بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

دعا کے اثرات

 

       خدا نے بائبل میں جن باتوں کا زیادہ تر ذکر کیا ان میں سے ایک دعا بھی ہے۔   پس،  1تھسلینکیوں5باب17آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

1تھسلینکیوں5باب17آیت:
“ بلا ناغہ دعا کرو۔
  

 

       اس کے علاوہ،  کلسیوں 4باب 2آیت کہتی ہے:

 “ دعا کرنے میں مشغول اور شکر گزاری کے ساتھ اس میں بیدار رہو۔  

 

1پطرس4باب7آیت بھی ہمیں بتاتی ہے:
“ پس ہوشیار رہو اور دعا کرنے کےلئے تیار ۔
  

 

اور رومیوں12باب12آیت دوہراتی ہے:
“ دعا کرنے میں مشغول رہو۔
  

 

       درج بالا حوالہ کے علاوہ،  کلام میں اور بہت سے حوالہ جات ہیں،  جو ہمیں بتاتے ہیں کہ دعا کرو اور درحقیقت بلاناغہ،  متواتر طور پر لگاتار دعا کرو،  یہاں کچھ اور حوالہ جات بھی ہیں جو اس ان لوگوں کے مثالوں کے وسیلہ سے دعا کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں جو دعا کرتے تھے۔  اس کالم میں اس دوسری قسم کے لوگوں کو جانچا جائے گا،  اعمال12باب سے شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں۔ 

 

1اعمال12باب1تا16آیت

 

       اعمال12باب1تا5آیت سے شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں:

 

اعمال12باب1تا5آیت:
“ قریباً اسی وقت ہیرودیس بادشاہ نے ستانے کےلئے کلیسیا میں سے بعض پر ہاتھ ڈالا۔
   اور یوحنا کے بھائی یعقوب کو تلوار سے قتل کیا۔   جب دیکھا کہ یہ بات یہودیوں کو پسند آئی تو پطرس کو بھی گرفتار کر لیا اور یہ عید فطر کے دن تھے۔  اور اس کو پکڑ کر قید کیا اور بگہبانی کےلئے چارچار سپاہیوںکے پہروں میں رکھا اس ارادہ سے کہ فسح کے بعد اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔   پس قید خانہ میں تو پطرس کی نگہبانی ہو رہی تھی مگر کلیسیا اس کےلئے دل و جان سے خدا سے دعا کر رہی تھی۔  

 

       ہمارے حوالے کے ہیرودیس کے بارے میں،  وہ اس ہیرودیس کا پوتا تھا جس نے یسوع کو قتل کیا تھا ( متی2باب ) اور جس نے  “ بیت الحم اور اس کے گردو نواح کے علاقوں میں دو سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کو قتل کروایا تھا“  ( متی2باب 16آیت ) ۔  وہ ہیرودیس  “ تاتارک “  کا بھتیجا بھی تھا جس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر اڑا دیا تھا اور  “ سپاہیوں سمیت یسوع کو ذلیل کیا اور ٹھٹھوں میں اڑایا اور چمکدار پوشاک پہنا کر اسکو پلاطوس کے پاس واپس بھیجا ( کہ اس کا مزید مذاق اڑایا جائے )  “ اسکے مصلوب کئے جانے سے قبل ( لوقا 23باب11آیت ) ۔  ایسا لگتا ہے کہ اسی لئے اسے اپنے دادا اور چچا کی برائی وراثت میں ملی کیونکہ اس نے بارہ میں سے یعقوب کو قتل کیا اور یہ دیکھ کر کہ یہودی اس سے خوش ہوئے ،  پطرس کو بھی گرفتار کر لیا تا کہ لوگوں کے سامنے پیش کرے اور یقینا بعد میں اسے بھی قتل کرے۔   تاہم،  ہرودیس اچھ احساب کتاب نہیں کر سکا جیسے کہ 5آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال12باب5آیت:
“ پس قید خانہ میں تو پطرس کی نگہبانی ہو رہی تھی مگر کلیسیا اس کےلئے دل و جان سے خدا سے دعا کر رہی تھی۔
  

 

       بادشاہ نے بہت سے سپاہیوں کو پطرس کی نگہبانی کےلئے مقرر کیا۔  اس نے سوچا کہ ایسا کرنے سے وہ اس کی رہائی کو ناممکن بنا دے گا۔  تاہم وہ اس بات کو ذہن میں نہ لایا کہ اگر چہ پطرس قید خانہ میں تھا،  کلیسیا دل و جان سے اس کے لئے خدا سے دعا کر رہی تھی۔  ہیرودیس اس کو بند نہیں کروا سکتا تھا،  اور پس وہ خدا کو بھی ان دعاﺅں کا جواب دینے سے نہ روک سکا۔  دیکھیں کہ پھر کیا ہوا:

 

اعمال12باب6آیت:
“ اور جب ہیرودیس اسے پیش کرنے کو تھا تو اسی رات پطرس دو زنجیروں سے بندھا ہوا دو سپاہیوں کے درمیان سوتا تھا اور پہرے دار دروازہ پر قید خانہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔
  

 

       ہیرودیس نے بہت سی چالیں چلیں کہ وہ پطرس کو جسمانی رہائی سے روک سکے۔  دو سپاہی اس کے دائیں اور دو سپاہی اس کے بائیں جاب تھے اور اسے زنجیروں میں باندھا گیا تھا3۔   جہاں کہیں وہ جانا چاہتا تھا ان اس سے تفاق کرنا تھا! اس کے علاوہ،  اگر یہ کافی نہ تھا،  دو اور پہریدار دروازے پر تھے۔   تاہم،  اگر چہ ہیرودیس نے پطرس کی نگہبانی کےلئے بہت سی فوج مختص کی تھی،  یہ خدا اور اس کی قدرت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں تھی۔   دیکھیں کہ خدا نے کیا کیا:

 

اعمال12باب7تا11آیت:
“ کہ دیکھو کہ خداوند کا ایک فرشتہ آ کھڑا ہوا اور اس کوٹھڑی میں نور چمک گیا اور اس نے پطرس کی پسلی میں ہاتھ مار کر اسے جگایا اور کہا کہ جلد اٹھ اور زنجیریں اس کے ہاتھ میں کھل پڑیں۔
  پھر فرشتہ نے اس سے کہا کمر باندھ اور جوتی پہن لے۔   اس نے ایسا ہی کیا۔   پھر اس نے کہا اپنا چوغہ پہن کر میرے پیچھے ہولے۔  وہ نکل کر اس کے پیچھے ہو لیا اور یہ جاناکہ جو کچھ فرشتہ کی طرف سے ہو رہا ہے وہ واقعی ہے بلکہ یہ سمجھا کہ رویا دیکھ رہا ہوں۔   پس وہ پہلے اور دوسرے حلقہ میں سے نکل کر اس لوہے کے پھاٹک پر پہنچے جو شہر کی طرف ہے۔  وہ آپہی ان کےلئے کھل گی ا۔   پس وہ نکل کر کوچہ کے اس سرے تھ گئے اور فوراً فرشتہ اس کے پاس سے چلا گیا۔   اور پطرس نے ہوش میں آکر کہا کہ اب میں نے سچ جان لیا کہ خداوند نے اپنا فرشتہ بھیج کر مجھے ہیرودیس کے ہاتھ سے چھڑا لیا اور یہودی قوم کی ساری امید توڑ دی۔  

 

       بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ یہ رونما ہونے کےلئے پہریدار سوتے ہوں گے۔  اچھا،  بائبل یہ کہاں کہتی ہے؟ کہیں نہیں! بلکہ،  بائبل یہ کہتی ہے کہ پطرس ہی تھا جو دو پہریداروں کے بیچ میں سو رہا تھا اور یہ کہ دوسرے دو پہریدار دروازے پر  “ قید خانہ کی نگہبانی “  کر رہے تھے۔  دوسرے واقعہ کے حوالہ سے،  کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بائبل یہ کہتی ہے کہ اگر وہ سو رہے تھے تو وہ قید خانہ کی نگہبانی کر رہے تھے؟  میں یہ نہیں سمجھتا،  یہ کس قسم کی نگہبانی ہو گی؟  کسی بھی طرح،  میں نہیں جانتا خدا نے یہ کیسے کیا مگر میں یہ جانتا ہوں کہ اس نے یہ کیااور اس نے پطرس کو  “ ہیرودیس اور تمام یہودیوں کی امیدوں سے بچایا “ ۔  آیئے یہ نہ بھولیں کہ یہ سب کس سبب سے ہوا اور 5آیت کیا کہتی ہے:

 

اعمال12باب5آیت:
“ پس قید خانہ میں تو پطرس کی نگہبانی ہو رہی تھی مگر کلیسیا اس کےلئے دل و جان سے خدا سے دعا کر رہی تھی۔
  

 

       یہ  “ مگر “  دیکھیں۔   یہ ہمیں اس ہتھیار کے بارے میں بتاتا ہے جو اس حقیقت کے خلاف استعمال کیا گیا کہ پطرس قید خانہ میں تھا۔  یہ ہتھیار دعا تھی۔  کلیسیا نے دل و جان سے دعا کی اور خدا نے ، ناممکن کو ممکن کرتے ہوئے ،  ہیرودیس اور ا سکی قوت پر فتح پاتے ہوئے، اور پطرس کو اس مصیبت سے رہائی دیتے ہوئے ان لوگوں کی دعاﺅں کا جواب دیا۔ 

 

 22سلاطین6باب11تا22آیت

 

       درج بالا صرف ایک مثال نہیں جس سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اپنے لوگوں کو ان کی دعاﺅں کی طفیل رہائی دیتا ہے۔  اسی طرح کی ایک اور مثال 2سلاطین6باب میں ہے۔   یہاں میں خدا کے بندے الیشع کو دیکھتے ہیں،  جس کے وسیلہ سے خدا نے ارامیوں اور شاہ اسرائیل کے ارادوں کو ظاہر کیا۔  اس کی وجہ سے شاہ ارام بہت مصیبت میں پڑ گیا اور اس نے اس معاملے کےلئے ایک مجلس منعقد کی۔   11اور12آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

2سلاطین6باب11اور12آیت:
“ اس بات کے سبب سے شاہ ارام کا دل نہایت بے چین ہوا اور اس نے اپنے خادموں کو بلا کر ان سے کہا کیا تم مجھے نہیں بتاﺅ گے کہ ہم میں سے کون شاہ اسرائیل کی طرف ہے؟ تب اس کے خادموں میں سے ایک نے کہا اے میرے مالک! اے بادشاہ! بلکہ الیشیع جو اسرائیل میں نبی ہے تیری ان باتوں کو جو تو اپنی خلوت گاہ میں کہتا ہے شاہ اسرائیل کو بتا دیتا ہے۔
  

 

       جو کچھ بھی،  شاہ ارام نے کہا یا منصوبہ سازی کی،  خدا نے وہ الیشع پر ظاہر کی،  جس نے یہ سب شاہ اسرائیل کو بتائی۔   پھر 13تا15آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

2سلاطین6باب13اور14آیت:
“ اس نے کہا جا کر دیکھو وہ کہاں ہے تاکہ میں اسے پکڑوامنگواﺅںاور اسے بتایا گیا کہ وہ دوتین میں ہے۔
  تب اس نے وہاں گھوڑوں اور رتھوں اور ایک بڑے لشکر کو روانہ کیا ۔   سو انہوں نے راتوں رات آکر اس شہر کو گھیر لیا۔  

 

       دیکھیں ہیرودیس اور اس بادشاہ کا بالکل ایک جیسا سوچنے کا انداز:  دونوں نے خدا کے بندوں کو گرفتار کرنے اور نقصان دینے کےلئے بہت سی فوج کا اہتمام کیا۔  پس شاہ ارام نے الیشع کے خلاف  “ گھوڑوں اور رتھوں کابہت بڑا لشکر  “ بھیجی،  جب کہ ہیرودیس نے پطرس کی نگہبانی کےلئے انہیں سولہ لوگوں کے حوالہ کیا۔  ہیرودیس اور شاہ ارام دونوں یہ سوچتے تھے کہ انہوں نے وہ تمام تر انتظام کر لئے ہیں جو ان کے منصوبوں کو پورا کریں گے۔  تاہم،  دونوں خدا کے انتظامات کو اور اس کی قدرت کو شمار میں نہ لائے اور دونوں بری طرح ناکام ہوئے۔  یہ ہم نے پچھلے حصے میں ہیردیس کے ساتھ دیکھا اور اس حصے میں ہم یہ شاہ ارام کے ساتھ بھی دیکھیں گے۔  15اور16آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

2سلاطین6باب15اور16آیت:
“ اور جب اس مرد خدا کا خادم صبح کو اٹھ کر باہر نکلا تو دیکھا ایک لشکر مع گھوڑوں اور رتھوں کے شہر کے چوگرد ہے۔
   سو اس خادم نے جا کر اس سے کہا ہائے اے میرے مالک! ہم کیا کریں؟  اس نے جواب دیا خوف نہ کر کیونکہ ہمارے ساتھ ان کے ساتھ والوں سے زیادہ ہیں۔  

 

       جو اس خادم نے کہا اس کے جواب میں الیشع نے جو کچھ کہا اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ یا تو اس خادم کی آنکھیں خراب تھیں اور وہ جو ان کے ساتھ تھے ان کو نہ دیکھ پایا یا پھر الیشع غلط تھا۔   ہم دیکھیں گے کہ پہلی وجہ درست ہے۔   وجہ یہ نہیں تھی کہ اس خادم کی جسمانی آنکھیں خراب تھیں بلکہ اس نے دیکھنے کےلئے صرف اپنی جسمانی آنکھوں کو استعمال کیا۔  تاہم،  صرف یہی بصیرت نہین ہے جو کسی شخص کے پاس ہو سکتی ہے۔   حقیقتاً،  کسی بھی صورت حال کی ظاہری تصویر سے ہٹ کر ایک روحانی تصویر بھی ہوتی ہے جسے اگر نظر انداز کیا جائے تو اس کے نتائج ناقابل یقین ہوتے ہیں۔  یقینا ،  اس خادم نے اس تصویر کو نظر انداز کیا تھا اور اب اسے بھی خاطر میں لایا ہو گا۔  17آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یہ سب کیسے ہوا:

 

2سلاطین6باب17آیت:
“ اور الیشع نے دعا کر کے کہا اے خداودن اس کی آنکھیں کھول دے تا کہ وہ دیکھ سکے۔
   تب خداوند نے اس کی آنکھیں کھول دیں اور اس نے جو نگاہ کی تو دیکھا کہ الیشع کے گردا گرد کا پہاڑ آتشی گھوڑوں اور رتھوں سے بھرا ہے۔  

 

       الیشع نے دعا کی اور خداوند نے اس کی دعا سنی،  وہ کرتے ہوئے جو اس نے مانگا تھا اور اس خادم کی روحانی آنکھیں کھولتے ہوئے تا کہ وہ سمجھ سکے کہ کیا صورت حال تھی۔  تاہم،  کیونکہ وہ ارامی لوگ الیشع کو جانتے تھے تو کچھ اور بھی کیاجانا ضروری تھا۔  ہم نے س حوالہ کے شروع مین دیکھا کہ بادشاہ کو اس کے بارے میں کیسے بتایا گیا اور وہ ٹھیک کس جگہ پہ تھا۔  اس لئے،  ارامی اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ کس کو تلاش کر رہے تھے۔   الیشع نے اس سب کا کیسے سامنا کیا؟ 18تا20آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

2سلاطین6باب18تا20آیت:
“ اور جب وہ اس کی طرف آنے لگے تو الیشع نے خداوند سے دعا کی اور کہا میں تیری منت کرتا ہوں ان لوگوں کو اندھا کر دے۔
   سو اس نے جیسا الیشع نے کہا تھا ان کو اندھا کر دیا۔   پھر الیشع نے ان سے کہا کہ یہ وہ راستہ نہیں اور نہ یہ وہ شہر ہے۔   تم میرے پیچھے چلے ااﺅ اور میں تم کو اس شہر کے پاس پہنچا دوں گا جس کی تم تلاش کرتے ہو اور وہ ان کو سامریہ کو لے گیا۔  اور جب وہ سامریہ میں پہنچے تو الیشع نے کہا اے خداوند ان وگوں کی آنکھیں کھول سے تا کہ وہ دیکھا سکیں۔  تب خداوند نے انکی آنکھیں کھول دیںاور انہوں نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھا کہ سامریہ کے اندر ہیں۔  

 

       جیسا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ خداوند نہ صرف روحانی آنکھیں نادیدنی روحانی چیزیں دیکھنے کےلئے کھولتا ہے بلکہ وہ جسمانی چیزوں کو نہ دیکھنے کےلئے آنکھوں کو بند بھی کرتا ہے۔  تاہم، وہ ان کے سامنے تھا اور وہ اس کو نہ دیکھ سکے۔  اور نہ صرف یہ بلکہ ان کا آخت سامریہ میں ہوا جو ان کے دشمنوں کا شہر ہے۔   یہ سب کیسے ہوا؟ الیشع نے دعا کی اور خدا نے ان کو اس وقت تک اندھا کیا جب تک کہ وہ سامریہ میں پہنچ گئے اور جب تک الیشع نے دعا کی کہ ان کی آنکھیں کھل جائیں۔  21تا23آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ان کے شاہ اسرائیل کے ہاتھ میں آنے کے بعد کیا ہوا:

 

2سلاطین6باب21تا24آیت:
“ اور شاہ اسرائیل نے ان کو دیکھ کر الیشع سے کہا اے میرے باپ کیا میں ان کو مار لوں؟ میں ان کو مار لوں؟
 اس نے جواب دیا تو ان کو نہ مار۔   کیا تو ان کو مار دیا کرتا ہے جن کو تو اپنی تلوار اور کمان سے اسیر کرلیتا ہے؟  تو ان کے آگے روٹی اور پانی رکھ تاکہ وہ کھائیں اورپئیں اور اپنے آقا کے پاس جائیں ۔   سو اس نے ان کےلئے بہت سا کھانا تیار کیا اور جب وہ کھا پی چکے تو اس نے ان کو رخصت کیا اور وہ اپنے آقا کے پاس چلے گئے اور ارام کے جتھے اسرائیل کے ملک میں پھر نہ آئے۔  

 

       اسلئے مختصرا:  ایک بڑا لشکر الیشع کے خلاف آیا۔   اس کے جواب میں،  روحانی طور پر اس صورت حال کو سمجھتے ہوئے،  اس نے دعا کی اور خدا نے انہیں اندھا کر دیا۔  پھر،  انہیں سامریہ میں لے جاکر،  جو اسرائیل کا دار الحکومت ہے،  اس نے دوبارہ خدا سے دعا کی اور خداوند نے ان کی آنکھیں کھول دیں تا کہ دیکھیں کہ وہ کہاں تھے۔  یہ سب بڑے بڑے کام کس نے کئے؟ خداوند نے۔  خداوند نے یہ سب کس وسیلہ سے کئے؟  الیشع کی دعاﺅں کے طفیل۔   اس لئے کلام کہتا ہے:   “ الیشع نے دعا کی اور خداوند نے۔  ۔  ۔  ۔   “ ا سکے مطابق کام کیا۔ 

 

 

3دعا کے جواب کی مزید مثالیں

       درج بالا معاملات ہی موثر دعا کی مثالیں نہیں ہیں:

 

3.1سیموئیل اور یوحنا بپتسمہ دینے والا

        حقیقتاً،  سیموئیل،  خدا کا نیک بندہ اس کی ماں کی دعاﺅں کا نتیجہ تھا۔   جیسا کہ سیموئیل1باب10تا11آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

1سیموئیل1باب10اور11آیت:
“ سو وہ خداوند سے دعا کرنے اور زار زار رونے لگی۔
   اور اس نے منت مانی اور کہا اے رب الا افواج ! اگر تو اپنی لونڈی کی مصیبت پر نظر کرے اور مجھے یاد فرمائے اور اپنی لونڈی کو فراموش نہ کرے اور اپنی لونڈی کو فرزندِ نرینہ بخشے تو میں اسے زندگی بھر کےلئے خداوند کے نظر کر دوں گی اور استرہ کبھی اس کے سر پر نہ پھرے گا۔  

 

       حنہ مصیبت میں تھی۔   اس نے کیا کیا؟  اس نے دعا کی،  جس کی صلاح یعقوب5باب13آیت بھی دیتی ہے۔   یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

یعقوب5باب13آیت:
“ اگر تم میں کوئی مصیبت میں ہو تو دعا کرے۔
  

 

       حنہ مصیبت زدہ تھی۔   اس نے دعا کی اور ہمارے پاس یہ جاننے کےلئے اسی باب کی 20آیت سے آگے جانے کے علاوہ کچھ نہیں کہ اس کے نتیجہ میں کیا ہوا۔   پس،  یہاں ہم پڑھتے ہیں:

 

1سیموئیل1باب20آیت:
“ اور ایسا ہوا کہ وقت پر حنہ حاملہ ہوئی اور اس کے بیٹا ہوا اور اس نے اس کا نام سیموئیل رکھا کیونکہ وہ کہنے لگی میں نے اسے خداوند سے مانگ کر پایا۔
  

 

       سیموئیل خدا سے مانگا ہوا تھا۔   اس کا نام بھی یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ دعا کا جواب تھا۔ 

 

       تاہم وہ اکیلا نہیں تھا جو دعا کا جواب تھا۔   بالکل اسی طرح یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ساتھ بھی ہوا۔  حقیقتاً جب فرشتہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے باپ زکریاہ کے پاس آیا تو اسے بتایا:

 

لوقا1باب13آیت:
“ اے زکریاہ ! خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سن لی گئی ہے اور تیرے لئے تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہو گا ۔
   تو اس کا نام یوحنا رکھنا۔  

 

       یوحنا بپتسمہ دینے والے کی پیدائش اس کے باپ زکریاہ کی دعا کا نتیجہ تھی۔   اور یقینا یہ پیدائش خداوند یسوع مسیح کی راہ تیار کرنے والے کے حوالے سے کی جانے والی پیشن گوئیوں کی کاملیت تھی ( ملاکی4باب5اور6آیت،  لوقا1باب15تا17آیت ) ،  بالکل ایسے ہی جیسے سیموئیل اسکی ماں کی دعاﺅں کے طفیل تھا۔ 

 

3.2کرنیلئیس کا معاملہ

 

       آگے بڑھتے ہوئے،  ہم شاید سب کرنیلیس کو جانتے ہیں،  ایک غیر قوم کا صوبہ دار،  جس کے گھر مین پہلی بار اس بات کی تصدیق کی گئی کہ  “ خدا نے غیر قوموں کو بھی زندگی کے لئے توبہ کی توفیق دی ہے “  ( اعمال11باب18آیت ) ۔   تاہم،  کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا کہ پطرس اس کے گھر گیا تا کہ اس کو خدا کا کلام سنائے؟ اعمال10باب 3تا6آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال10باب3تا6آیت:
“ اس نے
 ( کرنیلئیس نے )  تیسرے پہر کے قریب رویا میں صاف صاف دیکھا کہ خدا کا فرشتہ میرے پاس آکر کہتا ہے کرنیلئیس اس نے غور سے اس کو دیکھا اور ڈر کر کہا اے خداوند کیا ہے؟  اس نے اس سے کہا تیری دعائیں اور تیری خیرات یاد گاری کےلئے خدا کے حضور پہنچیں۔   اب یافا میں آدمی بھیج کر شمعون کو جو پطرس کہلاتا ہے بلوالے۔  ۔  ۔ 

 

       پطرس وہاں اتفاقاً نہیں گیا تھا۔   اس نے اس کے بارے میں ایک رویا دیکھی تھی ( اعمال10باب9تا 20آیت ) ،  اور اس نے صوبہ دار کی دعوت کا مثبت جواب دیا اور اس نے خدا سے بھی اسے دعوت دینے کا حکم پایا تھا۔  تاہم،  دیکھیں کہ فرشتہ نے کرنیلیئس کو کیا کہا جب وہ اس کے سامنے حاضر ہوا:   تیری دعائیں اور تیری خیرات یادگاری کےلئے خدا کے حضور پہنچیں۔   “ کرنیلئس کی دعائیں خڈا نے سنی تھیں۔   اس نتیجہ مین اسے پطرس کے پاس بھیجا گیا جو،  جیسا کہ فرشتہ نے کہا،   “ تجھ سے ایسی باتیں کہے گا جن سے تو اور تیرا سارا گھرنہ نجات پائے گا “  ( اعمال 11باب14آیت ) ۔  اور جب پطرس جو لوگکرنیلئیس کے گھر   اکٹھے ہوئے تھے “  ان سے باتیں کر رہا تھا ،  تو  “ روح القدس ان سب پر نازل ہوا جو کلام سن رہے تھے۔  ۔  ۔  ۔  کیونکہ انہیں طرح طرح کی زبانیں بولتے اور خدا کی تمجید کرتے سنا “  ( اعمال10باب44 اور46 آیت ) ۔   کرنیلئیس نے دعا کی،  اور خداوند نے،  روح القدس کو بھی ظاہر کرتے ہوئے،  دعا کا جواب دیا اور بہت سوںنے نجات پائی۔ 

 

3.3اعمال4باب24تا31آیت

        اعمال پر رکتے ہوئے،  ایک اور دعا کی قوت کے حوالہ سے مثال اعمال4باب 24تا31آیت میں ملتی ہے۔   پطرس اور یوحنا ابھی ابھی قید خانہ سے آزاد ہوئے تھے جہاں وہ جی اٹھنے کی تعلیم دینے کے باعث  ( اعمال4باب2آیت ) اور یسوع کے نام پر بڑے بڑے معجزے کرنے  ( اعمال 3باب1تا7آیت ) کے باعث ڈالے گئے تھے۔  ان کی رہائی کے بعد وہ ایمانداروں کے پاس گئے جن کو انہوں نے وہ سب کچھ بتایا جو ان کے ساتھ ہوا تھا۔  اس کے جواب میں انہوں نے کیا کیا؟  انہوں نے دعا کی۔   24اور29تا30آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال4باب24اور29تا30آیت:
“ جب انہو ں نے یہ سنا تو ایک دل ہو کر بلند آواز سے خداسے التجا کی کہ اے مالک! تو وہ ہے جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے پیدا کیا۔
  ۔  ۔  ۔  اب اے خداوند انکی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری سے سنائیں۔  اور تو اپنا ہاتھ شفا دینے کےلئے بڑھا اور تیرے پاک خادم یسوع کے نام سے معجزے اور عجیب کام ظہور میں آئیں۔  

 

       انہوں نے بالکل وہی کچھ کرنے کےلئے دعا کی جس سے ان کے مختار پریشان ہوں ( اعمال4باب18آیت )  یعنی،  خدا کا کلام دلیری سے سنایا اور یسوع کے نا م سے نشان اور معجزے ظاہر کئے۔   ان کی دعاﺅںکے بعد کیا ہوا؟  31آیت ہمیں بتاتی ہے:

 

اعمال4باب31آیت:
“ جب وہ دعا کر چکے تو جس مکان میں وہ جمع تھے وہ ہل گیا اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہے۔
  

 

       انہوں نے دلیری کے ساتھ کلام سنانے کے لئے دعا کی اور اندازہ کریں کا ہوا: انہوں نے دلیری سے خدا کا کلام سنایا۔ 

 

4نتیجہ

        نتیجتاً:  اس کالم میں ہم نے دعا کے اثرات کا موازنہ کیا جیسا کہ یہ مختلف واقعات سے ظاہر کیا گیا ان لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے دعا کی۔   سب واقعا ت میں ہم نے دیکھا کہ خدا دعاﺅں کا جواب دیتے ہوئے اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے کتنی قوت سے سر گرم عمل ہوتا تھا۔  یقینا یہ کوئی ایسا کام نہیں جو صرف اس وقت ہوتا تھا۔   خدا آج بھی اسی طرح سر گرم عمل ہوتا ہے ،  جو اپنی قدرت اور حکمت سے ہر اس چیز کو پورا کرتا ہے جو ہم دعا میں اس سے مانگتے ہیں اور جو اس کی مرضی سے مطابقت رکھتی ہے۔   جیسا کہ 1یوحنا5باب14آیت ہمیں بتاتی:

 

1یوحنا5باب14آیت:
“ اور ہمیں جو اس کے سامنے دلیری ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اگر اس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔
  

 

       جب ہم خدا سے دعا کرتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔   جیسا کہ امثال15باب9آیت ہمیں بتاتی ہے،  ہماری دعا  “ اس کی خوشی  “ ہے۔  وہ اسکی خواہش کرتے ہوئے اس کا انتظار کرتا ہے اور وہ اسکو حقیقت بناتا ہے بے شک اگر یہ اس کی مرضی کے مطابق ہو تو۔  اگر اس کی یہ شرط پوری وہ جائے تو پھر کوئی چیز اس دعا کو پوراس ہونے سے نہیں روک سکتی چاہے اس کےلئے کچھ بھی درکار کیوں نہ ہو۔ 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :