بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

خدا :  مہربانی کا وسیلہ

 

       آستر کی کتاب میں ہمیں بار ہا بتایا گیا ہے کہ آستر مقبول ٹھہری۔   ان میںسے تین دفعہ وہ واقعات تھے جب آسترمقابلہ کےلئے گئی تھی،  یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

آستر 2باب8اور9آیت:
”سو ایسا ہوا کہ جب بادشاہ کا فرمان اور حکم سننے میں آیا اور بہت سی کنواریاں قیصر سوسن میں اکٹھی ہو کر ہیجا کے سپرد ہوئیں تو آستر بھی بادشاہ کے محل میں پہنچائی گئی اور عورتوں کے محافظ ہیجا کے سپرد ہوئی۔
   وہ لڑکی اسے پسند آئی اور
اس نے اس پر مہربانی کی اور فوراً اسے شاہی محل میں طہارت کےلئے اس کے سامان اور کھانے کے حصے اور ایسی سات سہیلیاں جو اس کے لائق تھیں اسے دیں اور اسے اور اسکی سہیلیوں کو حرام سرا کی سب سے اچھی جگہ میں لے جا کر رکھا۔ 

 

       اس حقیقت کی وجہ کہ آستر کو تیاری کا سامان،  سات سہیلیاںاور محل میں رہنے کےلئے سب سے اچھی جگہ ملی تھی کیونکہ وہ اس شخص کی نظر میں مقبول ٹھہری جو ذمہ دار تھا،  یعنی کہ ہیجا کی نظر میں مقبول ٹھہری جو عورتوں کا محافظ تھا۔ 

 

       مگر آستر صرف ہیجا کی نظر میں ہی مقبول نہ ٹھہری۔  آستر 2باب15تا17آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

آستر2باب15تا17آیت:
”جب مردکی کے چچا ابیخیل کی بیٹی آسترکی جسے مردکی نے اپنی بیٹی کر کے رکھا تھا بادشاہ کے پاس جانے کی باری آئی تو جو کچھ بادشاہ کے خواجہ سرا اور عورتوں کے محافظ ہیجا نے ٹھہرایا تھا اس کے سوا اس نے اور کچھ نہ مانگا
اور آستر ان سب کی جن کی نظر اس پر پڑی منظورِ نظر ہوئی۔   سوا آستر اخسویرس بادشاہ کے پاس اس کے شاہی محل میں اس کی سلطنت کے ساتویں سال کے دسویں مہینے میں جو ظیب مہینہ ہے پہنچائی گئی۔  اور بادشاہ نے آسترکو سب عورتوں نے زیادہ پیار میں اور وہ اس کی نظر میں ان سب کنواریوں سے زیادہ عزیز اور پسندیدہ ٹھہری۔   پس اس نے شاہی تاج اس کے سر پر رکھ دیا اور قشتی کی جگہ اسے ملکہ بنایا۔ 

 

       آستر کے ملکہ بننے کی وجہ یہ تھی کیونکہ وہ ” ان لوگوں کی نظر میں مقبول ٹھہری جنہوں نے اس پر نظر کی“،  اور سب سے بڑھ کر وہ خود بادشاہ کی نظر میں مقبول ٹھہری۔ 

        کچھ عرصہ بعد،  آستر نے ایک خطرہ اٹھایااور بادشاہ کے محل میں بن بلائے چلی گئی،  جو کہ ” قانون کے خلاف“ تھا( آستر 4باب16 آیت)۔   مگر اس کے لئے اسے موت نہ دی گئی:

 

آستر5باب2آیت:
”اور ایسا ہو کہ جب بادشاہ نے آستر ملکہ کو بارگاہ میں کھڑی دیکھا تو وہ
اس کی نظر میں مقبول ٹھہری اور بادشاہ نے وہ سنہلا عصا جو اس کے ہاتھ میں تھا آستر کی طرف بڑھایا ۔   سو آستر نے نزدیک جا کر عصا کی نوک کو چھویا۔ 

 

       اس کی وجہ کہ آستر کو موت نہ ملی کیونکہ وہ بادشاہ کی نظر میں مقبول ٹھہری۔ 

       ردرج بالا حوالہ کے علاوہ،  مطالعہ کرنے والا خود آستر 5باب8آیت،  7باب3آیت اور8باب5آیت دیکھ سکتا ہے۔   وہ یہ دیکھے گا کہ آستر نے بادشاہ کی نظر میں ایسی مقبولیت پائی کہi) اس نے اسے دوسری شاندار دعوت تیار کرنے کی اجازت دے دی(آستر 5باب8 آیت) ii) ہامان کے خوف کے حوالے سے اس نے اس کی درخواست کا جواب دیا(آستر 7باب3آیت)اورiii) اس نے ہامان کے اعلان کو مسترد کر دیا(آستر8باب5آیت)۔ 

        جیسا کہ درج بالا سے یہ ظاہر ہے کہ آستر کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی۔   وہ اس قدر مقبول ٹھہری کہ ملکہ بن گئی کیونکہ اس پر مہربانی کی گئی تھی۔   چونکہ میرا ماننا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو مہربانی کی ضرورت ہوتی ہے،  تو آستر پر مہربانی کے وسیلہ کے بارے میں جاننا دلچسپی کی بات ہوگا۔  یقیناً اگر ہم یہ وسیلہ تلاش کر لیںم تو ہم مزید ایک قدم آگے بڑھیں گے اور اپنے لئے بھی مہربانی پائیں گے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ 

 

مہربانی کا وسیلہ کون ہے؟

       مہربانی کا وسیلہ جاننے کےلئے،  ہمیں مفروضے قائم نہیں کرنے چاہئیں یا دنیاوی خیالات کی پیروی شروع کرنی چاہئے۔   صرف خدا کا کلام ہی ہے جو ہم پر اس وسیلہ کو ظاہر کر سکتا ہے اور یہ بتا سکتا ہے کہ ہم کیسے اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔   پس،  مہربانی کے منبع کے حوالے سے دسرت جواب پانے کے لئے ہم 84زبور11آیت پر جائیں گے۔   یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

84زبور11آیت:
”کیونکہ خداوند خدا آفتاب اور سپر ہے اور
خداوند فضل اور جلال بخشے گا۔   وہ راست رو سے کوئی نعمت باز نہ رکھے گا۔ 

 

       درج بالا کے مطابق،  مہربانی کا وسیلہ خوبصورتی،  اچھا مطالعہ یا کوئی بڑا انسان نہیں ہے بلکہ خداوند ہے۔  خداوند وہ ہے جو مہربانی کرتا ہے۔   آستر کی کتاب میں سے سابقہ حوالہ جات بتاتے ہیں کہ آستر پر یقینی مہربانی ہوئی۔   موجودہ حوالہ بتاتاہے کہ یہ مہربانی کہاں سے ہوئی۔   یہ،  مہربانی کا وسیلہ،  خداوند کے سوا کوئی اور نہ تھا، ۔ 

 

چند دیگر لوگ جن پر مہربانی ہوئی:

        آستر کے علاوہ چند دیگر لوگ بھی ہیں جن کا ذکر کلام کرتا ہے کہ ان پر مہربانی ہوئی۔   ان میں سے ایک یعقوب کا بیٹا یوسف تھا جو شروع مٰن مصری قید خانہ میں تھا۔  تاہم،  ہم یہ دیکھیں کہ،  صرف اس مہربانی کی بدولت جو خداوند نے اس پر کی،  اس کا انجام کیا ہوا۔ 

 

پیدائش39باب21تا23آیت:
”لیکن
خداوند یوسف کے ساتھ تھا۔   اس نے اس پر رحم کیا اور قید خانہ کے داروغہ کی نظر میں اسے مقبول بنایا۔   اور قید خانہ کے داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قیدمیں تھے یوسف کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اسی کے حکم سے کرتے تھے۔   اوروید خانہ کا داروغہ سب کاموں میں جو اس کے ہاتھ میں بے فکر تھا اس لئے کہ خداوند ااس کے ساتھ تھا اور جو کچھ وہ کرتا تھا خداوند اس میں اقبالمندی بخشتا تھا۔ 

 

       یوسف نے قید خانہ کے داروغہ کی نظر میں مقبولیت پائی کہ اس نے اسے قید خانہ کا سردار بنا دیا۔   مگر یہ مقبولیت اس نے کیسے پائی؟ اس نے یہ مقبولیت اس لئے پائی کیونکہ اس پر مہربانی کرنے والا خدا تھا۔ 

       اس ی موضوع سے متعلقہ ایک اور حوالہ خروج کی کتاب میں ہے۔   یہاں ہم پڑھتے ہیں کہ جب اسرائیلی لوگ مصر چھوڑ رہے تھے،  تو مصریوں نے انہیں ، ” سونے اور چاندی کے زیورات اور لباس“ دئیے(خروج 1باب2آیت،  3باب21آیت)۔   یعنی بہت قیمتی تحفے دئیے۔   کیوں؟ خروج3باب21آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

خروج3باب21اور22آیت:
”اور میں(خداوند
) ان لوگوں کو مصریوں کی نظر میں عزت بخشوں گا اور یوں ہوگا کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلوگے۔  بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی۔   ان کو تم اپنے بیٹوں بیٹیوں کو پہناﺅ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے۔ 

 

       اس کی وجہ کہ مصریوں نے اسرائیلیوں کو یہ قیمتی تحفے دئیے کیونکہ اسرائیلیوں نے ان کی نظر میں مقبولیت پائی تھی۔   انہیں یہ مقبولیت کیسے ملی؟ خداوند ،  جو مہربانی کا منبع ہے،  اس نے ان پر مہربانی کی۔ 

        آخر کار ،  دانی ایل ایک باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب دانی ایل نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود کو اس کھانے سے جو بادشاہ کھاتا تھا اور اس سے جو وہ پیتا تھا ناپاک نہیں کرے گا ، ”تو خدا نے دانی ایل کو خواجہ سرا ﺅں کے سردار کی نظر میں مقبول و محبوب ٹھہرایا ۔ 

        (دانی ایل 1باب9آیت)، اور خواجہ سرا نے دانی ایل اور اس کے دوستوں کو وہ کھانا دیتے ہوئے بادشاہ کی حکم عدولی کی جو موسیٰ کی شریعت کے مطابق روا ء تھا ۔ 

 

نتیجہ :

       درج بالا سب جاننے کے بعد ، یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ مہربانی کا ایک وسیلہ ہے جو مہیا کرتا ہے ، اور یہ وسیلہ خدا کے سوا ءکوئی اور نہیں ہے۔  پس ، یہ خدا ہی تھا ، مہربانی کا وسیلہ ، جس نے آستر کو تیاری کا سامان خود کو مزید خوبصورت بنانے کےلئے مہیا کیا ، جس کی بدولت اسے محل میں اچھی جگہ رہنے کو ملی ، جس کی بدولت وہ ان سب کی نظر میں مقبول ہوئی جنہوں نے اس پر نظر کی ، جس کی بدولت وہ بادشاہ کی بیوی یعنی ملکہ بن گئی ، جس کی بدولت وہ موت کے منہ سے بچ گئی جب وہ بن بلائے بادشاہ کی بارگاہ میں چلی گئی اور جس کی بدولت اسے ، مرد کی اور تمام یہودیوں کی نجات ملی ۔ 

 

       اس لئے ختم کرتے ہوئے ، مقبولیت پانے کےلئے یا مہربانی پانے کےلئے ہمیں خدا کے پاس جانا چاہئے جو یہ مہیا کرتا ہے ۔  جیسا عبرانیوں 4باب16آیت کہتی ہے ۔ 

 

عبرانیوں4باب14تا16آیت:
پس آﺅ ہم فضل کے تخت (یعنی کہ خدا کے تخت )کے پاس دلیری سے چلیں تا کہ ہم پر رحم ہو اور فضل (یونانی لفظ:  Charis“ مطلب مقبولیت ،  مہربانی[1]) حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے۔ 

 

       دیگر الفاظ میں ، آئیے دلیری سے خدا کے پاس جائیں ، تو یقینا ہم وہ مہربانی پائیں گے جسکی ہمیں ضرورت ہے ۔   

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 

 

[1] "Charis" ایک یونانی لفظ ہے جوLXXان عبرانیوں لفظوں کا ترجمہ کرتے ہوئے استعمال کرتا ہے جن کا مطلب ”مقبولیت “ پرانے عہد نامہ میں استعمال ہوا ہے،  اور صرف یہی ایک واحد لفظ ہے جس کا انگریزی نئے عہد نامہ میں ترجمہ ”مقبولیت“ ہوا ہے۔