بائبل کی سچائیاں









پھل: ایک مسیحی زندگی کس سے متعلقہ ہے ۔



ایک مسیحی کی زندگی کس چیز کے بارے میں ہے؟ یہ خدا کو اور اسکے بیٹے خداوند یسوع مسیح کو جاننے اور پھل لانے کے بارے میں ہے۔ یوحنا کی انجیل میں یسوع نے کہا:

 

یوحنا 15باب16آیت:
”تم نے مجھے نہیں چنا بلکہ میں نے تمہیں چن لیا اور تم کو مقرر کیا کہ جا کر پھل لا ﺅ اور تمہارا پھل قائم رہے تا کہ میرے نام سے جو کچھ باپ سے مانگو وہ تم کو دے ۔ “

 

پولوس نے رومیوں7باب4آیت میں بھی کہا:
”پس اے میرے بھائیوں !تم بھی مسیح کے بدن کے وسیلہ سے شریعت کے اعتبار سے اس لئے مردہ بن گئے کہ اس دوسرے کے ہو جا ﺅ جو مردوں میں سے جلایا گیا تا کہ ہم سب خدا کے لئے پھل پیدا کریں۔ “

 

بیج بونے والے کی تمثیل میں یسوع ان لوگوں کے چار درجات بیان کرتا ہے جو کلام سنتے ہیں ۔ دوسرے اور تیسرے درجے میں وہ لوگ تھے جو غیر پھلدار تھے،جبکہ آخری میں، قابلِ تعریف درجے میں، وہ شخص شامل ہے،”جو کلام سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے کوئی سو گنا، کوئی ساتھ گنا اور تیس گنا ۔ “(متی13باب23آیت) ۔

 

اس لئے خدا مسیحیوں کے لئے جو ارادہ رکھتا تھا کہ وہ نہ صرف ایمان لائیں بلکہ تبدیل ہو جائیں ۔ بالکل اسی طرح درخت بننے کےلئے یا اسی قسم کا پھل لانے کے واسطے جیسے کہ وہ پہلے لاتے تھے ۔ ہماری پھلداری خدا کےلے اہمیت رکھتی ہے ۔ مجھے یہ دوہرانے دیجئے :خدا کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ آپ ایک سادہ زندگی گزارتے جائیں ۔ خدا نے آپ کو غیر معمولی مخلوق خلق کیا ہے، اس نے آپ کو نعمت عطا کی ہے اور اس نے آپ کو ایک کم کرنے کےلئے مقرر کیا تھا: کہ جاﺅ اور پھل لاﺅ ۔ ہم جلد یہ دیکھیں گے کہ یہ کیسے ہوتا ہے، لیکن آپ یہ ذہن میں ہی رکھیں ۔ خدا نے اپنے ہر ایک فرزند کو ، چھوٹے سے بڑے تک، غریب سے امیر تک، خواندہ سے ناخواندہ تک کو نعمت عطا کی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ بہت سا پھل لائیں۔ یہاں یوحنا 15باب میں لکھا ہے جو خداوند نے کہا:

 

یوحنا 15باب8آیت:
میرے باپ کا جلال اسی سے ہو تا ہے کہ تم بہت سا پھل لاﺅ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ “

 

اور یوحنا 15باب1اور2آیت:
”انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اسے چھانٹتا ہے تا کہ زیادہ پھل لائے۔ “

 

باپ بہت خوش ہوتا ہے جب اس کے فرزند پھل لاتے ہیں ۔ دیکھیں وہ ان کو چھانٹتا ہے ،دیکھ بھال کرتا ہے اور خاص توجہ دیتا ہے جو پھل لاتے ہیں تاکہ وہ مزید پھل لائیں ۔ باپ صرف یہ نہیں چاہتا کہ تاک کی ڈالیاں ہوں ۔ ۔ ۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ پھلدار ڈالیاں ہوں، نہیں بکثرت پھلدار ڈالیاں ہوں، ایسی ڈالیاں جو اپنی پوری طاقت سے پھل لاتی ہیں آج کل بہت سے مسیحی فضول، سڑک کے کنارےبیٹھے، کسی دوسرے کےلئے”کام کا آغاز“ کرنے کے منتظر ہیں ۔ ایک پیشہ ور ۔ ۔ ۔ جیسے کہ وہ پیشہ ور نہیں ہیں ۔ لیکن پطرس اور دیگر لوگ، ان میں سے زیادہ تر ماہی گیر ۔ ۔ ۔ پہلی صدی میں اس لحاظ سے ”پیشہ ور“ نہ تھے، انہوں نے کسی ادارے سے گریجوایشن نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کو ضرورت تھی!صرف ایک ڈگری جو ان کے پاس تھی وہ تھی ماہی گیری ۔ یہاں کچھ اور لوگ بھی تھے جو اگر چہ ایمان لائے تھے مگر ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ٓائی تھی، مسیحی زندگی تبدیلی کے بغیر، بنا پھل لائے ناحق پر صادق ہے ۔ اور یہ کنے سے میری مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ محبت کرنے والے مسیحی جو خدا اور اس کے کلام سے پر جوش ہیں غلطی نہیں کرتے ۔ وہ کرتے ہیں ۔ مگر محبت بھرے مسیحی ایسی عبادات میں جانے سے انکار کرتے ہیں جوکہتی ہیں کہ ،”باقاعدہ ہونا سیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اتوار گرجا گھر جانا کافی ہے، کرسی پر بیٹھیں، زبور اور گیت گائیں، وعظ سنیں، گھر واپس جائیں اور اگلے اتوار تک سب بھول جائیں ۔ “ محبت بھرے مسیحی سمجھوتا نہیں کرتے ۔ وہ تھوڑے پر ہی اکتفا نہیں کرتے ۔ وہ خدا پر نظر رکھتے اور اسی میں بڑھنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس کے ساتھ اور اس کے بیٹے کے ساتھ قریب سے قریب تر ہونا چاہتے ہیں ۔ وہ مسیح کو اپنی زندگی میں ممکنہ حد تک ظاہر کرنا چاہتے ہیں ۔ محبت بھرے مسیحیوں میں پھل لانے کا جذبہ اور مسیح کا تصور ہوتا ہے ۔ اور خوشخبری یہ ہے کہ خدا آپ کو بھی ان میں سے ایک کی مانند بنانا چاہتا ہے ۔ محبت بھرا مسیحی بننایا ایک اور انداز سے کہتے ہو ئے ، مسیح کے ساتھ محبت بھرا مسیحی بننا اور گرم بننا نہ کہ نیم گرم (مکاشفہ 3باب 15آیت) ۔ پھلدار ڈالی، پوری طاقت سے پھل لانے والی ڈالی بننا چاہئے ۔ یہی مسیحی زندگی ہے ۔

 

پھل: یہ کیا ہے؟:

اسے آسان لفظوں میں ڈھالتے ہوئے میں کہوں گا کہ پھل ایک تبدیل زندگی، مسیح مرکز زندگی، ایک ایسی زندگی ہے جس میں ہم مر جاتے ہیں تاکہ مسیح ہم میں زندہ رہے(گلتیوں2باب19اور20آیت) ۔ ایسی زندگی جو خود کو اور دوسرو ں کو خوش کرنے کی بجائے خدا کی شادمانی کی متلاشی ہے ۔ ایسی زندگی جس کا مرکزی عنوان، مرکز، سرِ فہرست نام، خدا ہے۔ آئیے دیکھیں کلام کیا کہتا ہے:

 

گلتیوں5باب22تا25آیت:
”مگر روح کا پھل محبت ،خوشی ،اطمینان ،تحمل ،مہربانی ،نیکی ،ایمانداری حلم ،پرہیز گاری ہے۔ ایسے کاموں کی کوئی شرےعت مخالف نہیں اور جو مسیح یسوع کے ہیں انہوں نے جسم کو اسکی رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھےنچ دیا ہے۔ اگر ہم روح کے سبب سے زندہ ہیں تو روح کے موافق چلنا بھی چاہئے۔ “

 

یہاں روح”نئی انسانیت“ سے مراد ” مسیح ہمارے اندر “ ہے ۔ نئی انسانیت کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے ہم درج بالا پھل پیدا کرتے ہیں، وہی خاصیتیں جو نئی انسانیت، مسیح میں ہیں ۔ اور افسیوں 2باب10آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

 

افسیوں2باب10آیت:
”کیو نکہ ہم اسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں ان نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئے تےار کیا تھا۔ “

 

خدا نے پہلے ہی نیک اعمال مختص کئے ہیں جن کے مطابق ہمیں زندگی گزارنی ہے ۔ اس نے پہلے ہی ہر کسی کو ایک غیر معمولی نعمت عطا کی ہے:جیسے ایک درخت لگایا جاتا ہے اور اس سے پھل پانا متوقع ہوتا ہے ۔ ہمیں جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے مطابق چلنا ہے ۔ یہ سب کرنے کامقصد خدا کو شادمان کرنا اور بہت سا پھل لانا ہے ۔ 1پطرس4باب7تا11آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:

 

1پطرس4باب7تا11آیت:
”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہو نے والا ہے۔ پس ہو شیار رہو اور دعا کرنے کے لئے تےار۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آپس میں بڑی محبت رکھو کیونکہ محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ بغیر بڑبڑائے آپس میں مسافر پر وری کرو۔ جن کو جس جس قدر نعمت ملی ہے وہ اسے خدا کی مختلف نعمتوں کے اچھے مختاروں کی طرح ایک دوسرے کی خدمت میں صرف کریں۔ اگر کو ئی کچھ کہے تو ایسا کہے کہ گو ےا خدا کا کلام ہے ۔ اگر کوئی خدمت کرے تو اس طاقت کے مطابق کرے جو خدا دے تا کہ سب باتوں میں یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا جلال ظاہر ہو ۔ جلال اور سلطنت ابدلآباد اسی کی ہے۔ آمین۔ “

 

اس حوالہ میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو یہ حوالہ”بننے “ کو کہتا ہے ۔ دعا کرنے کو تیار رہو ۔ آپس میں بڑی محبت رکھو ۔ بغیر بڑبڑائے آپس میں مسافر پروری کرو ۔ یہ بھی غور کریں کہ یہ حوالہ کہتا ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی خدا کی طرف سے نعمت ملی ہے ۔ خدا نے اپنے ہر ایک فرزند کو ایک نعمت عطا کی ہے ۔ جیسے جسم کا ہر ایک حصہ غیر معمولی ہے اور وہاں وہ کسی خاص کام کےلئے رکھا گیا ہے، اسی طرح ہم بھی: ہم مسیح کے بدن، کلیسیا، میں خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اور ہم وہاں غیر معمولی طور پر کام سر انجام دینے کےلئے مقرر کئے گئے ہیں(1 کرنتھیوں 12باب12تا27آیت) ۔ اور جو پطرس ہمیں تا رہا ہے وہ ہے : کام ۔ خدا نے صرف زند لوگوں کو ہی نعمتیں عطا نہیں کئیں ۔ اس نے صرف آپ کے پادری یا کاہن کو ہی نعمتیں عطا نہیں کئیں ۔ یہ حوالہ مسیحیوں کی برادری میں صرف چند مخصوص لوگوں کے بارے میں بات نہیں کرتا ۔ یہ تمام تر مسیحیوں کے بارے میں بات کرتا ہے، اس میں ااپ بھی شامل ہیں!یہ بھی دیکھیں کہ یہ حوالہ کہتا ہے کہ ” ایک دوسرے کی خدمت میں صرف کریں“ ۔ یہ نعمت آپ کو محض آرام طلبی کےلئے نہیں دی گئی ۔ یہ ایک دوسرے کی خدمت کرنے کےلئے عطا کی گئی ہے ۔ میں آپ کی اور آپ میری خدمت کریں ۔ آج ہم کسی شخس کے کردار کو بیان کرنے کےلئے ” خدمت“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ پس کسی ایمانداروں کی برادری میں کاہن یا پادری ” منسٹر“ کہلاتا ہے ۔ کیا صرف وہی خدمت کر سکتے ہیں، جبکہ برادری میں دیگر لوگ خدمت کروانے کےلئے ہیں نہ کہ خدمت کرنے کو ہیں؟یہ ایک ایسا خیال ہے جو مکمل طور پر یا واضح طور پر ہر کسی کے ذہن میں ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ اچھا! بات در اصل یہ ہے کہ یہ وہ خیال نہیں ہے جو خدا کی طرف سے آیا ، یا یہ وہ خیال نہیں جس کی حمایت کلام کرتا ہے ۔ جو تصور کلام پیش کرتا ہے وہ درج ذیل ہے:ہم میں سے ہر کسی کو غیر معمولی نعمت عطا کی گئی ہے اور کوئی مسیح کے بدن میں غیر معمولی طور پر رکھا گیا ہے ۔ کلام میں لطوریا یا کلرجی جیسی کوئی چیز نہیں ہے ۔ جیسے کہ کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب خدا کے کاہن ہیں ۔ دیکھیں پطرس اسے کتنے زبردست انداز میں بیان کرتا ہے:

 

1پطرس2باب9آیت:
”لیکن تم ایک برگزیدہ نسل۔ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔ مقدس قوم اور ایسی امت ہو جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تارےکی سے اپنی عجیب روشنی بلایا ہے۔ “

 

1پطرس2باب5آیت بھی:
”تم بھی زندہ پتھروں کی طرح رو حانی گھر بنتے جاتے ہو تاکہ کاہنوں کا مقدس فرقہ بن کر ایسی روحانی قربانیاں چڑھاﺅجو یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کے نزدیک مقبول ہو تی ہیں۔ “

 

ہم میں سے ہر کسی سے اپنے تحفے کے مطابق ایک دوسرے کی خدمت کرتے ہو ئے کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے ،1پطرس 4باب 7تا11آیت ہمیں بتاتی ہے کہ جو خدا نے ہمیں تحفہ عطا کیا ہے اس کے ساتھ مصروف ہو جائیں۔ اپنے تحفے پر توجہ دیں اور اسے استعمال کریں۔ اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی کوئی ”منسٹری “ہے ےا نہیں کیو نکہ آپ کی منسٹری ہے۔ یہ حقیقت ہے !اور جیسے پطرس کہتا ہے کہ اسے صرف کریں ،اپنے تحفے کے مطابق خدمت کرتے ہو ئے اسے استعمال کریں۔

 

دوبارہ ،اگر درج بالا پھل ہیں اور اےسا ہو سکتا ہے کہ مصروف ہو نے یا کام کرنے سے ہم پھل پیدا کریں گے ،تا ہم یہ مکمل تصور نہیں ہے۔ جیسے فلپیوں 1باب 9آیت ہمیں بتاتی ہے :

 

فلپیوں 1باب9تا11آیت:
” اور یہ دعا کرتا ہو ں کہ تمہاری محبت علم اور ہر طرح کی تمیز کے ساتھ اور زیادہ ہو تی جائے۔ تاکہ عمدہ عمدہ باتوں کو پسند کر سکو اور مسیح کے دن تک صاف دل رہو اور ٹھوکر نہ کھاﺅ۔ اور راستبازی کے پھل سے جو یسوع مسیح کے سبب سے ہے بھرے رہو تا کہ خدا کا جلال ظاہر ہو اسکی ستائش کی جائے ۔ “

 

راستبازی کے پھل ”یسوع مسیح کے سبب “سے ہیں نہ کہ ہماری طاقت سے۔ اس کے علاوہ ان کے نتائج خدا کا جلال اور اسکی ستائش ہے،جیسے یسوع یو حنا 15باب میں وا ضح کرتا ہے ،وہ تاک ہے اور ہم اسکی ڈالیاں ہیں :

 

یوحنا 15باب4تا5اور 8آیت :
”تم مجھ میں قائم رہو اور میں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اسی طرح اگر تم بھی مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے میں انگور کا درخت ہوں تم ڈالیاں ہو جو مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیو نکہ مجھ جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔ میرے باپ کا جلال اسی سے ہو تا ہے کہ تم بہت سا پھل لاﺅ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے ۔ “

 

پھل لانا یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ہم تا ک کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اور ہم تاک نہیں ہیں۔ بلکہ مسیح ہے !ہم ڈالیاں ہیں۔ جب تک کوئی ڈالی شاخ کے ساتھ جڑی نہ رہے اس کے لئے پھل لانا نا ممکن ہے۔ اسی طرح ہمارے ساتھ بھی ہے۔ مسیح کے ساتھ ہمارا جڑنا ہی ہے جو ہمیں پھل لانے کے لئے مظبوط کر سکتا ہے ،اس معاملے میں ڈالیاں پھل لانے کے وسیلہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں ۔ جیسا کہ ہم مسیح کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں ،وہ ہماری بدولت ظاہر ہو گا ،تاک ہماری بدولت زندہ ہے اور پھل لائے۔ خدا کے ان عمال کی پیروی کرنا جو اس نے ہمارے لئے تےار کئے ہیں خداوند یسوع مسیح کے ساتھ ہمارے محبت بھرے تعلقات استوار کرتا ہے ،جسے ہم خوش کرنا چاہتے ہیں تو بہ کا مرکز اعمال نہیں بلکہ مسیح کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں ،”یسوع مسیح کے وسیلہ سے ،“جیسے فلپیوں نے کہا کہ ،پھل لایا جا رہ۔

 

مزید اس پر بات کرتے ہو ئے ،مسیح نے جھوٹے نبیوں کے ارے میں بات کی اور اس نے کہا کہ ہم انہیں ان کے اعمال سے نہیں گے۔

 

متی 7باب15تا20آیت :
” جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھےڑوں کے بھےس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑئے ہیں ان کے پھلوں سے تم انکو پہچان لو گے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجےر تو رتے ہیں ؟اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور برا درخت برا پھل لاتا ہے۔ اچھا درخت برا پھل نہیں لاسکتا اور نہ برا درخت اچھا پھل لاسکتا ہے۔ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ پس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔ “

 

کلام جھوٹے نبیوں (متی 7باب15آیت )جھوٹے مسیحیوں (متی 24باب 24 آیت ) جھوٹے رسولوں (2کرنتھیوں 11 باب 13 آیت )،جھوٹے بھائیوں (گلتیوں 2باب4آیت اور 2کرنتھیوں 11باب20آیت )،جھوٹے استادوں (2پطرس 2باب)،دغا بازی کام مرنے والوں (2کرنتھیوں 11باب13آیت )کے بارے میں بات کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو کچھ جاننے کی ضرورت ہے ،اور وہ ہے پھل اور اچھا پھل صرف ”یسوع مسیح کی بدولت “آسکتا ہے ،کوئی بھی دوسرا درخت ،اگر چہ وہ خدا اور مسیح کے بارے میں بات کرتا ہے ،صرف جھوٹا پھل پیدا کرسکتا ہے۔

 

اس لئے میرے بھائیواور اور بہنو !میںآپ کو پورے دل سے خدا کی پیروی کرنے پر لگا رہا ہوں ،کہ آپ زندہ خداوند کے ساتھ محبت کے باعث اس کلے رشتے میں ترقی کرتے جائیں اور اس کام میں مصروف ہو جائیں جو ا س نے آپ کے لئے تےار کیا ہے۔ رو ح کا پھل اسی طرح ہو تا ہے کیونکہ درخت روح ہے ،نئی فطرت ،مسیح ہم میں ہے ،مسیح میں قائم رہتا ہے وہ صرف ایک چیز پیدا کر سکتا ہے :بکثرت پھل !

 

پھل :چھانٹنا :

میں باغبانی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا ،لیکن میں نے سکول سے یہ جانا کہ :درخت کے لئے پھل لانے کے واسطے اسکی چھانٹی کرنا ضروری ہے۔ تا ہم یہ مکمل تعریف نہیں ہے ،انٹر نےٹ دےکھتے ہو ئے میں نے wikipediaسے درج بالا تعریف حاصل کی (دیکھیںhttp://en.wikipedia.org/wiki/Pruning) ۔

 

چھانٹنا باغبانی اور فصلوں میں سے غیر پیداواری ،غیر مو زوں اور بیماری لاحق چیزوں کو تلف کرنا ہے ،گو ڈی کا مقصد پو دے کی نشوونما کو مظبوط خاطر رکھتے ہو ئے پو دے کی چھانٹی کرنا ،کہ پو دے کی صحت کو بر قرار رکھا جائے ،اور پھولوں اور پھلوں کی مقدار اور معےار بڑھا یا جائے۔ مناسب گو ڈی کرنا بھی ایک فن کی طرح ہنر ہے ،کیو نکہ ایسے پو دے جن کی گو ڈی غلط انداز سے کی گئی ہو وہ بیماری لاحق ہو جاتے ہیں یا کسی غلطانداز سے نشوو نما پا لیتے ہیں۔ “

 

ہر پودے کو گوڈی کی ضرورت ہو تی ہے۔ ہر درخت ایک کو کسان کی ضرورت ہے جو اسکو چھانٹے اور اسکی مرضی سے نشوونما کرے جو اسکی صحت کا خیال رکھے گا ،اسکی بیماریوں کو دور کرے گا اور اسکی صفائی کرے گا تا کہ یہ اور پھل لائے۔ بالکل اسی طرح ہمارے لئے ،تاک کی ڈالیاںہوتے ہو ئے سچ ہے جو کہ خداوند یسوع مسیح ہے۔ اور ہمیں بھی چھانٹنے کی ضرورت ہے اوراندازہ لگائیں ،ہمارے پا سبھی اس کی دیکھ بھال کے لئے ایک کسان ہے !یو حنا 15باب دوبارہ ہمیں بتات ہے :

 

یوحنا15باب1اور2آیت:
انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔ “

 

باپ ہی ہے جوگو ڈی کی دیکھ بھال کرتا ہے ،دوبارہ یاد کریں ،گو ڈی کرنا لازمی ہے۔ ہم اس کے بنابڑھ نہیں سکتے اور خو ش قسمتی سے ہمارے پاس کو ئی ایسا شخص ہے جو اسکی دیکھ بھال کرتا ہے ،ہمارا باپ۔ وہ ایک اچھے اور محتاط باغبان کی طرح رکھوالی کرتا ہے اور ہماری نشوونما پر توجہ دیتا ہے ،ہماری مشکلات کو دور کرتا ہے اور ہمیں پاک کرتا ہے تا کہ ہم زیادہ پھل لائیں۔ کیا یہ زبردست بات نہیں ؟پھل پیدا کرنا مسیح میں قائم رہنے کا معاملہ ہے ،زیادہ پھل لانا ،بکثرت ،ایسا کام ہے جسکی حفاظت کی بات کرتا ہے۔ ہمارا کام تاک میں قائم رہنا ہے اور خدا کا کام ہماری گو ڈی کا دھیان رکھنا جو ہماری پیداوار بڑھانے کے لئے ضروری ہے۔

 

میرا خیال ہے کہ عبرانیوں 12باب11آیت ہمیں یہی بات مختلف الفاظ سے بتاتی ہے۔ یہاں ہم پڑھتے ہیں :

 

عبرانیوں12باب11آیت:
” اور بالفعل ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہو تی ہے مگر جو اس کو سہتے سہتے پختہ ہو گئے ہیں انکو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔ “

 

یہاں مصنف تنبہیہ کے بارے میںب بات کررہا ہے اور کہتا ہے کہ کسی بھی قسم کی تنبہیہ اس وقت اچھی معلوم نہیں ہو تی۔ اس کے بر عکس یہ دکھ کا باعث لگتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ گو ڈی یا چھانٹی سے بھی ایسا ہی ہو تا ہے۔ جب کسان گو ڈی کرتا ہے تو اسے پو دے کے کچھ حصے کا ٹنے ہوتے ہیں۔ اسے فضول حصے ،ایسے حصے جو پودے کی خوراک استعمال کرتے ہیں اور اسکے لئے کو ئی فائدہ نہیں دیتے ،کا ٹنے ہو تے ہیں ۔ چھانٹنے سے مراد کو ئی نہ کوئی چیز تلف کرنا ہے۔ تنبہیہ بھی کچھ ایسی ہی ہو تی ہے۔ ہم اپنے بچو ں کی تنبہیہ کرتے اور پو دوں کی چھانٹی کرتے ہیں۔ دو نوں کا مقصد ایک ہی ہو تا ہے۔ بچوں کو اچھا بنانے کے لئے پو دوں کو پھلدار بنانے کے لئے اور جب خدا تنبہیہ کرتا ہے تو یہ ہو سکتا ہے زیادہ دکھ کا باعث ہو تا ہے ،تا ہم وہ لوگ جو اسے سبق کے طور پر لیتے ہیں ان کے لئے صرف ایک ہی چیز ہے جو پیدا ہو گی اور وہ ہے پھل ،راستبازی کا چین کے ساتھ پھل ،جیسا کہ عبرانیوں ہمیں بتاتا ہے۔ آخر کار یہ خدا نے کرنا ہے ،کیو نکہ یہ ایسا کام ہے جا ایک ایسے باپ نے کرنا ہے جو اپنے بچوں س محبت کرتا ہے او ر وہ ہمیں بہت شدت سے محبت کرتا ہے۔ لہٰذا یہاں سوچ یہ ہے کہ جیسے پو دوں کی چھانٹی کےلئے کسان ہے ،تا کہ وہ اور زیادہ پھل لائیں ،اسی طرح ہمارا آسمانی باپ ہے جس کا کام ہماری چھانٹی کرنا ہے تا کہ ہم مسیح میں قائم رہ کر زیادہ پھل لائیں۔

 

پھل : اولیت اور غیر بار آوری :

بکثرت پھل لانا ،جیسا کہ ہم نے دیکھا ،خدا کے لئے جلال ک باعث ہے۔ یہ سب کرنے کے لئے ،جیسا کہ ہم دوبارہ کلام سے دےکھتے ہیں ،ہمیں تاک میں قائم رہنا ہے ،یعنی خدا وند یسوع مسیح کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ پو رے جذبے سے اس کے ساتھ تعلق رکھنے کی خواہش رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اور باپ کو خوش کرنے اور مطمعن کرنے کی خواہش کرن۔ اگر یہی مقصد ہے ہماری زندگی کی کوشش ،تو اس سے بہت سا پھل آئے گ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ،اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند اور اسکے ،قصد کی ہماری زندگیوں میں اولیت ہو نی چاہئے۔ یا اسے مختلف طرےقے سے بیان کرتے ہو ئے ،اگر کو ئی چیز ہماری پھلاداری کے لئے خطرہ ہے تو وہ تاک ،خداوند یسوع مسیح ،سے غیر متوجہ ہو کر دوسری چیزوں کی جانب جانے کا خطرہ ہے جیسا کہ یسوع نے متی 6باب24تا34آیت میں کہا :

 

متی6باب24تا34آیت:
”کو ئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیو نکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا او ر دوسرے سے محبت۔ یا ایک سے ملا رہیگا اور دوسرے کو نا چیز جانے گ۔ تم خدا اور دولت دونوں چیزوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہو ں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پیئیں گے ؟اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑ ھ کر نہیں ؟ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ انکو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ہو؟جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاٹتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان وشوکت کے ان میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھ۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟اسلئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟کیو نکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا ٓسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چےزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لئے فکر نہ کرو کیو نکہ کل کا د ن اپنے لئے آپ فکر کرے گ۔ آج کے لئے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔ “

 

غیر قومیں ،غیر ایماندار فکر کرتے ہیں کہ کیا کھائیں ،کیا پئیں اور کیا پہنیں۔ لیکن ہمارے ساتھ یہ نہیں ہو نا چاہئے۔ ہمارے لئے سر فہرست ، اولیت ،فوقیت والی بات ،خدا کی بادشاہی اور اسکی راستبازی ہے۔

 

آج کل ،پہلے سے زیادہ ،ہزاروں ایسی چیزیں ہیں جو ہماری توجہ حاصل کرتی ہیں۔ پہلے آج ہمیں سینکڑوں انتخابات ملتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کسی شخص کے پاس اتنی زیادہ چیزوں کا انتخابات نہیں ہو تا تھ۔ آپ ٹےلی ویژن چلائیں تو ہزاروں چینل ملیں گے۔ DVDکی دکان پر جائیں اور ہزاروں فلموں کا انتخاب ملے گ۔ آپ انٹر نےٹ پر جاسکتے ہیں۔ اور ہزاروں وےب سائٹ میں اپنا وقت لگا سکتے ہیں۔ ایسا وقت پہلے کبھی نہ تھا جب کسی شخص کے پاس اتنے انتخابات تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں ہمارے وقت کے لئے ایک لڑائی ہو تی ہے۔ یہ انتخابات ہماری اولیت کی فہرست میں جگہ پانے کے لئے لڑتے ہیں ،میں فلمیں دیکھنا پسند کرتا ہو ں لیکن جب میں یہ بہت زیادہ دیکھتا ہو ں تو میرے پاس خدا کے لئے اور وہ کام کرنے کے لئے وقت نہیں ہو تا جو کرنے کے لئے اس نے مجھے بلایا ہے۔ میں انٹر نےٹ پر بیٹھ کرمختلف ویب سائٹس دیکھنا پسند کرتا ہو ں ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں یہ کرتا ہو ں تو خدا دےنے کے لئے وقت نہیں رہے گا مجھے اس بات کا خیال رکھنا ہو گا ،کیو نکہ میرا خاص مقصد ،میرا حقیقی مقصد خدا اور صرف خدا کی خدمت کرنا ہے ،اب ،اس کثےر الانتخابزمانے میں ،ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری سر فہرت اولیت ،ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اور یہ مقصد باپ کو جلال دےنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پھل لانے کے سوا ءاور کو ئی نہیں ہے۔ یہ مقصد خدا کو جاننے اور تا ک میں قائم رہ کر ،خدا وند یسوع مسیح میں قائم رہ کر باپ کے جلال کے لئے زیادہ پھل لانے کے سواءکچھ نہیں ہے۔ اور یہ تبدیل نہیں ہو۔ یہ بالکل اسی طرح آج بھی ہے جیسے کہ 2000سال قبل تھ۔

 

ختم کرنے سے پہلے اس حوالے سے ایک اور بات :یسوع نے بیج بونے والے کی تمثیل میں تےسری قسم کے بارے میں کہا جو کلام سنتا ہے :

 

مرقس 4 باب3،4اور7آیت :
”سنو !دیکھو ایک بونے والا بیج بونے نکل۔ اور بوتے وقت یو ں ہوا کہ کچھ راہ کے کنارے گرا اور پرندوں نے آکر اسے چگ لی۔ اور کچھ جھاڑیوں میں گرا اور جھاڑیوں نے بڑھ کر اسے دبا لیا اور وہ پھل نہ لای۔ “

 

اور اس کی وضاحت :

 

مرقس 4باب14اور18تا19آیت :
”بو نے والا کلام بوتا ہے۔ اور جھاڑیوں میں بوئے گئے وہ اور ہیں ۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے کلام سنا اور دنیا کی فکر اور دولت کا فریب اور چیزوں کا لالچ داخل ہو کر کلام کو دبا دیتے ہیں اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے۔ “

 

کلام بویا گیا مگر یہ غیر پھلادار بنا گیا کیوں ؟کیو نکہ دوسری چیزیں آئیں اور اسی پر غالب ہو گئیں۔ یہ دےگر چیزیں کیا تھیں ؟دنیا کی فکر اور دولت اور فرےب اور چیزوں کا لالچ دیگر چیزیں کہلاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں غیر متوجہ کرنے والی ہیں اور یہ پھل کو چھین لیتی ہیں اور ا س معاملے میں انہوں نے پھل مکمل طور پر چھن لیا ہے۔ دن کے آخر پر ہم سب کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس زندگی میں ہمیں کس کی خدمت کرنی ہے ؟ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟کیا ہم اپنی زندگیاں غیر پھلدار چیزوں ،جن کی فکر دنیا ”؟غیر قومیں “کرتی ہیں ،میں گزارنا چاہتے ہیں یا کیا ہم اپنی زندگیوں سے پھل ،خدا کے جلال کے لئے کثےر پھل لانا چاہتے ہیں ؟آپ کا انتخاب کیا ہے ؟میں نے دوسرا انتخاب چنا ہے ۔

 

Tassos Kioulachoglou

 

ضمیمہ :

 

پھل کے حوالے سے مزید حوالہ جات :درج بالا دئے گئے حوالہ جات کے علاوہ ،یہاں مزید حوالہ جات ہیں جو اسی موضوع پر بات کرتے ہیں۔

 

کلسیوں1باب1تا10آیت:
”پولس کی طر ف سے جو خدا کی مرضی سے مسیح یسوع کا رسول ہے اور بھائی تےمیتھیس کی طر ف سے مسیح میں ان مقدس اور ایماندار بھائیوں کے نام جو کلیسیا میں ہیں ہمارے ہمارے باپ خدا کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہو تا رہے۔ ہم تمہارے حق میں ہمیشہ دعا کرکے اپنے خدا وند یسوع مسیح کے باپ یعنی خدا کا شکر کرتے ہیں۔ کیو نکہ ہم نے سنا ہے کہ مسیح یسوع پر تمہارا ایمان ہے اور سب مقدس لوگوں سے محبت رکھتے ہو۔ اس امید کی ہوئی چیز کے سبب سے جو تمہارے واسطے آسمان پر رکھی ہو ئی ہے جسکا ذکر تم اس خوشخبری کے کلام حق میں سن چکے ہو۔ جو تمہارے پاس پہنچی ہے جیسے سارے جہان میں بھی پھل دیتی اور ترقی کرتی جاتی ہے۔ چنانچہ جس دن سے تم نے اس کو سنا اور خدا کے فضل کو سچے طور پر پہچانا تم نے ہمارے عزیز ہم خدمت اپفراس سے پائی جو ہمارے لئے مسیح کا دیانتدار خادم ہے۔ اسی نے تمہاری محبت کو جو روح میں ہے ظاہر کی۔ اسی لئے جس دن سے یہ سنا ہے کہ ہم بھی تمہارے واسطے یہ دعا کرنے اور درخواست کرنے سے باز نہیں آتے کہ تم کمال روحانی حکمت اور سمجھ کے ساتھ اسکی مرضی کے علم سے معمور ہو جاﺅ۔ تاکہ تمہارا چال چلن خداوند کے لائق ہو اور اسکو ہر طرح سے پسند آئے او ر تم میں ہر طرح کے نیک کا م کا پھل لگے اور خدا کی پہچان میں بڑھتے جاﺅ۔ “

 

یہودہ 1باب11اور12آیت:
”ان پر افسوس کہ یہ قائن کی راہ پر چلے اور مزدوری کےلئے بڑی حرص سے بلعام کی سی گمراہی اختیار کی اور قورح کی طرح مخالف کر کے ہلاک ہوئے ۔ یہ تمہاری محبت کی ضیافتوں میں تمہارے ساتھ کھاتے پیتے وقت گقیا دریا کی پوشیدہ چٹانیں ہیں ۔ یہ بے دھڑک اپنا پیٹ بھرنے والے چرواہے ہیں ۔ یہ بے پانی کے بادل ہیں جنہیں ہوا ئیں اڑا لے جاتی ہیں ۔ یہ پت جھڑ کے بےپھل درخت ہیں جو دونوں طرح سے مردہ اور جڑ سے اکھڑے ہوئے ہیں ۔ "

 

2پطرس1باب5تا8آیت:
”پس اسی باعث تم اپنی طرف سے کمال کوشش کر کے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر معرفت۔ اور معرفت پرہیزگاری اور پرہیزگاری پر صبر اور صبر پر دینداری۔ اور دینداری پر برادرانہ الفت اور برادرانہ الفت پر محبت بڑھاﺅ۔ کیو نکہ اگر یہ باتیں تم میں موجود ہوں اور زیادہ بھی ہو تی جائیں تو تم کو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے پہچاننے میں بے کار اور بے پھل نہ ہو نے دینگی ۔ “

 

یعقوب3باب17اور18آیت:
”مگر جو حکمت اوپر سے آتی ہے اول تو وہ پاک ہوتی ہے۔ پھر ملنسار حلیم اور تربیت پذیر ،رحیم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی۔ بے طرفدار اور بے ریا ہوتی ہے ۔ اور صلح کرانے والوں کے لئے راستبازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے۔ “

 

طیطس3باب13اور14آیت:
”زیناس عالم شرع اور اپلوس کو کوشش کر کے روانہ کردے۔ اس طور پر کہ انکو کسی چیز کی حاجت نہ رہے۔ اور ہمارے لوگ بھی ضرورتوں کو رفع کرنے کے لئے اچھے کاموں میں لگے رہنا سیکھیں تاکہ بے پھل نہ رہیں۔ “

 

افسیوں5باب8تا11آیت:
”کیو نکہ تم پہلے تاریکی تھے مگر اب خداوند میں نور ہو۔ پس نور کے فرزندوں کی طرح چلو۔ اس لئے کہ نور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے۔ اور تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔ اور تاریکی کے بے پھل کاموں میں شریک نہ ہو بلکہ ان پر ملامت ہی کیا کرو۔ “

 

رومیوں 7باب4اور5آیت:
”پس اے میرے بھائیو!تم بھی کے بدن کے وسیلہ سے شریعت کے اعتبار سے اسلئے مردہ بن گئے کہ اس دوسرے کے ہو جاﺅ جو مردوں میں سے جلایا گیا تاکہ ہم سب خدا کے لئے پھل پیدا کریں۔ کیو نکہ جب ہم آسمانی تھے تو گناہ کی رغبتیں جو شریعت کے باعث پیدا ہو تی تھیں موت کا پھل پیدا کرنے کے لئے ہمارے اعضا میں تاثیر کرتی تھیں۔ “

 

رومیوں6باب20تا22آیت:
” کیو نکہ جب تم گناہ کے غلام تھے تو راستبازی کے اعتبار سے آزاد تھے۔ پس جن باتوں سے تم اب شرمندہ ہوان سے تم اس وقت کیا پھل پاتے تھے ؟ کیونکہ انکا انجام تو موت ہے۔ مگر اب گناہ سے آزاد اور خدا کے غلام ہو کر تم کو اپنا پھل ملا جس سے پا کیزگی حاصل ہو تی ہے اور اسکا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔ “

 




 

پھل: ایک مسیحی زندگی کس سے متعلقہ ہے ۔ (PDF) PDF edition