی تھی اور اب وہ اسے پکڑنے کو آئے تھے ۔  یہ جانتے ہوئے کہ اب کیا ہونے والا ہے، یروشلیم کی کلیسیا کے بزرگوں نے پولوس سے کہا کہ واضح طور پر ظاہر کرے کہ وہ بھی شریعت کا ماننے والا ہے(بلکہ تو خود بھی شریعت پر عمل کر کے درستی سے چلتا ہے) ۔  جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسے بتایا کہ انہوں نے غیر قوموں کو لکھ دیا ہے کہ ان میں سے کسی بات کی پیروی نہ کریں ۔   اگر چہ پولوس نے ان کا کہا مانا، مگر وہ اس تصادم سے بچ نہ پایا، یہودیوں نے اسے پکڑ لیا ۔ 

 

اعمال21باب30تا32آیت:
”اور تمام شہر میں ہلچل پڑ گئی اور لوگ دوڑ کر جمع ہوئے اور پولوس کو پکڑ کر ہیکل سے باہر گھسیٹ کر لے گئے اور فوراً دروازے بند کر لئے گئے ۔   جب وہ اسے قتل کرنا چاہتے تھے تو اوپر پلٹن کے سردار کو خبر پہنچی کہ تمام یروشلیم میں کھلبلی پڑ گئی ہے وہ اسی دم سپاہیوں اور صوبہ زداروں کو لے کر ان کے پاس نیچے دوڑا آیا اور پلٹن کے سردار اور سپاہیوں کو دیکھ کر پولوس کی مار پیٹ سے بازآئے ۔ 

 

        سارے شہر میں کھلبلی مچی تھی ۔   پولوس ان یہودیوں کے ہاتھوں میں تھا جن کا مقصد اسے قتل کرنا تھا ۔   دراصل وہ لوگ ایسا ہی کر دیتے اگر رومی اس میں مداخلت نہ کرتے ۔   کچھ دیر اس افرا تفری کے بعد، پولوس نے سپاہیوں کے سردار سے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی اجازت مانگی اور اعمال22باب1تا 21 آیت ہمیں اس کی گواہی بیان کرتی ہے، جس میں اس نے بتایا کہ وہ کون تھا اور کس طرح وہ خداوند یسوع مسیح سے ملا ۔ 

 

        پولوس نے اس غصیلے ہجوم کے آگے دلیری سے گواہی دی، جو مزید جوش کے ساتھ اس کی موت کے خواہاں ہو گئے ۔   سپاہیوں کا سردار اسے حفاظت میں لے آیا اور اگلے دن اس نے سردار کاہنوں اور ان کے اصلا کاروں کو بلایا اور اسے ان کے سامنے پیش کیا ۔   تاہم اس کا نتیجہ دوبارہ سے تکرار ہی ہوا ۔ 

 

اعمال23باب10آیت:
”اور جب تکرار بڑی تو پلٹن کے سردار نے اس خوف سے کہ مبادا پولوس کے ٹکڑے کر دیئے جائیں فوج کو حکم دیا کہ اتر کر اسے ان میں سے زبردستی نکالو اور قلعہ میں لے آﺅ ۔ 

 

        اس سے قبل کہ ہم اس سے آگے بڑھیں آیئے دیکھیں کہ اس سفر کے نتائج کیا تھے اور اس بات پر غور کریں کہ اس وقت تک کیا کیا رونما ہوا تھا ۔   افسس میں شادمانی کے واقعات کے بعد، پولوس نے یروشلیم جانے کا فیصلہ کیا، تاہم وہ جانتا تھا کہ وہاں قید کی زنجیریں اور مصیبتیں اس کی منتظر تھیں ۔  اگر چہ چند ایسے معاملات ہوتے ہیں جن مین قید کی زنجیریں اور مصیبتیں ناقابلِ فراموش ہوتی ہیں اور انسان خدا کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ دینے کےلئے تیار ہوتے ہیں(جیسے استفانس، یعقوب اور دیگر بہت سے شہید)ہمارے اس معاملے میں، خدا نے پولوس سے اس کے بارے میں بات کی تھی اور اس نے بہت واضح طور پر اسے کہا تھا کہ یروشلیم کو نہ جائے (اعمال21باب4آیت:”جب شاگردوں کو تلاش کر لیا تو ہم سات روز وہاں رہے ۔   انہوں نے روح کی معرفت پولوس سے کہا کہ یروشلیم میں قدم نہ رکھ ۔  “)تاہم وہ آگے بڑھا ۔   ہم نہیں جانتے کہ اس کے من میں کیا تھا اور یروشلیم جانا اس کے لئے اتنا ضروری کیوں تھا ۔  یقیناً وہ وہاں گھومنے پھرنے کےلئے نہیں جانا چاہتا تھا ۔  کچھ نہ کچھ بہت لازمی اور سنجیدہ بات تھی جو اسے یونان سے یروشلیم کا لمبا سفر کرنے اور ان دھمکیو ں کو نظرانداز کرنے پر مجبور کر رہی تھی جو اسے مل رہی تھیں ۔  یروشلیم میں وہ ایک مقامی کلیسیا کے بزرگ سے ملا  ۔   پولوس کی منادی کے وسیلہ سے شروع میں افس کی کلیسیا میں ایک زبردست خوشی رونما ہوئی تھی، انہوں نے اسے ایسے ہزار ہا یہودی دکھائے جو ایمان تو لائے تھے مگر شریعت کےلئے ابھی بھی پر جوش تھے ۔  درحقیقت انہوں نے پولوس کواصلا ح دی تھی کہ یہودیوں کے ہاتھوں پکڑے جانے سے گریز کرنے کےلئے ان کے سامنے اسی طرح کا رویہ اختیار کرے جبکہ انہوں نے اسے یہ بھی یقین دلایا کہ انہوں نے غیر قوموں کو لکھ دیا ہے کہ ان باتوں کی پیروی نہ کریں ۔   اس کے بعد ، پولوس کےلئے کلیسیا کی حمایت کسی حد تک باقی نہ رہی،جہاں تک کلام میںاس کا ذکر پایا جاتا ہے ۔   پولوس اپنے ہی لوگوں کی مخالفت کے باعث اکیلا تھا اور رومیوں کی مداخلت کے باعث بچ گیا تھا ۔   اعمال 23باب 10 آیت میں ہم اسے ایک قید خانہ میں دیکھتے ہیں ۔   اب یہاں ایک آدمی ہے جس نے انجیل کےلئے بہت کچھ کیا، ایسا شخص جس نے خدا کے کلام کےلئے ہزاروں میل کا سفر کیا اور جس نے کسی اور کی نسبت سب سے زیادہ خود کو خطرات میں ڈالا ۔  یہاں وہ قید میں تنہا ہے اور سب نے اسے ترک کر دیا ۔   باقی سب نے، سوائے خداوند یسوع مسیح کے ۔ 

 

اعمال23باب11آیت:
”اسی رات
خداوند اس کے پاس آکھڑا ہوا اور کہا کہ خاطر جمع رکھ کہ جیسے تو نے میری بابت یروشلیم میں گواہی دی ہے ویسے ہی تجھے رومہ میں بھی گواہی دینا ہو گا ۔ 

 

        خداوند اس کے پاس آکھڑا ہوا ۔   ۔   ۔   ۔   صرف چند سال قبل وہ اسی شہر میں انہی لوگوں کے ہاتھوں دکھ اٹھاتا تھا ۔   اسے بھی رومیوں کے ہاتھ میں کر دیا گیا ۔   اس دن پولوس کی مانند، وہ بھی مجلس میں لایا گیااور سب نے اسے ترک کر دیا ۔  یہاں وہ، زندہ خداوند یسوع مسیح ، اس تنہا اور دکھی پولوس سے ملنے کو آیا جسے اس نے بڑے پیار سے اپنے لئے چنا تھا ۔  خداوند یسوع مسیح پولوس کو ملنے آیا، جیسا کہ متن بیان کرتا ہے، اس کے پاس آکھڑاہوا ۔  سب اسے بھول گئے تھے، مگر خداوند اس کے ساتھ تھا ۔   اس نے اس سے زیادہ بات تو نہیں کی سوائے ایک فقرہ: ” خاطر جمع رکھ کہ جیسے تو نے میری بابت یروشلیم میں گواہی دی ہے ویسے ہی تجھے رومہ میں بھی گواہی دینا ہو گا ۔  “اگر ہم ایسی صورتِ حال میں پولوس کے پاس جاتے ، اور اگر ہم اس معاملے پر بات کرتے تو ہم کہتے:”کتنے افسوس کی بات ہے ۔   لیکن خدا نے اسے منع کیا تھا ۔   اس نے اسے کہا تھا کہ یروشلیم میں نہ آئے مگر وہ پھر بھی آیا ۔   اب اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔  “ ہم عدالت کرنے اور فیصلہ کرنے میں بہت تیز ہوتے ہیں ۔   اگر کوئی شخص غلطی کر لے تو ہمارے الفاظ رحم بھرے ہونے کی بجائے غصے والے ہوتے ہیں ۔  تاہم ہمیں خدا نے کسی پر بھی قاضی مقرر نہیں کیا ۔  وہ جو چاہتا ہے کہ ہم دوسرں کو دکھائیں وہ ہے رحم، محبت، اور فضل نہ کہ سخت الفاظ یا ایسے فقرات۔  ”میں نے تم کو کہا تھا ۔  “ وہ یہی کچھ یہاں پر کرتا ہے ۔   وہ تنہا پولوس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔   وہ ایسے الفاظ نہیں بولتاکہ،”میں نے تم سے کہا تھا“ ۔   اس کی بجائے وہ اسے شاباش دیتا ہے ۔  ”شاباش پولوس کہ تو سارے یروشلیم کے سامنے کھڑا ہوا اور میری بابت گواہی دی ۔  اس نے اسے بالکل بھی یروشلیم جانے کو نہیں کہا تھا ۔   تاہم یہ زیادہ اہم نہیں ہے ۔   خدا کے لئے اب زیادہ اہم یہ ہے کہ پھر بھی پولوس اس کےلئے وہاں کھڑا تھا ۔   خدا سے شاباش دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل کا اسے منصوبہ اور تصور بیان کرتاہے کہ”جیسے تو نے میری بابت یروشلیم میں گواہی دی ہے ویسے ہی تجھے رومہ میں بھی گواہی دینا ہو گا ۔  “میں نہیں جانتا کہ پہلے خدا کا کیا منصوبہ تھا، کیا وہ اسے دوبارہ ممکن نہیں بنا سکتا تھا؟ اگر ہم یہ ایمان رکھیں کہ خدا کے کام میں ہماری اہمیت زیادہ ہے تو کسی حد تک ہم ہماری اہمیت کو ترجیح دیتے ہیں اور خداوند کی قابلیت اور اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں ۔   یقینا یہ ایک مشن ہے ۔   یقینا یہاں یاک کام ہے ۔   تاہم، فرض کریں کہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو کیا اس کے نتائج ہمیشہ کےلئے ہوتے ہیں؟ میں یہ نہیں مانتا۔   پولوس رومہ گیا اور خدا کی بابت گواہی دی جیسا کہ اس نے کہا تھا ۔  وہ بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوا جیسا کہ اس نے اسے شروع میں کہا تھا(اعمال9باب15آیت) ۔   بہت دفعہ وہ آزاد ہو سکتاتھا ۔   مگر خدا نے ایسا نہ کیا ۔  قید میں ا س نے بہت سے خطوط لکھے ۔   بہت سے دیگر لوگ اسے دیکھ کر حوصلہ پاتے اور زیادہ دلیری سے کلام کی منادی کرتے تھے (فلپیوں1باب12 تا18آیت) ۔  پولوس کا کام پھلدار تھا، گو کہ وہ قید میں تھا، اور یہ اس لئے تھا کیونکہ خدا اس کے ساتھ تھا ۔  اہم بات یہ نہیں کہ آپ کہاں ہیں اہم بات یہ ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں خداوند آپ کے ساتھ ہے۔  کیونکہ اگر آپ خدا کے ساتھ ہیں تو آپ پھل لائیں گے، اگر چہ باقی سب نے پولوس کو ترک کر دیا تھا ، مگر خداوند اس کے ساتھ تھا ۔   تمیتھیس کو لکھتے ہوئے کہا:

 

2تمیتھیس 4باب16اور17آیت:
”میری پہلی جواب دہی کے وقت کسی نے میرا ساتھ نہ دیا بلکہ سب نے مجھے چھوڑ دیا کاش کہ انہیں اس کا حساب دینا نہ پڑے ۔   
مگر خداوند میرا مددگار تھا اور اس نے مجھے طاقت بخشی تاکہ میری معرفت پیغام کی پوری منادی ہو جائے اور سب غیر قومیں سن لیں اور میں شیر کے منہ سے چھڑایا گیا ۔ 

 

        سب نے اسےترک کر دیا مگر خدا نے نہیں کیا ۔   آیئے اسے اپنے دل کی گہرائیوں میں رکھیں ۔   شاید مسیحی زندگی میں ایسا وقت آئے کہ ہم تنہا ہو جائیں، جب چند ایک شخص یا کوئی بھی ہمارے ساتھ نہ ہو ۔   اس سے حوصلہ پست نہ ہو یا ہم اس پر ناراض نہ ہوں ۔   اگر چہ سب کے سب چھوڑ دیتے ہیں مگر کوئی ایک ایسا ہے جو کبھی دستبردار نہ ہو گا اور نہ کبھی آپ کو چھوڑے گا ۔  کوئی ایسا ہے جو آپ کے ساتھ ہے، ہمیشہ، حتیٰ کہ ابھی بھی ہے۔   کوئی ایسا ہے جو آپ کے پاس آتا ہے ،آپ کوہلاک کرنے یا آپ کی پرانی غلطیوں پر غصہ کرنے کےلئے نہیں بلکہ حوصلہ دینے کےلئے اور آپ کو بتانے کےلئے کہ، ” خاطر جمع رکھو ۔   میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ 

 

عبرانیوں 13باب5اور6آیت:
”کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے کہ میں تجھ سے دستبردار نہ ہوں گا اور کبھی تجھے نہ چھوڑوں گا ۔   اس واسطے ہم دلیری کے ساتھ کہتے ہیں کہ خداوند میرا مدد گار ہے ۔   میں خوف نہ کروں گا ۔   انسان میرا کیا کرے گا؟“

 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :