بائبل کی سچائیاں


ہمارے جدید ترین کالم   |   
موضوع کے مطابق   |    تمام کالم   |    ہوم   

 

 

 

 



 

 

  PDF version (printer friendly)

 

 

کیا کیا جائے ”اگر تیرا بھائی تیرے خلاف گناہ کرے“(لوقا17باب3اور4آیت)

 

        یہ حوالہ ہم لوقا17باب3ور 4آیت میں دیکھتے ہیں۔   یہاں ہم پڑھتے ہیں :

 

”خبردار رہو! اگر تیرا بھائی گناہ کرے تو اسے ملامت کر۔   اگر توبہ کرے تو اسے معاف کر۔   اور اگر وہ ایک دن میںسات دفعہ تیرا گناہ کرے اور ساتوں دفعہ تیرے پاس پھر آکر کہے کہ توبہ کرتا ہوں تو اسے معاف کر۔ 

 

        یہاں اس حوالہ میں کچھ ”اگر“ ہیں۔  ایک کمپیوٹر انڈسٹری میں کام کرتے ہوئے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی پروگرام میں اگر سے کیا مراد ہے۔   اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کے بعد جو کچھ آتا ہے وہ تبھی لاگو ہو سکتا ہے جب”اگر کا بیان“ پورا ہو۔   درج بالا ہمارے خداوند کے قیمتی الفاظ میں سے پہلے جملے میں،  ہمارے لئے دو بیانات ہیں:

 

اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے

تو تو اسے ملامت کر

اگر (تیرے ملامت کرنے کر بعد)وہ توبہ کرے

تو تو اس کو معاف کر

 

        یہ خدانے ترتیب دیا ہے۔  بہت سے لوگ توبہ کے بغیر معافی پانا چاہتے ہیں۔   بہت سے دوسرے لوگ،  کبھی اس گناہ کےلئے کسی کو معاف نہیں کرتے جس کےلئے وہ اس کو ملامت نہ کر پائیں۔   اس طرح وہ اس درج بالا ترتیب کو توڑ دیتے ہیں جو خداوند نے مرتب کی ہے۔  بہت سے لوگ دوسروں کو ان باتوں کےلئے ملامت کرتے ہیں جو گناہ نہیں ہیں،  یعنی خود ہی ان کے خلاف گناہ کر تے ہیں۔  کچھا یسے منہ پھٹ لوگ ہوتے ہیں جو کسی چیز یا شخص کے بارے میں بہت تنقیدی ہوتے ہیں اور اگر آپ ان کے منہ میں آگئے ۔  ۔  ۔   تو آپ بیچارے۔  ۔  ۔  ! وہ دکھاتے ہیں کہ وہ دوسروں کو ملامت کر رہے ہیں مگر بغیر کسی گناہ کے۔  مجھے بہت سے لوگوں کی طرف سے ملامت ہوئی کیونکہ میں کالم لکھ رہا تھا۔  تو کیا مجھے توبہ کرنی چاہئے؟ جی نہیں۔  یہ خدا نے مجھے کرنے کو کہا ہے۔  بلکہ،  مجھے اس شخص کو ملامت کرنا چاہئے جس نے مجھے”ملامت کی“ یا ”تنقید کا نشانہ بنایا“،  بجائے کہ میں خاموش رہوں،  اور پھر دیکھوں کہ آیا کہ وہ معافی مانگتا ہے کہ نہیں۔  اگر میں ملامت نہیں کرتا ،  جو میں کلام سے جانتا ہوں،  یہ گناہ ہے پھر دوسروں کو توبہ کا موقع نہیں ملے گااور مجھے اسے معاف کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔   اسے اسی طرح چھوڑتے ہوئے،  یہ میرے لئے آئندہ مزید مسائل پیدا کرے گا،  کیونکہ اس شخص کے ساتھ میرا تعلق بغیر معافی،  تکلیف سے متاثر ہوگا۔  کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ انہیں دوسروں کو بنا ملامت کے اور بغیر ان کے معافی مانگے انہیں معاف کر دینا چاہئے۔  خداوند نے ایسا نہیں کہا۔   کسی شخص کو معاف کرنا بہت مشکل ہے جب تک آپ نے اسے اس کی غلطی نہیں بتائی اور اس نے توبہ نہ کی اور معافی نہ مانگی ہو بی نسبت اس ترتیب کی پیروی کرنے کے جو خداوند نے مرتب کی:  ملامت کرو،  دوسری طرف سے توبہ کرنا ہے،  پھر آپ معاف کرتے ہیں۔ 

 

        آپ پوچھیں گے کہ اگر میں کسی ایسے شخص سے ملاقات کرتا ہوں جس نے کچھ ایسا کیا ہو جو واضح طو ر پر میرے خلاف گناہ کیا ہے۔   اور دوسرا توبہ نہیں کرتا اور نہ ہی معافی مانگتا ہے ،  تو کیا ہوتا ہے؟یہ معاملہ بد قسمتی سے ہو سکتا ہے۔  کچھ لوگوں میں اتنا غرور ہوتا ہے کہ وہ کسی سے بھی ”معافی“ نہیںمانگ نہیں سکتے۔   میں نے ایسے معاملات دیکھے ہیں،  جہاں لوگوں کو واضح طور پر ملامت کیا جاتا ہے،  اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ غلط ہیں ،  پھر بھی وہ اپنے کئے کو نظر انداز کر دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں،  بنا ”اپنے کئے کی معافی مانگتے ہوئے“۔   Wachmen Neeنے کہیںکہا تھا”حلیم شخص وہ ہے جو اکثر اوقات ”معافی“ مانگتا ہے“۔   اس چھوٹی سے چھوٹی چیز کےلئے بھی معافی مانگو جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے غلط کی ہے۔  اسے حلیم ہونا کہتے ہیں۔  اس کا مطلب مسیحی بننا ہے۔  اس کے علاوہ باقی سب کچھ دوغلا پن ہے۔  اس سے مراد صرف الفاظ کہنا اور جب انہیں لاگو کرنے کا وقت آئے تو انکار کر دینا۔  معافی نہ مانگنا نہ صرف اس شخص کےلئے نقصان دہ ہوتا ہے جس کے خلاف گناہ کیا گیا ہے بلکہ اس کےلئے بھی نقصان دہ ہے جو گناہ کرتا ہے۔  مثال کے طور پر اگر کسی شخص کا بڑا تنقیدی منہ ہے جو دوسروں کو ملامت کرتا رہتا ہے اور اگر یہ ثابت نہ ہو تو یقینا وہ بہت سے لوگوں کو نقصان دے گا اور خود بھی عملی طور پر دوسروں کا منکر بن جائے گا۔  اس شخص کے سامنے کیسے واضح ہونا چاہئے جس کو ملامت کیا جائے اور اس نے اس کےلئے تو بہ نہ کی ہو؟فکر مت کرو وہ شخص آخر میں تنہا ہو جائے گا۔   مگر دوسرے بھائی بہن،  کلیسیاءکیا کرتے ہیں؟کیا انہوں نے اس شخص کو سمجھایا؟ کلام آپ کو یہ نہیں کہتا کہ ااپ اس شخص کو معاف کر دیں جس نے توبہ نہ کی ہو۔  کلام اور کلیسیا جو چاہتی ہے کہ آپ کریں وہ یہ ہے کہ آپ اس کی ملامت کریں ،  کیا آپ نے یہ کیا؟ کیا کلیسیا نے ایمانداروں کے بدن کے طور پر یہ کیا؟ اور یہاں دوبارہ،  ہم اس کے بارے میں بات نہیں کرتے جو آپ کے ذہن میں گناہ ہے،  بلکہ جو کلام گناہ کے بارے میں کہتا ہے۔ 

 

یہاں وہ بیان کیا گیا ہے جو خدا نے اور ہمارے ایمان کے بانی نے متی18باب15تا17آیت میں کہا:

 

متی18باب15تا17آیت:
”اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے تو خلوت میں بات چیت کر کے اسے سمجھا۔   اگر وہ تیری سنے تو تو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔   اگر وہ نہ سنے تو ایک دو آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جا تا کہ ہر ایک بات دو تین گواہوں کی زبان سے ثابت ہو جائے۔   اگر وہ ان کی سننے سے بھی انکار کرے تو کلیسیا سے کہہ اور اگر کلیسیا کی سننے سے بھی انکار کرے تو تو اسے غیر قوم والے اور محصول لینے والے کے برابر جان۔ 

 

        یہ ترتیب خدا کی ہے! یہ ہمارے ایمان کے بانی نے کہاتھا۔  یہی ہے جو ہمارے خدوند یسوع مسیح نے کہا اور یہی ہے جو کلیسیا کے سر نے ترتیب دیا ہے۔    ہم اسے مختلف انداز میں کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ہم اسیا کیوں سوچتے ہیں کہ اس بدی،  بدکاری اور گناہ کےلئے خاموش رہنا بہتر ہے جو ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے؟ہماری کلیسیاﺅں میں ہو رہا ہے؟ہم خدا کی آواز کو کب سنیں گے بجائےکہ ہم دنیا کی آواز کو سنیں جو کہتی ہے کہ” ہر کوئی وہ کام کر سکتا ہے جو وہ چاہتا ہے‘،  کیونکہ یہی ہمارا خداوند فرماتا ہے(”پروگرام“ زبان کی صورت میں،  کیونکہ یہ بہت خاص ہے):

 

اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے

تو تو اسے ملامت کر

اگر (تیرے ملامت کرنے کر بعد)وہ توبہ کرے

تو تو اس کو معاف کر

ورنہ

اپنے ساتھ دو یا تین گواہ لے جا

اگر وہ ان کی نہ سنے

تو کلیسیا کو بتا

اگر وہ کلیسیا کی بھی نہ سنے تو

اسے محصول لینے والے اور غیر قوم کے برابر جان

 

ہم جو آج جدیدکلیسیاﺅں میں کرتے ہیں وہ یہ ہے:

 

اگر تیرا بھائی گناہ کرتا ہے

اسے کچھ مت کہہ،  بلکہ اسے معاف کر!!

یا

اگر آپ اسے یہ بتانے میں دلیر ہیں!! ،  اور وہ آپ کی نہیں سنتا

تو کوئی مسئلہ نہیں۔  ۔  ۔  ۔  آپ نے اسے کسی بھی طرح سے معاف کرنا ہے!!

 

        مگر یہ سب کس نے کہا؟برائے کرم مجھے بائبل کا وہ صفحہ بتائیں جہاں خداوند نے یا اس کے شاگردوں نے ایسا کچھ کہا ہو؟ہو سکتا ہے یہ وہ ہو جو آپ نے سوچا یا آپ کے پادری نے یا آپ کے معاشرے نے ایسا سوچا ہو مگر خدا نے یقینا بائبل میں ایسا کچھ نہیں کہا۔  یہاں دیکھیں کہ پولوس کیا کہتا ہے:

 

1کرنتھیوں5باب1اور2آیت:
”یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ تم میں حرامکاری ہوتی ہے بلکہ ایسی حرامکاری جو غیر قوموں میں بھی نہیں ہوتی چنانچہ تم میں سے ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے۔   اور تم افسوس تو کرتے نہیں تا کہ جس نے یہ کام کیا وہ تم میں سے
نکالا جائے بلکہ شیخی مارتے ہو۔ 

 

        ”نکالا جائے؟ میں اپنے کام میں بہت اچھا ہوں مجھے کچھ کیوں کرنا چاہئے؟ میں اپنا آپ خرچہ اٹھا تا ہوں ۔   میں اتوار کو چرچ جاتا ہوں ،  میں دعا کرتا ہوں،  میں ٹھیک ہوں مجھے اس شخص کےلئے فکر مند کیوں ہونا چاہئے۔   یہ اس کا کام ہے۔  “ اور خدا آپ کو پولوس کے وسیلہ سے جواب دیتا ہے کہ: ” تم شیخی مارتے ہو! تم کو فارغ بیٹھنے کی بجائے افسوس کرنا چاہئے۔   اس غیر توبہ کئے شخص کو نکالا جانا چاہئے۔  “ اور پولوس یہ کہتے ہوئے جاری رکھتا ہے کہ:

 

1کرنتھیوں5باب9تا13آیت:
”میں نے اپنے خط میں تم کو یہ لکھا تھا کہ حرامکاروں سے صحبت نہ رکھنا۔   یہ تو نہیں کہ بالکل دنیا کے حرامکاروں یا لالچیوں یا ظالموں یا بت پرستوں سے ملنا ہی نہیں کیونکہ اس صورت میں تو تم کو دنیا ہی سے نکل جانا پڑتا۔   لیکن میں نے تم کو درحقیقت یہ لکھا تھا کہ اگر
کوئی بھائی کہلا کر حرامکار یا لالچی یا بت پرست یا گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو اس سے صحبت نہ رکھو بلکہ ایسے کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا۔  کیونکہ مجھے باہر والوںپر حکم کرنے سے کیا واسطہ ؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ تم تو اندر والوں پر حکم کرتے ہو مگر باہر والوں پر خدا حکم کرتا ہے؟ پس اس شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔ 

 

        یہاں ایک حکومت ہے جو کرتی ہے۔   میں ان لوگوں کی بات نہیں کرت جن کے بڑے کھلے منہ ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسروں کو ملامت کر رہے ہیں۔   اور جو کام اصل میں وہ کر رہے ہیں وہ صرف دوسروں پر تنقید ہے۔   انہیں اس کےلئے ملامت کیا جائے گا۔   یہاں ساری کلیسیا جانتی ہے کہ ایک بھائی کو لالچی،  حرامکار یا ظالم کہا جائے،  تو اس شخص نے توبہ نہیں کی۔   تب وہ خدا کے بیان کے آخری حصہ میں شامل ہوتا ہے:

 

اگر وہ کلسیاءکی بھی نہ سنے

تو اسے غیر قوم اور محصول لینے والے کے برابر جان۔ 

 

        یا جیسے پولوس کہتا ہے کہ” اسے باہر نکال دو۔  “ کوینکہ یہ کرنے سے آپ کے پاس اس سے توبہ کروانے کا آپ کے پاس ایک اور موقع ہے۔  مگر سے قبول کرتے ہوئے آپ اسے کہہ سکتے ہیں ”کوئی مسئلہ نہیں ہے۔   ہم تمہارا زیادہ خیال نہیں کرتے۔   تم جو چاہو کرو۔  “ خدا باہر والوں پر حکم کرتا ہے ہمیں اندر والوں پر حکم کرنا ہے” کیا آپ ان پر حکم نہیں کرتے جو اندر ہیں؟“

اور دوبارہ:

 

2تھسلینکیوں3باب14اور15آیت:
اور اگر کوئی ہمارے اس خط کی بات کو نہ مانے تو اسے نگاہ میں رکھواور اس سے صحبت نہ رکھو تا کہ وہ شرمندہ ہو۔   لیکن اسے دشمن نہ جانو بلکہ بھائی سمجھ کر نصیحت کرو۔ 

 

        ”اس شخص پر نگاہ رکھو اور اس سے صحبت نہ رکھو۔  “مقصد یہ نہیں کہ اسے رد کیا جائے بلکہ اس لئے تا کہ وہ شرمندہ ہو اور تو بہ کرے۔   اس کی بجائے ہماری جدید کلیسیاﺅں میں ہم اس شخص کو توبہ کرنے کو کہتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہیں۔   اس شخص کو نظر انداشز کیا جانا چاہئے تا کہ وہ شرمندہ ہواور توبہ کرے،  نظر انداز سے مراد رد کیا جانا نہیں۔   کلام یعقوب5باب19اور20آیت میں کہتا ہے:

 

یعقوب5باب19اور20آیت:
”اے میرے بھائیو! اگر تم میں کوئی راہِ حق سے گمراہ ہو جائے اور کوئی اس کو پھیر لائے۔   تو یہ جان لے کہ جو کوئی کسی گناہگار کو اس کی گمراہی سے پھیر لےائے گا۔   وہ ایک جان کو موت سے بچائے گا اور بہت سے گناہوں پر پردہ ڈالے گا۔ 

 

اور دوبارہ:

 

حزقی ایل18باب23آیت:
”خداوند فرماتا ہے کہ کیا شریر کی موت میں میری خوشی ہے اور اس میں نہیں کہ وہ اپنی روش سے باز آئے اور زندہ رہے؟“

 

        خدا اس شخص کو رد کرنے کا خواہش مند نہیں جو گناہ کرتا ہے بلکہ اس کی توبہ کا خواہش مند ہے۔  کیونکہ توبہ کے بغیر گناہ معاف نہیں ہو سکتا۔   اب،  توبہ کےلئے ملامت کی ضرورت ہے،  اور اگر وہ شخص کسی کی بھی نہ سنے توا سے باہر نکال دینا چاہئے،  اس پر نگاہ کی جائے اور اسے نظر انداز کیا جائے۔   پھر بھی اسے نصیحت دلائی جائے کہ وہ واپس آسکتا ہے۔   اگر کوئی شخص توبہ کرتا ہے تو اس کے لئے سارے دروازے ہمیشہ کےلئے کھلے رہنے چاہئے۔  خدا نہیں چاہتا کہ وہ اپنی موجودہ صورتِ حال میں برقرار رہے۔   وہ چاہتا ہے کہ وہ توبہ کرے۔ 

 

        ختم کرتے ہوئے آئیے ہمارے خداوند کے الفاظ پر متی18باب18آیت میں چلتے ہیں:

 

متی18باب18آیت:
”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ تم زمین پر باندھو گے وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کچھ تم زمین پر کھولو گے وہ آسمان پر کھلے گا۔ 

 

        درج بالا سے مراد ذمہ داری ہے۔   ملامت کرنا ہمارے بس میں ہے۔   تو بہ کرنا ہمارے بس میں ہے۔   معاف کرنا ہمارے بس میں ہے۔   کیا ہم کلام کی تعلیم کی پیروی کریں گے؟ یہ یقینا بہت واضح اور ظاہر ہے۔   اور مجھے یہ دوبارہ دوہرانے دیں:

 

اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے

تو تو اسے ملامت کر

اگر (تیرے ملامت کرنے کر بعد)وہ توبہ کرے

تو تو اس کو معاف کر

ورنہ

اپنے ساتھ دو یا تین گواہ لے جا

اگر وہ ان کی نہ سنے

تو کلیسیا کو بتا

اگر وہ کلیسیا کی بھی نہ سنے تو

اسے محصول لینے والے اور غیر قوم کے برابر جان

 

ہم جو آج جدیدکلیسیاﺅں میں کرتے ہیں وہ یہ ہے:

اگر تیرا بھائی گناہ کرتا ہے

اسے کچھ مت کہہ،  بلکہ اسے معاف کر!!

یا

اگر آپ اسے یہ بتانے میں دلیر ہیں!! ،  اور وہ آپ کی نہیں سنتا

تو کوئی مسئلہ نہیں۔  ۔  ۔  ۔  آپ نے اسے کسی بھی طرح سے معاف کرنا ہے!!

 

        یسوع غیر قوموں اور محصول لینے والوں کے پاس بھی گیا تھا۔   ایک بار جب کسی شخص نے توبہ کر لی گناہ معاف ہو جاتا ہے اور وہ شخص خدا کے ساتھ دیگر لوگوں کے ساتھ رشتہ بنانے کےلئے واپس آجاتا ہے۔   معافی مانگنے والے گناہگار کےلئے دروازت کبھی بند نہیں ہونے چاہئیں اور کسی ایسے شخص کےلئے کبھی وہ دروازے نہ کھلیں جسے اسی طرح آزمایا گیا جیسے خداوند نے کہا،  اور پھر بھی وہ توبہ نہ کرتا۔ 

 

تسسوس کولچوگلو

اردو  Fahim Qaiser, Napoleon Zaki :