بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

فیصلہ سازی اور اس کے اثرات: پولوس کے روم کی طرف سفر کی ایک مثال

 

        اس کالم میں آپ کے ہمراہ اعمال27باب پہ جانا چاہوں گا۔   یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پولوس اور اس کے ساتھ سفر کرنے والے کچھ ساتھی شاگرد روم کی طرف سفر کرتے ہیں۔  پولوس وہاں قیصر کے سامنے ایک قیدی کے طور پر حاضر ہونے کےلئے جا رہا ہے۔  7آیت سے آغاز کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں:

 

اعمال27باب7تا10آیت:
 
“ اور ہم بہت دنوں تک آہستہ آہستہ چل کر جب مشکل سے کندس کے سامنے پہنچے تو اس لئے کہ ہوا ہم کو آگے بڑھنے نہ دیتی تھی سلمونے کے سامنے سے ہو کر کریتے کی آڑ میں چلے۔   اور بمشکل اس کنارے کنارے چل کر حسین بندر نام ایک مقام میں پہنچے جس سے لسیہ شہر نزدیک تھا۔  جب بہت عرصہ گزر گیا اور جہازکا سفر اس لئے مشکل ہو گیا کہ روزہ کا دن گزر چکا تھا تو پولوس نے انہیں یہ کہہ کر نصیحت کی کہ اے صاحبو! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میں بہت تکلیف اور نقصان ہوگا۔  نہ صرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔  

 

        یہ ایک مشکل سفر تھا۔  آخر کار وہ ایک حسین بندر پر پہنچے۔  آندھی چل رہی تھی۔  یہ فقرہ کہ    جہاز کا سفر اس لئے مزکل ہو گیا کہ روزہ کا دن گزر چکا تھا “ شاید اس واقعہ کو اکتوبر کے مہینہ میں ظاہر کرتا ہے، جو کفارے کے روزوں کا مہینہ ہے۔  کلامکہتا ہے کہ پولوس نے ان کو بتایا تھا کہ سفر جاری رکھنا خطرناک ہے۔   اس نے کہا کہ یہ نہ صرف جہاز کے لئے نقصان دہ تھا بلکہ ان کی جانوں کےلئے بھی تھا جو اس میں سوار تھے۔  پھر ا س کے بعد کی آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال27باب11آیت:
 
“ مگر صوبہ دار نے ناخدا اور جہاز کے مالک کی باتوں کا پولوس کی باتوں سے زیادہ لحاظ کیا۔  

 

        اگر چہ پولوس کو صورتِ حال کی اور جو ہونے کو تھا اس حوالے سے ساری آگاہی تھی،  مگر وہ جہاز کا مالک نہیں تھا۔   مالک ایک رومی صوبہ دار،  شاید بتوں کی پوجا کرنے والا تھا۔  وہ اس جہاز کی راہنمائی کر رہا تھا جس میں کافی ایماندار سوار تھے۔  کیا ایسا کبھی آپ کے ساتھ ہوا کہ آپ ایک ایسے  “ جہاز “  پر سوار ہوں جہاں آپ دوسرے کےسا تھ ہیں جو شاید ایماندار ہیں اور غیر ایماندار بھی ہیں ،  جس میں جو شخص  “ جہاز “  میں راہنما ہے،  جو اس سفر کے حوالے سے بہت خاص قسم کے فیصلے لیتا ہے،  آپ نہ ہوں؟ آپ شاید نتائج جانتے ہوں مگر آپ صرف صلاح دے سکتے ہیں۔  آپ کہہ سکتے ہیں ،  “ میرا خیال ہے کہ ہمیں سفر نہیں کرنا چاہئے ۔   مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔   “ مگر بعض اوقات یہاں اس کے مخالف آوازیں بھی ہوتی ہیںاور وہ شخص جس نے فیصلہ لینا ہوتا ہے وہ درست اواز کو سننے کی بجائے ،  وہی کام کرتا ہے جو مخالف آوازیں کہہ رہی ہوتی ہیں۔   تب آپ کیا کرتے ہیں؟  کیا آپ جہاز سے نیچے کود جاتے ہیں؟ بعض اوقات شیاد آپ ایسا کر سکتے ہیں اور شاید یہی بہتر ہوتا ہے۔  مگر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا اور کچھ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں جن میں ایسا نہیں ہوسکتا۔  مثال کے طور پر آپ اپنے خاندان سے باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ ایک فرد خاندان کےلئے غلط فیصلہ نہیںلیتا۔  آپ صلاح دے سکتے ہیں،  آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خطرناک بات ہے اور یہ اچھا فیصلہ نہیں ۔  مگر ایک وقت کے بعد آپ ان کی زندگی کا ہینڈل اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے اور ان سے وہ نہیں کروا سکتے جو آپ چاہتے ہیں کہ وہ کریں۔  دوسری طرف،  خاندان میں ہر کسی کو یہ بات (اس اچھی مثال کو مدِنظر رکھتے ہوئے)   سمجھنی چاہئے کہ اگر چہ  “ یہ ان کی زندگی ہے “ ،  لیکن وہ اکیلے اس جہاز پر سفر نہیں کر رہے۔  دونوں وہ اور خاندان کے دوسرے اراکین سب اس جہاز پر سفر کر رہے ہیں۔  اور اگر ایک فرد اس سفر کو غیر عقلمندانہ طور پر چلانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سے سب خاندان والوں پر اثر ہوتا ہے، کیونکہ ہر کوئی ایک ہی جہاز میں سوار ہے۔  مجھے نہیں پتہ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں کہ نہیں۔  وہ لوگ جن کے بچے ہیں اور جو ایک اچھی خاندانی زندگی میں رہتے ہیں شاید وہ میری بات کو سمجھ رہے ہیں۔  خدا ہمارے لئے بھی ایسا ہی کرتا ہے۔  وہ ہمیں نصیحتیں کرتا ہے،  وہ ہمیں بتاتا ہے کہ کہاں سفر کرنا ہے اور کہاں نہیں،  لیکن اگر ہم اس کی نہیں سننا چاہتے اور دوسری مخالف آوازوں پر توجہ دینا چاہتے ہیں تو اندازہ کریں کہ کیا ہو گا: ہم مشکل کا شکار ہو جائیں گے۔  اس معاملے میں، خدا بے درد نہیں ہے کیونکہ آخر کار یہ  “ ہماری زندگیاں “  ہیں۔  اس کی بجائے،  وہ اس کےلئے افسردہ ہے،  کیونکہ آخر کار وہ بھی اسی جہاز میں ہمارے ساتھ ہے۔  اعمال کی طرف واپس آتے ہوئے، جو ہمارا معاملہ ہے یہاں یہ اس سے تھوڑا مختلف اس لحاظ سے ہے کہ ایماندار، جوجا نتے ہیں کہ کیا کرنا عقلمندی ہے، ایک رومی صوبہ دار کے ماتحت ہیں جو ان کی حکمت کی باتوں کی بجائے جہاز کے مالک کی آواز پر توجہ دے رہا ہے۔  مزید جاننے کےلئے کہ کیا ہوا آگے پڑھتے ہیں:

 

اعمال27باب12تا14آیت:
 
“ اور چونکہ وہ بندر جاڑوں میں رہنے کےلئے اچھا نہ تھا اسلئے
اکثر لوگوں کی صلاح ٹھہری کہ وہاں سے روانہ ہوں اور اگر ہوسکے تو فینکس میں پہنچ کر جاڑا کاٹیں۔   وہ کریتے کا ایک بندر ہے جس کا رخ شمال مشرق اور جنوب مشرق کو ہے۔   جب کچھ کچ دکھنا ہوا چلنے لگی تو انہوں یہ سمجھ کر کہ ہمارا مطلب حاصل ہوگیا لنگر اٹھا یا اور کریتے کے کنارے کے قریب قریب چلے۔  لیکن تھوڑی دیر بعد ایک طوفانی ہوا جو یور کلون کہلاتی ہے کریتے سے جہازپر آئی۔  

 

         “ اکثر لوگوں کی صلاح ٹھہری کہ وہاں سے روانہ ہو! “ کیا جو ہم سن رہے ہیں وہ اکثریت کی آواز ہے یا جو خدا کہہ رہا ہے؟ یہ سب شاید بہت اچھا دکھائی دے، ہوسکتا ہے کہ ایک اچھی اور پر سکون ہوا چل رہی ہو اور ہمیں لگے کہ ہم نے اپنی منزل پا لی ہے لیکنتھوڑی دیر بعد ہی چیزیں بدل جائیں۔  درحقیقت،  جلد ہی یا کچھ دیر بعد سب کچھ بدل ہی جائے گا،  اگر خدا نے ایسا کہا ہے!جیسا یہاں ہوا:  زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ طوفانی ہوا چلنے لگی اور ان کی مشکلات شروع ہوگئیں۔ 

 

اعمال27باب15تا26آیت :
 
“ اور جب جہاز ہو اکے قابو میں آگیا اور اس کا سامنا نہ کر سکا تو ہم نے لاچار ہو کر اس کو بہنے دیا۔  اور کودہ نام ایک جزیرے کی آڑ میں بہتے بہتے ہم بڑی مشکل سے ڈونگی کی قابو میں آئے۔   اور جب ملاح اس کو اوپر چڑھا چکے تو جہاز کی مضبوطی کی تدبیریں کر کے اس کو نیچے سے باندھا اور سورتس کے چور بالو میں دھس جانے کے ڈر سے جہاز کا سازو سامان اتار لیاا ور اسی طرح بہتے چلے گئے۔  مگر جب ہم نے آندھی سے بہت ہچکولے کھائے تو وہ جہاز کا سامان پھینکنے لگے۔   اور تیسرے دن انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز کے آلات و اسباب بھی پھینک دئیے۔  اور جب بہت دنوں تک نہ سورج نظر آیا نہ تارے اور شدت کی آندھی چل رہی تھی تو آخر ہم کو بچنے کی امید بالکل نہ رہی۔  اور جب بہت فاقہ کر چکے تو پولوس نے ان کے بیچ میں کھڑے ہو کر کہا اے صاحبو! لازم تھا کہ تم میرے بات مان کر کریتے سے روانہ نہ ہوتے اور یہ تکلیف اور نقصان نہ اٹھاتے۔  مگر اب میں تم سے کہتا ہوں کہ خاطر جمع رکھو کیونکہ تم میں سے کسی کی جان کا نقصان نہ ہو گا مگر جہاز کا۔  کیونکہ خدا جس کا میں ہوں اور جس کی عبادت کرتا ہوں اس کے فرشتہ نے اسی رات کو میرے پاس آکر کہا اے پولوس!نہ ڈر ضرور ہے کہ تو قیصر کے سامنے حاضر ہو اور دیکھ جتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میںسوار ہیں ان سب کی خدا نے تیری خاطر جان بخشی ہے۔  اسلئے اے صاحبو! خاطر جمع رکھو کیونکہ میں خدا کا یقین کرتا ہوں کہ جیسا مجھ سے کہا گیا ہے ویسا ہی ہوگا۔  لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم کسہ ٹاپو میں جا پڑیں۔  

 

        آخر کار سب کچھ ویسے ہی بدل گیا جیسا پولوس نے حسین بندر پر نکلنے سے پہلے کہا تھا۔  یونہی ہونوں نے سفر دوبارہ شروع کیا اس کے تھوڑی دیر بعد ہی مشکلات شروع ہو گئیں اور یہ ٹھیک ہوتی ہوئی نظر نہیں آئیں۔  بلکہ یہ بد سے بدترین ہوتی گئیں۔  اس وقت ایماندار کہاں تھے؟ وہاں،  جہاز میں ہی۔  کیا یہ ان کی غلطی تھی کہ جہاز سفر کےلئے وانہ ہوا؟  جی نہیں۔   پولوس نے ان سے کہا تھا کہ کہ ایسا نہ کریں۔  تاہم وہ اس مشکل سے الگ نہ تھے۔  وہ انہی کی طرح اسی جہاز میں تھے جنہوں نے فیصلہ کیا تھا۔  کچھ ایسے جہاز ہوتے ہیں جن پر ہم دوسرے کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔  ان میں سے کچھ جہازوں کے  “ راہنما “  ہم خود ہوتے ہیں۔  جب کوئی غلط فیصلہ لیا جاتا ہے ہے تو ہر کوئی جو اس جہاز پر سوار ہوتا ہے وہ اس سے متاثر ہوتا ہے، حتیٰ کہ اگر وہ جانتا بھی ہے کہ یہ غلط فیصلہ تھا۔  آپ کو ایک عملی مثال دینے کےلئے،  آپ اپنے خاندان کے بارے میں دوبارہ غور کریں۔  آپ ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی ہو سکتے ہیں جو فلاں فلاں شخص سے شادی کرنے کا سوچ رہیں ہیں کیونکہ،     آپ اس لڑکے یا لڑکی سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں! “ ہر چیز بہت بھلی لگتی ہے،  مگر نوجوان میں آپ سے کھلے دل سے بات کرتا ہوں:  شادی شدہ زندگی “ محبت سے  “ کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔  محبت کرنا اچھا ہے مگر یہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔  جو چیز آپ کے ساتھ رہے گی ،  جو آپ کی شادی کو زیادہ خوشگوار بنائے گی،  وہ آپ کا کردار ہے۔  آپ کا کردار اور آپکے ساتھی کا کردار۔  کیا دوسرا شخص ایسا مسیحی ہے جو ایمانداری سے خدا سے محبت رکھتا ہے؟ کیا وہ لڑکا یا لڑکی اقدار اور اصولوں والا شخص ہے؟ مثال کے طور پر خاندان اور کام کے حوالے سے اس مکی اقدار کیا ہیں؟ کیا وہ ایسا شخص ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے یا وہ ان ذمہ داریوں کو دوسروں پر چھوڑ دیتا ہے؟  یہ وہ باتیں ہیں جن کے ساتھ آپ کو رہنا ہے اور اگر ان میں سے کوئی چیز ان میں نہیں ہے تو  “ محبت کرنے “  کی صورتِ حال ہفتوں میں ہی ختم ہو جائے گی اور مسائل کھڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔  مسائل بڑی بڑی لہروں کی مانند اور آپ ایک چھوٹی سی کشتی کی مانند ہوں گے۔  مگر اس چھوٹی سی کشتی میں صرف آپ نہیں ہیں بلکہ وہ سب ہیں جو آپ سے پیار کرتے ہیں۔  پس آپ کو ان کی سننا چاہئے اور ان کی صلاح لینی چاہئے۔   کیونکہ یہ وہ سفر نہیں جو آپ اکیلے طے کر رہے ہیں۔  ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کے خاندان میں سے کسی نے کچھ ایسا دیکھا ہو جو وہ پسند نہ کرتے ہوں۔  وہ آپ کو بتا تے ہیں کہ سفر نہ کرو۔  میں نہیں جانتا کہ وہ درست ہیں کہ غلط۔   مگر آپ کو انہیں بہت سنجیدگی سے توجہ میں لینا چاہئے۔  آپ سوچ سکتے ہیں کہ:   یہ میری زندگی ہے۔   میں وہی کروں گا یا کروں گی جو میں چاہتا/ چاہتی ہوں۔    یہ غلط ہے۔  یہ آپ کی زندگی ہے مگر آپ اپنے خاندان میں رہتے ہیں۔   آپ دوسروں کے ساتھ ایک کشتی میں ہیں اور آپ کے فیصلے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔  اگر آپ پر یقین نہیں ہیں تو بندر گاہ پر ہی رکیں اور تب تک وہاں سے نہ چلیں جب تک آپ کو پورا یقین نہ ہو جائے کہ یہ کام کرنا درست ہے اور جب تک آپ دوسروں کو اس کے حوالے سے مثبت نہ دیکھ لیں۔ 

 

        پولوس کی طرف واپس آتے ہوئے، کوئی شخص یہ پوچھ سکتا ہے کہ:  خداوند نے یہ مسئلہ کیوں ہونے دیا؟  کیا وہی جس نے گلیل کے سمند ر پر آندھی کو روکا تھا اس یورکلون کو نہیں روک سکتا تھا؟ آخر کار یہ اس کے لوگ ہی تھے جو دوسروں کے ساتھ وہاں مشکل میں تھے۔  ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے ایسا نہیں کیا۔  اس نے بس یہ کیا کہ سفر سے قبل نصیحت کی۔  جب یہ سفر شروع ہو گیا تو جو اس نے کہا تھا وہ ہوگیا: مشکلات۔  بعض اوقات کچھ لوگ سفر شروع کر لیتے ہیں ،  یہ سوچتے ہوئے کہ،  “ اگر یہ فائدہ مند نہ ہوا تو خدا ہمیں ضرور بچا لے گا۔   “ اور ہاں،  ایسا ہو سکتا ہے اور یہاںبھی ایسا ہی ہوا: خداوند نے انہیں بچایا۔  اس نے جہاز میں ہر کسی کو بچایا۔  لیکن اس نے انہیں مشکل سے نہیں بچایا۔  انہو ں نے بہت دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا،  وہ بڑے سمندروں میں سفر کر رہے تھے،  آخر کار جہاز تباہ ہوگیا۔  یہ خدا کی مرضی نہ تھی! اس مشکل میں پڑنا اس کی مرضی ہر گز نہیں تھی۔   اس لئے اس نے شروع سے ہی ان کو بتایا تھا کہ بندرگاہ کو نہ چھوڑیں۔  جی ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ خداوند آپ کو بچا لے لیکن اگر آپ اس کی آواز سنے بغیر سفر کرتے ہیں تو یقین رکھیں: آپ بہت سے مشکلات کو سن رہے ہیں۔  آپ شاید اپنی جان بچا لیں مگر اس سفر کے نتائج وہاں ہوں گے۔  اس لئے درج بالا پر توجہ دیں:  حسین بندر کو چھوڑنے سے قبل اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ وہ آواز سن رہے ہیں جو خداوند نے آپ کو نصیحت کی ہے۔   وہ آپ کےلئے صرف بہتر چاہتا ہے اور اگر چہ وہ آپ کو سمندری طوفانوں سے بچالے جو آپ کے غیر عقلمندانہ فیصلوں سے آتے ہیں اور آپ ان سے سبق سیکھتے ہیں اوروہ آخر کار بھلائی پیدا کرتے ہیں،  تو میرا ماننا ہے کہ پہلی جگہ پر ہی اس سفر پر جانا اس کی مرضی نہیں ہے۔ 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :