بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

یسوع مسیح: نجات دہندہ

 

          گو کہ آج کل بہت سے لوگ یسوع مسیح کا جنم دن مناتے ہیں- کچھ لوگ مذہبی اعتبار سے تو کچھ لوگ منافع کے اعتبار سے، چند لوگ ایسے ہیں جنہیں اس پیدائش کے مقصد کی بہتر جانکاری ہے۔ در اصل۔  خدا کے کلام کے مطابق، یسوع مسیح ایک خاص مشن کیلئے پیدا ہوا، اور یہ مشن ہماری زندگیوں میں گناہ کیلئے اپنی جان دینے کا کام تھا۔ جیسا کہ فرشتے نے یوسف سے کہا ، جب یسوع مریم کے پیٹ میں تھا:

 

متی1باب21آیت:

”اس کے (مریم) بیٹا ہو گا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا۔ “

 

          عبرانی زبان میں”یسوع“ کا مطلب ہے ”خداوند (یہواہ)ہمارا نجات دہندہ“، اور حقیقتاً یہ یسوع ہی تھا جس کے وسیلہ سے خداوند ، اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے رہائی دے گا۔  جیسا کہ خدا کا کلام کیفا کی ،یسوع کے مصلوب ہونے پر،رائے پر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

یوحنا11باب50تا 52آیت:

”اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی امت کے واسطے مرے نہ کہ ساری امت ہلاک ہو۔  مگر اس نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ اس سال سردار کاہن ہو کر نبوت کی کہ یسوع اس قوم کے واسطے مرے گا۔  اور نہ صرف اس قوم کے واطے بلکہ اس واسطے بھی کہ خدا کے پراگندہ لوگوں کو جمع کر کے ایک کر دے۔ “

 

          یسوع مسیح ہم سب کے واسطے مرنے کیلئے پیدا ہوا تھا، اور اس موت کے چند اثرات کا تجزیہ ہم اس کالم میں کریں گے۔

 

 

 1    یسوع مسیح: گناہوں سے ہمیں نجات دینے والا:

 

          یسوع کی موت کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں سے ایک ہے نجات۔ ”نجات“ کسی بھی نجات دہندہ کے کام کو بیان کرتی ہے یعنی،ایسا شخص جو نجات مہیا کرتا ہے، اور یہ کفارہ ادا کرنے کا تجربہ ہے جو پہلے ہی ادا ہو چکا ہے۔ یہ جاننے کیلئے کہ وہ کون سی چیز تھی جس سے یسوع نے ہمیں نجات دلائی اور وہ کون سا کفارہ تھا جو ادا کیا ہمیں ططس2باب14آیت پر جانا ہوگا۔  یہاں ہم پڑھتے ہیں :

 

 

طِطس 2باب14آیت:

”جس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ فدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بےدینی سے چھڑالے اور پاک کر کے اپنی خاص ملکیت کیلئے ایک ایسی امت بنائے جو نیک کاموں میں سر گرم ہو۔ “

 

          یسوع مسیح نے ہمیںہماری تمام تر بےدینی سے نجات دی اور اس نے یہ اپنے آپکو دے دینے سے کیا۔ دیگر الفاظ میں ، وہ ہماری تمام بدکرداری سے نجات کا کفارہ تھا۔ جیسا کہ اس نے خود متی 20باب28آیت میں کہا:

 

متی20باب28آیت:

”چنانچہ ابنِ آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدامت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔

 

          یسوع مسیح ”خدمت کرنے اور اپنی جان فدیہ میں دینے کیلئے آیا“۔ اور جتنا بڑا یہ فدیہ تھا جو ادا کیا گیا اتنی ہی عظیم نجات تھی جو حاصل کی گئی۔ عبرانیوں 9باب11تا 12آیت ہمیں نجات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہے:

 

عبرانیوں 9باب11اور 12آیت:

”لیکن مسیح آئندہ کی اچھی چیزوں کا سردار کاہن ہو کر آیا تو اس بزرگ تر اور کامل تر خیمہ کی راہ سے جو ہاتھوں کا بنا ہوا یعنی اس دنیا کا نہیں۔  اور بکروں اور بچھڑوں کا خون لے کر نہیں بلکہ اپنا ہی خون لے کر پاک مکان میں ایک ہی بار میں داخل ہوگیا اور ابدی خلاصی کرائی۔ “

 

          شریعت کے کاہن بھیڑ اور بکریوں کی قربانی دیتے تھے جن کے خون سے وہ گناہوں کی معافی حاصل کرتے تھے۔ جیسا کہ م بعدمیں دیکھیں گے، کہ جو کچھ وہ کرتے تھے وہ غیر موزوں تھا۔ اس کے برعکس، یسوع نے خدا کے حضور اپنا خون پیش کیا جس کے وسیلہ سے اس نے ہمارے لئےا بدی نجات حاصل کی۔ جیسے افیسوں 1باب7آیت اور کلسیوں 1باب14آیت بھی کہتی ہے:

 

افسیوں 1باب7آیت:

ہم کو اس میں اس کے خون کے وسیلہ سے یعنی قصوروں کی معافی اس کے اس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے۔ “

 

کلسیوں 1باب14آیت:

”جس میں ہم کو مخلصی یعنی گناہوں کی معافی حاصل ہے۔ “

 

          نجات ہمارے اچھے اعمال اور رویے سے نہیں ہے۔ یہ ہماری مذہبی وفاداری میں نہیں ہے۔ یہ ہماری ذاتی اقدار میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ یسوع مسیح میں ہے۔ اور یہ نجات ”خدا کے فضل کی دولت “ کے موافق نجات ہے، یعنی کہ ایک بکثرت، مکمل اور جیساکہ ہم پڑھتے ہیں ابدی نجات ہے۔

 

 

2     یسوع مسیح:آدم کے گناہ سے ہمیں رہائی دینے والا:

 

          جیسا کہ یہ سابقہ حصے میں بیان کیا گیا تھا ، یسوع مسیح وہ فدیہ ہے جو ہمارے تمام گناہوں کیلئے دیا گیا، جیسے کہ ططس 2باب14آیت کہتی ہے کہ ”ہماری تمام بے دینی “ کیلئے فدیہ دیا گیا۔  تاہم، یہ واضح کرنا مناسب ہے کہ اس ”تمام تر“ میں ا گناہوں کے علاوہ جو ہماری زندگی کے دوران سر زد ہوئے ، اس میں آدم کا گناہ بھی شامل ہے جو اس نے کیا، اور جو ہر انسان میں نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، اور انسان کوانکی پیدائش کے عین موقع پر ہی انہیں گناہگار بنا دیتا ہے۔ رومیوں 5باب18اور 19آیت ہمیں بتاتی ہے:   

 

رومیوں 5باب18اور 19آیت:

”غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزاءکا حکم تھا ویسا ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی آدمی کی نافرمانی کی وجہ سے سب لوگ گناہگار ٹھہرے اسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے۔ “

 

          آدم کی نافرمانی نہ صرف اس کے گناہ کا باعث بنی ، بلکہ اس نے ان تمام لوگوں کو بھی گناہگار ٹھہرایا جو بعد ازا ں پیدا ہوئے، گو کہ انہوں نے خود وہ گناہ نہیں کیا تھا۔ لہٰذہ ایسا کوئی شخص نہیں ہے کو کہہ سکے کہ اسے نجات کی ضرورت نہیں، حتیٰ کہ تصوراتی طور پر ، (اور صرف تصوراتی طور پر[1] ) ایسا ہو سکتا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا،پھر بھی ایک آدم کا گناہ ہے جو اسے اس کی پیدائش سے ہی گناہگار ٹھہراتا ہے۔ یقینا اس لئے، اگر اس میں آدم کا گناہ شامل نہ ہوتا تو ہماری نجات غیر موزوں تھی۔  اس لئے کیا فئدہ ہوتا اگر ہم صرف ان گناہوں سے ”نجات“ پاتے جو ہم نے کئے اور ان گناہوں سے رہائی نہ پاتے جو ہم نے نہیں کئے ، پھر بھی ہم ان کے قصور وار ہیں(آدم کا گناہ)؟لہٰذہ، یسوع مسیح نے ہمیں اس گناہ سے بھی رہائی دینی تھی جو آدم کی طرف سے ہمیں ملا۔  اور یہی اس نے کیا۔ رومیوں 5باب19آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

رومیوں 5باب19آیت:

”کیونکہ جس طرح ایک ہی آدمی کی نافرمانی کی وجہ سے سب لوگ گناہگار ٹھہرے اسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے۔ “

 

          گو کہ آدم کا گناہ ، تمام انسانیت کو متاثر کرتے ہوئے، نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، خداوند یسوع مسیح کی قربانی اور فرمانبرداری کے باعث، ہم نہ صرف اس گناہ سے بلکہ ان تمام گناہوں سے چھٹکارہ پات ہیں جو ہماری زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جیسا کہ ططس2باب14آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

ططس 2باب14آیت:

”جس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ فدی ہو کر ہمیں ہر طرح کی بےدینی سے چھڑالے۔ ۔ ۔ “

 

          جس یہ کہتا ہے کہ” ہر طرح کی بے دینی “ تو ہر طرح کی بے دینی میں آدم کا گناہ بھی شامل ہوتا ہے۔ آج جب کوئی پیدا ہوتا ہے، وہ ابھی بھی گناہگار ہی پیدا ہوتا ہے۔  تاہم، اب یہاں اس صورتِ حال میں ایک راستہ ہے، کہ خداووند یسوع مسیح پر ایمان لانا۔ اعمال 1باب 43آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:

 

اعمال10باب 43آیت:

اس شخص کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے گا اس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا۔ “

 

          یہ اس قدر آسان ہے: آپ یسوع مسیح پر ایمان لائیں اور آپ کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ تاہم اسے حاصل کرنے کیلئے بہت بڑی قیمت دینا ہوتی ہے۔  اس کی قیمت خدا کے اکلوتے بیٹے کا قیمتی خون ہے۔

         

اسلئے، گو کہ پہلی پیدائش میں ہم گناہ گار پیدا ہوئے،دوسری پیدائش میں ، نئے سرے سے پیدا ہونے میں (یوحنا 3باب3تا 8آیات دیکھیں) جو اس وقت رونما ہوئی جب ہم یسوع مسیح پر اس کے جی اٹھنے پر ایمان لائے، ہم دوبارہ مکمل طور پر پاک پیدا ہوئے،کیونکہ ایمان لانا، جو کہ دوسری پیدائش کا ذمہ دار ہے، ہمیںسارے گناہوں سے پاک صاف کرتا ہے۔

 

 

 3.   یسوع مسیح: کامل قربانی:

 

          یہ دیکھتے ہپوئے کہ یسوع مسیح کی قربانی نے ہمیں تمام گناہوں سے نجات بخشی، کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ پھر ان تمام تر قربانیوں کا اور نذرانوں کا کیا کردار ہے جن کا تذکرہ شریعت میں پایا جاتا ہے[2]، اور جن کا مقصد گناہوں کی معافی تھا جس کے لئے وہ گزرانی جاتی تھیں؟ اس سے قبل کہ ہم ان قربانیوں کی اہمیت کے حوالے سے کچھ کہیں، یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ شریعت میں یہ آدم کے گناہ کیلئے کبھی بھی بیان نہیں کیا گیا۔ انسان کو کچھ بھی اس گناہ سے بچنے کے قابل نہ بنا سکا۔ لہٰذہ لوگ گناہگار پیدا ہوتے اور گناہگار ہی رہتے حتیٰ کہ وہ ان سب قربانیوں کو پورا کرتے جو یہاں درج ہیں۔  یہ صورتِ حال صرف یسوع مسیح کی قربانی سے بدلی جس کے بعد، گو کہ ہم ابھی بھی گناہگار ہی پیدا ہوتے ہیں، ہم اس گناہ سے پاک ہو سکتے ہیں اور درحقیقت ہر گناہ سے ، یسوع پر ایمان لاتے ہوئے ، پاک ہو سکتے ہیں۔

          اب، آدم کا گناہ ایک طرف رکھتے ہوئے، اور شریعت میں درج گناہوں کیلئے قربانیوں اور نذرانوں کی طرف آتے ہوئے، خدا کا کلام ان سب کو غیر موزوں قرار دیتا ہے۔  عبرانیوں 10باب1تا4آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

 

عبرانیوں 10باب1تا 4آیت:

”کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اور ان چیزوں کی اصلہ صورت نہیں اس ایک ہی طرح کی قربانیوں سے جو ہر سال بلا ناغہ گزرانی جاتی ہیں پاس آنے والوں کو ہر گز کامل نہیں کر سکتی۔ ورنہ اس کا گزراننا موقوف نہ ہو جاتا؟کیونکہ جب عبادت کرنے والے ایک بار پاک ہو جاتے ہیں تو پھر ان کا دل انہیں گناہگار نہ ٹھہراتا۔  بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دلاتی ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دور کرے۔ “

 

          جیسا کہ درج بالا حوالے میں آخری آیت اسے واضح کرتی ہے کہ ، شریعت میں بیان کردہ گناہوں کی معافی کیلئے جانوروں کی قربانیاں ، اس کام کیلئے غیر موزوں ہیں ، جیسا کہ یہ کہتا ہے کہ،”ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دور کرے۔ “ جبکہ عبرانیوں 9باب 22 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:

 

عبرانیوں 9باب22آیت:

بغیر خون بہائے معافی نہیں۔ “

 

          یہ ظاہر ہے کہ حقیقی کفارے کیلئے ایک اور خقن کا بہایا جانا ضروری تھا۔ یہ کون سا خون تھا؟ یسوع مسیح کا خون۔ عبرانیوں 10باب6تا12 آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

عبرانیوں 10باب 10تا 12آیت:

”اسی مرضی کے سبب سے ہم یسوع مسیح کے جسم کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلے سے پاک کئے گئے ہیں ۔ اور ہر ایک کاہن تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں بار بار گزرانتا ہے جو ہر گز گناہوں کو دور نہیں کر سکتیں۔  لیکن یہ شخص ہمیشہ کیلئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گزران کر خدا کے دہنی طرف جا بیٹھا۔ “

 

          یسوع مسیح نے گناہ کا مسئلہ ”سب کے واسطے ایک ہی بار“ کے ساتھ سلجھایا۔ اس لئے اب مزید دوسری قربانیوں کی ضرورت نہیں جیسا کہ عبرانیوں 10باب18آیت بہت واضح طور پر بیان کرتی ہے :

 

عبرانیوں 10باب18آیت:

”اور جب ان کی معافی ہو چکی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔

 

          یہ حوالہ یہ ہر گز نہیں کہتا کہ اب گناہ نہیں ہے۔ یہ کہتا ہے کہ اب گناہ کیلئے قربانیاں نہیں ہیں۔ اور یہ اس لئے ہے کیونکہ یسوع کی قربانی گناہ کے خلاف ابدی قوت رکھتی ہے۔ نہ صرف ان گناہوں کے خلاف جو ہم نے غیر نجات یافتہ ہوتے ہوئے کئے یا آدم کے گناہ کے خلاف بلکہ ان گناہوں کے خلاف بھی جو ہم نے مسیحی ہوتے ہوئے کئے۔ یہ گناہ بھی یسو ع مسیح کے نجات بخش خون کے وسیلہ سے معاف کئے گئے، جب خدا کے سامنے ان کا اقرار کیا گیا۔ 1یوحنا 1باب7تا 9آیت کہتی ہے:

 

1یوحنا 1باب7تا9آیت:

”لیکن اگر ہم نور میں چلیں جس طرح کہ وہ نور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہوں سے پاک کرتا ہے۔  اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔ اور ہم میں سچائی نہیں۔ اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔ “

 

          یسوع مسیح کا خون ہی وہ واحد دوا ہے جس ہماری گناہ کی بیماری کو دور کر سکتی ہے۔ شریعت نے اس گناہ کیلئے قربانی کا حکم دیا۔ اور پھر بھی یہ تمام قربانیاں گناہ کی بیماری کا اعلاج نہیں کر سکتیں۔ تاہم، جو کچھ شریعت حاصل نہ کر سکی، وہ یسوع مسیح نے خود کی قربانی دیتے ہوئے حاصل کیا۔ اب، ہر کوئی جو اس پر ایمان لاتا ہے اپنے تمام تر گناہوں کی ناپاکی سے دھل جاتا ہے۔  جیسے مکاشفہ 1باب5آیت کہتی ہے:

 

مکاشفہ1باب5آیت:

”اور یسوع مسیح کی طرف سے جو سچا گواہ اور جی اٹھنے والوں میں سے پہلوٹھا اور دنیا کے بادشاہوں پر حاکم ہے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے ۔  جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور جس نے خون کے وسیلہ سے ہمیں گناہوں سے خلاصی بخشی۔

 

          یسوع مسیح نے ہمیں اپنے خون کے وسیلہ ہمارے گناہوں سے پاک کیا۔ اسی نے یہ کام کیا۔ حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہا گیا کہ ہم نے خود کو دھویا۔  اسی نے یہ سب کچھ کیا۔ اور اس نے یہ کامل طور پر بنا کسی اور کی مدد کے کیا۔

 

 

4.    یسوع مسیح : خدا کے ساتھ ہماری موافقت:

 

          یہ دیکھنے کے بعد کہ یسوع مسیح کی قربانی نے ہمیں گناہوں سے رہائی بخشی ہے، آیئے اب مزید کچھ جاننے کیلئے آگے بڑھتے ہیں کہ اس نے ہمیں کسی اور چیز بھی بخشی ہے۔  وہ کیا تھا؟خدا کے ساتھ ہماری موافقت۔ در حقیقت یسوع کی قربانی دے قبل ہم گناہگار تھے اور خدا کے دشمن بھی، اس کی قربانی کے بعد اور اس پر ایمان لانے کے بعد، ہمیں نجات ملی اور ہمارے تمام گناہوں سے دھل گئے۔ اس سے ہم راستباز ٹھہرے اور خدا کے ساتھ باہمی رفاقت میں آگئے۔ جیسے رومیوں 5باب6تا 10آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:

 

رومیوں 5باب6تا 10آیت:

”کیونکہ جب ہم کمزور ہی تھے تو عین وقت پر مسیح بے دینوں کی خاطر موا۔ کسی راستباز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا مگر شاید کسی نیک آدمی کیلئے کوئی اپنی جان تک دینے کی جرات کرے۔  لیکن خدا پنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گناہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔ پس جب ہم اس کے خون کے باعث اب راستباز ٹھہرے تو اس کے وسیلہ سے غضبِ الٰہی سے ضرور ہی بچیں گے۔ کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اسکی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔

 

          یسوع مسیح ہماری خاطر موا، جب ہم ابھی گناہگار اور خدا کے دشمن ہی تھے۔ اس کی موت سے، اس نے ہمیں خدا کے ساتھ ملایا، کیونکہ اس کی موت نے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کیا اور جب ہم اس پر ایمان لائے تو اس نے ہمیں گناہگاروں سے راستباز ٹھہرا کر تبدیل کر دیا۔  جیسے 1پطرس 3باب18آیت کہتی ہے:

 

1پطرس3باب18آیت:

”اس لئے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کیلئے گناہوںکے باعث ایک بار دکھ اٹھایا تا کہ ہم کوخدا کے پاس پہنچائے۔  وہ جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا مگر روح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا۔ “

 

          یسوع مسیح ، ایک راستبازنے ہم سب ، ناراستوں کیلئے دکھ اٹھایا، اور اس کی قربانی کی بدولت وہ ہمیں خدا کے پاس لایا۔ اب اگر مسیح ہمیں خدا کے پاس لایا ہے، کیا ہمیں مزید خدا کے پاس لائے جانے کی ضرورت ہے؟ جی نہیں ، کیونکہ مسیح نے یہ کردیا ہے۔ بطور مسیحی ہم خدا سے دور نہیں ہیں ، نہ ہی ہمیں خدا کے پاس لائے جانے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ہم اس کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں۔ اور یہ ہم نے ممکن نہیں بنایا بلکہ یسوع نے ممکن بنایا۔ جیسے کہ متن بیان کرتا ہے:”اس نے دکھ اٹھایا۔ ۔ ۔ تاکہ ہمیں خدا کے پاس پہنچائے۔ “ اس کے علاوہ، کلسیوں 1باب 19 تا 23آیت کہتی ہے:

 

کلسیوں 1باب19تا 23آیت:

”کیونکہ باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معموری اسی میں سکونت کرے۔ اور اس کے خون کے سبب سے جو صلیب پر بہا صلح کر کے سب چیزوں کا اسی کے وسیلہ سے اپنے ساتھ میل کر لے۔ خواہ وہ زمین کی ہوں خواہ آسمان کی۔ اور اس نے اب اس کے جسمانی بدن میں موت کے وسیلہ سے تمہارا بھی میل کر لیا۔ جو پہلے خارج اور برے کاموں کے سبب سے دل سے دشمن تھے وہ تم کو مقدس بے عیب اور بے الزام بنا کر اپنے سامنے حاضر کرے۔ بشرطیکہ تم ایمان کی بنیاد ہر قائم اور پختہ رہواور اس خوشخبری کی امید کو جسے تم نے سنا نہ چھوڑو جس کی منادی آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں کی گئی اور میں پولوس اسی کا خادم ہو ں۔ “

 

          کیا اب ہم خدا کے مخالف اور دشمن ہیں؟کیا ہم اس کے لئے پردیسی ہیں؟جی نہیں۔  ایک وقت تھا جب ہم ”دشمن اور مخالف “ تھے۔  اب ہم نہیں ہیں۔ کیونکہ،”اب اس کے (یسوع کے) جسمانی بدن میں موت کے وسیلہ سے ہمارا ملاپ ہوا ہے۔ “جیسے افسیوں 2باب19آیت کہتی ہے:

 

افسیوں 2باب19آیت:

پس اب تم پردیسی اورمسافر نہیں رہے بلکہ مقدسوں کے ہموطن اور خدا کے گھرانے کے ہو گئے ۔ “

 

 

5.    اختتام:

 

          اس کالم میں ہم نے یسوع مسیح کی قربانی کے چند اثرات کا ، گناہ کے تلخ ہونے پر زور دیتے ہوئے ، تجزیہ کیا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا، اس کی موت کے وسیلہ سے یسوع نے ہمیں گناہوں سے نجات بخشی، جس میں ، اس نے خدا کے ساتھ ہمارا میل کراتے ہوئے، آدم کے گناہ سے بھی نجات دی۔ اسی لئے آج ہم نہ تو گناہگار، نہ پردیسی اور نہ ہی خدا کے دشمن ہیں۔ بلکہ، اب ہم نجات یافتہ، راستباز، پاکیزہ اور خدا کے ساتھ منسلک ہیں،اور یہ اس لئے نہیں کہ ہم نے اس کیلئے کچھ کیا بلکہ یسوع مسیح ہمارے نجات دہندہ نے ہم سب کیلئے کفارہ دیتے ہوئے ہمیں نجات دی۔ اس کالم کو ختم کرتے ہوئے، آیئے 1پطرس1باب18اور 19آیت کے الفاظ کو ذہن نشین کرتے ہیں جو کہتے ہیں:

 

1پطرس1باب18تا 19آیت:

”کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارا نکما چال چلن جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اس سے تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعے نہیں ہوئی ۔  بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ برے یعنی مسیح کے بیش قیمت خون سے۔ “

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :

 

[1] جیسے کہ 1یوحنا 1باب10آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:”اور اگر ہم کہیں کہ ہم نے گناہ نہیں کیا تو اسے جھوٹا ٹھہراتے ہیں اور اس کا کلام ہم میں نہیں۔“

[2] مثال کے طورپر، خروج ،احبار، گنتی، اور استِشنا دیکھیں