بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

صبر

 

       یعقوب 1باب2تا4آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

یعقوب 1باب2تا4آیت:
”اے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔
   تو اس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔   اور صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تا کہ تم پورے اور کامل ہو جاﺅ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔ 

 

       کامل اور پورے ہونے کےلئے ہمیں صبر کے کامل کام کی ضرورت ہے۔   اسلئے آج میں صبر اور اس کی اہمیت پر غور کرنا چاہوں گا۔ 

 

1صبر:  ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟

       شروع کرنے کےلئے ہم عبرانیوں 12باب1اور2آیت پر جائیں گے۔   یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

عبرانیوں 12باب1اور2آیت:
”پس جب کی گواہوں کا ایسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آﺅ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کر کے
اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں در پیش ہے۔   اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اس خوشی کےلئے جو اس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کر کے صلیب کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طر ف جا بیٹھا۔ 

 

       یہاں ایک دوڑ ہے جو ہمیں دوڑنی ہے،  اور یہ دوڑ ہمیں صبر ہے ساتھ ،  یسوع کو تکتے ہوئے ،  دوڑنی چاہئے،  جس نے اسی خوشی کےلئے صلیب پر جان دی جو اس کے بعد تھی۔  مسیح کے صبر پر غور کرو۔   اس نے کسی کے ساتھ بدی نہیں کی۔   اس کے برعکس،  اس نے بیماروں کو شفا دی اور مردوں کو زندہ کیا،  خدا کی مرضی ک مکمل طور پرع پورا کیا۔   پھر بھی اسے کسی دوسرے کی نسبت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اسے مصلوب کر دیا گیا۔  کیا مسیح کے پاس ناراضگی اور یہ سب ختم کرنے کی وجوہات تھیں کیونکہ ان لوگوں نے اس کے ساتھ بد سلوکی کی جن کی اس نے خدمت کی؟ اگر چہ اسے یہ حق تھا مگر اس نے ایسا نہ کیا۔  بلکہ اس نے برداشت کیا۔   آپ برداشت تب کرتے ہیں جب آپ اس مقصد کو جسے پورا کرنا چاہتے ہیں اس درد ے زیادہ اہم تصور کرتے ہیں جو آپ سہہ رہے ہوں۔  یہی یسوع نے بھی کیا۔  اس نے ہماری اس نجات کو سامنے رکھتے ہوئے درد کو برداشت کیا جو نجات ہمیں اس دردکی بدولت ملنے کو تھی۔   یہی وہ صبر کی عمدہ مثال ہے اور یہی وہ شخص ہے جس پر ہمیں صبر کی مثال قائم کرنے میں دوڑ دوڑتے ہوئے نظر رکھنی چاہئے۔  جیسے پولوس نے1کرنتھیوں 9باب 24 اور25آیت میں کہا:

 

1کرنتھیوں9باب24اور25آیت:
”کیا تم نہیں جانتے کہ دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے؟ تم بھی ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو۔
   اور ہر پہلوان سب طرح کا پر ہیز کرتا ہے۔   وہ لوگ تو مرجھانے والا سہرا پانے کےلئے یہ کرتے ہیں مگر ہم اس سہرے کےلئے کرتے ہیں جو نہیں مرجھاتا۔ 

 

       ہماری دوڑ کاانعام مرجھانے والے جسم پر مرجھانے والا سہرا نہیںجو مرجھائے ہوئے ہاتھوں سے دیا گیا ہو ۔   بلکہ،  یہ نہ مرجھانے والے ہاتھوں،  یسوع مسیح کے ہاتھوں سے،  دیا گیا نہ مرجھانے والے جسم پر ، روحانی جسم پر،  نہ مرجھانے والا سہرا ہے۔  عبرانیوں 12باب جاری رکھتا ہے:

 

عبرانیوں 12باب3آیت:
”پس اس پر غور کرو جس نے اپنے حق میں برائی کرنے والے گناہگاروں کی مخالفت کی
برداشت کی تا کہ تم بے دل ہو کر ہمت نہ ہارو۔ 

 

اور عبرانیوں10باب35اور39آیت:
”پس اپنی دلیری کو ہاتھ سے نہ دو۔
   اس لئے کہ اس کا اجر بڑا ہے۔   
کیونکہ تمہیں صبر کرنا ضرور ہے تا کہ خدا کی مرضی پوری کر کے وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کرو۔   اور اب بہت ہی تھوڑی مدت باقی ہے کہ آنے والا آئے گا اور دیر نہ کرے گا۔   اور میرا راستباز بندہ ایمان سے جیتا رہے گا۔  اور اگر وہ ہٹے گا تو میراد ل اس سے خوش نہ ہوگا۔   لیکن ہم ہٹنے والے نہیں کہ ہلاک ہوں بلکہ ایمان رکھنے والے ہیں کہ جان بچائیں۔ 

 

       ہمارے صبر اور یقین کا انعام بڑا ہے۔   یسوع مسیح تاج اور انعامات کے ساتھ آرہا ہے ان لوگوں کےلئے جنہوں نے برداشت کیا اور پیچھے نہ ہٹے۔   بعض اوقات ہم بہت گستاخ ہو جاتے ہیں ہ سمجھتے ہیں کہ یہاں ہمارے مستقل مکان ہیں اور ہم یہاں ہمیشہ تک رہیں گے۔  تا ہم ہماری شہریت حقیقت میں آسمان پر ہے(فلپیوں 3باب20آیت   ہم خدا کی طرف سے بلائے گئے ہیں تا کہ اسے اور اس کے بیٹے،  خداوند یسوع مسیح کو جانیں،  جس کے علم کے سامنے باقی سب کچھ بےکار ہے۔  (فلپیوں3باب8آیت   وہی ہماری نجات کا بانی اور کامل کرنے والا ہے(عبرانیوں12باب2آیت  ہمارا گھر،  ہمارا اصل اور مستقل گھر آسمانوں میں ہے(2کرنتھیوں5باب1آیت   یہ ایک حقیقت ہے،  جیسے کہ وہ انعام ایک حقیقت ہے جو ہم اب نہیں دیکھتے،  پھر بھی ہم اس کےلئے برداشت کرتے ہیں،  اسی طرح جیسے ایک دوڑ دوڑنے والا شخص اس انعام کو نہیں دیکھتا مگر وہ اسے حاصل کرنے کےلئے خود کو تیار کرتا اور برداشت کرتا ہے۔ 

 

 

2اطاعت گزار صبر اور جہدی صبر:

        چو نکہ ہم صبر کے حوالے سے بات کر رہے ہیں تو میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کس قسم کے صبر کی بات کر رہے ہیں ۔  اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ دو قسم کے صبر ہیں:  اطاعت گزار صبر اور جہدی صبر۔   اطاعت گزار صبر وقت لینے والا صبر ہے۔   مثال کے طور پر یہ صبر قیدیوں،  جلاوطنوں اور عام طور پر ان لوگوں کا صبر ہوتا ہے جو اس صورتِ حال کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں جہاں وہ قید میں ہوتے ہیں۔ 

 

       اطاعت گزار صبر کے مخالف جہدی صبر ہے،  کوشش کرنے والا صبر ،  جو مقصد اور جیت کےلئے،  ان زخموں اور تکلیفوں کو صبر کے ساتھ برداشت کرتا ہے جو اس کوشش میں اسے ملتیں ہیں۔   وہ شاید دکھ اٹھا تا ہے مگر اپنے مشن کو پورا کرنے کےلئے یہ سب کچھ برداشت کرتا ہ،  میرا ماننا ہے کہ یہ وہ صبر ہے جس کے حوالہ سے خدا اپنے کلام میں بات کرتا ہے۔  یہ مایوس کن اور ناامیدی والا صبر نہیں جس کے بارے میں خدا بات کرتا ہے۔  جیسے کہ ہم عبرانیوں12 باب 1اور 2آیت میں پڑھتے ہیں:  اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں در پیش ہے۔  اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں۔  ۔  ۔  ہم صابر ہیں،  ایک دوڑ دوڑ رہے ہیں کسی پر نظر جمائے ہوئے،  خداوند یسوع مسیح پر،  جو ایمان کا بانی اور کامل کرنے والا ہے۔   خدا نے ہمیں جنگی قیدی یا سپاہی نہیں بنایا جو وقتاً فوقتاً مارچ کرتے ہیں اور پھر اپنے خیموں میں لوٹ جاتے ہیں۔  بلکہ اس نے ہمیں روحانی فوجی بنایا ہے کہ ہم،  ”حکومت والوں ا ور اختیار والوں اور اس دنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی ان روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں“ جنگ کریں(افسیوں6باب12آیت   ہم ایک دوستانہ ماحول میں مارچ نہیں کرتے بلکہ دشمنوں کی سرحد میں لڑائی لڑتے ہیں۔  ہم یہاں صرف اپنے ہتھیار دکھانے کےلئے نہیں ہیں،  بلکہ ان کو ان کی شدید طاقت کے ساتھ استعمال کرنے کےلئے ہیں۔  یقیناً،  کسی بھی جنگ کی طرح،  ہمیں زخموں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا گا۔  تو کیا ہوا؟ کیا ہم ان سے خوفزدہ ہوں گے؟ کیا ہم شیطان کو چھوڑ دیں گے کہ وہ ہمیں قید میں رکھے؟ جہاں تک خدا کا تعلق ہے:

 

2تمیتھیس2باب3آیت:
”مسیح یسوع کے اچھے سپاہی کی طرح
میرے ساتھ دکھ اٹھا۔ 

 

       اچھا سپاہی تکالیف برداشت کرتا ہے۔   اپنے مشن کی خاطر وہ سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔   اس کا یقیناً اپنے حاکم سا مزاج ہے:

 

فلپیوں2باب5تا11آیت:
ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔  اس نے اگر چہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔  اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کہ۔  اسی واسطے خدا نے بھی اسے سر بلند کیا اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔   تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔   خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینوں کا ۔   خواہ ان کا جوزمین کے نیچے ہیں۔   اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔ 

 

       اچھا سپاہی اپنے حاکم جیسا مزاج رکھتا ہے۔  وہ وفادار رہتا ہے،  حتیٰ کہ موت تک بھی اگر اس کی ضرورت پڑے تو۔   اس نے اپنے آپ کو مالک کے حوالہ کر دیا ہے،  گو کہ اسے دکھ سہنے پڑیں،  مگر وہ برداشت کرتا ہے،  اپنے مالک پر نظر جمائے ہوئے۔ 

 

       دوسری جانب ایک سپاہی ہے جو تکالیف سے ڈرتا ہے۔   ان کے نظریہ کے مطابق، وہ ڈرپوک بن جاتا ہے اور واپس قید میں ڈالا جانا پسند کرتا ہے۔   قید خانہ کے داروغہ جو شیر کی مانند دھاڑتا ہے اسے مزید ڈراتا ہے(1پطرس5باب8آیت   اس نے اسے دھوکہ دے رکھا ہے کہ اسے اس پر اختیار حاصل ہے تا کہ وہ اس سچائی کو پوشیدہ رکھے کہ، ” جو تم میں ہے وہ اس سے بڑا ہے جو دنیا میں ہے“(1یوحنا4باب4 آیت) ۔   خدا کرے یہ سپاہی بھی سچائی کو جانے کہ وہ اپنی زنجیروں کو،  قلعوں کواور تصورات کو ، ڈھا دے(2کرنتھیوں 10باب4آیت  جو اسے قید خانہ کی جھوٹی حفاظت میں بند کئے ہوئے ہیں،  اور وہ باہر میدانِ جنگ مین نکلے،  جیسا کہ ایک اچھا سپاہی بے خوفی سے اور صبر کے ساتھ اپنی خودی کا انکار کرتے ہوئے آتا ہے۔   تاہم،  مزید اطاعت گزار صبر کے ساتھ نہیں،  بلکہ جہدی صبر کے ساتھ۔ 

 

3صبر کی دیگر مثالیں:

 3.1کسان اور بیج کی مثال:

        یسوع کی مثال کے علاوہ،  یعقوب 5باب میں مزید مثالیں پیش کی گئیں ہیں۔  یہاں 7آیت سے شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں:

 

یعقوب5باب7اور8آیت:
”پس اے بھائیو! خداوند کی آمد تک صبر کرو۔
   دیکھو۔   کسان زمین کی قیمتی پیداوار کے
انتظار میں پہلے اور پچھلے مینہ کے برسنے تک صبر کرتا رہتا ہے۔   تم بھی صبر کرو اور اپنے دلوں کو مضبوط رکھو کیونکہ خداوند کی آمد قریب ہے۔ 

 

       کیا کسان وہ پھل دیکھتا ہے جس کے لئے وہ محنت کرتا ہے ؟جی نہیں ، تا ہم وہ اسکی امید کرتا ہے ۔  وہ تمام مشکات اور قیمتی کاموں کو برداشت کرتا ہے ، تا کہ آخر میں اس کا کھیت اتنا پھل پیدا کرے جتنا ممکن ہو ۔  ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے کھیت کا پھل اسکے صبر پر منحصر ہے ۔  اس لا پرواہ کسان کا تصور کریں جو اپنی زمین کےلئے ضروری کاموں کو نظر انداز کردیتا ہے ۔  اب اس کسان کو اس کے ساتھ مقابلہ ریں جو گرمیوں کی سخت کرمی اور سردیوں کی سخت سردی کے باوجود اپنے کھیت کی حفاظت کرتا ہےا ن سب مشکل کاموں کو انجام دیتے ہوئے جو پہلا کسان چھوڑ دیتا ہے ، وہ یہ کیوں کرتا ہے ؟کیونکہ وہ ایسی چیز کا مقصد رکھتا ہے جو اس وقت درست نہیں لگتا ، مگر جس کے لئے وہ سب کچھ سہتا ہے:  پھل:  یہی وہ کھیت ہے جو زیادہ سے زیادہ پھل دیتا ہے ، اور اسی اچھے اور صابر کسان کی مثال ہمیں دی گئی ہے ۔  جیسا کہ خدا وند بیج بونے والے کی تمثیل میں کہا:

 

لوقا8باب11تا15آیت:
”وہ تمثیل یہ ہے کہ بیج خدا کا کلام ہے۔
   راہ کے کنارے کے وہ ہیں جنہوں نے کلام سنا اور پھر ابلیس آکر کلام کو ان کے دل سے چھین لے جاتا ہے۔   ایسا نہ ہو کہ ایمان لا کر نجات پائیں۔  اور چٹان پر کے وہ ہیں جو سن کر کلام کو خوشی سے قبول کر لیتے ہیں لیکن جڑ نہیں رکھتے مگر کچھ عرصہ تک ایمان رکھ کر آزمائش کے وقت پھر جاتے ہیں۔   اور جو جھاڑیوں میں پڑا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے سنا لیکن ہوتے ہوتے اس زندگی کی فکروں اور دولت اور عیش و عشرت میں پھنس جاتے ہیں اور ا ن کا پھل پکتا نہیں۔  مگر اچھی زمین کے وہ ہیں جو کلام کو سن کر عمدہ اور نیکدل میں
سنبھالے رکھتے ہیں اور صبر سے پھل لاتے ہیں۔ 

 

       خدا کا کلام ہمارے دلوں میں بویا گیا ہے ۔  جےسے کہ ایک کسان اس وقت تک اپنا پھل نہیں دیکھتا جس کےلئے وہ برداشت کرتا ہے ، اسی طرح ہم بھی ، اچھے کسان کی مانند ، ہمیں خدا کے کلام کے بیج کو صبر کے ساتھ اپنے دل میں رکھنا چاہئیے ۔  تمثیل میں ، بیج ہمیشہ ایک جیسا ہی تھا ۔  تاہم ، صرف ایک کسان صابر تھا ۔  اس نے بیج کو اپنے کھیت (دل)میں رکھا اور اس کے نتیجہ میں اس پھل ، بہت ساپھل ، حتیٰ کہ سو گنا پھل پایا (متی 13باب 9 آیت   اور سب سے اہم ، اس نے وہ پھل پیدا کیا جو ہمیشہ تک ، آسمان میں قائم رہتا ہے ۔ 

 

3.2 ایوب کی کہانی :

       ایک اور مثال جو یعقوب 5باب میں دی گئی ہے وہ ایوب کی مثال ہے ۔  پس 11آیت میں ہم پڑھتے ہیں :  

 

یعقوب 5باب11آیت:
”دیکھو صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔
   تم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور خداوند کی طرف سے اس کا جو انجام ہوا اسے بھی معلوم کر لیا جس سے خداوند کا بہت رحم اور ترس ظاہر ہوتا ہے۔ 

 

       ایوب کی مثال کی مکمل کہانی ایوب کی کتاب میں ہی پڑھی جا سکتی ہے ۔  وہ شیطان کے ظلم سے بہت آزمایا گیا ، درحقیقت وہ تمام چیزیں جسے کوئی شخص برکات کہہ سکتا ہے اس سے لے لی گئیں ۔  اس کے بچوں کا قتل ہو گیا ، اسکی جائےداد چھن گئی ، وہ بہت بیمار تھا ، اسکی بیوی اسے ملامت کرتے ہوئے اور خدا کو ترک کرنے کا کہتے ہوئے مر گئی ۔  اور اگر یہ کافی نہ تھا تو ا سکے تین دوست تھے جو اگر چہ اسکو تسلی دینے کو آئے تھے مگر وہ اسے جتانا چاہتے تھے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ اسکی اپنی غلطی کی وجہ سے ہے ۔   تاہم ،  بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ایوب صابر رہا ۔  جیسا کہ اسکی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے ، ان تمام مشکلات کے باوجود ، ایوب اپنے ایمان کی آزمائش میں پورا اترا ۔ 

        اسکی مثال کی پیروی کرتے ہوئے ، ہمارے ایمان کا انحصار ان چیزوں پر نہیں ہونا چاہئے جو ہمارے پاس ہیں یا ان چیزوں پر جو ہمارے پاس نہیں ہیں اور ہم ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  بلکہ ہمیں خدا کو اپنی زندگی کے ہر پہلو کا ذمہ دار بنانا چاہئے ۔  اس کےلئے ہم ”اب اس میں معمور ہو گئے ہیں۔  “ (کلسیوں 2باب10آیت )!آپ کا کیا مسئلہ ہے ؟آپ کی صحت ، آپکی تنہائی ، فلاں فلاں آپ کا مسئلہ ہے ؟اب خدا کےلئے ”اب آپ اس میں (مسیح میں )معمور ہو گئے ہیں ۔  “اس سے پہلے کہ وہ آپ کو کوئی اور برکت دے ، وہ آپ کو معمور کہتا ہے کیو نکہ آپ اس کے بیٹے پر ایمان لائے ۔ 

        بہت سی کلیسیاﺅں میں کسی شخص کی بر کات اس کے ایمان ک معیار ہیں۔   اس لئے جب کوئی شخص کوئی چیز کھو دیتا ہے ،  صحت یا جائیداد وغیرہ،  ہمیں ا سکی مدد کرنا دشوار لگتا ہے۔  ہم ایوب کے دوستوں کی مانند بن جاتے ہیں جو تسلی دینے کی بجائے مزید پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔   بے شک ہر چیز میں برکت پانا مناسب ہے۔   مگر ہماری معموری اس بات پر منحصر نہیں کہ ہمار پاس کتنی اور کس قدر سامان کی برکات ہیں۔   کلام کہتا ہے (84زبور 11 آیت)”خدا راست رو سے کوئی نعمت باز نہ رکھے گا“،  اور اس نے ”ہمیں وہ سب چیزیں عنایت کیں جو زندگی اور دینداری سے متعلق ہیں“(2پطرس1باب3آیت   آخر میں،  خدا وہ سب کچھ ٹھیک کرتا ہے جو ایوب نے کھویا تھا(ایوب 42 باب 10 آیت   جب وہ شفا یاب ہوا تو اس کی خوشی کا اندازہ کریں،  جب اسے اس کی دولت دوگنا ملی،  اس کی اولاد قغیرہ۔   جب ہم مسیح کا اقرار بطور خداوند کرتے ہیں تو مسیح کی خوشی کا اندازہ کریں۔  مسیح نے صلیب کا دکھ اٹھایا،  ایوب نے اپنا سب کچھ گنوا دیا،  مگر کسی نے بھی اپنا صبر نہ چھوڑا،  جس کی بدولت اچھا پھل پیدا ہوا۔ 

 

3.3انبیا کی مثال:

        یعقوب کے خط میں ایک انبیا کی مثال بھی ہے۔   پس،  10آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

یعقوب5باب10آیت:
”اے بھائیو! جن نبیوں نے خداوند کے نام سے کلام کیا ان کو دکھ اٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو۔
 

 

       بعض اوقات ہم انبیا کو اور عام طور پر ان لوگوں کو جب کے حوالے سے ہم بائبل میں پڑھتے ہیں،  سپر مین سمجھتے ہیں۔   کہ وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر ہم۔  ۔  ۔  ۔   تاہم،  حقیقت کچھ اور ہے۔   حقیقتا،  آپ کی طرح پرانے عہد نامہ میں سے کون خدا کا فرزند تھا(گلتیوں4باب1 تا7 آیت ) ان میں سے کون اپنے غیر فانی تخم کے ساتھ نئے سرے سے پیدا ہوا تھا(1پطرس 1باب23آیت)؟نئے عہدنامہ میں پولوس اور پطرس یا دیگر لوگ آپ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔  وہ روح القدس جو خدا نے انہیں دیا تھا آپ کو بھی دیا ہے۔   مسیح سے بھی بڑے کام کرنے کا وعدہ اس دور کے سپر مین سے نہیں کیا گیا تھا،  بلکہ کسی سے بھی جو خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاتا ہے:

 

یوحنا 14باب12آیت:
”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ
جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ ان سے بڑے کام کرے گا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ 

 

       ہمارے موضوع کی طرف آتے ہوئے،  انبیا صبر اور برداشت کی بہترین مثالیں ہیں۔  یرمیاہ،  یسعیاہ،  ایلیا کے بارے میں سوچو ذرا جنہوں نے آرام کرنے کی بجائے،  دکھوں ،  تکلیفوں اور برداشت کا انتخاب کیا۔   حکومت کرنے کی بجائے انہوں نے خود کو خداوند کے سپرد کر دیا۔  مگر نئے عہد نامہ میں،  پولو س کے بارے میں غور کریں،  جیسا کہ وہ خود کے بارے میں کہتا ہے:

 

2تمیتھیس 3باب10اور 11آیت:
”لیکن تو نے تعلیم ،
 چال چلن،  ارادہ،  ایمان ۔   محبت ،  تحمل ، صبر ،  ستائے جانے اور دکھ اٹھانے میں میری پیروی کی۔  یعنی ایسے دکھوں میں جو انطاکیہ اور اکنیم اور لسترہ میں مجھ پر پڑے اور اور دکھوں میں بھی جو میں نے اٹھائے ہیں مگر خداوند نے مجھے ان سب سے چھڑایا۔ 

 

2کرنتھیوں6باب4آیت بھی:
”بلکہ خدا کے خادموں کی طرح ہر بات سے اپنی خوبی اہر کرتے
ہیں۔   بڑے صبر سے،  مصیبت سے،  احتیاج سے،  تنگی سے،  کوڑے کھانے سے،  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ 

 

       ہماری جنگ روحانی ہے جس میں مصیبتیں اور تکالیف ہیں اور ہمیں یہ جنگ لڑنے کےلئے صبر کی ضرورت ہے۔   جہاں تک پولوس کا تعلق ہے،  اس نے اپنے کام کے اختتام کے حوالے سے کہا:

 

2تمیتھیس 4باب7اور8آیت:
میں اچھی کشتی لڑ چکا۔   میں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔   میں نے ایمان کو مضبوط رکھا۔   آیندہ کےلئے میرے واسطے راتبازی اک وہ تاج رکھا ہو اہے جو عادل منصف یعنی خداوند مجھے اس دن دے گا اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ان سب کو بھی جو اس کے ظہور کر آرزو مند ہوں۔ 

 

       مسیح نے بھی خدا سے بات کرتے ہوئے کہا:

 

یوحنا17باب4آیت:
جو کام تو نے مجھے دیا تھا اس کو تمام کر کے ۔  ۔  ۔  ۔ 

 

       مسیح،  پولوس اور دیگر انبیا مساکی نہیں تھے کہ جو دکھوں کو پسند کرتے تھے۔   وہ جنگجو،  روحانی سپاہی تھے،  جو دکھ سہنے کو تیار تھے،  اور ہر وہ کام کرنے کو تیار تھے جو ان کے مشن کی کامیابی کےلئے ضروری تھا۔  اس وقت،  پولوس اور دیگر انبیا تھے،  آج ہم ہیں ،  جو اسی حاکم کے ماتحت یہ جنگ لڑ رہے ہیں:  خداوند یسوع مسیح کے ماتحت۔   خدا کرے ہم انہی کی طرح چلیں۔   خدا کرے ہم اچھی لڑائی لڑیں اور دوڑ کو پورا کریں۔   یہ آسان دوڑ نہیں ہے،  مگر یقینا یہ بہت بہترین دوڑ ہے جو ہم دوڑ سکتے ہیں اور اس کا اختتام بہترین ہے:  خداوند یسوع مسیح ہمیں اور ہمارے صبر کو راستبازی کے تاج کے ساتھ عزت دینے کا منتظر ہے،  بالکل اسی طرح جیسے وہ بہت سے دیگر لوگوں کے ساتھ کرے گا،  جنہوں نے صدیوں تک وہی جنگ لڑنے کا فیصلہ کا،  خود کا انکار کرتے ہوئے اور اسے اپنے خداوند کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے۔ 

 

4صبر:  یہ کیسے پیدا کیا جاتا ہے؟

       یہ دیکھنے کے بعد کہ صبر کتنا اہم ہے،  ہم یہ جانتے ہوئے ختم کریں گے کہ یہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔   پس،  رومیوں 5باب3تا5آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

رومیوں5باب3تا5آیت:
”اور صرف یہی نہیں بلکہ مصیبتوں میں بھی فخر کریں یہ جان کر کہ مصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے۔
   اور صبر سے پختگی اور پختگی سے امید پیدا ہوتی ہے۔   اور امید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ روح القدس جو ہم کو بخشا گیا ہے اس کے قسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالی گئی ہے۔ 

 

اور یعقوب 1باب2تا4آیت:
”اے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔
   تو اس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔   اور صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تا کہ تم پورے اور کامل ہو جاﺅ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔ 

 

       حقیقتاً کون اس با ت کی امید کرے گا کہ خدا کی مرضی پوری کرتے ہوئے،  پھل دار ہونا اور دوڑ دوڑنا،  یعنی،  صبر کی دوڑ،  مشکلات اور مصیبتوں کا نتیجہ ہوں؟ شاید یہ اس لئے کیونکہ درج بالا دونوں حوالہ جات ہمیں بتاتے ہیں کہ مصیبت میں جلال پاﺅ اور آزمائشوں میں خوشی!! اگر ہم ” خدا کی مرضی کے مطابق دکھ اٹھاتے ہیں تو اپنی جان اس کے حوالہ کریں“، ”صبر اور تسلی کے سر چشمہ کے حوالہ“(رومیوں 15باب5 آیت) ،  وفادار خالق کے سپرد“(پطرس4باب19آیت   آئیے خود کو اس کے حوالہ کریں اور اسے ہمارے ساتھ وہ کرنے کی اجازت دیں جو وہ کرنا چاہتا ہے۔  کلام کہتا ہے کہ، ”جب کو لڑائی کےلئے جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو دنیا کے معاملوں میں نہیں پھنساتا تا کہ اپنے بھرتی کرنے والے کو خوش کرے“(2تمیتھیس 2باب4آیت  اور ہم مسیح یسوع کے سپاہی ہیں۔   آئیے اپنے تمام افکار، ” اس زندگی کے تمام معاملات) خدا کے حوالہ کریں” آﺅ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور گناہ کو جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کر کے اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں در پیش ہے،  اور ایمان کے بانی اور کام کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں۔ 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :