بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

اعمال16باب6تا40آیت

 

         فضل کے دور کا حوالہ دینے والی کتب میں اعمال ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اس کےلئے یہ خدا کے ان بندوں کے بارے میں ظاہر کرتی ہیں جیسے پولوس ، پطرس وغیرہ، کہ وہ کیسے خدا کے حضور چلتے رہے، یعنی ان کی عملی مثال بیان کرتے ہوئے۔اسی طرح کی ایک مثال اعمال16باب میں درج ہے ، وہ باب جو پولوس کے فلپی میں سفر کےلئے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ وہ باب ہے جو ہمارے کالم کا موضوع ہے۔

 

1سفر کا فیصلہ

         ہمارا سفر جاری رکھنے کےلئے ہم اعمال16باب6تا8آیت میں پڑھتے ہیں:

 

اعمال16باب6تا8آیت:
”اور وہ فرگیہ اور گلتیہ کے علاقہ سے گزرے کیونکہ روح القدس نے انہیں آسیہ میں کلام سے منع کیا۔ اور انہوں نے موسیہ کے قریب پہنچ کر بتونی میں جانے کی کوشش کی مگر یسوع کے روح نے انہیں جانے نہ دیا۔پس وہ موسیہ سے گزر کر تراوس میں آئے۔ “

 

         اگر آپ ایک نقشے کا مطالعہ کریں، آپ جانیں گے کہ یہاں پہلے چار فقروں میں کیا کہا گیا ہے۔ گلتیہ، فروگیہ اور آسیہ تین ریجن ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں۔پولوس اور جو اس کے ساتھ تھے، پہلے دو سے ہو کر تیسرے میں آئے:یعنی آسیہ میں۔ تاہم، جیسا کہ متن بیان کرتا ہے، خدا، روح القدس نے انہیں وہاں تعلیم دینے سے منع کیا، پس وہ موسیہ میں چلے گئے۔ اس کے علاوہ، اس کے باوجود، جب انہوں نے بتونیہ میں جانے کی کوشش کی تو خدا نے انہیں دوبارہ منع کیا۔ اس کے نتیجہ میں، وہ موسیہ سے گزر کر تراﺅس میں گئے۔

          جیسا کہ یہ درج بالا سے ظاہر ہے، فلپی وہ مقام نہیں تھا جہاں پولوس اور سیلاس نے جانے کا منصوبہ بنایاتھا۔ در حقیقت، انہوں نے دو بار کسی اور مقام میں جانے کا ارادہ کیا، مگر خدا نے انہیں منع کر دیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ وہاں ان علاقوں میںاپنا کلام نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔اصل میں پولوس آسیہ کوچک میں کچھ وقت کے بعد گیا تھا جیسا کہ اعمال19باب10آیت بیان کرتی ہے:”یہاں تک کہ آسیہ کے رہنے والوں کیا یہودی کیا یونانی سب نے خداوند کا کلام سنا۔“ اس کے باوجود، ہم سب جانتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں دو مختلف جگہوںپر موجود ہونا ناممکن ہے۔دوسرے لفظوں میں، کلام کی تبلیغ ایک ہی وقت میں ایک ہی آدمی سے آسیہ اور بتونیہ کے ساتھ ساتھ فلپی مٰن بھی نہیں ہو سکتی۔اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا صرف کلام کی تبلیغ نہیں چاہتا، لیکن کلام کی تبلیغ میں وہ وہ چاہتا ہے جو کچھ اور جہاں اور جب اسے پسند ہے۔جیسے افسیوں 5باب23آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

”مسیح کلیسیا کا سر ہے“

         کلیسیا کا حقیقت میں ایک مالک ہے، کوئی ایسا جس کے ساتھ اس سے متعلقہ چیزوں کی صلاح لینی چاہئے۔ یہ نہ تو میں ہوں ، نہ آپ اور نہ ہی کوئی اور فانی انسان، بلکہ مسیح ہے۔ہمارے معاملے میں ، مالک اس میں کیا چاہتا ہے وہ 9اور10آیت میں درج ہے:

 

اعمال16باب9تا10آیت:
”اور پولوس نے رات کو رویا میں دیکھا کہ ایک مکدونی آدمی کھڑا ہوا اسکی منت کر کے کہتا ہے کہ پار اتر کر مکدونیہ میں آ اور ہماری مدد کر۔ اس کے رویا دیکھتے ہی ہم نے فوراً مکدونیہ میں جانے کا رادہ کیا کیونکہ ہم اس سے یہ سمجھے
کہ خدا نے انہیں خوشخبری دینے کےلئے ہمکو بلایا ہے۔“

 

         خدا کا انہیں آسیہ اور بتونیہ میں کلام سنانے کےلئے ایک خاص وقت تھا۔اسکی بجائے اس نے انہیں مکدونیہ اور یونان کے مشرقی علاقوں میں تعلیم دینے کےلئے بلایا۔انہوں نے یہ کیسے جانا؟خدا نے یہ رویا کے وسیلہ سے انہیں بتایا۔ در اصل خدا نے انہیں اس انداز سے یہ بتایا کہ انہیں یقین تھا کہ خدا انہیں وہاں جانے کی راہنمائی دے رہا تھا۔تاہم، کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ اگر وہ وہاں نہ جاتے جہاں خدا انہیں بھیجنا چاہتا تھا تو خدا اپنا کام پورا کر سکتا تھا؟میرا ایسا خیال نہیں ہے۔خدا کسی کو اپنے کھیت میں کام کرنے کےلئے مجبور نہیں کرتا۔لیکن اگر کوئی واقعی اس کے لئے کام کرنا چاہتا ہے، جو کہ خدا ہم سے چاہتا ہے[1]، تو اسے اس کے بارے میں فیصلے خود سے نہیں لینے چاہئیں کہ وہ کیسے، کب اور کہاں جائے گا، بلکہ اسے اس مالک سے صلاح لینی چاہئے جو مکمل طور پر ان سب کا ذمہ دار ہے۔

 

2فلپی کا سفر اور اس کے نتائج:

         خدا کا مکدونیہ کی طرف سفر کرنے کا واضح حکم پانے کے بعد، پولوس اور اس کے ساتھی فوراً وہاں سے روانہ ہوئے۔ 11اور12آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال16باب11اور12آیت:
”پس تراوس سے جہاز پر روانہ ہو کر ہم سیدھے سمترا کے اور دوسرے دن نیا پلس میں آئے۔ اور وہاں سے فلپی میں پہنچے جو مکدونیہ کا شہر اس قسمت کا صدر اور رومیوںکی بستی ہے اور ہم چند روز اس شہر میں رہے۔“

 

         خدا نے انہیں مکدونیہ جانے کو کہا۔ پس انہیں نے سمتراکے میں کلام سنانا بند نہیں کیا ، بلکہ سیدھے فلپی کو، مکدونیہ کے علاقے کا سب سے معروف شہر، روانہ ہوئے۔یہاں بہت سی چیزیں رونما ہوئیں جو ہم درج ذیل میں دیکھیں گے:

 

2.1لدیہ: یورپ کے پہلے ایماندار:

         13تا15سے شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں:

 

اعمال16باب13تا15آیت:
”اور سبت کے دن شہر کے دروازہ کے باہر ندی کے کنارے گئے جہاں سمجھے کہ دعا کرنے کی جگہ ہوگئی اور بیٹھ کر ان عورتیں سے اکٹھی ہوئی تھیں کلام کرنے لگے۔اور تھواتیرہ کی ایک خدا پرست عورت لدیہ نام قرمز بیچنے والی بھی سنتی تھی۔اس کا دل خداوند نے کھولا تا کہ پولوس کی باتوں پر توجہ کرے۔ اور جب اس نے اپنے گھرانے سمیت بپتسمہ لے لیا تو منت کر کے کہا کہ اگر تم مجھے خداوند کی ایماندار بندی سمجھتے ہو تو چل کر میرے گھر میں رہو۔ پس اس نے ہمیں مجبور کیا۔“

 

         کیا لدیہ خدا کی عزت کرتی تھی؟ جی ہاں، حوالہ یہ بتاتا ہے۔ تاہم، کیا وہ نجات یافتہ تھی؟ جی نہیں، کیونکہ وہ یسو ع مسیح کو نہیں جانتی تھی۔ پس، وہ کرنیلیئس کی مانند تھی: وہ ایک مذہبی شخص تھا، جو خود اور اپنے سارے خداندان سمیت خدا کا خوف رکھتا تھا اور کھلے دل سے خیرات دیتا تھا۔وہ ہمیشہ خدا سے دعا کرتا تھا(اعمال10باب2آیت)۔ پھر بھی اسے ضرورت تھی کہ پولوس اس کے گھر آئے اور اسے خدا کا کلام سنائے جس سے، جیسے کہ فرشتہ نے اسے بتایا، وہ اور اس کا خاندان نجات یافتہ بنتا(اعمال11باب14آیت)۔اسی طرح،لدیہ خدا کا احترام رکھتی تھی۔تاہم، اسے ضرورت تھی کہ کوئی اس کے پاس آتا اور اسے خداوند یسوع مسیح کے بارے میں کلام سناتا، کہ ایمان لائے اور نجات پائے۔اور بالکل ایسا ہی ہوا:خداپولوس کو سیلسیہ سے اسے کلام سنانے کےلئے پولوس کو لایا۔وہ اس پر ایمان لائی اور اسے یورپ کی پہلی ایماندار بنایا گیا۔تاہم، یہ صرف شروعات تھی۔

 

2.2بدروحوں میں گھری لڑکی:

 

16تا18آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال16باب16تا18آیت:
”جب ہم دعا کرنے کی جگہ جا رہے تھے تو ایسا ہوا کہ ہمیں ایک لونڈی ملی جس میں غیب دان روح تھی۔ وہ غیب گوئی سے اپنے مالکوں کےلئے بہت کچھ کماتی تھی۔ وہ پولوس کے اور ہمارے پیچھے آکر چلانے لگی کہ یہ آدمی خدا تعالیٰ کے بندے ہیں جو تمہیں نجات کی راہ بتاتے ہیں۔ وہ بہت دنوں تک ایسا ہی کرتی رہی۔ آخر پولوس سخت رنجیدہ ہوا اور پھر کر اس روح سے کہا کہ میں تجھے یسوع مسیح کے نام سے حکم دیتا ہوں اس میں سے نکل جا۔ وہ اسی گھڑی نکل گئی۔“

 

         یقینا اس لڑکی میں بد روحیں تھیں جو اس لڑکی کی بدولت، پولوس اور اس کے کاموں کا اشتہار دیتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔پہلی نظر میں،ایسا لگتا ہے کہ یہاں جو ہمارے پاس ہے وہ بد روح کا خدا کے کلام میں مدد دینا متناقض بات ہے! تاہم، یہ ایسا کبھی بھی کیسے ہوسکتا ہے کہ اس قسم کی چیز رونما ہو؟ میرا ایسا خیال نہیں ہے۔ جیسے پولوس نے الیماس سے کہا، جو ایک اور بد روحوں سے بھرا شخص تھا:

 

اعمال13باب9اور10آیت:
”اور ساﺅل نے جس کا نام پولس ہے روح القدس سے بھر کر اس پر غور سے نظر کی۔ اور کہا کہ
اے ابلیس کے فرزند! تو جو تمام مکاری اور شرارت سے بھرا ہوا ہے اور ہر طرح کی نیکی کا دشمن ہے کیا خداوند کی سیدھی راہوں کو بگاڑنے سے باز نہ آئے گا؟

 

         شیطان جو متواتر طور پر چاہتا ہے وہ یہ ہے(اور وہ یہ کبھی نہیں چھوڑتا): خدا کی سیدھی راہوں کو روکے۔تاہم، وہ صرف اس وجہ سے خدا کا کلام سناتا ہوا دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ پولوس کو خدا کی سیدھی راہوں سے باز رکھنا چاہتاتھا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس نے یہ کیسے کیا۔ ذرا غور کریں کہ کس طرح پولوس کا سنایا ہوا کلام اس بدروحوں والی لڑکی کے ذریعے رد کیا گیا۔ ہم یہ اس سے جانتے ہیں کیونکہ قدیم متن یہ نہیں کہتا کہ لڑکی میں خواب بینی کی روح تھی، بلکہ یہ کہ اس میں ایک ”روح“ ایک Python تھی۔ جیسے کہ [2]Zodhiates ہمیں بتاتا ہے:

 

Pythonوہ یونانی نام ہے جو قدیم کہانیوں کے ان سانپوں یا اژدھاﺅں کو دیا جاتا تھا جو پرناسوس کے پہاڑ کے نیچے Pytho میں رہتا تھا اور ڈیلفیا کی پیشن گوئیوں کی حفاظت کرتا تھا۔پھر یہ یونانی نام اپالو کے نام کا پہلا حصہ ہو گیا، جو خواب بینی اور یونانی قدیم کہانیوں کا دیوتا تھا، اور پھر خواب بینی اور پیشن گوئیوں کی روحوں پر لاگو ہوتا ہے۔“

 

         ظاہراً، یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس لڑکی میں اپالو بولتا تھا۔اس لئے متن یہ کہتا ہے کہ اس میں ایک روح، Python تھی۔اس کے علاوہ، اس کا ”خدائے عظیم“ اور جسے وہاں کے مقامی لوگ بھی جانتے تھے، خداوند یسوع مسیح کا باپ3، واحد سچا خدا نہیں بلکہ۔ ۔ ۔ Zeus [3]تھا۔اب یہ سمجھنا آسان ہے کہ پولوس کی تعلیمات کےلئے وہ کیا خلل لائی اوراس کے وسیلہ سے مخالف تبلیغ نہیں بلکہ خداوند کی سیدھی راہوں سے روکنا چاہتا تھا۔خوش قسمتی سے، وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

 

حقیقتاً اعمال16باب18آیت ہمیں بتاتی ہے:
” آخر پولوس سخت رنجیدہ ہوا اور پھر کر اس روح سے کہا کہ میں تجھے یسوع مسیح کے نام سے حکم دیتا ہوں اس میں سے نکل جا۔ وہ اسی گھڑی نکل گئی۔“

 

         پولوس کو روحوں کے علم کے وسیلہ سے پتا تھا (1کرنتھیوں12باب7تا10آیت)کہ جو اس لڑکی کے وسیلہ سے بول رہا ہے وہ شیطانی روح تھی۔اس لئے اس نے ایسے ہی براہ راست اسے ”اسی گھڑی“ باہر نکالتے ہوئے، اس سے بات کی۔

 

2.3آدھی رات میں قید خانے کا ساتھی

          بد قسمتی سے، جو آزادی اس لڑکی کو دی گئی اس سے دوسرے سب ناخوش تھے۔ اس کے مالک اس بد روح کے فریبی کاموں سے پیسہ کماتے تھے اور جب انہوں نے دیکھا کہ” انکی کمائی کی امید جاتی رہی“:

 

اعمال16باب19تا24آیت:
”جب اس کے مالکوں نے دیکھا کہ ہماری کمائی کی امید جاتی رہی تو پولوس اور سیلاس کو پکڑ کر حاکموں کے پاس چوک میں لے گئے۔ اور انہیں فوجداری کے حاکموں کے پاس لے جا کر کہا کہ یہ آدمی جو یہودی ہیں ہمارے شہر میں بڑی کھلبلی ڈالتے ہیں۔ اور ایسی رسمیں بتاتیں ہین جن کو قبول کرنا اور عمل میں لانا ہم رومیوں کو روا نہیں۔اور عام لوگ بھی متفق ہو کر ان کی مخالفت پر آمادہ ہوئے اور فوجداری کے حٓکموں نے ان کے کپڑے پھاڑ کر اتار ڈالے اور بینت لگانے کا حکم دیا۔اور بہت سے بینت لگوا کر انہیں قید خانہ میں ڈالا اور داروغہ کو تاکید کی کہ بڑی ہوشیاری سے ان کی نگہبانی کرے۔ اس نے ایسا حکم پا کر انہیں اندر قید خانہ میں ڈال دیا اور ان کے پاﺅں کاٹھ میں ٹھونک دیئے۔“

 

         اتنی بڑی مصیبت کے بعد، ہم میں سے اکثر لوگ خدا کے آگے شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس کے لئے اسے الزام دیتے ہیں جو کچھ ہوا تھا۔تاہم، ایسے موقعوں پر کلام ہمیں بڑبڑانے کو نہیں کہتا۔حقیقتاً جیسے 1پطرس4باب16آیت کہتی ہے:

 

1پطرس4باب16آیت:
”لیکن مسیحی ہونے کے باعث اگر کوئی شخص دکھ پائے تو شرمائے نہیں
بلکہ اس نام کے سبب سے خداوند کی تمجید کرے۔“

 

         پولوس اور سیلاس نے بھی بالکل یہی کیا:

 

اعمال16باب25آیت:
”آدھی رات کے قریب پولوس اور سیلاس دعا کر رہے اورخدا کی حمد کے گیت گا رہے تھے اور قیدی سن رہے تھے۔“

 

         اس حقیقت سے ہٹ کر کہ وہ دونوں زخمی شخص خدا کی حمد کے گیت گارہے تھے اور دعا کر رہے تھے، یہ بھی دیکھیں کہ سب قیدی ان کی سن رہے تھے۔اس حوالہ میں لفظ ”سن رہے “ ، یونانی لفظ ”epakroomai“ کا ترجمہ ہے جس کا سادہ مطلب ”سننا“ ہی نہیں، بلکہ ”اس خاص بات پر غور کرتے ہوئے سننا جو کہا گیا ہے۔“[4] پھر دیکھیں کیا ہوا:

 

عمال16باب26آیت:
”کہ یکایک ایک بڑا بھونچال آیا۔ یہاں تک کہ قید خانہ کی نیو ہل گئی اور اسی دم سب دروازے کھل گئے اور سب کی بیڑیاں کھل پڑیں۔“

 

         جو واقعہ درج بالا بیان ہوا ہے اسے اچھی طرح سے سمجھنے کےلئے آیئے خود کو ان قیدیوں میں سے کسی ایک کی جگہ رکھ کر دیکھیں۔پس آیئے یہ فرض کریں کہ آپ اس قید خانہ میں خاص توجہ کے ساتھ ان زخمی بندوںکو سن رہے جو دخدا کی حمد گا رہے ہیں اور اچانک زلزلہ آتا ہے۔۔۔۔ آپ کی بیڑیاں کھل جاتی ہیں اور تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔کیا آپ کو یہ واقعہ ساری عمر یاد نہیں رہے گا؟کیا یہ آپ کےلئے پولوس اور سیلاس کے خدا کو پکارنے کےلئے کافی نہیں؟در اصل، آیئے ان لوگوں میں سے جو وہاں اس وقت تھے ایک شخص کا رد عمل دیکھتے ہیں۔

 

اعمال16باب27تا30آیت:
”اور داروغہ جاگ اٹھا اور قید خانہ کے دروازے کھلے دیکھ کر سمجھا کہ قیدی بھاگ گئے۔ پس تلوار کھینچ کر اپنے آپ کو مار ڈالنا چاہا۔ لیکن پولوس نے بڑی آواز سے پکار کر کہاکہ اپنے تئیں نقصان نہ پہنچاکیونکہ ہم سب موجود ہیں۔وہ چراغ منگوا کر اندر جا کودا اور کانپتا ہوا پولوس اور سیلاس کے آگے گرا۔ اور انہیں باہر لا کر کہا اے صاحبو! میں کیا کروں کہ نجات پاﺅں؟

 

         یہ شخص کیسے اتنا پر اعتماد تھا کہ پولوس اور سیلاس اس پچیدہ سوال کا درست جواب دے سکیں گے؟ اس کی وجہ یہ تھی کیونکہ اس نے خود دیکھا تھا جب وہ خدا کی تمجید کر رہے تھے اور یہ کہ کیسے خدا نے انہیں بھونچال کے ذریعے ان کی سنی ۔اس لئے وہ ان بات کا قائل تھا کہ وہ حقیقتاً خدا کے نمائندہ کار تھے۔ اس لئے اس نے ان سے براہ راست پوچھا۔ آیئے اب ہم پولوس اور سیلاس کا جواب دیکھتے ہیں:

 

اعمال16باب31آیت:
”انہوں نے کہا کہ خداوند یسوع پر ایمان لا تو تو اور تیرا گھرانہ نجات پائے گا۔“

 

         حقیقتاً میں نہیں جانتا کہ آج کتنے لوگ پولوس اور سیلاس کی مانند نجات کےلئے سیدھے سادے ہوں گے۔ ”خداوند یسوع پرایمان لا تو تو نجات پائے گا۔“ یہی حقیقت ہے۔آپ ایمان لایں تو آپ نجات یافتہ ہیں۔آپ ایمان نہیں لاتے تو آپ نجات نہی پاتے۔ جیسے رومیوں 10باب9آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

رومیوں10باب9آیت:
”کہ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا
تو نجات پائے گا۔“

 

         کتنا آسان ہے یہ! قید خانہ کے واقعہ کی طرف واپس آتے ہوئے، پولوس اور سیلاس کا وہ جواب پانے کے بعد جو اس کو درکار تھا، انہوں نے اسے مزید تعلیم دینا جاری رکھا:

 

اعمال16باب32اور33آیت:
”اور انہوں نے اس کواور اس کے سب گھر والوں کو خدا کاکلا سنایا۔ اس نے اسی گھڑی انہیں لے جا کر ان کے زخم دھوئے اور اسی وقت اپنے سب لوگوں سمیت بپتسمہ لیا۔“

 

         اس وقت پر غور کریں جب یہ سب کچھ رونما ہوا۔یہ آدھی رات کے بعد ہوا، کیونکہ جب پولوس اور سیلاس دعا کر رہے اور گیت گا رہے تھے تو اس وقت آدھی رات تھی(25آیت)۔اس لئے آدھی رات کے بعد، پولوس، سیلاس، قید خانے کا داروغہ اور اس کے سب گھر والوں نے ایک زبردست عبادت کی جس میں بہت سی روحوں کو نجات ملی اور وہ خداوند میں شامل ہوگئے۔کون یہ تصور کر سکتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے؟اور پھر بھی یہ کلام پاک میں ہے۔تاہم، کیا یہ سب کچھ ممکن ہوتا اگر پولوس اور سیلاس دعا کرنے اور گیت گانے کی بجائے خدا پر بڑبڑاتے؟جی نہیں۔انہوں نے سب قیدیوں کو خدا کا کلام، دعا کرنے اور حمد کے گیت گانے سے، سناتے ہوئے، ان کے مشکل کے وقت خدا کے نام کو جلال بخشا۔خدا نے ایک بڑے نشان کے وسیلہ سے اپنے اس کلام کی پشت پناہی کی جس کا یقینا ان سب پر گہرا اثر ہوا۔در حقیقت، ٹھیک اسی رات قید خانے کا داروغہ اور اس کا سارا خاندان ایمان لائے اور پولوس اور سیلاس کے ساتھ آدھی رات کے بعد عبادت کی۔یقینا ایسے واقعات کا مطالعہ کرنا کتنا اچھا لگتا ہے۔اور پولوس اور سیلاس کےلئے ،اس تکلیف کے بعد جو انہوں نے سہی، یہ کتنی بڑی برکت کا باعث ہوگا۔تاہم، برکات یہاں ختم نہیں ہوئیں۔اگلے دن:

 

 اعمال16باب35تا40آیت:
”جب دن ہوا تو فوجداری کے حاکموں نے حوالداروں کی معرفت کہلا بھیجا کہ ان آدمیوں کو چھوڑ دے۔ اور داروغہ نے پولوس کو اس بات کی خبر دی کہ فوجداری کے حاکموں نے تمہیں چھوڑ دینے کا حکم بھیج دیا۔ پس اب نکل کر سلامت چلے جاﺅ۔ مگر پولوس نے ان سے کہا کہ انہوں نے ہم کو جو رومی ہیں قصور ثابت کئے بغیر علانیہ پٹوا کر قید میں ڈالا اور اب ہم کو چپکے سے نکالتے ہیں؟یہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ آپ آکر ہمیں باہر لے جائیں۔حوالداروں نے فوجداری کے حاکموں کو ان باتوں کی خبر دی۔ جب انہوں نے سنا کہ یہ رومی ہیں تو ڈر گئے۔ اور آکر ان کی منت کی اور باہر لے جاکر
درخواست کی کہ شہر سے چلے جائیں۔ پس وہ قید خانہ سے نکل کر لدیہ کے ہاں گئے اور بھائیوں سے مل کر انہیں تسلی دی اور روانہ ہوئے۔“

 

         دن کے آخر پر، فوجداری حاکموں کو شرمندگی اٹھانا پڑی نہ کہ پولوس اور سیلاس کو۔اصل میں ، انہونںنے پولوس اور سیلاس کی منت کی کہ وہ ان کے شہر سے چلے جائیں ۔ تاہم، انہوں نے پہلے ہی وہاں کلیسیا بنانے کا انتظام کر لیا تھا۔یہ کلیسیا کبھی قائم نہ ہوتی، جیسے کہ یونان میں دیگر کلیسیائیں ہیں، اگر پولوس اور اس کے ساتھی خدا کی مرضی کی فرمانبرداری نہ کرتے ہوئے مکدونیہ نہ جاتے، بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے۔ اس کے باوجود، اس حقیقت سے ہٹ کر کہ انہوں نے خدا کی مرضی پوری کی اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انہوں نے ایذا نہیں سہی۔تاہم، خدا نے تکالیف کو بھی نیکی میں بدل دیا اور اس کے وسیلہ سے بہت سی روحوں کو نجات ملی، اس جگہ پر کلیسیا کو بڑھاتے ہوئے اور اپنے لوگوں کو بڑی رہائی اور حوصلہ دیتے ہوئے۔

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 



[1] لوقا10باب2آیت دیکھیں

[2] دیکھیں Spiros Zodhiates, The complete word study dictionary, AMG publishers, 1992, p.1253.

[3] اس وقت تک مقامی لوگوں سے خدا کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں کہا تھا

[4] دیکھیں:Dimitrakos: Lexicon of all the Greek language, p. 2,688