بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

دس ہزار توڑوں کے قرضدار کی تمثیل

 

       مجھے کسی کے ساتھ حال ہی میں بحث کا موقع ملا۔ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو کہ ایسا کچھ ہوا ہواور میں حیران ہوا ہوں کہ،” ایسا نہیں ہو سکتا کہ جب کبھی بھی میں اس شخص سے ملتا ہوں تو بالکل اسی طرح کا رویہ سامنے آتا ہے۔یہ بالکل نہیں ہو سکتا۔“ مین کسی حد تک پریشان تھا اور میں اپنی صبح کی دعا میں خدا سے پوچھ رہا تھا: ”ایسا اکثر ہوتا ہے۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔“پھر حیران کن انداز میں درج ذیل جواب میرے ذہن میں آتا ہے: تم بار بار ایک ہی گناہ کرتے ہو اور میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔“یقینا میں فورا! ”چپ ہو“ جاتا ہوں۔مجھے یہ جاننے میں زیادہ وقت نہ لگا کہ وہی گناہ دوبارہ دوبارہ میں نے دوہرائے جو سالوں پہلے کئے تھے ،جب میں خدا کے پاس بنا آنسوﺅں ،بغیر شرمندگی کے صرف معافی مانگتے ہوئے گیا تھا جیسے کچھ ہوا نہیں تھا یہ التجا کرتے ہو ئے کہ وہ مجھے معاف کر تا ہے کیونکہ اسے معاف کرنا تھا ۔آپ جانتے نہیں کہ ہمیں خدا کی صورت پر خلق کیا گیا تھا (پیدائش 1باب 26 آیت )جب آپ کا بھائی آپ کے خلاف گناہ کرتا ہے اور اگر آپ کو تکلیف ہوتی ہے ،تو جب آپ گناہ کرتے ہیں تو خدا کو بھی تکلیف ہو تی ہے ۔اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ آپ کے گناہ سے کوئی متاثر ہوتا ہے کہ نہیں ۔اس کے باوجود کہ آیا گناہ کسی انسان کے خلاف ہے یا نہیں ،یہ ہمیشہ خدا کو تکلیف دیتا ہے ۔اور وہ معاف کرتا ہے ۔متواتر طور پر،بنا رکے ۔

 

بعد میں اسی روز ،اس واقعہ کے بارے میں سوچتے ہوئے جو صبح کے وقت ہوا ،خدا میرے دماغ میں دس ہزار توڑوں کے قرضدار کی تمثیل پر جانے سے قبل آئیے اس کے متن پر غور کریں ۔متی 18باب15یا22آیت میں ہم پڑھتے ہیں :

 

متی18باب15تا22آیت:
”اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے تو جا اور خلوت میں اس سے بات چیت کرکے اسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سنے تو تو نے اپنے بھائی کوپا لیا۔ اگر نہ سنے تو ایک دو آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جا تا کہ ہر ایک بات دو تین گواہوں سے ثابت ہو جائے۔اگر وہ ان کی بھی سننے سے انکار کرے توکلیسیاءسے کہہ اور اگر کلیسیاءکی سننے سے بھی انکار کرے تو تو اسے غیر قوم والے اور محصول لینے والے کے برابر جان۔میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ تم زمین پر باندھو گے وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کچھ تم زمین پر کھولو گے وہ آسمان پر کھلے گا۔ پھر میں تم سے کہتا ہوں پھر میںتم سے کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے دو شخص زمین پر کسی بات کیلئے جسے وہ چاہتے ہوں اتفاق کریں تو وہ میرے باپ کی طرف سے جو آسمان پر ہے ان کیلئے ہو جائے گی۔کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہیں میں ان کے بیچ میں ہوں۔اس وقت پطرس نے پاس آکر کہا اے خداوند اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا رہے تو میں کتنی دفعہ اسے معاف کروں؟ کیا سات بار تک؟
یسوع نے اس سے کہا میں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک۔“

 

       پطرس کو خدا وند کے جواب کے بعد والی آیت دس ہزار کے قرضدار کی تمثیل ہے ۔مگر جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ،متن کا مقصد معافی ہے ،یسوع نے واضح کیا کہ جب کوئی بھائی ہمارا گناہ کرتا ہے تو کیا کرنا چاہئے ۔پھر پطرس تعداد پوچھتا ہے کہ کتنی بار معاف کرنا چاہئے ۔وہ شاید یہ سوچ رہا تھا کہ ، ”ٹھیک ہے خداوند ،اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا ہے تو میں اسے پہلی دفعہ ،دوسری اور تیسری دفعہ حتیٰ کہ مزید دو یا تےن دفعہ معاف کروں گا ۔مگر کچھ دیر بعد کافی ہوگا ،میرا مطلب میں نے اسے بہت سے مواقع دئیے مگر وہ لگاتار ایک ہی غلطی دوہراتا ہے ۔میں مزید یہ برداشت نہیں کر سکتا ۔میں پہلے ہی اسے تبدیل ہونے کے بہت سے مواقع دے چکا ہو ں ۔“پطرس کیلئے 7بار معاف کرنا کافی تھا ۔اگر سات بار دوہرانے کے بعد اس کا بھائی دوبارہ وہی غلطی کرتا ہے تو اسے مزید موقع نہیں دےنا چاہئے ۔اسے کافی مواقع مل چکے تھے ۔تصور کریں کہ خدا ہمارے ساتھ یہی اصول اپناتا ۔تصور کریں کہ اس نے کوئی خاص حد مقرر کی جس کے بعد وہ کہتاہے ،”اچھا بچے ،میں نے تمہیں بہت برداشت کیا ،میں مزید تمہیں اور تمہارے کردار کو برداشت نہیں کر سکتا ۔میں نے تمہیں بہت موقعے دئیے اور اب یہ آخری تھا۔ختم ہوگیا !مگر خوش قسمتی سے خدا ایسا نہیں کرتا ۔خدا معاف کرنے والا خدا ہے ۔صرف ایک گناہ ایسا ہے جو معا ف نہیں کیا جا سکتا ،غیر معافی بخش گناہ ،مگر کوئی دوسرا گناہ نہیں اور نہ کوئی وقت کی حد مقرر ہے کہ وہ معاف بعد میں نہ کیا جائے ،کلام 1یوحنا 1باب8تا10آیت ،2باب1اور2آیت :

 

1یوحنا1باب8تا10 آیت اور 2باب1اور2آیت:
”اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں۔ اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔ اگر کہیں کہ ہم نے گناہ نہیں کیا تو اسے ٹھہراتے ہیں اور اس کا کلام ہم میں نہیں۔ اے میرے بچو! یہ باتیں میں تمہیں اس لئے لکھتا ہوں کہ تم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مدد گار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز۔ وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی۔“

 

        کلام یہ باتیں اس لئے کہتا ہے کہ ہم گناہ نہ کریں ،لیکن اگر ہم گناہ کرتے ہیں اور خدا کے آگے اقرار کرتے ہیں ،وہ وفادار ہے اور ہمیں معاف کرنے میں سچا ہے اور عادل ہے ۔اس میں لامحدود معافی ہے ۔یہ صرف ”7بار تک اور پھر ختم “نہیں ہو جاتی ۔یہ ایسی نہیں کہ ”میں مزید برداشت نہیں کرسکتا ۔“یہ ایسا نہیں کہ ”میں نے تمہیں اور تمہارے گناہ کو بہت برداشت کرلیا ۔“خدا میں لامتناہی معافی ہے ۔میرا ماننا ہے کہ مسیحی ایمان میں سب سے زبردست خوشخبری ہے ۔اسی لئے پطرس کی طرف آتے ہوئے خداوند نے اسے بتایا ،”میں تمہیں ی ہ نہیں کہتا کہ سات بار ،بلکہ سات کے ستر بار معاف کرو ،“مطلب ”کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔“جیسا تمہار اآسمانی باپ تمہیں معاف کرتا ہے تم بھی ایک دوسرے کو کرو ۔“جےسے ہمارے گناہوں کیلئے خدا کے پاس لامحدود معافی ہے ،اسی طرح ہمارے بھائیوں کیلئے جو ہمارا گناہ کرتے ہیں ہمارے پاس لامحدود معافی ہونی چاہئے ۔جب آپ سوچتے ہیں کہ ،”میں نے بہت برداشت کرلیا اب میں مزید اپنے بھائی کو برداشت نہیں کر سکتا،“تو برائے کرم وہ ہزاروں بار معافی سوچیں جو خد انے آپ کو دی اور مزید دے گا ،میرا خیال ہے کہ آپ اپنا ذہن تبدیل کر لیں گے۔

 

 دس ہزار توڑو ں کے قرضدار کی تمثیل :

       یہ اسی متن میں تھا کہ ایک دوسرے کو لا محدود معافی دیتے ہوئے خدا نے دس ہزار توڑوں کے قرضدار کی تمثیل بیان کی ۔یہ تمثیل پطرس اور خدا کی گفتگو کے فوراََ بعد آتی ہے اور یہ متی 18باب کی 23تا35آیت میں بیان کی گئی ہے :

 

متی18باب23تا35آیت:
”پس (یہ لفظ اس تمثیل کو براہِ راست اس کے ساتھ جوڑتا ہے جو خداوند نے معافی کے بارے میں ابھی کہا ہے)آسمان کی بادشاہی اس بادشاہ کی مانند ہے جس نے اپنے نوکروں سے حساب لینا چاہا۔ اور جب حساب لینے لگا تو اس کے سامنے ایک قرضدار حاضر کیا گیا جس پر اس کے دس ہزار توڑے آتے تھے۔ مگر چونکہ اس کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ تھا اس لئے اس کے مالک نے حکم دیا کہ یہ اور اس کی بیوی بچے اور جو کچھ اس کا ہے سب بیچا جائے اور قرض وصول کر لیا جائے۔پس نوکر نے گر کر اسے سجدہ کیا اور کہا کہ اے خداوند مجھے مہلت دے۔میں تیرا سارا قرض ادا کروں گا۔اس نوکر کے مالک نے ترس کھا کر اسے چھوڑ دیا اور اس کا قرض اسے بخش دیا۔جب وہ نوکر باہر نکلا تو اس کے ہمخدمتوں میں ایک اسے ملا جس پر اس کے سو دینارآتے تھے۔ اس نے اسے پکڑ کر اس کا گلا گھونٹا اور کہا کہ جو میرا آتا ہے ادا کر دے۔ پس اس کے ہمخدمت نے گر کر اس کے آگے منت کی اور کہا کہ مجھے مہلت دے ۔ میں تجھے ادا کر دوں گا۔اس نے نہ مانا بلکہ جا کر اسے قید خانہ میں ڈال دیا کہ جب تک قرض ادا نہ کر دے قید رہے۔ پس اس کے ہمخدمت یہ حال دیکھ کر بہت غمگین ہوئے اور آکر سب کچھ جو ہوا تھا سنا دیا۔اس پر اس کے مالک نے اسے پاس بلا کر اس سے کہا اے شریر نوکر! میں نے تجھے وہ سارا قرض اس لئے بخش دیا کہ تو نے میری منت کی تھی۔ کیا لازم نہ تھا کہ جیسا میں نے تجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہم خدمت پر رحم کرتا؟اور اس کے مالک نے خفا ہو کر اسے جلادوں کے حوالہ کیا کہ جب تک سارا قرض ادا نہ کر دے قید رہے۔ میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کرے گا اگر تم میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کرے۔“

 

       لفظ”پس“ جو اس تمثیل کا اغاز کرتا ہے اس بات کو اس سب سے جوڑتا ہے جو خدا نے 15تا22آیت میں معافی کے بارے میں ہے۔ خدا یہی تمثیل میرے ذہن میں بھی لایا اورمجھے یہ وضاحت عطا کی: بادشاہ، خدا ہے، اور دس ہزار توڑوں کا قرضدار میں ہوں، 100دینار کا مقروض ہمخدمت میرا وہ بھائی ہے جس نے میرا گناہ کیا، توڑے گناہ کا پیمانہ ہیں۔ خدا کے خلاف میرے لاکھوں گناہ ہیں۔دن بہ دن کثیرالاتعداد، اور بعض اوقات ایک ہی گناہ بار بار۔ میں خدا کے پاس معافی کیلئے جاتا ہوں اور وہ معاف کرتا ہے۔ یسوع مسیح کا خون مجھے میرے گناہوں سے دھوتا ہے۔خدا میرے سارے قصور دن بہ دن معاف کرتا ہے اور نئے گناہ بھی معاف کرتا ہے تا کہ میں ”قرض سے پاک“ زندگی بسر کروں۔لیکن اب، میرا یہ بھائی، میرا گناہ کرتا ہے۔ مگر یہ سوچنے کی بجائے کہ ،”میں خدا کا قرضدار ہوں، وہ ہر روز میرے قرض مجھے معاف کرتا ہے میں بھی اسی طرح اپنے بھائی سے کروں گا“،میں کہتا ہوں، ”نہیں۔ میں اپنے قرض معاف نہیں کر سکتا۔ میں نے بہت برداشت کر لیا۔ میں معاف نہیں کروں گا اس بھائی کو قید خانہ میں ڈال دو۔ اسے باہر پھینک دو۔ میں اب سے اسے نہیں جانتا(یا مزید یہ کہا جائے”میں اس سے دور رہنا چاہوں گا“) جب ہم اس طرح کا رویہ رکھتے ہیں، تو ہم یہ بھول گئے ہیں کہ خدا نے ہمیں معاف کیا ہے! اور نہ صرف یہ بلکہ اپنے بھائی کی ”عدالت“ کرنے سے ہم خدا کو اپنی زندگی میں عدالت لانے کی دعوت دیتے ہیں۔ پس خدا کہتا ہے:

 

متی18باب32تا35آیت:
”اس پر اس کے مالک نے اسے پاس بلا کر اس سے کہا اے شریر نوکر! میں نے تجھے وہ سارا قرض اس لئے بخش دیا کہ تو نے میری منت کی تھی۔ کیا لازم نہ تھا کہ جیسا میں نے تجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہم خدمت پر رحم کرتا؟اور اس کے مالک نے خفا ہو کر اسے جلادوں کے حوالہ کیا کہ جب تک سارا قرض ادا نہ کر دے قید رہے۔
میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کرے گا اگر تم میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کرے۔“

 

       جب آپ اپنے بھائی کو معاف کرنے کی بجائے اسے سزا دیتے ہیں تو آپ خدا کو اپنی زندگی اور اپنے گناہوں کیلئے سزا دینے اور عدالت کرنے کی دعات دیتے ہیں یسوع اس حوالے سے بہت واضح ہے:”اسی طرح میرا آسمانی باپ بھی تم سے کرے گا۔“ یسوع جو کہہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ “خبردار رہو! اگر تم اپنے بھائی کی عدالت کرو گے، توخدا سے بھی توقع رکھو کہ وہ تمہارے گناہوں کیلئے تم پر عدالت کرے گا۔ ”قرض“ کی معافی کی بجائے، سزاءکی امید کرو۔”قرض سے پاک “ زندگی کی بجائے آپ کو ”قید میں ڈالا “جائے گا۔ شاید تمہیں یہ اطھا نہ لگے ، مگر ایسا ہی ہے۔“

 

معافی: دیگر حوالہ جات:

       یہاں کچھ اور حوالہ جات ہیں جو خاص طور پر ایسے لوگوں کیلئے ہیں جنہوں نے خدا سے معافی حاصل کر لی اور اب دوسروں کو معاف کرنا دشوار سمجھتے ہیں:

 

متی6باب12تا15آیت:
اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا، کیونکہ بادشاہی قدرت اور جلال ہمشہ تیرے ہی ہیں۔ آمین۔ اسلئے کہ اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا۔ اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تمہار قصور معاف نہ کرے گا۔“

 

مرقس 11باب25اور26آیت:
”اور جب کبھی تم کھڑے ہوئے دعا کرتے ہو اگر تمہیں کسی سے شکایت ہو تو اسے معاف کرو
تا کہ تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہارے گناہ معاف کرے۔اور اگر تم گناہ معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے تمہارے گناہ بھی معاف نہ کرے گا۔“

 

لوقا6باب36اور38آیت:
”جیسا تمہارا باپ رحیم ہے تم بھی رحمدل ہو۔ عیب جوئی نہ کرو۔ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے گی۔
مجرم نہ ٹھہراﺅ تم بھی مجرم نہ ٹھہرائے جاﺅ گے۔ خلاصی دو تم بھی خلاصی پاﺅ گے۔ دیا کرو تمہیں بھی دیا جائے گا۔اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کر کے تمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانے سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا۔“

 

       اگر خدا آپ کو معاف کرنا چھوڑ دیتا تو کیا ہوتا؟ بہت افسوس کی بات ہے۔ اگر خدا آپ کو سزاءدینا شروع کرتا تو؟ بھیانک! یہی ہو گا اگر ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے۔ اگر ہم معاف نہیں کرتے تو ہمیں بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہم سزاءدیتے ہیں تو ہم خدا سے سزاءبھی پائیں گے۔ ایسا کون چاہتا ہے؟ میں تو بالکل نہیں۔

 

افسیوں4باب32آیت:
”اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور
جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کر۔“

 

کلسیوں3باب13باب بھی:
”اگر کسی دوسرے کو شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔
جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔“

 

       اگرآپ معافی کا پیمانہ دیکھنا چاہتے ہیں تو یہاں ہے کہ:بالکل جیسے خدا نے مسیح میں تمہیں معاف کیا تھا۔“ جیسا مسیح نے تمہیں معاف کیا، تم بھی ویسا ہی کرو۔“

 

نتیجہ:

       معافی کوئی انتخاب نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے۔ گناہ حقیقت ہے اور جیسے دوسرے ہمارا گناہ کرتے ہیں ہم بھی دوسروں کا اور خدا کا گناہ کرتے ہیں۔جب کبھی آپ کو دوسروں کو معاف کرنا دشوار لگے، جب کبھی آپ کو ایسے رویوں اور گناہوں کا سامنا کرنا پڑے جو دوہرائے جاتے ہیں، خدا کی معافی کے بارے میں سوچیں۔ سوچیں کہ خدا نے کتنی بار آپ کو معاف کیا اور مزید آپ کو معاف کرتا رہے گا۔ ہم سب دس ہزار توڑوں کے قرض دار ہیں اور ہمارے صرف چند سکے باقی ہیں جو ہمارے ہیں۔ انہیں جانے دو۔

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :