بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

 

کیا استعفیٰ حل ہے؟

 

        ہم خاص طور پر 1سیموئیل کے 30ویں باب پر غور رکریں گے۔تعارف کے طور پر، داﺅد اور اس کے لوگ، ساﺅل کی ایذا سے بچنے کےلئے، فلسطین کے بادشاہ اکیس کے پاس گئے جس نے انہیں قبول کیا اور انہیں صقلاج کا شہر دے دیا۔29ویں باب میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فلسطین یزرعیل میں اپنی تمام فوجیں اسرائیل کے خلاف اکٹھی کر رہا ہے۔یہ وہی لڑائی ہے جس میں ساﺅل اور یوناتن کی زندگی گئی۔داﺅد اور اس کے لوگوں کے لئے کوئی بھی جگہ نہ چھوڑنے کےلئے ۔ فلسطینوں نے انہیں ان کی فوج کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا اور انہیں صقلاج واپس بھیج دیا۔ 1سیموئیل30باب1تا6آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ا نہوں نے وہاں کیا دیکھا:

 

1سیموئیل30باب1تا6آیت:
”اور ایسا ہو کہ جب داﺅد اور اس کے لوگ تیسرے دن صقلاج میں پہنچے تو دیکھا کہ عمالیقیوں نے جنوبی حصہ اور صقلاج پر چڑھائی کر کے صقلاج کو مارا اور آگ سے پھونک دیا۔ اور عورتوں کو اور جتنے چھوٹے بڑے وہاں تھے سب کو اسیر کر لیا۔ انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ ان کو لے کر چل دئیے۔سو جب داﺅد اور اس کے لوگ شہر پہنچے تو دیکھا کہ شہر آگ سے جلا پڑا ہے اور ان کی بیویاں اور بیٹے اور بیٹیاں اسیر ہو گئیں ہیں۔
تب داﺅد اور اس کے ساتھ لوگ چلا چلا کر رونے لگے یہاں تک کہ ان میں رونے کی طاقت نہ رہی۔ اور داﺅد کی دونوں بیویاں یزرعیلی اخینوعم اور کرملی نابال کی بیوی ابیجیل اسیر ہو گئی تھیں۔اور داﺅد بڑے شکنجہ میں تھا کیونکہ لوگ اسے سنگسار کرنے کو کہتے تھے اس لئے کہ لوگوں کلے دل اپنے بیٹے بیٹیوں کے لئے نہائت غمگین تھے پر داﺅد نے خداوند اپنے خدا میں اپنے آپ کو مضبوط کیا۔

 

        کچھ ہفتے قبل میں ایک چرچ میں تھا اور خدا نے مجھے یہ حوالہ دکھایا۔یہ وہ وقت ہے جس میں میں سمجھتا ہوں کہ خڈا چاہتا ہے کہ ہمیں 1 سیموئیل30 باب کے حوالہ کو سن کر کھونے اور دوبارہ حاصل کرنے کے بارے میں جاننا چاہئے۔ہم میں سے اکثر لوگ خود کو اس صورتِ حال سے ملا سکتے ہیں جو 1سیموئیل میں بیان کی گئی ہے۔ہم صقلاج میں نہیں آباد اور نہ ہی ہم داﺅد اور ساﺅل کے زمانے میں رہتے ہیں۔ لیکن ہم میں داﺅد اور اس کے آدمیوں سے مشترکہ کچھ باتیں ہو سکتی ہیں:دشمنوں نے ہمارے علاقہ پر حملہ کیا ہو، اس وقت جب ہم باہر تھے یا، ”سو رہے تھے“ اور انہوں نے ہماری قیمتی چیزیں چوری کر لی ہوں۔چاہے یہ جو کچھ بھی تھا آخر میں یہ مایوسی کی حالت تھی، امید کا کھو جانا، جوش اور تصور کا کھو جانا۔عزیز بھائیو یقین مانئے: اگر شیطان آپ کی امید اور جذبہ نہیں چراتا ہے تو وہ شکستِ فاش ہوتا ہے۔اس کا حتمی مقصد آپ کی امید، آپ کا جذبہ، آپ کا دل چرانا ہے۔آپ کا دل اور آپ کا جذبہ شیطان کا نشانہ ہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ صرف پر امید دل ہی زندہ دل ہیں۔ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے خدا کو نہیں دیکھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے شیطان کو بھی دیکھا ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ توقع رکھتے تھے کہ ہمارا صقلاج(یا جو کچھ بھی ہے) کبھی بھی چرایا نہیں جائے گا۔ہ یہامید لگائے بیٹھے تھے کہ خدا کسی بھی طرح اسے تباہ نہیں ہونے دے گا۔مگر حالات بدل سکتے ہیں۔ایسے عوامل ہماری زندگی میں رونما ہو سکتے ہیں جن کی ہم نے کبھی توقع نہیں کی اور اچانک ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ بھی برائی ہو سکتی ہے۔ نیک لوگوں کے ”شہر“ ہماری جانوں کے دشمن کے ہاتھوں غرق ہو سکتے ہیں۔ان تیروں کا مقابلہ کرنے کےلئے، ہم میں سے بہتوں نے اپنے دلوں کو مردہ کر لیا ہے تاکہ ان کو درد محسوس نہ ہواور ہم اس پر چلتے جائیں جسے ہم ”ایمان کا رستہ“ کہتے ہیں۔ہوسکتا ہے یہ رستہ خدمت اور کاموں سے بھرپور ہو، تاہم بنا اس جذبے کے جو خدا ہمارے رشتے میں رکھنا چاہتا ہے۔ہم میں سے اکثر اس صورتحال سے متفق ہوتے ہیں اور ہم اس بات سے انکار کر دیتے ہیں کہ ایسی کچھ چیزیں ہیں جو ہم کھو چکے ہیں اور ہمیں انہیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔بہت سے لوگ بس زندگی گزارنا چاہتے ہیں، بنا امید اور خوابوں کے، اور اسے ”ایمان“ کا نام دیتے ہیں،بجائے کہ وہ خدا کے ساتھ اس رشتہ کو دوبارہ اپنائیں جو کبھی ان کا اس کے ساتھ تھا۔میں نے یہ جانا ہے کہ خدا ہمیں اس صورتحال میں تب تک چھوڑ سکتا ہے جب تک کہ ہم بدلنے کافیصلہ نہ کریں ۔اور مجھے آپ کو یہ یاد کروانا ہے کہ ہم نے کیا کھویا ہے، امید، جذبہ اور دل۔جب ہم نے یہ فیصلہ کر لیا، خدا بھی ہمارے بہت قریب آجاتا ہے۔آج کا پیغام یہ نہیں کہ چوری نہیں ہوگی۔ میں آپ کو وہ دس نکات نہیں دینا چاہ رہا جو اس بات کی یقین دہانی کریں گے کہ آپکو شیطان چھو بھی نہیں سکتا۔ میرے پاس وہ نہیں ہیں۔جب تک چور ہے، چوری ہوتی رہے گی۔لیکن ہم اس پر فتح پا سکتے ہیں۔پیغام یہ ہے کہ حملہ کرو اور جو کچھ دشمن نے چرایا ہے واپس لے لو:جذبہ، ایمان، امید خوشی اور دوسری چیزیں۔جتنی دیر تک ہم چاہیں اس کے لئے رو سکتے ہیں۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔اور یہ ہے بھی! تاہم، جیسا داﺅد اور اس کے لوگوں نے کیا، اسی طرح ہمیں بھی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے: یا تو ہم اپنے نقصان کےلئے روئیں گے یا ہم سمجھوتا کرنے سے انکار کر لیں گے، ہم خداوند میں خود کو حوصلہ دیں گے، اور ہم ہر چیز کو ٹھیک کرنے کےلئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔یہ واقعی بہت پچیدہ فیصلہ ہے، روحانی زندگی یا موت کا فیصلہ۔ یا تو ہم روحانی طور پر زخمی ہی زندگی گزاریں گے یا روحانی ہیرو کی طرح۔جو آج میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر آپ زخمی ہیں، تو آپ کا زخم ہاراور نقصان قبول کرنے اور خدا کے ساتھ جو رشتہ تھا آپ کو اس کو بھولنے سے، اس غلط نظریے کے ساتھ کہ ”اتنی دور دوبارہ جانا ممکن نہیں ہے“، ٹھیک نہیں ہوگا۔زخم صرف تبھی ٹھیک ہوں گے اگر آپ رونا بند کریں گے اور اس کی بجائے ہر چیز کو بہتر کرنے کےلئے کھڑے ہوں گے، کم از کم وہاں پہنچنے کےلئے جہاں آپ تھے! میرے بھائی خدا بدلا نہیں ہے۔وہ بالکل اسی طرح کا خدا ہے جسے آپ پہلی بار ملے تھے۔شاید ہم زخمی ہیں مگر استعفیٰ دینے سے ہم ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ”خداوند میں خود کو حوصلہ دیتے“ ہوئے ٹھیک ہوں گے اور سب چیزوں کو بہتر کرتے ہوئے ٹھیک ہوں گے۔ مذہبی کاموں سے نہیں جنہیں اکثر لوگ خدا کے ساتھ ان کے رشتے کے خلا کو پر کرنے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔کیا آپ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کا معیار جانا چاہتے ہیں؟اپنی سرگرمیوں پر غور مت کریں!وہ آپ کو غیر واضح نتائج بتائیں گے۔بلکہ خود کو کسی بھی کام کے بغیر تصور کریں۔ کیا آپ خدا کے ساتھ بغیر کسی کام کے رہ سکتے ہیں یا آپ کا ایمان ”سرگرمیوں پر منحصر“ ہے؟کیا خدا کے ساتھ آپ کا تعلق کم از کم ویسا ہی ہے جیسا کہ آغاز میں تھا؟دوبارہ سچائی کو چھپانے کےلئے اعمال اور منطق کو استعمال مت کریں۔آپ کو سچائی کی ضرورت ہے۔پولوس رسول ہمیں خود کو آزمانے کو کہتا ہے کہ آیا کہ ہم ایمان میں ہیں کہ نہیں۔آپ کو اپنے کسی بھی نقصان کےلئے جو ہوا ہے رونے کی ضرورت نہیں ہے۔ا کی بجائے جو آپ کو کرنے ضرورت ہے وہ یہ کہ کھڑے ہو اور خدوند میں خود کو حوصلہ دیں۔کھڑے ہوں تو آپ سب کچھ ٹھیک کر لیں گے۔یہی داﺅد نے کرنے کا فیصلہ کیا:

 

1سیموئیل30باب6تا8اور18آیت:
”اور داﺅد بڑے شکنجہ میں تھا کیونکہ لوگ اسے سنگسار کرنے کو کہتے تھے اس لئے کہ لوگوں کلے دل اپنے بیٹے بیٹیوں کے لئے نہائت غمگین تھے پر داﺅد نے خداوند اپنے خدا میں اپنے آپ کو مضبوط کیا۔اور داﺅد نے اخیملک کے بیٹے ابی یاتر کاہن سے کہا کہ ذرا افود کو یہاں میرے پاس لے آ۔سو ابی یاترافود کو داﺅد کے پاس لے آیا۔ اور داﺅد نے خداوند سے پوچھا کہ اگر میں اس فوج کا پیچھا کروں تو کیا میں ان کو جا لوں گا؟ اور اس نے اس سے کہا کہ پیچھا کر کیونکہ تو یقیناً ان کو جا لے گا اور ضرور سب کو چھڑا لے گا۔۔۔۔۔
اور داﺅد نے سب کچھ جو عمالیقی لے گئے تھے چھڑا لیا۔

 

        لوگ رو رہے تھے۔داﺅد نے بھی ایسا ہی کیا۔کسی نے بھی درد کےلئے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔درد تو درد ہے اور اس سے رونا ہی آتا ہے۔تاہم پہلے دھچکے کے بعد دو ردِ عمل ہوئے۔سب نے رونا جاری رکھا اور وہ داﺅ کے خلاف ہو گئے(اسی طرح، بہت سے لوگ اپنے درد سے غصہ ہو کر ملک، حکومت، وزرا ، خدا اور ہر اس شخص پر پتھر اٹھا تے ہیں جسے وہ ان کے نقصان کا ذمہ دار سمجھتے ہیں) مگر داﺅد نے خود کو خداوند میں حوصلہ د یا اور اسی سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ خداوند نے اسے یقین دلایا کہ اگر وہ عمالیقیں کا پیچھا کرے گا تو وہ انہیں جا لے گا اور سب چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔یہاں درج ذیل دیکھیں:

        اگر چہ یہاں چوری تھی، سب کچھ ٹھیک کرنے کی راہ بھی تھی۔خدا نے اس چوری کو روکا نہیں۔اس سے قبل کہ داﺅد رونا بند کرتا اور خدا کے پاس آتا خدا نے اسے یہ نہیں بتایا کہ کیا کرے۔

 

        ہم میں سے اکثر لوگوں نے اس سوال کے ساتھ بہت سے سال ، دن مہینے گزارے ہیں کہ،”خدا کیوں؟“بہت سے لوگ یہ کڑواہٹ محسوس کرتے ہیں کہ خدا نے ہمیں بچایا کیوں نہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتا تھا۔میں نہیں جانتا کہ اس نے آپ کو کیوں نہیں بچایا۔میری ذاتی زندگی میں میرا جواب یہ ہے کہ سب چیزیں ملکر خدا سے محبت رکھنے والوں کےلئے بھلائی پیدا کرتی ہیں(رومیوں 8باب28 آیت)۔سب چیزیں، جنہیں ہم برا سمجھتے ہیں اور جنہیں ہم اچھا سمجھتے ہیں۔آپ کی زندگی شیطان کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں میں ہے۔حتیٰ کہ اگر شیطان نے آپ کو زخمی بھی کیا تو بھی اس کو ٹھیک کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ میرے بھائی سوال یہ نہیں کہ خدا نے آپ کو کیوں نہیں بچایا۔بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آپ کھڑے ہوں گے، خداوند میں خود کو حوصلہ دیں گے، نقصان کے ساتھ سمجھوتا کرنا قبول نہیں کریں گے، خدا کے ساتھ آپ کے تعلق میں کوئی کمی برداشت نہیں کریں گے اس کی نسبت جو کم از کم آپ کے پاس ہے۔اگر آپ یہ کرتے ہیں، اگر آپ کھڑے ہوتے ہیں، تو میں سو فی صد جانتا ہوں کہ کیا ہوگا: آپ ٹھیک کر لیں گے۔ آپ سب کچھ ٹھیک کر لیں گے۔ یہی داﺅد اور اس کے لوگوں کے ساتھ ہوا۔خدا بدلا نہیں ہے۔ صقلاج پر حملہ ہونے سے پہلے، آپ کے ان اچھے دنوں کو یاد کریں جو آپ نے اس کے ساتھ رہتے ہوئے گزارے تھے۔وہ ویسا ہی ہے۔اب بھی آپ اس کے ساتھ ویسا ہی رشتہ رکھ سکتے ہیں۔یہ حتمی بہتری کی بات نہیں ہے۔بہتری فوری بھی ہو سکتی ہے۔اگر آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آپ سمجھوتا نہیں کریںگے اور یہ کہ آپ امید، ایمان او ر اس جذبہ سے کم کے ساتھ مزید نہیں رہیں گے جس کے ساتھ آپ رہتے تھے۔بالکل اسی وقت صورتحال بدل گئی۔داﺅد اور اس کے لوگوں نے اسی وقت صورتحال بدل دی جب یہ فیصلہ کیا کہ وہ صقلاج پر حملہ نہیں قبول کریں گے ، اس کے ساتھ دشمنوں کے ہاتھوں ان کے خوابوں، جذبوں اور امیدوں کی چوری برداشت نہیں کریں گے، بلکہ وہ صقلاج کو اسی طرح دیکھنا چاہتے تھے جیسا کہ وہ پہلے تھا،ایسا دل جس میں ایمان اور امید اور جذبہ تھا۔ اس وقت دشمن لڑائی ہار گیا تھا۔کیونکہ اس وقت انہوں نے رونا چھوڑ دیا اور مقابلہ شروع کر دیا۔ اور مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے سب چیزوں کو واپس پا لیا!

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :